
ریاستی اور بین الریاستی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین، تجزیہ کاروں، سیاست دانوں، قومی دفاع یقینی بنانے کے لیے پُرعزم فوجیوں اور دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر بننا اب تک کوئی ایسی بات نہیں جسے آسانی سے ہضم کرلیا جائے۔ وہ جس انداز سے کام کر رہے ہیں اُسے دیکھ کر امریکا میں قیادت کے حوالے سے پائے جانے والے بحران کا اچھا خاصا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہ سوچنا بھی محض خوش فہمی پر مبنی ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکی قیادت کا یہ بحران ختم ہوجائے گا۔ معاہدۂ ورسائی کے بعد سے امریکا کو قیادت کے معاملے میں اتنے سنگین بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اگر ہمیں امریکی قیادت کے بحران کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہے تو ۱۹۴۰ء کے عشرے تک جانا ہوگا، جب دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں یورپ تباہ ہوچکا تھا اور امریکا کو نئے عالمی نظام کی تیاری اور نفاذ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانا تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرحلے پر امریکا نے دنیا کو ایک نیا اور خاصا مربوط نظام اپنانے میں غیر معمولی حد تک معاونت کی۔ یورپ کو تعمیر نو کے مرحلے سے گزرنے میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایشیا اور افریقا میں نو آبادیاتی نظام کے چنگل سے نکلنے والے اقوام کو بھرپور ترقی سے ہم کنار کرنے میں بھی امریکی کردار کم اہم نہیں تھا۔ آزاد تجارت کو فروغ دینے میں بھی امریکا کا کردار کلیدی نوعیت کا تھا اور اُسی نے غیر معمولی عسکری قوت کی بدولت بین الاقوامی پانیوں میں تجارتی سامان کی محفوظ ترسیل یقینی بنائی۔
۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی تحلیل واقع ہوئی تو امریکی فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ نے اسے سنہرا موقع گردانتے ہوئے لبرل نظام سیاست و معیشت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ٹھانی اور اس حوالے سے اقدامات کی ابتداء بھی ہوئی۔ امریکا میں عوام البتہ اس حوالے سے زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ جیکسنین اسکول آف تھاٹ اس موقف کے حامل تھے کہ امریکی خارجہ پالیسی اور عالمی امور کے حوالے سے اس کی اپروچ دراصل ایک بڑی طاقت کے مقابلے کے لیے تھی۔ اور یہ کہ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی امریکا کو اپنی اپروچ بھی بدل لینا چاہیے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی بھی بدلتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جو تیاری کی جانی چاہیے وہ اس بار نہیں کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے آغاز کے موقع پر امریکا میں اس نکتے پر کھل کر بحث ہوئی کہ بدلتی ہوئی صورت حال میں کیا کچھ کیا جانا چاہیے مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ایسی کسی بحث کا وجود نہیں ملتا۔ عوام سے کچھ پوچھا گیا نہ اہل علم سے۔ سوویت یونین کی تحلیل ایک عظیم لمحہ تھا مگر اس عظیم لمحے کو صرف مفادات کے تناظر میں رکھ کر دیکھنا غلط تھا۔ امریکا واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا مگر اس نے عالمی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی جو واضح طور پر غلطی ہی تھی۔
سوویت یونین کی تحلیل کے موقع پر امریکی اشرافیہ نے انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ محسوس کیا کہ مغربی یورپ نے لبرل ڈیموکریسی کی شکل میں جو نظام مرتب کیا ہے وہ اب پوری دنیا پر آسانی سے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی اشرافیہ سمجھتی تھی کہ اب تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے یعنی سیاست و معیشت کے حوالے سے کسی نئے نظام کے ابھرنے کی تو کیا، اس حوالے سے سوچنے کی بھی گنجائش نہیں۔ وہ اس قدر پُراعتماد تھی کہ اس نے عوام سے رائے لینا بھی ضروری نہ سمجھا۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے معرکہ آرائی شروع کی۔ ایک طرف تو اس نے معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی توسیع کی غرض سے اس میں وسطی اور مشرقی یورپ کے ممالک کو بھی شامل کرنا شروع کیا اور دوسری طرف عالمی تجارتی تنظیم کے قیام کے ذریعے آزاد تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کی تاکہ معاشی اعتبار سے باقی دنیا کو بھی اپنی گرفت میں لیا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کو زیادہ سے زیادہ ممالک تک پہنچانے اور ان پر تھوپنے کی کوشش کی گئی۔
