
امریکی صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ان کی ترکی کے حوالے سے پالیسی کے بارے میں صدر ایردوان کو’’نہ‘‘ کی جانے والی ٹیلی فون کا ل کا سب سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔ ترک انتظامیہ نے دسمبر میں کال کی درخواست کی تھی، تاہم اس وقت امریکی انتظامیہ نے کال لینے سے انکار کر دیا تھا۔ترکی اور امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کال لینے سے انکار کرنا ایک شعوری اقدام تھا۔بائیڈن انتظامیہ نے ترجیحات کے عدم تعین اور مصروفیت کی وجہ سے کال نہیں لی تھی یا پھر ترک صدر کو دانستہ طور پر لاتعلقی دکھائی گئی تھی، یہ بحث جاری ہے اور امریکی انتظامیہ اس پر کوئی وضاحت دینا نہیں چاہتی تھی۔ مارچ کے آغاز میں وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری نے ایک سوال کے جواب میں کہا، اسے یقین ہے بائیڈن صدر ایردوان کوکسی وقت کال ضرور کریں گے۔
بالآخر ۲۳ اپریل کوامریکی صدر کی کال تو آگئی تاہم انھوں نے بات وہ کی جس کی ترکی کو بالکل بھی امید نہ تھی۔سرکاری ذرائع نے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں تو باہمی تعاون اور آپس کی غلط فہمیاں دور کرنے کے حوالے سے بات ہوئی، تاہم جو اصل با ت ہوئی وہ یہ تھی کہ بائیڈن نے ترکی کو پیشگی اطلاع دی کہ وہ مدتوں سے جاری امریکی پالیسی کے برعکس ۱۹۱۵ء کے آرمینیا قتل عام کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔۲۴؍اپریل کو امریکی صدرکا جو بیان سامنے آیا اس میں ترکی کا نام تو نہ تھا لیکن پہلی مرتبہ کسی امریکی صدر نے اس واقعے کے لیے قتلِ عام کا لفظ استعمال کیا۔ قتلِ عام کی مذمت کی گئی تھی لیکن اس کے کرنے والوں کا نام اب بھی نہ لیا گیا۔اس سے قبل امریکی صدور نیٹو کے اہم اتحادی کی ناراضی کے پیشِ نظر قتلِ عام کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی اور امریکا کے تعلقات میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔
جتنا حیرت انگیز اقدام بائیڈن کا ترک صدر کی کال نہ لینا تھا، اس سے زیادہ حیرت ترکی کے جواب پر ہوئی۔ترکی نے بہت حد تک کو شش کی کہ اس معاملے پر کوئی انتہائی بیان نہ دیا جائے۔ امریکا کے اس اقدام پر ترکی کی طرف سے مذمتی بیان ضرور سامنے آیا تاہم ترکی نے اپنی توجہ امریکی صدر سے طے شدہ ملاقات پر رکھی جو کہ جون میں ہونا تھی۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر آگے بڑھنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے‘‘۔ اسی کے ساتھ انھوں نے اس بات کی امید بھی ظاہر کی کہ ’’دونوں رہنمامل کر تعلقات کے نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں‘‘۔ ترک تجزیہ نگاروں نے ایردوان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ترک پالیسی ساز وں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں زیادہ جارحانہ بیان دے کر اپنے تزویراتی مفادات کو نقصان نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔
۱۴ جون کی بائیڈن ایردوان ملاقات کے بعد اگرچہ ترک صدر نے مثبت بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’امریکا اور ترکی کے مابین ایسا کوئی تنازع نہیں جو حل نہ کیا جا سکے‘‘، تاہم ان دونوں رہنمائوں کی ملاقات کے بعد جو پریس ریلیز سامنے آئی وہ اتنی امید افزا نہیں تھی۔کہا تو یہ جا رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا ’’بریک تھرو‘‘سامنے آئے گا تاہم ایردوان نے اس بات کو قبول کیا کہ دونوں طرف سے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی جس کی بڑی وجہ ترکی کی روسی میزائل دفاعی نظام کی خریداری ہے،جس پر امریکا نے پابندی لگا رکھی ہے۔ دونوں جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ تعلقات کو مزید بگاڑنے کے بجائے جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چلتے رہنا چاہیے۔ تاہم آنے والے وقت میں امریکا کی اس پالیسی کے ترکی کی داخلی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔
ایردوان کو ہمیشہ ہی سیاسی مشکلات کا سامنا رہا ہے، تاہم آج کل ان مشکلات میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ء میں طیب ایردوان نے اپنے داما د جو کہ وزیر خزانہ کے عہدے پر تھے ان سے استعفے لے لیا، اس کے بعد سے اب تک دو مرتبہ وزیر خزانہ کو تبدیل کیا جا چکا ہے۔اور اس کے براہ راست اثرات ترک معیشت پر نمایاں ہیں۔۲۰۲۰ء کے موسم گرما سے اب تک ترکی کرنسی لیرا تقریباً ۲۰ فیصد گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔اور مرکزی بینک کے مالیاتی ذخائر بھی ۲۰۰۳ء کے بعد کی کم ترین سطح پر آگئے ہیں۔ایک طرف تو حزب اختلاف معیشت کی سست روی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، دوسری طرف صدرایردوان کی توجہ قومی سلامتی کے اُمور کی طرف ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بھی ان کو کوئی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہیں ہو پا رہیں۔فروری میں کردستان ورکر پارٹی نے عراق میں جن ۲۰ شہریوں کو یرغمال بنارکھا تھا ان کو چھڑوانے کے لیے آپریشن کیا گیا، جو ناکام ہو گیا۔ تمام یرغمالیوں کو قتل کر دیا گیا۔جس کے بعد صدر ایردوان ایک مرتبہ پھر کرد نواز پارٹی ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کے خلاف بیانات دینے لگے اور حکومتی پراسیکیوٹر نے عدالت میں اس جماعت پر پابندی کے لیے درخواست دائر کر دی۔