
غزہ میں وسیع پیمانہ پر اور شدید نوعیت کی اسرائیل کی ان جارحانہ کارروائیوں کے بارے میں اسرائیلی تجزیہ نگار یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہاں ان کا واسطہ اپنے اصل دشمن سے ہے جو حماس نہیں بلکہ ایران ہے۔ اسرائیلی مؤرخ مائیکل اورین جو اس وقت اسرائیلی فوج میں پریس آفیسر کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کے ساتھ یوسسی کلین حالیوی نے بھی یہ دلیل پیش کی ہے کہ حماس کے خلاف جاری آپریشن دراصل ایرانیوں کی توسیع پسندی پر کاری ضرب لگانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کی منطق یہ ہے کہ حماس فی الحقیقت ایرانیوں کے کارندوں کی تنظیم ہے۔ اگر اس کی فوجی طاقت برباد کر دی جائے تو ایران بھی کمزور پڑ جائے گا اور اس کا ایجنڈا بھی درہم برہم ہو جائے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہو رہا ہے؟۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’حماس‘‘ ایران کا مہرہ نہیں ہے۔ درحقیقت ایران نے کئی عشروں تک ایک اور ہی فلسطینی دھڑے ’’اسلامی جہاد‘‘ کو ترجیح دی اور اسے فنڈز فراہم کرتا رہا۔ حماس نے تو حال ہی میں ایران سے فنڈز اور ہتھیار حاصل کرنا شروع کیے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ تنظیم ایران سے ہدایات لیتی ہے۔ حماس کے اشتعال کا سبب اور جنگ بندی کی تجدید نہ کرنے کا فیصلہ بھی تنظیم کا اپنا معاملہ تھا جس میں ایران کی ہدایت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجہ میں ایران کتنا کمزور پڑا؟۔
غزہ یا فلسطینی علاقوں میں ایران کے کوئی مادی اثاثے بھی موجود نہیں ہیں۔ ’’شیعہ نشاط ثانیہ‘‘ کے مصنف ولی نصر کہتے ہیں کہ ’’ایران کی طاقت کے بارے میں اس طرح کی سوچ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ عالمِ عرب میں ایران کے اثرات حقیقی معنوں میں اس کی نرم قوت یعنی بالواسطہ مدد اور اس ساکھ کا نتیجہ ہیں جو اس نے فلسطین کے عظیم تر عرب مقاصد کے حامی اور محافظ کی حیثیت سے بنائی ہے‘‘۔
ذرا اس حملے کے اثرات پر تو نظر ڈالیے۔ اعتدال پسند عرب اب دفاعی پوزیشن اختیارکرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت حماس سے سخت متنفر اور بیزار ہے کیونکہ وہ اسے بھی اپنے ملک کی تنظیم اخوان المسلمون کی شاخ تصور کرتی ہے جسے خلاف قانون قرار دے کر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کشی کے اولین چند دنوں میں اسلام پسندوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے کے بعد حسنی مبارک بھی اسرائیل کی مذمت کرنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح اردن اور سعودی عرب بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کے دوران بھی ان ملکوں نے ایسا ہی ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اگر اعتدال پسند عرب خاموش ہیں تو ایرانی ہر جگہ بہت کھل کر بات کر رہے ہیں صدر محمود احمدی نژاد نے اسرائیلی کارروائیوں کی سخت ترین الفاظ میں شدید مذمت کی ہے جبکہ بزرگ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے عوام کے جذبات سے لاتعلقی پر عرب حکومتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ۲۸ دسمبر کو جاری کردہ بیان میں انھوں نے کہاکہ ’’آج مصر، اردن اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام کے دل شدتِ غم سے پارہ پارہ اور رنجور ہیں۔ میں عالمِ عرب کے دانشوروں اور مصر کی جامعہ الازہر کے ذمہ داران سے پوچھتا ہوں کہ کیا اب بھی اسلام اور مسلمانوں کو لاحق خطرے کے احساس کا وقت نہیں آیا؟‘‘۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے حال ہی میں مصر کے عوام (اور ان کی فوج) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں فوجی انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ آپ جاکر اپنے رہنمائوں سے بات کیجیے اور انھیں بتا دیجیے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ اسے قبول نہیں کریں گے‘‘۔
