
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے مذہبی حوالے سے انتہائی مقدس شہر یروشلم یا القدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دے کر پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس اعلان کے فوراً بعد نئی دہلی کے دورہ پر آئی ایک اسرائیلی تاریخ دان ایستھر کارمل حکیم نے بتایا کہ خود ان کا ملک اس اعلان سے حیران و پریشان ہے۔ ان کا خدشہ تھا کہ ٹرمپ کا یہ اعلان مغربی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرے گا، مگر دوسری طرف وہ پُرامید تھی کہ امریکا کو اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے میں کئی سال لگیں گے، تب تک ٹرمپ کا عہدہ صدارت ختم ہو جائے گا اور شاید نئی انتظامیہ احمقانہ اعلانات کے بجائے من مساعی کی طرف توجہ مرکوز کرے گی۔ چند سال قبل راقم کو بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) جانے کا موقع ملا۔ وفد میں بھارت کے میڈیا اداروں ٹائمز آف انڈیا، دی ٹیلیگراف، ٹریبیون، اے این آئی وغیرہ سے وابستہ ایسے مدیران شامل تھے جنہیں سفارتی اور بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ دس دن کے اس سفر میں تل ابیب، حیفہ، سدرت، لبنان کی سرحد سے متصل ناحاریہ، فلسطینی علاقوں رملہ، بیت الحم، بحیرۂ مردار، دشت جودی کے علاوہ یروشلم کے دورہ کا بھی موقع ملا۔ میں تو مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے بے تاب تھا۔ مگر یروشلم میں ہمیں آخری تین دن گزارنے تھے۔ دورہ کے اگلے دن ہمیں تل ابیب سے غزہ سرحد سے متصل اسرائیلی قصبہ سدرت جانا تھا، جو ممبئی اور لاہور کی طرح ایک ثقافتی مرکز ہے اور اکثر غزہ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں کی زَد میں آتا ہے۔ خیر تل ابیب سے ہمیں چار ہیلی کاپٹروں میں سوار کیا گیا۔ میں پائلٹ کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ پائلٹ خاصا ہنس مکھ اور باتونی قسم کا شخص تھا۔ وہ راستے میں گائیڈ کا کام بھی کر رہا تھا۔ ایک خاص بات دیکھنے میں آئی کہ یہودی بستیوں میں تقریباً سبھی مکان صاف شفاف، چمکدار اور ہرے بھرے باغات اور درختوں سے گھرے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی چھتوں کو لال رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ دوسری طرف عرب بستیوں میں مکانات گو کہ بڑے، مگر بے کیف اور ان کے آس پاس زمین بھی بنجر نظر آرہی تھی۔ اس لال رنگ کا راز جاننے کی میں نے بعد میں بڑی کوشش کی، مگر کہیں سے تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ وجہ شاید یہی ہو گی کہ ہوائی حملوں کے وقت یہودی اور عرب علاقوں کا تعین کیا جاسکے۔ آدھے گھنٹے کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ اب ہم یروشلم شہر کے اوپر سے گزر رہے ہیں اور اسی کے ساتھ اس نے روایتی گائیڈوں کی طرح تاریخ کے اوراق سامعین کو دیکھ کر پلٹنے شروع کیے۔ جب میں نے اس کو ایک دو بار ٹوکا تب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ایک مسلمان صحافی براجمان ہے۔ ہیلی کاپٹر سے مسجد اقصیٰ، اس کا صحن اور گنبد صخریٰ یا قبۃ الصخرہ کا سنہری گنبد واضح نظر آرہا تھا۔ میں اس نظارے میں محو ہو گیا۔ پائلٹ نے میری کیفیت دیکھ کر صحن کے اوپر کئی چکر کاٹے۔ خیر سفر کے اختتام سے چار روز قبل ہم حیفہ سے تل ابیب اور فلسطینی اتھارٹی کے دارالحکومت راملہ سے ہوتے ہوئے بذریعہ بس یروشلم آن پہنچے۔ خوش قسمتی سے یہ جمعہ تھا۔ میں نے میزبانوں کو پہلے ہی تاکید کی تھی کہ میں کسی اور پروگرام میں شرکت نہیں کروں گا اور جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کروں گا۔ پروگرام کے مطابق وفد کے باقی اراکین تو ہولوکاسٹ میوزیم دیکھنے چلے گئے مجھے ایک فلسطینی گائیڈ کے حوالے کیا گیا، جس نے پرانے فصیل بند شہر کے باب دمشق تک میری راہنمائی کی۔ مسجد فصیل سے ابھی بھی تقریباً آدھا کلومیٹر دور تھی۔ پیچ در پیچ گلیوں اور سوق یعنی چھت والے روایتی عربی بازار سے گزرتے ہوئے آخر مسجد کا گیٹ نظر آیا۔ مسجد اقصیٰ کا حرم ایک وسیع احاطہ ہے جس کے مرکز میں قبۃ الصخرہ یا Dome Rock واقع ہے اور شمال میں چاندی کے گنبد والی مسجد ہے۔ جمعہ کو احاطے میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دیگر دنوں میں غیر مسلم سیاح احاطے میں تو داخل ہو سکتے ہیں مگر مسجد اور قبۃ الصخرہ کے اندر ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ احاطے کی مغربی دیوار یہودیوں کے لیے مخصوص ہے، اس کو دیوارِ گریہ کہتے ہیں۔
