
علامہ اقبال سے ہمارے خاندانی مراسم کی ابتدا اصل میں میرے درویش سیرت نانا فقیر سید افتخار الدین کے وسیلے سے ہوئی۔ اقبال مرحوم اوائل عمر میں انھیں ملے لیکن اس وقت بھی شاعرِ مشرق کے حال میں ان کا مستقبل درخشاں تھا جس سے نانا مرحوم نہایت متاثر ہوئے۔ اسی توسط سے والد مرحوم سے بھی رسم و راہ شروع ہوئی۔
اور امور کی طرح میری تعلیم کے بارے میں بھی والد مرحوم اپنے حبیب عزیز ہی سے رجوع فرمایا کرتے۔ چنانچہ جب اسکول سے فارغ ہو کر میں نے انگلستان جانے کی رَٹ لگائی تو حسبِ معمول ڈاکٹر صاحب سے مشورہ طلب ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں تعلیم مکمل کرنے سے پہلے انگلستان کی خاک چھاننا بے سود ہے۔ ان کی رائے کا احترام اس قدر تھا کہ میرا شدید اصرار خاک بھی کام نہ آیا۔
ابتدائی ملاقاتوں کے بعد مجھے علامہ اقبال کی ذات سے اتنا لگائو ضرور ہو گیا تھا کہ والد جب بھی گھر پر آتے تو عام طور سے علامہ مرحوم کا تذکرہ رہتا۔ کبھی ہم پوچھتے۔ کبھی وہ خود ہی بیان کرتے۔ بیشتر واقعات جو میں نے اس زمانے میں والد مرحوم سے سنے ہیں۔ شاعرِ مشرق کی شخصیت کا ایک پہلو زیادہ اجاگر کرتے ہیں۔ یہ پہلو سوز و گداز اور جذب و وجدان کا پہلو ہے۔
ایک واقعہ مجھی اب تک یوں یاد ہے۔ جیسے اسی گھڑی سننے میں آیا ہو۔ ایک شام والد صاحب علامہ مرحوم کے ہاں سے لوٹے اور آتے ہی یہ عجیب حکایت بیان کی۔
’’ایک عجیب بات سنو۔ کل صبح میں اقبال کے ہاں گیا تو وہ گویا میرے منتظر بیٹھے تھے۔ دیکھتے ہی کھل گئے اور کہا اچھا ہوا فقیر تم آگئے۔ سنا ہے کہ داتا گنج بخشؒ کی درگاہ میں آج کل کوئی بہت روشن ضمیر بزرگ قیام رکھتے ہیں۔ ان سے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں سے یہ وعدہ ایزدی ہے کہ وہ اقوامِ عالم میں سرفراز اور سربلند ہوں گے تو آج کل یہ قوم اتنی ذلیل و خوار کیوں ہے۔ اچھا ہے تم بھی ساتھ چلو۔ اکیلے یہ زحمت کون کرے۔ میں نے ہامی بھر لی اور چلنے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ علامہ مرحوم ہاتھ پائوں ہلانے میں ہمیشہ بہت تامل کرتے تھے۔ دو قدم چلنا ہو تو اس کے لیے گھنٹوں پہلی تیاری کی ضرورت پڑتی تھی۔ چنانچہ داتا گنج بخشؒ کے سفر کا فیصلہ ہوتے ہی انھوں نے علی بخش کو آواز دی اور کہا دیکھو ہم باہر جارہے ہیں۔ ذرا جلدی سے فقیر کے لیے حقہ بھرو اور بھاگ کر کچھ سوڈا لیمن وغیرہ لے آئو۔ اس اہتمام میں حسبِ معمول جانے کتنا وقت نکل گیا جب صبح سے دوپہر ہو گئی تو میں نے کہا۔ بھئی اقبال تمہارا کہیں جانے وانے کا ارادہ تو نہیں ہے نہیں یونہی وقت ضائع کر رہے ہو۔ میں تو اب گھر چلا، اقبال اس پر کچھ چونک سے پڑے اور کہاں ہاں بھئی اب تو واقعی دھوپ تیز ہ ہو گئی ہے۔ تم جانا چاہتے ہو تو جائو لیکن یہ وعدہ کرو کہ شام کو ضرور آئو گے کچھ بھی ہو ہمیں اس بزرگ کے پاس ضرور جانا ہے۔ میں وعدہ کر کے چلا آیا۔ سہ پہر کو پھر پہنچا لیکن پھر اسی طرح حقہ اور سوڈا لیمن میں دن ڈھل گیا۔ میں نے اقبال سے اس تساہل کا شکوہ کیا تو اقبال بہت ہی انکساری سے کہنے لگے۔ بھئی اس دفعہ اور معاف کر دو۔ صبح ضرور چلیں گے۔
اگلی صبح میں عمداً دیر سے پہنچا۔ کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔ اقبال کو دیکھا تو ان کی عجیب کیفیت تھی۔ رنگ زرد چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ تفکر اور اضطراب کا یہ عالم کہ جیسے کوئی شدید سانحہ گزر گیا ہو۔ میں نے پوچھا خیر تو وہ کہنے لگے فقیر میرے قریب آکر بیٹھو تو کہوں۔ آج صبح میں یہیں بیٹھا تھا کہ علی بخش نے آ کے اطلاع دی کہ کوئی درویش صورت آدمی ملنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا بلالو۔ ایک درویش صورت اجنبی میرے سامنے خاموش آکر کھڑا ہوا۔ کچھ وقفے کے بعد میں نے کہا فرمائیے! آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اجنبی بولا ’’ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے، میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں‘‘۔ اور اس کے بعد مثنوی کا مشہور شعر پڑھا۔
