
کوہِ سینا پر واقع سینٹ کیتھرائن کی گریک آرتھوڈوکس خانقاہ دنیا کا آخری پرامن مقام ہونا چاہیے، جس پر مسلم شدت پسند حملہ کرنا پسند کریں گے۔ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں بہت سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہاں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو احکامِ عشرہ عطا کیے تھے۔ اس خانقاہ کے کتب خانے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھائے جانے والے ایک خط کا عکس بھی ہے، جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اسلامی پرچم تھام کر چلنے والی افواج جب مصر میں داخل ہوں تو اس مقام کی جی جان سے حفاظت کریں۔ اس خانقاہ کے کتب خانے کے روح رواں فادر جسٹن کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی تنازع میں پڑنے کے بجائے پرامن رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ کسی تنازع کو بھی تحمل کے ذریعے روحانی پختگی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اب کوہِ سینا امن کی علامت بن گیا ہے۔
مگر یہ علامت اب خطرے میں ہے۔ ۱۵؍اگست کو مصر کی حکومت نے مسلم شدت پسندوں کی جانب سے حملے کے خطرے کے پیش نظر اس خانقاہ کو بند کرنے کا حکم دیا۔ شدت پسندوں نے کوہِ سینا کے علاقے کو نئے جہادی میدان میں تبدیل کردیا ہے۔ مصری حکومت نے اس ویرانے میں ٹینک، ہیلی کاپٹر اور ایف سولہ طیارے بھیجے مگر پھر بھی یہی کہا کہ گریک آرتھوڈوکس خانقاہ کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ شدت پسند بظاہر اس علاقے کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کچھ زیادہ سوچتے نہیں۔ غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے مذہبی امور کے پروفیسر محمد ابو نور کا کہنا ہے کہ شدت پسند بظاہر کسی بھی معاملے سے جذباتی وابستگی کے حامل دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح صحرائے سینا کے علاقے کی سکیورٹی کسی کے بس میں نہ رہے۔
جہاں قانون عطا کیا گیا تھا، وہ مقام اب لاقانونیت کی نذر ہوتا جارہا ہے اور اس کے عواقب پورے مشرق وسطیٰ کو شدید عدم استحکام سے دوچار کرسکتے ہیں۔ جزیرہ نما سینائی میں اب عسکری کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ علاقہ ایشیا اور افریقا کے درمیان شارک کے جبڑے کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ عسکری کارروائی اس کے صحرائی علاقے میں ہو رہی ہے۔ جن دھمکیوں نے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ کو بند کرایا، اُن سے نہرِ سوئز کو بھی خطرہ ہے جو مغرب اور مشرق میں اس علاقے کو باقی مصر سے جوڑتی ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کے اسرائیلی ماہر جوناتھن فگل کا کہنا ہے کہ صحرائے سینا کا علاقہ اب ناکام ریاست یا ناکام علاقے میں تبدیل ہوچکا ہے جس پر کسی کا اختیار نہیں رہا۔
مصر کے وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے ۳ جولائی کو منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے فوجی حکومت قائم کی تو صحرائے سینا کے انتہا پسندوں نے اپنی توپوں کا رخ دوبارہ پسندیدہ ہدف یعنی ریاست کی طرف کرلیا۔ مصر کی مرکزی سرزمین جزیرہ نما سینا میں آباد پانچ لاکھ بدوؤں کو اب بھی اپنے وجود کا حصہ نہیں سمجھتی۔ قاہرہ اس علاقے پر فوجی گورنروں کے ذریعے حکومت کرتا رہا ہے اور اس کا نظم و نسق بیورو کریٹس کے بجائے پولیس کے ہاتھ میں رہا ہے۔ فروری ۲۰۱۱ء تک یہ سب کچھ چلتا رہا۔ حسنی مبارک کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی یہ انتظامی مشینری غائب ہوگئی۔
جب یہ خطہ انتشار کا شکار ہوا تو بدو بہت خوش تھے کیونکہ وہ اپنا اسمگلنگ نیٹ ورک کسی روک ٹوک کے بغیر چلا سکتے تھے اور دوسری طرف اسلامی شدت پسند بھی خوش تھے، جو بدوؤں سے اپنے مطلب کی تمام چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ صحرائے سینا کے علاقے میں غزہ کی سرحد بھی ہے جو صرف ۱۳؍کلومیٹر طویل ہے، مگر اس میں ہزار سے زائد سرنگیں ہیں۔ یہ سرنگیں غزہ کی حکمران تنظیم حماس کو اسرائیلی تسلط سے آزاد رہنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان سرنگوں کے ذریعے ایندھن، سگریٹ، کاریں اور اسلحہ، سبھی کچھ اسمگل کیا جاتا ہے۔ انہی سرنگوں کے ذریعے ناپسندیدہ عناصر بھاگ کر صحرائے سینا جاتے ہیں۔ تین سال جب انقلاب پسندوں نے جنوبی غزہ میں الگ ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، تب حماس نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور وہ ان سرنگوں کے ذریعے ہی جان بچاکر صحرائے سینا چلے گئے تھے۔
