
مصر میں اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت پر فوج کے شب خون اور اس پر امریکا سمیت دنیا بھر کی استعماری طاقتوں کی داد و دہش نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے کہ ’’مسلمانو! جمہوریت سب کے لیے… تمہارے لیے نہیں!‘‘ اسی مفہوم کو ’’رائٹرز‘‘ کے معروف لکھاری ڈیوڈ ہوڈز نے اپنے انداز میں دہرایا ہے:
قدرے معقول بات یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا یا تو اب مصر پر محدود اختیارات ہی رکھتا ہے، یا پھر ’’عرب بہار‘‘ (عرب اسپرنگ) اپنے زوال کی جانب گامزن ہے،… کچھ بھی ہو،… یہ چیزیں ان بنیادی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتیں کہ… (جیسا کہ مثال کے طور پر) امریکا کی امداد سے چلنے والے ’’اتحادی‘‘ نے ایسا قتل عام کیا، جیسا کہ ۱۹۸۹ء میں تیان من اسکوائر پر ہوا تھا۔
اور یہ وہ وقت ہے جب اوباما کو مصر کے لیے امداد میں کٹوتی کردینا چاہیے۔ امریکی امداد و تعاون کا خاتمہ، نہ تو جنرل سیسی کی آمرانہ حکومت کو کوئی خاص متاثر کرسکتا ہے اور نہ ہی ملک کی سیاسی تقسیم یا امریکا کے خلاف جذبات میں کمی لاسکتا ہے… تاہم، یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دنیا کہہ سکے گی کہ امریکا بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں، ایک روز میں ۶۸۳؍ افراد کی ہلاکت اور مشرقِ وسطیٰ کے واقعات، اوباما حکومت اور وہائٹ ہاؤس کے لیے خطرے کا الارم ہیں۔ اوباما حکومت جو کچھ اقدامات کر رہی ہے وہ الٹے دہشت گردی کے خلاف اس (اوباما حکومت) کے (ڈرون حملوں اور عالمی نگرانی کے نظام جیسے) اقدامات کی ناکامی کے اسباب بنتے چلے جارہے ہیں۔ ایک اور سنگین حقیقت بھی ابھر کر سامنے آتی جارہی ہے اور وہ یہ کہ جارج بش نے ’’حملہ آور‘‘ ہونے کی جو حکمت عملی، (’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے سلسلے میں) تشکیل دی تھی، وہ اب ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔ لہٰذا، اب یہ تو اوباما کے غور کرنے کا سوال ہے کہ بہتر اور متوازن راستہ کیا ہوسکتا ہے؟
قاہرہ میں قتل عام اور پورے خطے میں جیلیں ٹوٹنے کے واقعات، امریکا کے لیے نفرت میں مزید اضافے اور عدم تحفظ کے احساس کے فروغ کا سبب بنتے جارہے ہیں، عین اسی کے ساتھ ساتھ القاعدہ جو اس کے ساتھ منسلک ہے، نئے جنگجوؤں کے حصول کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا کے میدان میں بھی فتح حاصل کرتی جارہی ہے۔ یہی نہیں، اسے مزید معاونت بھی حاصل ہو رہی ہے۔
ہفتہ رواں میں وہائٹ ہاؤس کی جانب سے مصر کے نوجوان جنگجوؤں کو جو پیغام بھیجا گیا ہے، وہ اپنی اصل اور نہاد میں بالکل واضح ہے۔ جہادی تم کو برسوں سے امریکا کی منافقت کے بارے میں جو کچھ باور کروا رہے ہیں، وہ سچ ہے۔ ڈیموکریٹس کی طرف سے جو کچھ ’’جمہوری اصلاحات‘‘ کے نام پر پیش کیا جارہا ہے، وہ ہر ایک کے لیے ہے، سوائے تمہارے… انتخابات میں شرکت تو ایسا معاملہ ہے جس پر بات ہو ہی نہیں سکتی۔ صرف فتنہ و فساد ہی واحد راستہ رہ گیا ہے جس سے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چاہے، وہ ایمن الظواہری کی طرح (صورت میں) پاکستان کے کوہساروں میں چھپا بیٹھا ہو اور اس صورتحال پر شاداں بھی…!