حسنی مبارک اور اردن کے شاہ عبداللہ جیسے لوگو ں کو انتخابات میں کامیابی کی پریشانی لاحق نہیں اور وہ اس فکر سے آزاد ہیں اس لیے خاموشی اختیار کر سکتے ہیں تاہم اس خطہ میں اگر آپ رائے عامہ کی کیفیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو عالم عرب میں ’’جمہوری طور پرمنتخب‘‘ واحد لیڈر عراق کے وزیراعظم اورامریکا کے وفادار اتحادی نوری المالکی کی بات بھی سُن لیجیے جنہوں نے تمام عرب اور مسلم ممالک پرزور دیا ہے کہ وہ پرامن اور نہتے شہریوں کے خلاف اذیت ناک جارحانہ کارروائیوں میں مصروف اس قاتل (اسرائیلی) حکومت کے ساتھ اپنے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیں اور اس کے ساتھ نجی اور سرکاری سطح پر تمام رابطے بھی ختم کر دیں۔ عراق کے انتہائی محترم مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے جن کی بہت سے ’’امریکن نیوکانز‘‘ بھی تعریف کرتے تھے، گزشتہ ہفتہ ایک فتویٰ جاری کیا جس میں اسرائیلی حملے کو ’’شیطنیت اور خباثت‘‘ قرار دیتے ہوئے تمام عربوں اور مسلمانوں پر زور دیا کہ اس بے رحمانہ جارحیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے حق میں سازگار ہوتی فضا بدل کر اس کے خلاف تند و تیز طوفان میں ڈھل گئی۔ گزشتہ دو برس میں ایران کا عروج، مصر، سعودی عرب اور اردن جیسے ملکوں کے لیے شدید تشویش اور خلش کا باعث تھا اور اس تناظر میں ان کے اپنے مفادات اسرائیل کی سوچ سے ہم آہنگ تھے۔ بہ الفاظ دیگر وقت کے اس اہم تزویراتی مسئلہ پر تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل اعتدال پسند عرب ریاستوں کے ساتھ ایک خاموش اتحاد کی سمت بڑھ رہا تھا اور سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس اس کی حوصلہ افزائی اور اس عمل کو پروان چڑھانے میں مصروف تھیں۔
تاہم عرب رائے عامہ اس کا سب سے کمزور پہلو تھی اور ایران روزِ اول سے ہی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ لہٰذا اس اتحاد کو ناکام بنانے کے لیے ایران کی حکمت عملی یہ رہی کہ عرب عوام کو یہ باور کرا دیا جائے کہ وہی فلسطینیوں کے مقاصد کا اصل محافظ اور امین ہے اس لیے عرب عوام کا دشمن نہیں ہو سکتا۔ ایران کی طرف سے عربوں کو یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ ان کی اصل دشمن ان کی اپنی حکومتیں ہیں۔ ایران کے اندر بھی توازن منتقل ہو رہا ہے اور اعتدال پسندوں نے اب خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اصلاح پسند اخبارات صفحہ اول پر اسرائیلی جارحیت کا شکار ہونے والے فلسطینی بچوں کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔
ولی نصر کہتے ہیں کہ ’’ایک ماہ قبل تیل کی کم ہوتی قیمتوں اور اقتصادی بدنظمی کے موضوع پر دھواں دھار بحث ہوا کرتی تھی مگر اب فلسطین اور عالم عرب میں غم و غصہ کی کیفیت زیرِ بحث رہتی ہے اور صدر محمود احمدی نژاد موجود صورتحال پراظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ سے یہ سبق ملا تھا کہ اسے فوجی صف آرائی اور اپنے جنگی حربوں کی مہارت میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی بہترین دفاعی افواج حسبِ منشا ان مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی رہی ہیں۔ مگر اب غزہ کو فوجی طاقت کے بل پر کچلنے اور روند ڈالنے کی کوشش کے ذریعہ اسرائیل نے درحقیقت ایران کے ’’مُلّائوں‘‘ کو ایسا نظریاتی حربہ فراہم کر دیا ہے جس سے وہ خوب پھلتے پھولتے ہیں اور جو ان کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہ اس جنگ کا سیاسی سبق قرار دیا جا سکتا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوزویک‘‘۔ ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: ایس اے قدوائی)
Leave a Reply