جزیرہ نما سینا کا علاقہ شدت پسندوں اور سابق جہادیوں کے لیے بہت اچھی پناہ گاہ ہے۔ حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہونے پر جیلوں سے بھاگنے والے بہت سے افراد نے اس علاقے میں پناہ لی۔ ان میں محمد مرسی بھی شامل تھے۔ معروف ڈینٹسٹ محمد رمزی موافی بھی اُسی جیل سے بھاگے تھے جس سے مرسی نکلے تھے۔ موافی نے کسی زمانے میں افغانستان کے میدانِ کار زار میں اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے لیے کام کیا تھا۔ مصری حکام کا کہنا ہے کہ محمد موافی اب صحرائے سینا کے تکفیریوں کا امیر ہے۔ تکفیری وہ ہیں جو اپنے مسلک کے خلاف جانے والے کسی بھی شخص کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں انصار بیت المقدس نمایاں ہیں جنہوں نے اگست ۲۰۱۱ء میں اسرائیلی سرحد پر ایک ہائی وے کو نشانہ بنایا تھا۔ اسی گروپ نے ۵ ستمبر کو مصری وزیر داخلہ کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔
بین الاقوامی فورس اور مبصرین نے بھی جزیرہ نما سینائی کی صورت حال پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جرمن انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اب جرمن انتہا پسندوں کو بھی تربیت دی جارہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بیشتر تربیتی کیمپ غزہ میں ہیں جہاں حماس سے زیادہ انتہا پسند گروپوں کے لوگ تربیت پاتے ہیں اور پھر یہ جزیرہ نما سینائی منتقل ہوکر آزادانہ وارداتیں کرتے ہیں۔ ۳ جولائی کو قاہرہ میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد جزیرہ نما سینا کے انتہا پسندوں نے گورنریٹ کے علاقے العریش کی بیشتر عمارات پر چند گھنٹوں میں قبضہ کرلیا تھا اور پھر وہاں امارت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔
سرکاری کنٹرول ختم ہوجانے پر بدوؤں نے اسرائیل کو گیس فراہم کرنے والی پائپ لائن کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ان کی سرگرمیاں بڑھنے سے مشکلات میں اضافہ ہوا۔ کوشش یہ کی گئی کہ پائپ لائن کو نقصان پہنچانے کے عمل میں کوئی زخمی نہ ہو۔ یہ احتیاط دراصل اس لیے تھی کہ وہ صرف یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ پائپ لائن کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں جو فنڈز دیے جارہے تھے، وہ اب نہیں دیے جارہے۔
شمالی جزیرہ نما سینا میں فوج نے ناراض بدوؤں کو خاموش کرنے کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ بات یہ ہے کہ مصر کی فوج کو شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کی باضابطہ تربیت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اسرائیل کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ مصر کی فوج کو اس میدان میں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے اور وہ سیکھ بھی رہی ہے۔ عسکریت پسندوں اور پولیس اہلکاروں کا جانی نقصان برابر ہے۔ ہر فریق کے ۱۰۰ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اس علاقے سے خبروں کا حصول بھی بہت مشکل امر ہے، اس لیے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور جانی نقصان کا بھی درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک قبائلی رہنما نے ’’ٹائم‘‘ کو بتایا کہ معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں کہ کون سی واردات ذاتی دشمنی کی بنیاد پر رونما ہوئی ہے اور کس حملے کو دہشت گردی کہنا چاہیے۔ ایک قبطی عیسائی کا سر تن سے جدا کردینا انتہا پسندوں کا کام تھا۔ پولیس افسران کو نشانہ بنانا بدوؤں کا کام ہوتا ہے۔ حال ہی میں پولیس کے ۲۵ ریکروٹس کو سر کے پچھلے حصے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارا تھا کہ اس علاقے میں اب ریاست کی عملداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے مصری حکام نے صحرائے سینا سے ملحق غزہ کی سرحد بند کرنے کا آپشن بھی اپنایا ہے۔ اب تک ۷۹۴ سرنگیں بند کی جاچکی ہیں۔ اس کا شدید منفی نتیجہ حماس کو بھگتنا پڑا ہے۔ اس کے لیے ضروری اشیا کا حصول اب انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ حماس حکومت کے اعلیٰ افسر صالح ابو شرخ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی توقع نہ تھی کہ معاملہ اس حد تک بگڑے گا۔ اسرائیل کو جزیرہ نما سینا کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے شدید خطرات اور تشویش لاحق ہے۔ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ بعض مقامات پر انتہا پسند اور ریاست مخالف بدو اسرائیلی مسافر بردار اور مال بردار طیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر ستمبر میں بعض ایئر پورٹس کو بند کیا گیا اور فلائٹس کے راستے تبدیل کردیے گئے۔
اس ماہ مصری حکومت نے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ کو کھولنے کی اجازت دے دی مگر شمالی حصوں میں ابھی لڑائی جاری ہے۔ کار بم دھماکوں اور حملوں کے جواب میں فضائی حملے ہو رہے ہیں اور مکانات کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ۷؍اکتوبر کو سیاحوں کے پسندیدہ مقام التور میں کار بم دھماکا ہوا۔ ویسے اس علاقے کی سکیورٹی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
فادر جسٹن کا کہنا ہے کہ خانقاہ کو قلعے کی شکل دی جاسکتی ہے مگر یہ باہر کی دنیا کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں ہوگا۔
(“A Great and Terrible Wilderness”… “Time” Magazine. Nov. 18, 2013)
Leave a Reply