
قطر اور روایتی عرب اتحادیوں (مصر، سعودی عرب، بحرین اور ابو ظہبی۔۔۔ یہ چار ملکی اتحاد جو اس وقت خود کو انسدادِ دہشت گردی اتحاد کے طور پر پیش کر رہا ہے) کے درمیان جاری سفارتی بحران کاکوئی ممکنہ حل نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ ہفتے لندن ،بحرین، ابو ظہبی اور دبئی کے دورے کے بعد کم ازکم مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے۔ اپنے اپنے موقف پر ہٹ دھرمی سے قائم رہنے کی وجہ سے معاملات مزید الجھ رہے ہیں، جس کا مجموعی طور پر فائدہ قطرسمیت سب کا مشترکہ دشمن ایران اٹھا رہا ہے۔ اور اس کے اثرات واشنگٹن پر بھی پڑ رہے ہیں،جس کی خلیج فارس کے حوالے سے حکمت عملی یہ ہے کہ باہمی دوریوں اور تنازعات کے باوجود خلیجی ممالک کے اتحاد کو قائم رہنا چاہیے۔
واشنگٹن اس معاملے کے حل کے لیے کوئی واضح موقف نہیں اپنا رہا،اس کی طرف سے ملا جلا سفارتی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن اور سیکریٹری دفاع جیمس میٹس مصالحت کی بھر پور کو ششیں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ ابھی تک تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن وہ اس وقت جھنجلاہٹ کا شکار ہو گئے جب سعودی ولی عہد اور امیر قطر کے درمیان فون پر رابطہ کروانا چاہ رہے تھے،اوراس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہو سکے،بلکہ اس کے بعد سے معاملا ت مزید خراب ہوگئے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو معاملات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
بظاہر تواس بحران کی اصل وجہ قطر کی پالیسیاں ہیں،چار ملکی انسداد دہشت گردی اتحادنے جون کے آغاز میں ۱۳ نکات پر مشتمل فہرست قطر کو دی تھی،جس میں بنیادی طور پر قطر پر داخلی معا ملات میں مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن یہ مشرق وسطیٰ ہے،جہاں روایتی انا پرستی اہم کر دار ادا کرتی ہے۔ اس سارے بحران میں جو لوگ نمایاں ہیں ان میں ایک تو محمد بن سلمان ہیں اور دوسرے ان کے اتحادی اور سفارتی معاملات میں ان کے استاد، متحدہ عرب امارت کے اہم رہنما، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید ہیں۔ جبکہ دوسری طرف قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی ہیں جو کہ شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے بیٹے ہیں،جنھوں نے عرب کی روایت کو توڑتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی امارت اپنے بیٹے کے سپرد کر دی تھی،لیکن وہ ابھی بھی دوحہ کے فعال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اگرچہ تجارتی اور سفری پابندیاں ابھی تک جاری ہیں لیکن اصل جنگ ’’پبلک ریلشنز‘‘کے محاز پر لڑی جا رہی ہے۔ دونوں فریقین اس محازپر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں،تاکہ اپنا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش کر سکیں۔ واشنگٹن میں دوحہ مخالف اشتہار CNNپر تواتر کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح نیو یارک میں بھی گزشتہ ہفتے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بڑی بڑی عمارتوں پر اس طرح کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا۔ میں نے لندن کا بھی سفر کیا جہاں دریائے ٹیمز کے کنارے واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل O2میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی، جس کا عنوان تھا Qatar Global Security and Stability Conference۔ یہ قطر مخالف لوگوں کا ایک اجتماع تھا۔ جس کے پس پردہ بنیادی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے،لیکن اہتمام ایسا تھا کہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ کسی بڑی طاقت نے اس کانفرنس کے لیے مالی وسائل فراہم کیے تھے۔ کانفرنس کی سیکورٹی کافی سخت تھی اور کوئی قطر حمایتی مظاہرین نظر نہیں آئے۔ پروگرام بہت نمود نمائش سے کیا گیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام شرکا کو ایک انچ موٹا کاغذات کا پلندہ دیا گیا، جس میں موضوع پر بریفنگ دی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے خود ساختہ رہنما ۲۹ سالہ قطری تاجر خالد تھے،جن کو قطر سے جلاوطن کیا جاچکا ہے۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے تمام لوگوں سے ہاتھ ملا رہے تھے اور اخوان کے خلاف باتیں ان کی زبان پر تھیں، یاد رہے کہ اخوان کے ارکان کو قطر نے پناہ دی تھی۔ حالانکہ وہ کافی سرگرم شخصیت ہیں اور انھیں مزید نمایاں کرنے کے لیے دو مسلح گارڈز بھی فراہم کیے گئے تھے،لیکن پھر بھی وہ اس کردار کے لیے بالکل غیر موزوں لگ رہے تھے(اکنامسٹ نے ان کے بارے میں لکھا ہے ان کی تعمیراتی کمپنی پرایمنسٹی انٹر نیشنل نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کمپنی نے مزدوروں کو معاوضہ ادا نہیں کیا تھا، لیکن یہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں)۔ وہاں ایک اور صاحب بھی نظر آئے جو ’’مہمان‘‘ کا بیج لگائے ہوئے تھے، ان کا نام علی تھا۔ یہ اپنا تعارف حزب اختلاف کے نائب رہنما کے طور پر کروا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قطرکی خفیہ ایجنسی میں رہے ہیں لیکن وہ کہیں سے بھی ایسے لگ نہیں رہے تھے۔
اس کے علاو ہ کچھ برطانیہ کے سیاسی لوگ بھی نظر آئے، جن کے قطر کے حوالے سے مفادات کا آج سے پہلے تک مجھے علم نہیں تھا۔ کچھ امریکی اور ایک اسرائیلی بھی اس پروگرام میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر آئے تھے، حالانکہ ان کو صرف تین دن پہلے دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ ان شخصیات میں پینٹاگون کے سابق ترجمان، اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر اور ریٹائرڈ ایئرفورس جنرل بھی موجود تھے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق ترجمان اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بی بی سی کے ترجمان نے الجزیرہ کے سابق صحافی محمد فہمی سے انٹرویو لیا، یہ صحافی مصر کی جیل میں رہ چکے ہیں اور اس کا ذمہ دار قطر کو ٹھہراتے ہیں اور توقع کے عین مطابق یہ انٹرویو مکمل طور پر یکطرفہ تھا۔ مثال کے طور پر محمد فہمی جب قطر کو الجزیرہ میں سیاسی مداخلت پر تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، اس وقت پروگرام کے میزبان نے یہ پوچھنے سے گریز کیا کہ باقی عرب ممالک میں کیا ایسا نہیں ہوتا۔ اس ساری کانفرنس کا مقصد قطر کے خلاف کوئی سیاسی اقدام کرنا نہیں تھا بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ قطر کے خلاف ایک فضا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں نے کانفرنس کے میزبانوں میں سے کسی ایک سے پوچھا کہ ’’شیخ عبداللہ بن علی الثانی یہاں موجود کیوں نہیں ہیں؟ (یہ شاہی خاندان کے فرد ہیں اور سعودی عرب نے متبادل امیر قطر کے طور پر ان کو پیش کیا ہے اور ان کی شناخت بنائی ہے )۔ اس میزبان نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کچھ زیادہ ہی جارحانہ اقدام ہو جاتا‘‘۔