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
توندانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند
کچھ پوچھو مت کہ مجھ پر کیا گزر گئی۔ چند لمحوں کے لیے مجھے قطعی اپنے گرد و پیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کے لیے دوبارہ نظر اٹھائی لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ علی بخش کو ہر طرف دوڑایا لیکن کہیں سراغ نہ ملا۔
والد مرحوم نے یہ واقعہ پہلے مجھے اور دوبارہ ایک دفعہ میرے پرانے دوست عاشق بٹالوی کو سنایا۔ جب عاشق بٹالوی نے کسی کا حوالہ دیے بغیر ڈاکٹر صاحب سے اس واقعے کی تصدیق چاہی تو انھوں نے فوراً کہا کہ ’’تمہیں یہ واقعہ فقر نجم الدین سے معلوم ہوا ہو گا کیونکہ یہ میں نے صرف انہی کو سنایا تھا‘‘۔
والد مرحوم نے ایک مرتبہ ڈاکٹرصاحب کے متعلق ایک اور واقعہ سنایا کہنے لگے ’’میں ایک دن ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا تو کیا دیکھتا ہوں۔ اکیلے بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں۔ میں نے کہا خیر باشد! گھر میں تو سب لوگ بخیر و عافیت ہیں؟ انھوں نے جواب دیا۔ ہاں سب بخیریت ہیں۔ میں نے پوچھا تو پھر آپ اس طرح کیوں رو رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دینے کے بجائے میری طرف ایک خط بڑھا دیا جو لندن سے اسی دن ان کے نام آیا تھا۔ یہ خط انگلستان کے ایک پروفیسر (کیمبرج یونیورسٹی کے معلم شرقیات پروفیسر نکلسن جنہوں نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے) کی طرف سے تھا جس نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ایک فارسی کتاب کا ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ میں نے تعجب سے کہا اس خط میں ایسی کون سی بات ہے کہ تم نے یوں رونا شروع کر دیا؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ دوسرے ملکوں کے اہلِ علم تمہارے کلام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور یورپ کے لوگوں کو بھی اس سے آشنا کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جو اس وقت تک برابر سر جھکائے بیٹھے تھے سر اٹھا کے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگے۔ مجھے اس بات پر رونا آگیا کہ جس قوم کے دل میں احساسِ خودی پیدا کرنے کے لیے میں نے یہ کتاب لکھی تھی وہ نہ تو پوری طرح اس کا مطلب سمجھ سکتی ہے اور نہ اس کی قدر کر سکتی ہے۔ دوسری طرف ولایت والوں کا یہ حال ہے کہ وہ میرے پیغام کو اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ کتاب میں نے ان کے لیے نہیں لکھی‘‘۔
ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ذرا شگفتہ تھی۔ یعنی باتیں کرنے کے ’’موڈ‘‘ میں تھے۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ شعر کیسے کہتے ہیں؟ فرمایا! ’’ایک مرتبہ فارمن کرسچن کالج لاہور کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے مجھے بھی اس میں دعوتِ شرکت دی۔ اجلاس کا پروگرام ختم ہونے کے بعد چائے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ہم لوگ چائے پینے بیٹھے تو ڈاکٹر لوکس میرے پاس آئے اور کہنے لگے، چائے پی کر چلے نہ جانا۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ہم لوگ چائے پی چکے تو ڈاکٹر لوکس آئے اور مجھے اپنے ساتھ ایک گوشے میں لے گئے اور کہنے لگے۔ اقبال: مجھے بتائو کہ تمہارے پیغمبر پر قرآنِ کریم کا مفہوم نازل ہوا تھا اور چونکہ انھیں صرف عربی زبان آتی تھی۔ انھوں نے قرآنِ کریم عربی میں منتقل کر دیا۔ یا یہ عبارت ہی اس طرح اتری تھی۔ میں نے کہا یہ عبارت ہی اتری تھی۔ ڈاکٹر لوکس نے حیران ہو کر کہا کہ اقبال تم جیسا پڑھا لکھا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ عبارت ہی اس طرح اتری ہے؟ میں نے کہا: ’’ڈاکٹر لوکس! یقین! میرا تجربہ ہے! مجھ پر پورا شعر اترتا ہے تو پیغمبر پر عبارت پوری کیوں نہیں اتری ہو گی‘‘۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو یہ سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال ڈالا ہے۔ مچھلیاں اس کثرت سے جال کی طرف کھنچی آرہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہو گیا ہے۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کسے پکڑوں اور کسے چھوڑ دوں؟
میں نے پوچھا ’’کیا آپ پر یہ کیفیت ہمیشہ طاری رہتی ہے۔
وہ کہنے لگے ’’نہیں! یہ کیفیت مجھ میں سال بھر میں زیادہ سے زیادہ دو بار طاری ہوتی ہے لیکن فیضان کا یہ عالم کئی کئی گھنٹے رہتا ہے اور میں بے تکلفی سے شعر کہتا جاتا ہوں پھر عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل عرصے کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پہلی کیفیت میں کہا گیا آخری شعر دوسری کیفیت کے پہلے شعر سے مربوط ہوتا ہے گویا اس کیفیت میں ایک قسم کا تسلسل بھی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ فیضان کے لمحے دراصل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں ایک قسم کی تھکان، عصبی اضمحلال اور پژمردگی سی محسوس کرتا ہوں۔
تھوڑی دیر توقف کے بعد کہنے لگے کہ ایک مرتبہ چھ سات سال تک مجھ پر کیفیت طاری نہ ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نعمت چھین لی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں مَیں نے نثر لکھنے کی طرف توجہ کی۔ یک بیک ایک روز پھر یہی کیفیت طاری ہو گئی۔ ان لمحوں میں میری طبیعت ایک عجیب لذت محسوس کر رہی تھی۔ بس ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اشعار کا ایک بحر مواج ہے کہ اُمڈ چلا آتا ہے۔ یہ کیفیت سرور و نشاط اتنی دیر تک قائم رہی کہ اس نے چھ سال کے جمود و تعطل کی تلافی کر دی۔
یہ کہہ کے دو لمحے بھر کے لیے رک گئے۔ ان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خیالات میں کھوئے ہوئے تھے پھر یکبارگی کہنے لگے: مشہور جرمن شاعر گوئٹے کے متعلق ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب اس نے جرمن زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھا تو اس نے اپنے بعض دوستوں سے کہا کہ میں یہ کتاب پڑھتا ہوں تو میری روح میرے جسم میں کانپنے لگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاعر کو بھی ایک قسم کا الہام ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ کوئی الہامی کتاب پڑھتا ہے تو اپنی روح کو اس کی معنویت سے ہم آہنگ پاتا ہے اور اس کی طبیعت ایک خاص اہتزاز محسوس کرتی ہے۔ یہ چیز دوسرے لوگوں کو نصیب نہیں ہو سکتی۔
ایک اور واقعہ یاد آگیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہزارہا عقیدت مند دنیا کے کن دور دراز گوشوں میں موجود تھے۔ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ پلنگ پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، مجھے دیکھ کر کتاب بند کر دی اور اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ پلنگ سے ذرا ہٹ کر ایک قالین پڑا تھا جس کی رنگت اور گُل بوٹے آنکھوں میں کھبے جارہے تھے۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ نیا قالین خریدا ہے؟ کہنے لگے، اس قالین کا قصہ بھی عجیب ہے۔ آج صبح ایک شخص جس کا میں نام تک نہیں جانتا، یہ قالین لے کے آیا اور کہنے لگا میں دو تین دن ہوئے فریضۂ حج ادا کر کے لاہور پہنچا ہوں۔ ایران کی سیر کا مدت سے شوق تھا۔ اس لیے واپسی پر ایران کا راستہ اختیار کیا۔ تہران میں جن صاحب کے ہاں میرا قیام تھا، انھیں جب معلوم ہوا کہ میں پنجاب سے آیا ہوں اور حج کر کے اپنے وطن واپس جارہا ہوں تو انھوں نے مجھ سے پوچھا تم نے کبھی حضرت اقبال کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں کئی مرتبہ۔ یہ سنتے ہی وہ اُٹھ کے میری طرف بڑھے۔ میری آنکھوں کو بوسہ دیا اور پھر دیر تک بڑے اشتیاق سے آپ کے حالات پوچھتے رہے۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو گھر میں سے یہ قالین نکال لائے اور کہنے لگے کہ لاہور پہنچ کر میری طرف سے یہ قالین ان کی خدمت میں پیش کر دینا۔ یہ قالین آپ کے ایک ایرانی عقیدت مند کا تحفہ ہے جو میں اس کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کرنے حاضر ہوا ہوں۔
میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے جو اسپین کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کا نام Spain from the South اور مصنف کا نام J.B. Trend ہے۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب کے دستخط ہیں اور ان کے نیچے ۲ جنوری ۱۹۳۵ء لکھا ہوا ہے۔ یہ کتاب مجھے ڈاکٹر صاحب نے مرحمت فرمائی تھی اور میں اسے بڑی عزیز متاع سمجھتا ہوں۔ اس کتاب پر نظر پڑتے ہی مجھے یاد آگیا کہ جب وہ تیسری گول میز کانفرنس سے واپس آئے تو میں والد مرحوم کی معیت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دنوں والد مرحوم کے فیضِ محبت سے مجھ میں اسلامی تاریخ کا خاصا ذوق پیدا ہو چلا تھا۔ اسپین کے متعلق کئی کتابیں جن میں اسکاٹ اور لین پول کی تصانیف شامل تھیں، میری نظر سے گزر چکی تھیں۔ میں نے یہی تذکرہ چھیڑ دیا اور اسپین کے اسلامی عہد کی تاریخ کا ایک حصہ جو مجھے حفظ ہو گیا تھا، فرفر سنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے۔ پھر اسپین کی موجودہ حالت کا ذکر چھڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے سفر میں اسپین بھی گئے تھے اور اسی زمانے میں انھوں نے مسجد قرطبہ پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو ان کی مشہور نظموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ وہ جب قرطبہ پہنچے اور وہاں کی مسجد دیکھنے گئے جو انقلابِ زمانہ کی بو قلمونی سے گرجا بن چکی تھی تو انھوں نے ایک پادری سے جو مسجد کی نگہبانی پر مامور تھا، وہاں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ پادری نے یہ سن کے تامل کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تعجب ہے، تم مسیحی ہم سے اس قسم کا سلوک روا رکھتے ہو حالانکہ ہم نے تم سے کبھی اس قسم کا سلوک نہیں کیا تھا۔ وہ پادری اس فقرہ سے کسی قدر متاثر ہوا اور کہنے لگا، آپ یہیں ٹھہریے۔ میں بڑے پادری سے پوچھ کے آتا ہوں لیکن جب تک وہ واپس آیا، ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ سنانے کے بعد کہا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسپین پر آٹھ سو برس حکمرانی کی لیکن اس سرزمین میں کسی مسلمان کا نشان مزار تک نظر نہیں آیا۔
