
یہ ایک چھوٹا سا فلسطینی علاقہ ہے جو کہ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیلی جنگ کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ اسرائیل کے قبضے میں آیا تھا۔ بحیرہ روم کے ساحل پر موجود یہ علاقہ رقبے کے لحاظ سے تقریباً امریکی شہر ڈیٹرؤاٹ (Detroit) کے برابر ہے جس کا رقبہ لگ بھگ ۳۶۰ مربع کلومیٹر ہے۔ اس علاقے کا جنوب مغربی حصہ مصر کے ساتھ جبکہ شمالی اور مشرقی حصہ اسرائیل کے ساتھ ملتا ہے۔
۱۹۴۸میں اسرائیل کے وجود سے پہلے غزہ ایک پر امن فلسطین کا حصہ تھا۔ مگر اسی سال عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ جوکہ ۱۹۶۷تک قائم رہا۔ جبکہ اسرائیل نے بقایا فلسطین پر عربوں سے جنگ کے بعد اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ غزہ فلسطین اسرائیل تنازع میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ اسرائیلی قبضے میں آنے والے بیشتر مسلمان رہائشی علاقوں کا حصہ ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نے اس پٹی پر اپنی تمام پابندیوں کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔
محاصرہ
۲۰۰۷ء جون سے اسرائیل نے غزہ کا فضائی، زمینی رابطہ بیرونی دنیا سے ختم کر دیا۔ اس وقت غزہ کے تین میں سے دو سرحد پار کرنے والے راستے، سمندری اور ہوائی اڈے بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ جبکہ تیسرا اور اکلوتا سرحد پار کرنے والا راستہ مصر کے اختیار میں ہے۔ غزہ کے رہائشیوں کی آمدورفت کا راستہ بیت حانون سے ہوتا ہوا اسرائیل تک جاتاہے، بیت حانون کو ا سرائیلی EREZ کے نام سے جانتے ہیں۔ جبکہ آمدورفت کا دوسراراستہ رفاہ سے ہوتا ہوامصر تک جاتا ہے۔ مصری اور اسرائیلی حکومتیں یہ راستے آمدورفت کے لیے عموماً بند رکھتی ہیں اور جس کی وجہ سے اس علاقے کے اقتصادی اور انسانی حالات مخدوش ہیں۔
اسرائیل غزہ کے رہائشیوں کے لیے صرف اور صرف غیر معمولی طبی ضرورت کے لیے کبھی کبھار بیت حانون کا راستہ آمدورفت کے لیے کھولتا ہے۔ ۲۰۱۶ء کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مصر نے رفاہ کا راستہ اکتوبر ۲۰۱۴ء سے مستقل بنیادوں پر بند کیا ہوا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے۲۰۱۶ء میں طبی ضروریات کے لیے آنے جانے والے افراد کی ایک تہائی درخواستوں کو بغیر کسی وجہ کے مسترد کیا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطینی رہائشیوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔۱۹۸۰ء کے دوران اسرائیل نے پہلی بار اس علاقے میں اجازت نامے کا نظام متعارف کرایا جس کے ذریعے ہی کوئی فلسطینی رہائشی کسی بھی وجہ سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم تک سفر کر سکتا ہے۔
۱۹۹۳ء سے خاص طور پر اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر بندش کا آغاز کیا۔ جس کی وجہ سے یہ کسی بھی علاقے میں بغیر پیشگی اطلاع کے غیر معینہ مدت تک بندش لگاتے تھے۔
۱۹۹۵ء میں اسرائیل نے غزہ کے گرد ایک برقی باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی جس کے ذریعے غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں علیحدگی کی گئی۔
۲۰۰۰ء میں اسرائیل نے کلی طور پر پرانے اجازت نامے منسوخ کر دیے اور نئے سرے سے بہت قلیل تعداد میں اجازت ناموں کا اجرا کیا۔
۲۰۰۱ء میں اسرائیل نے غزہ کا صرف تین سال پرانا ہوائی اڈہ تباہ کر دیا۔
چار سال کے بعد اسرائیل نے غزہ کو خالی کرنے کے نام پر تقریباً۸۰۰۰یہودی اسرائیلیوں کو جو کہ غیر قانونی طور پر غزہ میں مقیم تھے، واپس بلا لیا۔ باوجود اسرائیلی انخلا کے دعوے کے بین الاقوامی قوانین غزہ کو مقبوضہ علاقہ ہی گردانتے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے ہوائی راستوں کو مکمل کنٹرول کیا ہوا ہے۔
