
ترکی میں ۱۵ جولائی کو ناکام ہونے والی بغاوت کا سب سے زیادہ فائدہ روس کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ بغاوت اور اس کے بعد صدر رجب طیب ایردوان کے انتہائی سخت ردعمل نے ترکی کو اس کے نیٹو اتحادیوں سے دور کردیا ہے جس کے بعد انقرہ ماسکو کی جانب ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔ ایردوان کے سخت دباؤ کے بعد ترک فوج اس قابل نہیں رہی کہ پڑوس میں ہونے والی روسی جارحیت کا جواب دے سکے۔ بہت امکان ہے کہ ترکی کے نیٹو سے دور جانے کے بعد روسی صدر ولادی میر پوٹن اسے (اپنی شرائط پر) قریب لانے کی کوشش کریں کیونکہ ترک فوج اب بحیرۂ اسود، مشرقی بحیرۂ روم اور جنوبی قفقاز میں کارروائیوں پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
بغاوت سے پہلے بھی، ترکی کی بڑھتی ہوئی مشکلات روس کو فائدہ دے رہی تھیں۔ گزشتہ نومبر میں ترک جنگی طیاروں نے اپنی حدود میں آنے والا ایک روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھا جس کے بعد روس کی جانب سے لگائی گئی سخت پابندیوں کے خاتمے اور باہمی تعلقات کی دوبارہ بہتری کی خاطر جون کے اواخر میں طیب ایردوان نے روس سے معذرت کرلی تھی۔ پابندیوں کے باعث لاحق مشکلات اور شام میں پے در پے ناکامیوں نے انقرہ کو ماسکو کی دہلیز پر پہنچا دیا تھا اور ناکام بغاوت سے اس سفر کو مزید مہمیز ملے گی۔
حالیہ برسوں میں دونوں ہی ممالک کی معاشی حالت پتلی ہوئی ہے لیکن ماسکوکے مقابلے میں انقرہ اس کا زیادہ محتاج ہے۔ ۲۰۱۵ء میں دونوں ممالک کی معاشی ناہمواریوں کے باوجود روس ، ترکی کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ اس تجارت کا سب سے اہم عنصر توانائی تھی کیونکہ توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کے باوجود ترکی آدھی سے زیادہ قدرتی گیس روس سے خریدتا ہے۔ یوکرین سے گزرنے والی پائپ لائنوں پر انحصار ختم کرنے کے لیے روسی گیس کمپنی گیزپروم نے بھی ترکی کی طرف دیکھنا شروع کیا تھا تاکہ یورپ تک گیس پہنچائی جاسکے۔ ’’ٹرکش اسٹریم‘‘ کہلانے والی یہ پائپ لائن بھی پابندیوں کی زد میں آگئی تھی (گو کہ تجزیہ کار پہلے سے ہی اس کی افادیت پر سوال اٹھاتے رہے ہیں)۔
ترک زراعت، تعمیراتی کمپنیوں اور سیاحت پر پابندیاں اس سے زیادہ نقصان دہ تھیں۔ ایک طرف جہاں ترک معیشت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے، وہیں یورپی بینک برائے ترقی و تعمیر نو (ERBD) نے اندازہ لگایا کہ روسی پابندیاں اس سال ترک جی ڈی پی میں اعشاریہ سات فیصد کمی کرسکتی ہیں۔
شام میں ترکی کی بڑھتی ہوئی مشکلات میں بھی روس کا حصہ تھا۔ شام کی خانہ جنگی حالیہ عرصے میں روس، ترکی کشیدگی کا بڑا سبب بنی تھی کیونکہ انقرہ شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے حامی سُنّی گروہوں کا حامی ہے اور ماسکو بشارالاسد کا سب سے بڑا بیرونی پشت پناہ بن کر ابھرا ہے۔
۲۰۱۶ء کے نصف تک شام میں ترکی کی پالیسی ناکام ہوچکی تھی۔ اسد کی فوجوں نے ایک سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ رقبہ حاصل کرلیا تھا اور انقرہ کی جانب سے غیر قانونی قرار دی گئی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی شاخ سمجھی جانے والی کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی وائی ڈی) کے جنگجو بھی ایسا ہی کرچکے تھے۔ اس لڑائی کے ۳۰ لاکھ سے زیادہ متاثرین ترکی پہنچے جنہیں سنبھالنا بین الاقوامی امداد کے باوجود ممکن نہ تھا۔ سخت گیر اسلام پسندوں کی حمایت اور ترکی سے جنگجو منتخب کرکے شام بھیجنے والی داعش کی جانب سے چشم پوشی بھی انقرہ کو بہت مہنگی پڑی کیونکہ اسے جہادیوں کے حملے سہنے پڑے جس سے سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان ہوا۔ سخت گیر اسلام پسندوں کی حمایت اور کُردوں کے ساتھ مسلسل چپقلش نے ترکی، امریکا تعلقات کو بھی گہنا دیا تھا۔