ایک بنیادی سوال نظر انداز کردیا گیا ہے … یہ کہ جو کچھ امریکی اشرافیہ چاہتی ہے وہ امریکی عوام کے مرضی کے مطابق ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی عوام خارجہ پالیسی اور عسکری مہم جوئی کے حوالے سے بیشتر معاملات میں اپنے حکمرانوں سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ مثلاً امریکی عوام دنیا بھر میں امریکی اثرات قائم کرنے کے عمل کو قبولیت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ دے۔ بیشتر امریکیوں کی خواہش ہے کہ ان کے حکمران دنیا بھر میں اپنی بات منوانے کے چکر میں قوم کو داؤ پر نہ لگائیں۔ بیشتر امریکی نہیں چاہتے کہ ان کا ملک دور افتادہ خطوں میں اپنی بات منوانے کی کوشش کرے اور اس حوالے سے طاقت کے بے محابا استعمال پر مجبور ہو۔ امریکی رائے دہندگان چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت ساری دنیا کا قبلہ درست کرنے کے بجائے اپنے ملک پر توجہ دے، تاکہ اندرونی خرابیوں کو دور کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ جو کچھ بھی وہ چاہتی ہے اس کے لیے عوام کسی طرح تیار نہیں۔ امریکیوں کی اکثریت جو کچھ سوچتی رہی ہے وہ امریکی اشرافیہ کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ربع صدی قبل لبرل ڈیموکریٹک سسٹم کو پوری دنیا میں پھیلانا قدرے آسان تھا۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بیشتر خطوں میں امریکا اور یورپ کے عزائم کے حوالے سے خدشات سامنے آچکے ہیں۔ بدلتے ہوئے زمینی حقائق بھی امریکا اور یورپ کے قائدین کو سوچ بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ چین اور روس کا عالمی معیشت میں بڑھتا ہوا کردار معاملات کو کچھ کا کچھ کر رہا ہے۔ مغرب اپنا نظام پوری دنیا پر تھوپنا چاہتا ہے۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ ایک طرف بیرون ملک امریکا کے لیے چیلنج بڑھتے جارہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سنگین شکل اختیار کر رہے ہیں اور دوسری طرف اندرون ملک عوام اور اشرافیہ کے درمیان سوچ کا فرق بھی بہت واضح ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں حکمراں طبقے کو بہت کچھ سمجھ کر چلنا ہوگا۔ یہ حقیقت بھی اب روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح دانا ہے نہ اُس میں حالات کے مطابق تیزی سے تبدیل ہونے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔
دنیا پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگئی ہے اور مزید خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ شمالی کوریا کسی اور کو نہیں، امریکا کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اب تک شدید عدم استحکام ہے۔ اسے جو آگ لگائی گئی تھی وہ اب تک بجھائی نہیں جاسکی۔ وینزویلا تیزی سے انتشار کے گڑھے میں گرتا جارہا ہے۔ مسلم انتہا پسند گروپ اپنی قوت میں اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ روس بہت سے معاملات میں ناکامی سے دوچار رہا ہے اور اب وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کا بھی سوچ رہا ہے۔ چین تیزی سے علاقائی بالا دستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یورپی یونین کو شکست و ریخت کے خطرے کا سامنا ہے۔ تجارت کو زیادہ سے زیادہ آزاد بنانے کی کوششیں تھمی ہوئی سی دکھائی دے رہی ہیں۔ ترکی جمہوریت کی راہ سے ہٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب تک اس نکتے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کہ امریکی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے۔
اگر امریکی خارجہ پالیسی کو کامیاب ہونا ہے تو لازم ہے وہ امریکی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ پالیسی میں تبدیلیاں کس طور لائی جائیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ عوام کی بہبود کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ جب تک امریکی عوام کی حالت بہتر نہیں ہوگی تب تک معاملات درست نہیں ہوں گے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر جو جنونی امریکی اور یورپی لبرل ڈیموکریسی کو پوری دنیا پر تھوپنے نکلے تھے انہیں لگام دی جائے اور ان کا محاسبہ بھی ہونا چاہیے۔ ان کے ہاتھوں پہلے ہی بہت خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ انہیں لگام نہ دینے سے خرابیاں صرف بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔
دنیا بھر میں بہت کچھ کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے بجائے ٹرمپ انتظامیہ کو اب امریکی شہریوں کی بہبود کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔ امریکیوں کی عمومی صحت، روزگار، بہتر بنیادی سہولتیں اور دیگر امور فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس میں امریکی عوام کو یہ بات سمجھائی جاسکے کہ کہاں کہاں کس حد تک امریکا کا مصروف رہنا لازم ہے۔ امریکی عوام کے ذہنوں میں خارجہ پالیسی اور عسکری مہم جوئی کے حوالے سے جو شکوک پائے جاتے ہیں اُنہیں دور کرنا لازم ہے۔
ربع صدی کے دوران امریکی اسٹیبلشمنٹ سے خارجہ پالیسی کے میدان میں جو حماقتیں سرزد ہوئی ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کا نتیجہ سمجھنا چاہیے، سبب نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی خامیوں اور خرابیوں کا رونا روکر امریکی اسٹیبلشمنٹ دراصل اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، معاملات درست نہیں ہوں گے۔ امریکا میں قیادت کے بحران کو سمجھنے کے لیے خامیوں اور خرابیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور یہی نہیں بلکہ انہیں دور کرنے پر بھی توجہ دینا پڑے گی۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک اندرونی خرابیاں بڑھتی رہیں گی۔ اور بیرونی خرابیاں تو خیر بڑھتی ہی جارہی ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“A debate on America’s role – 25 years late”. (“hudson.org”. May 22, 2017)
Leave a Reply