اسی سفر میں وہ اٹلی بھی گئے اور وہاں انھیں مسولینی سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا۔ یہ ساری کیفیت میں نے خود ان کی زبانی سنی ہے۔ انھوں نے خود مسولینی سے ملنے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی بلکہ جن دنوں وہ روما میں مقیم تھے، مسولینی نے اپنے اسٹاف کے آدمی کے ذریعے انھیں کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوت قبول کر لی اور مسولینی سے ملنے تشریف لے گئے۔ وہ ایک بڑے وسیع کمرے میں میز کے قریب بیٹھا تھا۔ میز پر کاغذوں کا انبار تھا۔ ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو وہ پیشوائی کے لیے بڑھا۔ اس کا قد زیادہ اونچا نہیں تھا لیکن بازو بھرے ہوئے تھے، سینہ کشادہ اور آنکھیں شکرے کی آنکھوں کی طرح چمکیلی تھیں۔ رسمی مزاج پرسی کے بعد اس نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: میری فاشسٹ تحریک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ انھوں نے جواب دیا: آپ نے ڈسپلن کے اس اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام انسانی نظامِ حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے لیکن اگر آپ اسلام کے نظریۂ حیات کو پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہو گا لیکن یہ ایسی بات نہیں تھی کہ مسولینی کے ذہن میں آسانی سے آجاتی۔
ڈاکٹر صاحب نے مسولینی کو یہ مشورہ بھی دیا: “Turn your back towards Europe.” (یعنی یہ کہ یورپ جس معاشرے کی ترقی کا داعی ہے، تم اس کی تقلید سے اجتناب کرو)
مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا کہ میں دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں کس طرح حاصل کر سکتا ہوں؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا: مفت تعلیم اور رہائش کا انتظام کر کے زیادہ سے زیادہ مسلمان طلبا کو اٹلی بلائیے۔
مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے کوئی اچھوتا مشورہ بھی طلب کیا۔ انھوں نے کہا: ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اسے حد سے نہ بڑھنے دو، اس سے زیادہ بسنے والوں کو نئی بستیں مہیا کی جائیں۔ مسولینی نے حیران ہو کر کہا: اس میں کیا مصلحت ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے، اس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے اور ثقافتی توانائی Cultural Forces کی جگہ ’’محرکاتِ شر‘‘ (Evil Forces) لے لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے پیغمبرؐ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ مصلحت آمیز ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔
یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کرسی سے کھڑا ہو گیا! اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مار کر کہا: “What an Excellentidea” یعنی کتنا حسین تخیل ہے۔
(تحقیق کے طالب حضرات اس نکتہ پر غور و تجسس کر سکتے ہیں کہ ایٹمی توانائی اور جنگی تباہی کے اس ہولناک دور میں یہ نظریہ کس قدر مصلحت اور افادیت لیے ہوئے ہے)
ڈاکٹر صاحب مسولینی سے دیر تک گفتگو کرتے رہے جب وہ اس سے رخصت ہوئے تو لوگوں نے انھیں گھیر لیا اور تقاضا کرنے لگے کہ آپ ہمارے لیڈر کے متعلق اپنی رائے دیجیے۔ ڈاکٹر صاحب اس موضوع پر کچھ نہیں کہنا چاہتے تھے لیکن لوگ راستہ روکے کھڑے تھے اور ہجوم سے موٹر نکال کر لے جانا ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ آخر مسولینی کے اسٹاف کے آدمیوں نے کہا کہ ان لوگوں سے جان چھڑانا مشکل ہے اِس لیے کچھ نہ کچھ کہہ دیجیے۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے ہجوم کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’مسولینی بغیر بائبل کے لوتھر ہے‘‘ یہ فقرہ اطالوی زبان میں ترجمہ ہوا اور ہجوم میں بار بار دہرایا گیا۔ لوگ سن کر خوشی سے ناچنے لگے اور اسی وقت بڑے بڑے پوسٹر جن پر یہ فقرہ درج تھا۔ چھاپ کے در و دیوار پر چسپاں کر دیے گئے۔