اس کے ٹھیک دو دن بعد ہی بحرین کے دارالحکومت مانامہ میں ہونے والی ایک معاشی کانفرنس کے دوران بھی قطر کا بحران ہی موضوع بحث بنا رہا (بحرین خلیج کا وہ جزیرہ ہے جہاں سے کھڑے ہوکر اگر گردو غبار اوردھند نہ ہو تو قطرنظر آتا ہے)۔ اب قطر کی حمایت میں کوئی بھی معلومات یا خبر چھاپنا غیر قانونی ہے۔ اس دن کے ’’گلف ڈیلی نیوز‘‘ (جو اپنے آپ کو بحرین کا ترجمان سمجھتا ہے) کے شروع کے ۳ صفحات پر قطر کے خلاف خبریں لگی ہوئی تھیں۔ طعام کے دوران شاہی خاندان کے ایک اہم فرد نے بڑے اعتماد سے اس بات کا اظہار کیا کہ اس دباؤ کے نتیجے میں قطر بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گا۔ اس کو خود اعتمادی سے دیا گیا بیان تو کہہ سکتے ہیں لیکن یہ حقائق پر مبنی بات نہیں۔ اس بیان اور حقیقت میں فرق مجھے اس وقت واضح ہوا جب میں گلف ائیر کی پرواز سے مانامہ سے دبئی روانہ ہوا۔ جہاز کی نشست کی پشت پر موجود خود کار نقشہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ پرواز قطر کے شمال سے گزر رہی ہے۔ بحرین نے قطر ایئرویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی لگا دی تھی، لیکن اس نے پابندی کے فوراً بعد ہی اپنے آپ کواس پابندی کے نقصان سے بچانے کے لیے نئے راستے بنا لیے تھے۔ اسی طرح تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود دبئی میں ایئرکنڈیشن پہلے کی طرح چل رہے ہیں کیوں کہ قطر سے اب بھی قدرتی گیس کی فراہمی جاری ہے۔
ٹرمپ کے سعودیہ کے خوشگوار دورے کے بعد شروع ہونے والے اس بحران کے وقت اور شدت پر جب میں نے خلیج کے ماہرین کی آراء لی تو ان کی متفقہ رائے تھی کہ ’’یہ سب کچھ ہونا ہی تھا‘‘ اور دونوں فریق بہت عرصے سے اس سارے عمل کے لیے تیار تھے۔ امریکی اہلکار نے نا م ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’’متحدہ عرب امارات کو یہ بات ہفتوں پہلے پتا چل چکی تھی کہ ایران کی حمایت میں جعلی خبر چلانے کے لیے قطر نیوز ایجنسی کی ویب گاہ کو کیسے ہیک کیا جائے گا‘‘۔
بحران کے خاتمے کے امکان کا اندازہ فریقین کی جانب سے اپنے آپ کو پہنچائے جانے والے معاشی نقصان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ دوحہ کو ۲۰۲۲ء کے فٹبال ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے ابھی بہت سا کام کر نا ہے۔ تعمیراتی ساما ن کی درآمدات تو متاثر ہوئی ہیں، لیکن غذائی اجناس اور ضرورت کی دوسری اشیا کی ترسیل بذریعہ ایران،کویت اور عمان جاری ہے۔ بحرین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے لیکن اس مشکل کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب امداد دے گا۔ متحدہ عرب امارات کے دوسرے بڑے شہر دبئی کو ۲۰۲۰ء کی عالمی نمائش کی میزبانی کرنی ہے۔ وہاں کے حکمران شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کا خیال ہے کہ قطر کابحران ’’برانڈ دبئی‘‘ کو نقصان پہنچائے گا، اس برانڈ کو یہ عنوان دیتے وقت یہ حکمت عمل اپنائی گئی تھی کہ دنیا بھر سے آنے والے غیر ملکیوں کو اس پرامن،تفریح سے بھرپور اس شہر میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ سعودی عرب، جو قطر کے لیے واحد زمینی راستے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اس وقت اپنی سرحدوں کو بند کر چکا ہے۔ اس اقدام سے سعودی تاجر بھی پریشان ہیں لیکن وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