۲۰۰۶ء میں اسلامی تحریک حماس نے عام انتخابات میں اپنے حریف ’’فتح‘‘ کو ہرا کر جیت اپنے نام کر لی۔ ۲۰۰۷ء میں جب سے حماس اقتدار میں ہے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ اور سخت کر دیا ہے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کو محاصرے کے ذریعے ان کے شہری علاقے یروشلم سے بالکل علیحدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے فلسطینی شہریوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے (اسرائیل فلسطین امن معاہدہ) کے تحت تمام فلسطینی علاقوں کو ایک سیاسی علاقے کے طور پر جانا اور مانا جائے گا۔ مشرقی یروشلم کے سفر سے روکنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل عیسائیوں اور مسلمانوں کو ان کی مذہبی آزادی دینے کا بھی روادار نہیں ہے۔
خاندانوں کو تقسیم کرنا، نوجوانوں کے پڑھنے اور غزہ سے باہر کام کرنے کے تمام راستوں کو مسدود کرنا اور غزہ کے لوگوں کو ضروری طبی امداد حاصل کرنے میں دشواری پیدا کرنا اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن آرٹیکل ۳۳ کے تحت ایسی تمام کارروائیاں اجتماعی انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہیں، مگر اس کے باوجود اسرائیل یہ تمام شرمناک حرکتیں کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی
غزہ کی معیشت پر اسرائیلی محاصرے کے اثرات کا نتیجہ اقوام متحدہ کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے غزہ کے علاقہ کو ڈی ڈیویلپ علاقہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جس کا مطلب ترقی کے عمل کا علاقے میں رک جانا، بلکہ علاقہ کا پسماندہ ترین ہوجانا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق غزہ میں ۴۲ فیصد فلسطینی باشندے غربت سے متاثر ہیں، ۵۸ فیصد نوجوان بے روزگار ہیں اور کم و بیش ۸۰ فیصد لوگ صرف بین الاقوامی امداد، جو کہ غذا کی صورت میں ہے، پر انحصار کرتے ہیں۔
عالمی بینک کے ڈائریکٹراسٹین لاؤ جارجنسن کے مطابق اس سے بھی زیادہ تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ ۱۸لاکھ رہائشی صرف ۱۶۰ مربع کلومیٹر میں قید ہیں اور انہیں اس علاقے سے باہر بغیر خصوصی اجازت نامے کے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
۱۹۴۸ء میں تقریباً ۶۰ فیصد فلسطینیوں کو لوڈ اور رامل جیسی جگہوں پر ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے گھروں سے صرف چند کلومیٹر کی دوری پر بے گھروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ کے علاقے میں بنیادی ضروریات جیسے کہ کھانا، ایندھن وغیرہ کا خواب دیکھنا بھی محال ہے۔ اس طویل محاصرے نے غزہ کے اقتصادی، تعلیمی، طبی، پانی اور دیگر مسائل کو بڑھا دیا ہے۔
اسی طویل محاصرے کے دوران اسرائیل نے غزہ پر ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء کے دوران تین حملے کیے۔ ہر حملہ پچھلے حملے سے شدید اور تباہ کن تھا۔ ان حملوں نے ہزاروں کی تعداد میں گھروں، درس گاہوں اور مختلف مقامات کو تباہ و برباد کر دیا۔
ان تمام تباہ کاریوں کا سدِباب بھی اس محاصرے کی وجہ سے ناممکن ہے، کیونکہ تمام چیزیں جو کہ تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوتی ہیں اس محاصرے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہے۔
کئی برسوں سے ان زمینی اور میزائل حملوں سے غزہ کے پانی اور نکاسی کے پائپ لائنوں کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں اکثر گندا پانی، پینے کے پانی میں شامل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کا ۹۰فیصد سے زائد پانی پینے کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا گیا ہے۔
غزہ میں بجلی کے بحران کی وجہ سے پانی کی صفائی اور دیگر منصوبوں پر بھی عمل درآمد مشکل ہے۔ غزہ میں موجود بہت سارے رہائشیوں کے گھر جو کہ پانی کو پمپ کے ذریعے کھینچ کر اپنے گھروں میں زیر استعمال لاتے ہیں وہ بھی بجلی کے میسر نہ ہونے کے باعث پانی سے محروم ہیں۔