مسولینی سے ڈاکٹر صاحب کی اس ملاقات اور ان کی ایک نظم سے جو انھوں نے مسولینی کے متعلق لکھی ہے بعض لوگوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کا رجحان بھی فاشزم کی جانب تھا لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ مسولینی نے اپنے ملک کے لوگوں پر جو تنظیم پیدا کر دی تھی اُسے وہ پسند کرتے تھے کیونکہ اسلام کی حقیقی روح بھی تنظیم ہے اور ان کی عادت تھی کہ جب کسی تحریک میں انھیں کوئی ایسی بات نظر آتی تھی جو اسلامی اصولوں سے مشابہ معلوم ہوتی تھی تو وہ اس کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ ورنہ یہ سب کو معلوم ہے کہ جب مسولینی نے حبشہ پر قبضہ کر لیا تو انھیں سخت صدمہ ہوا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی مشہور نظم ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ لکھی جس میں یورپ والوں کی ہوس ملک گیری کا ذکر نہایت تلخ انداز میں کیا گیا ہے۔
تہذیب کا پیمانہ:
ایک دفعہ تہذیب و تمدن کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں۔ ایک شخص نے کہا: تہذیب بتدریج بڑی نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ذرا مجھے بھی بتائیے کہ آپ نے تہذیب کو کس پیمانے سے ناپ کے یہ معلوم کیا ہے کہ وہ برابر ترقی کرتی جارہی ہے۔ اگر آپ کے پاس تہذیب کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ دورِ حاضر میں تہذیب رو بہ تنزل ہے۔
عورت کی ذمہ داری:
ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی، وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی غلطی پر پشیمان ہوئی ہے۔ عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی۔ اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کے ایسے کاموں پر لگایا جائے جنہیں مرد انجام دے سکتا ہے تو یہ طریقِ کار یقینا غلط ہو گا۔ مثلاً عورت کو جس کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے، ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا نہ صرف قانونِ فطرت کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی معاشرے کو درہم برہم کرنے کی افسوسناک کوشش ہے۔
بغاوت:
میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: کیا یہ صحیح ہے کہ انسان بغاوت کا دوسرا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: بالکل صحیح۔ آخر تم ہی کہو کہ تم نے اپنے والدین کے احکام کی تعمیل کہاں تک کی ہے۔ کیا تم میں سرکشی کی روح نہیں۔ تم اپنے آپ کو بار بار بغاوت پر آمادہ نہیں پاتے؟ میں نے شرمندہ ہو کے نگاہیں جھکا لیں۔
آنحضرتﷺ کا دیدار:
ڈاکٹر صاحب نے ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کہ ان سے کسی شخص نے یہ سوال کیا کہ آنحضرتﷺ کا دیدار کس طرح ہو سکتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ پہلے اسوۂ حسنہ پر عمل کو اپنا شعار بنائو اور زندگی اس میں ڈھالو پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی ان کا دیدار ہے۔
وعدے کا پاس:
سید امجد علی کے چھوٹے بھائی سید افضال علی شاہ کی شادی کی تقریب لاہور میں انجام پارہی تھی۔ آخر عمر میں ڈاکٹر صاحب میں جو کسل مندی اور ہنگاموں سے گریز کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا، اس کا ایک سبب ان کی مسلسل علالت بھی تھا، اسی لیے وہ شادی کی تقریب میں شریک نہ ہو سکے، تمام اعزہ اور بزرگوں نے جن میں میرے والد فقیر سید نجم الدین، سرسید مراتب علی مرحوم میجر مبارک علی شاہ، سید محمد عبداﷲ (مولوی میر حسن صاحب کے پوتے) سید امجد علی، سید واجد علی اور نواب مشتاق احمد گرمانی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی عدم شرکت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا، اب بحث چل پڑی کہ ڈاکٹر صاحب کو کس طرح یہاں لایا جائے، ہر کوئی اپنی رائے دے رہا تھا، آخرکار میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی اور وعدہ کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ڈاکٹر صاحب کو میں اس تقریب میں ضرور لے آئوں گا۔ چنانچہ میں موٹر میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے میکلوڈ روڈ والے مکان کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچا تو مرحوم اپنے کمرے میں بنیان اور دھوتی پہنے لیٹے ہوئے تھے اور حقہ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بزرگانہ محبت و شفقت کے لہجے میں بولے۔ کیوں بھئی! کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا، سید افضال شاہ کی شادی کی تقریب میں آپ کے نہ آنے کا سب کو ملال ہے۔ میں ان سب کو منتظر چھوڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور یہ وعدہ کر کے آیا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو میں اپنے ہمراہ ضرور لائوں گا۔
ڈاکٹر صاحب نے قدرے توقف فرمایا، میرے چہرے کا یہ عالم کہ ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا کہ نہ جانے ڈاکٹر صاحب کیا جواب دیتے ہیں، چندے تامل کے بعد انھوں نے فرمایا ’’وعدہ کا پاس کرنا ضروری ہے۔ چلو میں چلتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے لباس تبدیل کیا اور میرے ہمراہ شادی کی تقریب میں تشریف لے آئے۔ میری خوشی کا کیا پوچھنا، میرے اندر فتح مندی اور کامیابی کا جذبہ ابھر آیا تھا، سب سے بڑھ کر اس کا احساس تھا کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ سے جو خاکسار کو حسنِ ظن اور ان کی ذات پر ناز اور اعتماد ہے، اس کی لاج رہ گئی۔
ڈیوس روڈ کی اس کوٹھی میں علامہ اقبال دو گھنٹے ٹھہرے۔ احباب و اعزہ کے درمیان بڑی دلچسپ گفتگو اور ہنسی خوشی کی باتیں رہیں، اس واقعہ کی یاد جب بھی آتی ہے تو مسرت کے ساتھ ساتھ ندامت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ محض اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کے آرام اور معمولات میں کس قدر مخل ہوا۔۔۔ ہاں! اس صحبت کی ایک بات تو رہی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور دوسرے مہمان بزرگ جس کمرے میں تشریف فرما تھے، اس میں ریچھ کی کھال پڑی ہوئی تھی، سید واجد علی شاہ نے جگہ کو کشادہ کرنے کے لیے اسے کمرے کے ایک خالی کونے میں اٹھا کر پھینک دیا، ڈاکٹر صاحب نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’پہلے اسے جان سے مارا، پھر اسے ذلیل کرنے کے در پے ہو‘‘۔
سلطان ٹیپو:
ایک بڑے انگریز افسر نے اپنے کتے کا نام ٹیپو رکھ لیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی نام سے کتے کو پکارتا تھا۔ یہ حرکت اس نے دانستہ کی تھی کہ اس طرح مسلمانوں کے ایک نامور فرد کی تحقیر ہوتی تھی۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کے کانوں تک بھی پہنچی۔ ایک بار انھوں نے نہایت تاسف کے لہجے میں شکوہ کیا کہ انگریز تو اس مردِ مجاہد کا مضحکہ اڑاتا ہی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمان بھی اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ میں اس وقت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں موجود تھا اور ان کے یہ الفاظ اب تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ٹیپو سلطان کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ وہ مذہب، ملت اور آزادی کے لیے آخر دم تک جنگ کرتا رہا، یہاں تک کہ اسی نیک مقصد کی راہ میں شہید ہو گیا۔
درمیان کار زار کفر و دیں
ترکش مارا خدنگ آخریں
{}{}{}
Leave a Reply