گزشتہ دنوں ایک امریکی معطی (ڈونر) کے ساتھ پانچ گھنٹوں تک گولف کھیلنے کے بعد اوباما نے اعلان کیا کہ امریکا نے مصر کے ساتھ فوجی مشقوں کا ارادہ ترک کر دیا ہے، تاہم اوباما انتظامیہ کی طرف سے مصر کے لیے سالانہ ۳ء۱؍ارب ڈالر کی امداد میں کٹوتی یا اسے روکنے کی بابت کوئی اعلان (تاحال) سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ اس امداد کا بیشتر حصہ مصری فوج کے لیے مختص ہوتا ہے۔
اوباما کے مطابق: امریکا، مصر کی عبوری حکومت اور سیکورٹی فورسز کی اپنے شہریوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ اوباما نے اپنے اس بیان میں مزید کہا ہے کہ یہ مصریوں کا حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں۔ ٹھیک ہے، یہ مان لیا جاتا ہے کہ مسٹر اوباما درست ہی کہتے ہوں گے مگر مسئلہ تو دراصل یہ ہے کہ اس بیان سے خود امریکا کے اس کردار کی تلافی تو نہیں ہوسکتی جو مصری فوج کا سب سے بڑا مغربی پشت پناہ بھی ہے اور اسی امریکا نے بالکل رسمی اور قطعی سطحی طور پر فوجی بغاوت کی مذمت تو کی ہے، لیکن ہزاروں مصری بے گناہوں کا خونِ ناحق آخر کس کی گردن پر ہے؟ (اس سوال کا جواب مسٹر اوباما کے بیان میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہوتا، جب کہ دنیا کو معلوم ہے کہ اس بغاوت اور خونریزی کے پیچھے کون کھڑا ہے؟)
اوباما انتظامیہ کے لیے لازم ہے کہ وہ بش انتظامیہ کے مخالف راہ اختیار کرنے سے گریز کرے، محض بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کی بابت ’’بیان دے دینا، عراق پر جارحیت کے مساوی نہیں ہوسکتا،… ’’موافقت‘‘ بنیادی امر ہے۔
مصری فوج اور مسلم برادر ہڈ (الاخوان) میں ایک مصنوعی اور جعلی مساوات، قائم کی ہی نہیں جاسکتی۔ معزول صدر محمد مرسی سے کوئی بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ برقرار اور ’’زندہ‘‘ ہے… کہ انہوں نے اپنی حکومت میں ایسی خوفناک خونریزی نہیں کی تھی اور نہ ہی ہونے دی تھی۔
وہائٹ ہاؤس اس کا کریڈٹ تو اپنے ڈپٹی سیکریٹری آف دی اسٹیٹ بل برنس (اس وقت مقیم قاہرہ) کو دیتا ہے، جنہوں نے اس احتجاج پر حکومت اور عوام میں سمجھوتا کروانے کی کوشش کی تھی۔ سینیٹر میک کین اور لنڈسے گراہم کو بھی حال ہی میں مصر بھیجا گیا تھا۔ جنہوں نے یورپی اور عرب سفارتکاروں کے ساتھ مل کر معاملات حل کرنے کے لیے کوششیں کی تھیں، جبکہ امریکی سفارت کاروں نے مصری مطلق العنان حکمراں (سیسی) کو عوام کے خلاف اقدامات پر انتباہ بھی کیا تھا… سیکرٹری دفاع چک ہیگل اور سیکرٹری آف دی اسٹیٹ جان کیری نے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے تھے۔
فوج کا کریک ڈاؤن ابھی کسی نہ کسی طور جاری ہے… ایک رپورٹ کے مطابق، مسلم برادر ہڈ تنظیم (الاخوان) نے درپیش بحران کے خاتمے کے لیے ایک بین الاقوامی منصوبہ قبول بھی کرلیا تھا، مگر فوجی حکومت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ قاہرہ میں مقیم ایک امریکی صحافی کے بیان کے مطابق مصری جرنیلوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ یہ تو ایک ’’تباہی کا انتخاب‘‘ تھا۔ اور یہ ان جملہ امور میں سے ایک امر تھا، جو پولیس اسٹیٹ بننے کی راہ پر گامزن مصر کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے اسباب میں سے ایک ہے… اب یہ ایک دوسری ہی بات ہے کہ ایسے مصر کو ۳ء۱؍ارب ڈالر کی امداد بھی دی جارہی ہے۔
اوباما انتظامیہ عالمی منظر نامے پر مصر میں رونما ہونے والی اس بھیانک خونریزی کی ’’ذمہ دار‘‘ کی حیثیت سے دیکھی جارہی ہے، یہ معاملہ بھی نہیں کہ مصری جرنیلوں کا غصہ کس طرح ٹھنڈا کیا جائے۔ معاملہ تو دراصل یہ ہے کہ دنیا کے ۳ء۱؍ارب مسلمان، اس منظرنامے میں امریکا کا کردار، کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں؟
اگر اسلامی گروپس، بشمول مسلم برادر ہڈ (الاخوان) ایسی سیاسی اصلاحات پر رضامند ہو جاتے ہیں، جن کے تحت انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت مل جاتی ہے تو انہیں تشدد کے ذریعے دبانے کی پالیسی کارگر نہیں ہوگی۔