شام میں روس کی فوجی مداخلت نے ترکی کے لیے مزید مشکلات پیدا کیں اور زمینی حقائق تبدیل کرتے ہوئے یہ یقینی بنایا کہ اسد اقتدار میں بھی رہے اور اس کی افواج زیادہ سے زیادہ رقبہ بھی حاصل کرلیں۔ اس سے ترکی کی یہ کوشش بھی ناممکن ہوگئی کہ ایک نو فلائی زون بنایا جائے تاکہ باغی گروہ اسد کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ روسی فضائیہ نے جن اہداف کو نشانہ بنایا ان میں یقیناً انقرہ کے حمایت یافتہ باغی گروہ بھی شامل تھے۔ نومبر میں جس روسی طیارے کو مار گرایا گیا وہ ترکی کے حمایت یافتہ ترکمانی ملیشیا کو نشانہ بنارہا تھا۔ روس نے پی وائی ڈی کو بھی مالی و عسکری امداد فراہم کی۔ اس سے نہ صرف کُرد فوجوں نے ترکی کی سرحد کے ساتھ مزید علاقہ قبضے میں لیا بلکہ انقرہ نے الزام لگایا کہ روسی اسلحہ پی کے کے کو اسمگل کیا جارہا ہے، جس سے ترکی کے جنوب مغرب میں بغاوت کو ہوا مل رہی ہے۔
حالات کی ان پیچیدگیوں نے ایردوان کو مجبور کیا کہ وہ روس سے معذرت کرلیں، جس کے بعد بغاوت سے پہلے ہی باہمی تعلقات پر جمی برف پگھلنے لگی تھی۔ معذرت کے بعد دونوں حکومتوں نے شام کے مسئلے پر غور شروع کیا اور روس نے پابندیاں ہٹا نا شروع کردیں۔ ۲۸ جون کو داعش کی جانب سے استنبول کے اتاترک ائر پورٹ پر حملے کے بعد یہ عمل مزید تیز ہوا اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر متفق ہوئے۔ اس ملاقات نے شام کے مسئلے پر دور رس اہداف مقرر کرنے میں بھی مدد دی اور ترکی نے ممکنہ طور پر اسد کی فوری معزولی کا مطالبہ ترک کیا اور روس نے شامی کُردوں کی حمایت اور داعش کے خلاف براہِ راست کارروائیوں سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے تو ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ روس ترکی میں امریکیوں کے زیر استعمال فضائی اڈے کو بھی کام میں لاسکتا ہے لیکن بعد میں یہ بیان واپس لے لیا۔
بغاوت کے دوران اور اس کے بعد ایردوان کے لیے بھرپور روسی حمایت بتاتی ہے کہ دونوں ملکوں میں مسلسل تعاون پر اتفاق ہوگیا ہے، چاہے اب روس ترکی کی مشکلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہی مفادات کو آگے کیوں نہ بڑھاتا رہے۔
ناکام بغاوت کے بعد روسی وزارت خارجہ نے ۱۶جولائی کو ایک بیان جاری کیا جس میں تُرک عوام اور حکومت سے کہا گیا کہ وہ ’’اپنے مسائل طاقت استعمال کیے بغیر آئینی حدود میں رہتے ہوئے حل کریں‘‘ اور ترکی کی ’’جائز طور پر منتخب حکومت‘‘ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اگلے روز ایردوان سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پوٹن نے ’’کسی بھی ریاست کی زندگی میں تشدد اور غیر آئینی اقدامات کی گنجائش کو ردکیا‘‘ اور مستقبل قریب میں تُرک صدر سے ذاتی ملاقات کی خواہش کا اعادہ کیا۔ نائب وزیراعظم مہمت سمسیک کی سربراہی میں ایک بڑے تُرک وفد نے ۲۵ جولائی کو کریملن کا دورہ کیا تاکہ باہمی تعاون کے اعادے اور اگست میں ایردوان کے سینٹ پیٹرزبرگ کے دورے پر بات کی جاسکے۔ اس کے بعد گیزپروم کے چیئرمین الیکسے ملر (Aleksey Miller) نے تجویز دی کے اسی دورے میں ٹرکش اسٹریم پر دوبارہ کام کا سمجھوتا بھی ہوجائے تو اچھا ہے۔
روس کا ردعمل ترکی کے مغربی اتحادیوں سے بالکل الٹ تھا، جنہوں نے (مبہم انداز میں اگر کی بھی تو)بغاوت کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ایردوان کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی افسران، ججوں، اور دانشوروں کی برطرفی، اور بغاوت کے بعد ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات اس لیے کشیدہ ہیں کیونکہ ترکی وہاں مقیم عالم دین فتح اللہ گولن کو بغاوت کا سرخیل سمجھتے ہوئے ان کی حوالگی چاہتا ہے۔ چاؤش اولو نے اس تناظر میں ۲۵ جولائی کو کہا کہ ’’ہمیں دیگر ممالک کے برعکس روس سے غیر مشروط حمایت ملی ہے‘‘۔