اس سارے عمل کے دوران ایردوان کی حمایت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔مئی میں ہونے والے سروے کے مطابق صدارتی دوڑ میں صدر ایردوان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی سطح پر بھی انقرہ کو اپنے خارجہ پالیسی کے ’’ایڈوینچرز‘‘ کی وجہ سے کافی تنقید اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دسمبر ۲۰۲۰ء میں امریکا نے روسی میزائل خریدنے پر ترکی کے دفاعی شعبے پر پابندیاں لگا دیں۔ عین اسی وقت یورپی یونین نے بھی متنازع علاقوں سے گیس نکالنے پر ترکی کو پابندیوں کی زَد میں لے لیا۔۲۰۲۰ء میں خطے میں ترکی کو مزید تنہا کر دیا گیا، جب علاقائی طاقتوں کے درمیان مختلف قسم کے معاہدے ہوئے جن میں اسرائیل،خلیجی ریاستیںاور مصر شامل تھیں۔اسی دوران ترکی کے روس،مصر اور دمشق کے ساتھ تعلقات بھی خوشگوار نہ رہے۔ ’’ادلب‘‘ میں فائر بندی اور ترک فوجی دستوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود شامی حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ادلب کا کنٹرول دوبارہ سے حاصل کرلے اور اس کوشش کے نتیجے میں تنازع کا ایک مستقل خدشہ موجود ہے۔
اس ساری صورت حال کے پیش نظر ترک صدر نے ایک دفاعی اور ترک امیج کو مثبت بنا کر پیش کرنے کی حکمت عملی اپنائی تاکہ واشنگٹن اور برسلز سے تعلقات کو بہتر بنا کر بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا جا سکے۔ان کے اقدامات کو دیکھ کر محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تبدیل کیے بغیر اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لیے سب ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے خواہاں ہیں۔ جنوری میں ترک وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ فرانس کے ساتھ مصالحت چاہتے ہیں، اسی طرح ترکی یورپی یونین کے ساتھ بھی مشرقی بحیرۂ روم کے موضوع پر کانفرنس کا اہتمام کرے گا اور امریکا کے ساتھ بھی S-400 میزائل کے معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ بھی معاملات کو واپس پٹری پر لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم ان سب اقدامات کے باوجود یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ ان ممالک سے بات چیت کا ایجنڈا کیا ہو گا۔
انقرہ کی جانب سے مثبت بیانات کے جواب میں واشنگٹن نے ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور حزب اختلاف کے ساتھ حکومتی رویے اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر بیانات دینا شروع کر دیے۔صدر ایردوان نے HDP پارٹی پر پابندی کے حوالے سے جو بیانات دیے اس پر امریکی انتظامیہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا،کیوں کہ اس پارٹی پر پابندی لگنے سے ترکی میں آمرانہ نظام کو تقویت ملے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس موجودہ انتظامیہ کا رویہ بالکل مختلف ہے۔دوسری طرف ایردوان امریکی انتظامیہ کے رویے کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس روش کو برقرار رکھتی ہے اور ترکی سے اپنے تعلقات کو رسک میں ڈالتی ہے یا پھر یہ رد عمل صرف بیان بازی کی حد تک ہے۔
امریکی حکومت میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو موجودہ انتظامیہ پر مزید سخت اقدامات کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ اپریل کے مہینے میں ڈیموکریٹس کے اراکین نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی حقوق کا بل لے کر آیا جائے، جس کے تحت ترکی میں ہونے اقدامات پر ترکی حکام پر پابندیاں لگائی جاسکیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ترک حکام کڑی پابندیوں کی زَد میں آئیں گے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات شدید متاثر ہوں گے۔ تاہم ابھی صدر ایردوان نے جس طرح کا مثبت رویہ اختیار کیا ہوا ہے، ایسے میں امریکا کی طرف سے جارحانہ قدم اٹھانا کافی مشکل ہو گا۔
خلاصہ: ترکی اور مغرب کے تعلقات مستقل اونچ نیچ کا شکار ہیں،دونوں فریقین اپنی اپنی پالیسیوں پر بھی کاربند رہنا چاہتے ہیں اور ان پالیسیوں کی بنیاد پر تعلقات کی خرابی کو انتہا تک نہیں لے جا نا چاہتے۔یورپی ممالک ترکی پر سخت ترین پابندیاں بھی لگانا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ترکی کی طرف مثبت اقدام کے منتظر بھی ہیں۔بائیڈن کے آنے کے بعد سے ترکی امریکا تعلقات مزید خرابی کا شکار تو نہیں ہوئے تاہم دونوں ممالک اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ تعلقات کو بہتری کی طرف لے جایا جائے۔تاہم دونوں ممالک اپنے اپنے موقف اور مطالبات سے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔اس ساری صورت حال میں جہاں صدر طیب ایردوان اپنی صدارت کی مدت کو طول دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،امریکا کو چاہیے کہ ان کی ان کوششوں کو نظر انداز کر کے عالمی ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور اس ہی سطح کے اہداف کے حصول کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“A cool, cautious calm: US-Turkey relations six months into the Biden administration”. (“brookings.edu”. July 2021)
Leave a Reply