اس تناظر میں اوباما کی خونریزی کی یہ پالیسی، جہادیوں کے لیے برسوں تک مزید جہادی بھرتی کرنے کے لیے ایک ’’مشینری‘‘ کا کردار ادا کرتی رہے گی، جب کہ سخت گیر جہادیوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ واشنگٹن امریکیوں، یورپیوں اور اسرائیلیوں کے لیے تو ایک ’’پناہ گاہ‘‘ بنا ہوا ہے، لیکن عربوں اور دنیا بھر کے دوسرے مسلمانوں کو اس (واشنگٹن… اوباما انتظامیہ) نے بالکل ہی نظرانداز کر رکھا ہے۔
اوباما انتظامیہ کے بعض حکام کا تو یہ خیال ہے کہ مصر کو دی جانے والی سالانہ ۳ء۱؍ارب ڈالر کی امدادی رقم روک لینے سے مصری معیشت مزید عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم، سعودی عرب اور خلیجی ممالک سالانہ ۱۲؍ارب ڈالر کی امداد مصر کو فراہم کر ہی رہے ہیں۔ جب کہ اوباما انتظامیہ کے ایک حلقے کا تو کہنا ہے کہ اسرائیل کی امداد جاری رہے گی۔ یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مصر… جو اب ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بننے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے … وہ پھر ’’مستحکم‘‘ بھی رہ سکے گا یا نہیں؟… اس بابت، ایک حلقے کی رائے یہ ہے کہ مصر کو امداد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، اس سے ہم (امریکا) کو مصری فوج میں اثر و نفوذ کا موقع ملتا رہے گا… یہاں فی الحال صرف یہ سوال ہے کہ اب تک مصری فوج میں امریکا کا اثر و نفوذ ہوا بھی ہے تو کہاں تک…؟
دریں اثناء… خطے کے دوسرے علاقوں (ممالک) میں اوباما انتظامیہ کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ ناکامی کی طرف جاتی نظر آرہی ہے… پاکستان، لیبیا اور عراق ہی کی مثالیں لے لیں جہاں جیلیں توڑ کر ہزاروں جہادی قیدی رہا کروا لیے گئے۔
ادھر دوسری طرف یمن بھی عدم استحکام کی طرف جارہا ہے… اس پورے خطے میں ۲۲؍امریکی سفارتی مراکز (سفارت خانوں) پر حملے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
اب یہ امر بالکل واضح ہو چکا ہے کہ عراق اور افغانستان نے امریکی فوج کو دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ ان کی سرزمین کی طرف رُخ کرنے والوں کو بُرے انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اوباما انتظامیہ تو کسی اور ہی دھن میں معلوم ہوتی ہے۔
حالیہ جاری کردہ پیغام میں اوباما انتظامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ خطے میں امریکی فوج کی موجودگی ’’قابل فہم‘‘ ہے۔ ہم اس خطے میں (ہر حالت میں) موجود رہیں گے اور ’’جمہوری اصولوں‘‘ کی ’’حمایت‘‘ جاری رکھیں گے اور یہاں سے واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
ڈرون حملے اور عالمی نگرانی کے اقدامات… مسلسل اور طویل مدت (امریکی زیر اثر؟) حکومتوں کے قیام اور اعتدال پسند گروپس، جو بنیادی بین الاقوامی اصلاحات قبول کرلیں، ان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ (لہٰذا اوباما انتظامیہ کو اپنے زیر اثر حکومتوں کی مدت اقتدار طویل تر کرنے اور اعتدال پسند گروپوں سے تعلقات بڑھانے اور بہتر کرنے پر توجہ دینا چاہیے؟) لہٰذا جیسا کہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے، جرنیلوں اور ریجنٹس (Regents) کے ذریعے، امریکی حکمرانی کی بحالی… اب ایک فینٹسی (Fantacy) بن چکی ہے… لہٰذا مستقل بنیادوں پر سفارتی تعلقات کا قیام، معاشی سطح پر سرمایہ کاری اور سیکورٹی فورسز کی تربیت ایسے عناصر ہیں جو نہ صرف متعلقہ (امریکی زیر اثر ممالک) کو مستحکم کریں گے بلکہ وہاں ہر قسم کے فتنے فساد کا خاتمہ بھی کر دیں گے… مگر یہ تو وسیع تر پیمانے پر ایسی بہترین تزویراتی حکمت عملی ہے، جو (امریکی حکومت کی) اس وقت جاری اور زیر عمل موجودہ حکمت عملی سے بالکل الگ ہے… تاریخ، نہ صرف مصری جرنیلوں کے مخالف رخ پر کھڑی ہے بلکہ… امریکا کی ۳ء۱؍ارب ڈالر کی امداد کی بھی…!
(ترجمہ بشکریہ: ماہنامہ ’’سنابل‘‘ کراچی۔ اکتوبر۲۰۱۳ء)
(“A feckless response to Egypt’s avoidable massacre”. “Reuters”. Aug. 15, 2013)
Leave a Reply