سارا معاملہ اس پر منحصر ہے کہ، محمد بن سلمان، محمد بن زید اور امیر تمیم،ان سب میں کون سا اہم کھلاڑی پہلے ہمت ہارتا ہے۔ ۳۲ سالہ محمد بن سلمان اپنی پالیسیوں کے حوالے سے انتہا درجے کے پُراعتماد ہیں۔ لیکن وہ اپنی بادشاہت کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے، جس کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ۵۶ سالہ محمد بن زید جو کہ پختہ عمر کے ہیں اور یکسو بھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر دبئی کے امیرمحمد بن راشد کا بہت زیادہ دباؤ ہے(سعودی عرب کے امیر اور بڑے ملک ہونے کے باوجود اس معاملے میں محمد بن زید کا کردار زیادہ اہم سمجھا جا رہا ہے)۔ ۳۷ سالہ امیر تمیم بھی ابھی جوان ہیں،لیکن وہ اپنے والدکے اثرورسوخ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے والد کو زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ذاتی یونانی جزیرے پر اپنی شاہانہ کشتی میں صرف کرنے پر رضامند کر لیں تو ان کوآزادانہ طریقے سے کام کرنے کا موقع مل سکے گا۔
(خلیج کے ایک تجزیہ نگار کے مطابق اس سارے بحران میں ایک اہم عنصر،جو کہ اس بحران کے حل میں ایک رکاوٹ ہے، ان تینوں اہم شخصیات کی مائیں بھی ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں خواتین اس بارے میں سخت موقف رکھتی ہیں کہ ان کے بچے قومی حمیت پر کوئی سودے بازی نہ کریں اور اپنے شوہروں کی میراث کی حفاظت کریں)۔
دوسری طرف امریکا کی جانب سے ریاض کی حمایت کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،جیسا کہ یمن میں ہیضے کی وبا اور قحط سالی کی صورت حال کی ذمہ داری امریکا پر بھی ڈالی جا رہی ہے۔ اگر چہ ایران کا خطرہ امریکا کے لیے اس سے کئی گنا بڑا ہے لیکن پھر بھی امریکا اس بحران سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ (سعودی اور اماراتی اس بات کے دعویدار ہیں کہ قطر کے ایران کا اتحادی بن جانے کے امکانات بہت کم ہیں)۔ درحقیقت واشنگٹن اور دیگر یورپی دارالحکومتوں میں اس سارے معاملے کو بچوں کے جھگڑے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اور اس معاملے میں سفارت کاری کا عمل بھی رکا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ عرصہ میں ہونے والا خلیج تعاون کونسل کا اجلاس،جہاں تمام خلیجی رہنما ایک ساتھ نظر آئیں گے،بھی فریقین کو مجبور نہیں کر رہا کہ وہ اس سے پہلے اس بحران کو حل کر لیں۔
اب تک اس بحران سے سب سے زیادہ فائدہ لابنگ کرنے والی کمپنیوں نے اٹھایا ہے۔ ان کمپنیوں نے حزب اختلاف کے لیے ویب گاہیں بنا کر،ایک دوسرے کے خلاف اشتہار بنا کر اور مختلف قسم کی کانفرنس اور اجلاس منعقد کروا کر خوب پیسہ کمایا ہے۔ محمد بن سلمان اور محمد بن زید کا خیال ہے کے وہ ایک بڑا کھیل کھیل رہے ہیں اوروہ امیر تمیم کو بہت سے مطالبات ماننے پر مجبور کردیں گے،ان میں وہ مطالبات بھی شامل ہوں گے جو ان کے لیے ناپسندیدہ ہوں گے۔ اور ان کے مشیران کا کہنا ہے کہ وہ اس بحران کے سودمند اختتام کے حوالے سے پر امید ہیں، چاہے وہ اس سال ہو یا ۲۰۱۸ء کے اختتام پر۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“A field trip to the front lines of the Qatar-Saudi cold war”. (“Foreign Policy”. Sept.28, 2017)
Leave a Reply