گوکہ یروشلم شہر اسرائیلیوں کے قبضہ میں ہے، مگر حرم کا انتظام و انصرام اُردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی بادشاہت کے پاس ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں شہر میں داخل ہوگئیں تو قبۃ الصخرہ پر اسرائیلی پرچم لہرایا گیا۔ مگر بیس منٹ بعد ہی اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے اس پرچم کو اُتارنے اور اس کا انتظام دوبارہ اردن کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے غصہ سے خائف تھے۔ گنبد پر اسرائیلی پرچم جوابی کارروائی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ خیر مجھے بتایا گیا تھا کہ مسجد میں داخلے کے لیے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا، ایک اہلکار نے مجھے روک کر پاسپورٹ طلب کیا۔ دوسرے اہلکار نے مجھے کوئی سورۃ سنانے کے لیے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کے لیے کہا۔ خیر تسلی و تشفی کرنے کے بعد مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی۔ مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔ گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اورشناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملائیشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہورہا تھا، اب شاید میری باری تھی۔ میں نے پوری عربی صَرف کرکے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جائے پیدائش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا مُوڈ بدل گیا۔ کرسی سے کھڑے ہوکر گلے لگا کر اس نے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیری ہونے کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقوں کے مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے، بعد میں بھی فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران اس کا قدم قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیاکہ نماز ادا کرنے کے بعد اس کے کیبن میں حاضر ہو جاؤں۔ میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل و دماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا، مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں ملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے روبرو کھڑا ہوں۔ نماز اور دعا کے بعد نعرۂ تکبیر کی صدائیں بھی بلند ہورہی تھیں۔ صحن میں کئی مجمع حلقہ زن ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے بیچ مقرر زور و شور سے تقریریں کر رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مختلف فلسطینی گروپ نماز کے بعد جمع ہو کر اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کااحساس لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھیں کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آبدیدہ ہوگیا۔ آخر میرا ہاتھ پکڑ کر مجمع کے بیچ سے گزار کر وہ مجھے امام و خطیب و مفتی اعظم محمد احمد حسین کے پاس لے گیا۔ وہ جنوبی ایشیا خاص طور پر کشمیر کے بارے میں استفسار کرتے رہے اور خاصی دعائیں دے کر رخصت کیا۔ بعد میں سیکورٹی افسر نے ایک انگریزی جاننے والے فلسطینی کے حوالے کیا، جو مجھے قبۃ الصخریٰ کے اندر لے گیا۔ یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آنحضورﷺ یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے اور یہیں سے انہوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا۔ جہاں پر زائرین دو رکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔ میرا گائیڈ بتا رہا تھا آنحضورﷺ کے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تاآنکہ اس کو ٹھہرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ پر گائیڈ واقعات کو دہراتے ہوئے وللہ ھو علم بالصواب بھی ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا۔ حضرت عمر جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈر باقی بچے تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہوچکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اب چاندی کے گنبد والی مسجد ہے ایک چبوترہ بچا تھا۔ جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلہ اول ہے۔ مسجد کے تہہ خانے کے اندر جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی عمارت پتھر کے بنے لاتعداد دیوہیکل ستونوں پرٹکی ہے۔ یہیں محرابِ مریم ہے جہاں حضرت مریم عبادت و ریاضت میں مصروف تھیں جب حضرت جبرائیلؑ ان کے روبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء تک کے مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے ۸۸ برس تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کے باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔ یروشلم جو مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے حکام نے کئی قوانین ترتیب دیے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت شہر سے باہر شادی کرتی ہے تو اس کی یروشلم کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کا قانون ہے جو جنسی برابری اور آزادی کے علمبردار ہیں۔ خود اسرائیل کی حدود میں مسلمانوں کا تناسب ۲۲ فیصد ہے۔ یروشلم میں ان کا تناسب ۳۶ فیصد ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو اب اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ میرے قیام کے دوران ایک اسرائیلی عرب خاندان اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ واپس آئے تو پرانے شہر میں واقع گھر کے دروازے کھلے ملے اور اندر ایک یہودی خاندان قیام پذیر تھا۔ ان کا پورا سازوسامان گلی میں پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں حکومت نے ان کا یہ آبائی گھر یہودی خاندان کو الاٹ کیا ہے۔ کئی روز سے یہ خاندان خواتین اور بچوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔
یروشلم آنے سے قبل ماؤنٹ کارمل اور بحیرۂ روم کے بیچ خوبصورت شہر حیفہ میں یہودی مذہب کے اعلیٰ پیشوا یعنی چیف ربی شلوموعمار سے ملاقات طے تھی۔ حیفہ پیغمبر حضرت الیاسؑ کا شہر ہے۔ یہودیوں میں دو چیف مربی ہوتے ہیں، جو تاحیات کے بجائے دس سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ شاید اس یہودی عالم کے پاس وفد کے کوائف پہلے ہی پہنچ گئے تھے چونکہ میں واحد مسلمان صحافی تھا اس لیے اس نے علیک سلیک کے بعد کہاکہ چند لوگ دنیا سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر ایسا ناممکن ہے کیونکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان روزانہ نماز میں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا جزو ہے۔ انہی کی دعاؤں کے طفیل آل ابراہیم (یعنی یہودی) قائم و دائم ہیں۔ چونکہ اس استعاراتی گفتگو کا محور میں ہی تھا اس لیے میں نے جواباً کہا یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ دونوں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں اور اگر مسلمان آل اسماعیلؑ ہیں تو یہودی آلِ اسحاقؑ ہیں، مگر یہودی صحیفوں کے اصولِ وراثت کی رو سے بڑے بھائی کو ہی وسائل کا حق دار تسلیم کیا جاتا ہے اور خاندان کی سربراہی بھی اسی کو منتقل ہو جاتی ہے، اس اصول سے تو فلسطین اور اسرائیل پر مسلمانوں کا حق تسلیم شدہ ہے۔ یہودی عالم نے مسکراتے ہوئے گفتگو کا رُخ موڑ دیا۔ چند روز بعد جب ہم ٹورسٹ بس میں اسرائیلی گائیڈ کے ہمراہ یروشلم سے براستہ دشت جودی، بحرمیت (Dead Sea) کی طرف رواں تھے تو چند مواقع پرمیں نے اس بھارت نژاد اسرائیلی خاتون گائیڈ کو تاریخی حوالے توڑنے مروڑنے پر ٹوکا تو اس نے مائیک میرے حوالے کرکے بقیہ سفر میں مجھے رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ میرے ٹوکنے سے ناراض ہو گئی ہے مگر جب اس نے کہاکہ وہ خود تاریخ کا دوسرا رخ سننے کے لیے بے تاب ہے تو میں نے مائیک لے کر دشت جودی سے گزرتے ہوئے آس پاس کھنڈرات کے وسیع و عریض علاقوں، حضرت لوطؑ، حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے واقعات بیان کرنا شروع کردیے۔ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ الفاظ کا یہ سمندر کہاں سے امڈ آیا ہے۔ منزل پرپہنچ کر جب میں نے مائیک واپس گائیڈ کے حوالے کیا تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس سرزمین میں پہلی بار وارد ہوا ہوں۔ دی ٹیلی گراف کے سفارتی ایڈیٹر کے پی نیر نے جب مجھ سے اس بارے میں استفسار کیا تو مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا کہ ارضِ فلسطین دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں پیوست ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ 12؍دسمبر 2017ء)
Leave a Reply