غزہ میں بجلی کے اس بحران کی وجہ سے طالب علموں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ گھروں میں بجلی کے نہ ہونے کے باعث انہیں گیس لائٹ اور لالٹینوں میں پڑھنا پڑتا ہے، جبکہ جنریٹر کی بجلی کے لیے اکثر ان کے پاس ایندھن نہیں ہوتا۔ اسکو لوں میں پانی اور بجلی نہ ہونے کے باعث صفائی اور پڑھائی دونوں متاثر ہوتی ہے۔ لیٹرین تک صاف نہیں ہو سکتے ۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں ہاتھ دھونے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔ دائمی محاصرے سے متاثر ہونے والے گروہوں میں سب سے زیادہ متاثرہ حلقہ بیماروں کا ہے، جو کہ مفت اجازت نامہ نہ ملنے کے باعث اپنا علاج نہیں کرا سکتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ۲۰۱۶ء میں صرف ایک تہائی مریضوں کی سفری درخواستوں کو بیت حانون سے شہری علاقوں تک جانے کی اجازت دی ہے، تاکہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں موجود صورت حال اور اس کی بڑھتی ہوئی خرابی ۲۰۲۰ء تک اس کو انسانی زندگی کے لیے ناقابل رہائش علاقہ بنا دے گی۔
حماس
۱۹۸۷میں قائم ہونے والی جماعت، جس نے پہلی تحریک مزاحمت کے بعد عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کی۔
۲۵جنوری۲۰۰۶ء کے عام انتخابات میں حماس نے الفتح کو ہرا کر غزہ سے بے دخل کر دیا اور ۲۰۰۷ء کے بعد سے اب تک حماس ہی غزہ کی پٹی پرحکمرانی کر رہی ہے۔ جبکہ مغربی کنارہ میں ۲۰۰۵ء سے ابھی تک حکمران جماعت کے صدر محمود عباس برسرِ اقتدار ہیں۔
حماس نے خود کو ایک مزاحمتی تحریک اور فلسطینی اسلامک نیشنل لبریشن کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ جس کا کام فلسطین کو آزاد کرانا اور صہیونی منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔
حماس نے اپنے بننے کے وقت سے لے کر آج تک اسرائیل کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک نئی سیاسی دستاویز جاری کی ہے جس میں ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء کی جنگ سے پہلے والی سرحدوں پر واپس جائے اور اسے عالمی سطح پر قبول کیا جائے۔ یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے اور وہ تمام پناہ گزین جو کہ اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے ہیں انہیں ان کے گھروں کو واپس کیا جائے، اس سلسلے میں حماس اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کر رہی ہے۔
اسرائیلی حملے
۲۰۰۷ء میں محاصرے کو ختم کرنے کے بعد اسرائیل نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان مسلسل تین بڑے حملے کیے ہیں۔ ان حملوں نے پورے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ غزہ کا واحد بجلی گھر بھی انہی حملوں کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے۔ غزہ تقریباً ایک دہائی سے بجلی کے بحران کا شکار ہے۔ گھروں، دفاتر اور اسپتالوں میں بجلی کی فراہمی کو منقطع کر دیا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ بجلی کا دورانیہ ایک دن میں۳گھنٹے ہوتا ہے۔
۲۰۰۸ء میں جب حماس نے فتح کو عام پارلیمانی انتخابات میں ہر ا کر غزہ سے بے دخل کر دیا تھا تو اسرائیل نے مسلسل ۲۳ دن تک گولہ باری کی تھی۔ جس میں تقریباً ۴۷۰۰۰ گھر تباہ و برباد ہو گئے تھے۔ ۱۴۴۰ سے زائد فلسطینی جن میں ۹۲۰ عام شہری تھے شہید ہوئے تھے۔ اسرائیل نے اس حملے کا نام ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ رکھا ہے۔
۲۰۱۲ء میں دوسرے اسرائیلی حملے کے دوران ۱۶۷ فلسطینی جن میں ۸۷ عام شہری شہید ہوئے۔ ان شہیدوں میں ۳۵بچے اور ۱۴ خواتین شامل تھیں۔ اس حملے کا نام اسرائیل نے ’’آپریشن پلر آف ڈیفنس‘‘ رکھا۔
اس حملے کے دوران۱۲۶گھروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، ساتھ ساتھ علاقے کے اسکولوں، مساجد، قبرستانوں، طبی اور کھیلوں کے مراکز اور میڈیا ہاؤسز کو بھی تباہ و برباد کر دیا گیا۔
صرف دو سال کے بعد ۲۰۱۴ء میں ایک بار پھر ۵۰ دنوں تک مسلسل اسرائیلی حملے کا آغاز ہو ا جس میں تقریباً ۲۱۰۰ فلسطینی جن میں ۱۴۶۲جوان اور لگ بھگ ۵۰۰بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔
اس حملے کو اسرائیل نے ’’آپریشن پروٹیکٹو ایج‘‘ کا نام دیا، جس میں تقریباً ۱۱۰۰ فلسطینی زخمی اور ۲۰۰۰۰ گھر تباہ و برباد اور ان گھروں سے ۵لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔
“A guide to the Gaza Strip”.(“aljazeera.com”. June 26, 2017)
Leave a Reply