آگے آنے والے مہینوں میں ترکی اور اس کے روایتی مغربی اتحادیوں کے مابین کشیدگی ماسکو کے لیے مواقع پیدا کرے گی کہ وہ انقرہ کو مزید قریب کرلے۔ لیکن یہ قربتیں زیادہ تر روسی شرائط پر ہوں گی، کیونکہ بغاوت کے بعد کی شورش، مغرب کے ساتھ کشیدگی، اور کُردوں اور داعش کی صورت میں منڈلاتے خطرات نے ترکی کو اس حال میں نہیں چھوڑا کہ وہ سودے بازی کرسکے۔
روسی ذرائع ابلاغ نے قدرے اطمینان کے ساتھ یہ خبر دی کہ بغاوت کے بعد ایردوان کی کارروائیوں کا مرکز تُرک فضائیہ رہی ہے۔ نومبر میں روسی طیارہ گرانے کی ذمہ دار فضائیہ ہی تھی اور روس کی جانب سے فضائی خلاف ورزیوں پر اس کا مؤقف بھی بہت سخت رہا تھا۔ ایردوان کی جانب سے فوج، خصوصاً فضائیہ کو نشانہ بنانے کے بعد کمال اتاترک کے مقلدوں کی یہ سوچ دم توڑ تی نظر آئی کہ امریکا سے شاکی ہونے کے باوجود نیٹو سے قریب رہا جائے اور روس کو دشمن سمجھا جائے۔ اس تطہیر کے بعد ایردوان کے حامیوں پر مشتمل فوج سے یہ توقع کم ہی ہے کہ وہ اوقیانوس کے کناروں پر قائم اتحاد اور روس سے دشمنی کو اتنی ہی اہمیت دے گی۔ کمزور پڑتی فوج اور ملک میں جاری عمومی سیاسی بحران کے تناظر میں ترکی کے لیے اب یہ بہت مشکل ہے کہ وہ مشترکہ ہمسایوں کے ہاں روس کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرسکے۔
شام کے مسئلے پر انقرہ اور ماسکو اگر کسی حد تک متفق ہوبھی جائیں تو بھی اس تنازع ، اور یوکرین میں روس کی مداخلت نے ترکی کے لیے بہت سے سیاسی جغرافیائی چیلنج پیدا کردیے ہیں۔ کریمیا کے محاصرے اور شام میں مداخلت نے روس کو اس قابل کردیا ہے کہ وہ بحیرۂ اسود اور مشرقی بحیرۂ روم میں اپنی بحری استعداد کو خوب بڑھا لے۔ روس اب ان علاقوں میں کسی کے بھی داخلے کو روک سکتا ہے جس سے نہ صرف تُرک بحریہ متاثر ہوئی ہے بلکہ اس کی مدد کے لیے آنے کی نیٹو کی صلاحیت بھی محدود ہوگئی ہے۔ اس پر مستزاد بغاوت کے بعد تُرک بحریہ کی ابتر حالت ہے، چاہے کثیر برطرفیوں کی اطلاعات درست نہ بھی ہوں۔
جنوبی قفقاز میں بھی روس نے اپنی پوزیشن مستحکم کرتے ہوئے آرمینیا کے ساتھ مشترکہ فضائی دفاع کا نظام بناکر ترکی کے ساتھ واقع سرحد پر ۵ ہزار فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اپریل میں آذربائیجان کی جانب سے غیرمتوقع جارحیت کے بعد روس آرمینیا کے ساتھ ’’نگورنو کاراباخ‘‘ پر اس کا تنازع حل کرانے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ دیگر اہداف کے علاوہ روس کی یہ بھی کوشش ہے کہ باکو کی انقرہ کے ساتھ طویل دوستی میں دراڑ ڈال کر ماسکو کو ترکی (اور مغرب) کی جگہ جنوبی قفقاز میں سب سے بڑی طاقت بنادیا جائے اور آذربائیجانی گیس کو ترکی کے راستے یورپ تک پہنچنے کا راستہ نہ دیا جائے۔
بحیرۂ اسود، مشرقی بحیرۂ روم، اور جنوبی قفقاز میں روس کی تزویراتی کامیابیوں اور اس کی جانب سے معاشی پابندیوں کے تناظر میں تُرک فوج کی جانب سے ایردوان کو نکالنے کی کوشش سے پہلے ہی انقرہ مجبور ہوگیا تھا کہ ماسکو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ اب جبکہ اندرون ملک بے اطمینانی ہے اور نیٹو اتحادی سرد مہری دکھارہے ہیں تو ترکی کو دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ مغرب کے ساتھ محاذ آرائی کے خول میں بند روس، جسے ایردوان سے کبھی زیادہ مسئلہ نہیں رہا، بڑی خوشی سے یہ سب قبول کررہا ہے۔ انقرہ کو جلد اندازہ ہوجائے گا کہ ماسکو کے ساتھ دوستی کی قیمت کافی زیادہ ہے؛ بس سوال یہ ہے کہ وہ کتنی ادائیگی کرسکتا ہے۔ (ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“A Friend in Need? Russia and Turkey after the Coup”. (“csis.org”. July 29, 2016)
Leave a Reply