
مسلمان بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔ تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔ کسی ایک کا بدلا دوسرے سے لیتے ہیں۔ تحقیق نہیں کرتے… غیر ذمہ دار ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن امریکی میڈیا اور حکمرانوں نے امریکیوں کو کیا بنادیا ہے، اس کا اندازہ اب پڑھے لکھے امریکیوں کے رویہ سے بھی ہوتا ہے۔ ویسے یہ پتا نہیں کہ امریکا میں پڑھے لکھے کا معیار کیا ہے۔ پاکستان میں منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے والے کو پڑھا لکھا سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن امریکا میں تو بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے اور خوب منہ ٹیڑھا کر کے بولتا ہے بلکہ انگریزی ہی کو ٹیڑھا کر ڈالتا ہے۔ پھر بھی روشن خیال کہلاتا ہے۔ اتنی لمبی بات یوں کہی کہ چند روز قبل امریکی میڈیا اور حکومت کے پروپیگنڈے کے زیر اثر چند مشتعل نوجوانوں نے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پربھ جوت سنگھ کو سرعام اسامہ بن لادن کہہ کر مار مار کر زخمی کردیا… بات صرف یہ تھی کہ سکھ پروفیسر نے پگڑی باندھی ہوئی تھی اور لمبی سی ڈاڑھی تھی، بس یہی اس کا گناہ تھا۔ اگر یہی حرکت پاکستان میں ہو جاتی… کوئی امریکی کوئی گورا، خواہ اٹلی کا ہو یا جرمنی کا، اگر اس کی شکل بش سے ملتی ہو اور کچھ مسلمان بش کہہ کہہ کر مارتے اور زخمی کردیتے تو ساری ’’مہذب دنیا‘‘ اٹھ کھڑی ہوتی کہ یہ کوئی طریقہ نہیں، یہ انتہا پسندی ہے۔ بھلا بش سے شکل ملنے پر کسی اور کو کیوں مارا جارہا ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح کسی نام نہاد تنظیم نے امریکیوں اور برطانویوں اور ناٹو ممالک کی وجہ سے پاکستان میں غیر مسلموں پر حملوں کا اعلان کیا اور پشاور کے چرچ پر حملے کو بھی اپنے سرلے لیا۔ ممکن ہے انہوں نے ہی یہ کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ایسا نہ کیا ہو۔ بہرحال اب تو یہی خبر ہے کہ طالبان کے کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لہٰذا ساری دنیا اور ہمارے اپنے میڈیا نے اس بہانے اسلام پر حملے شروع کردیے۔ سب یہی تو کہہ رہے ہیں کہ چرچ پر حملہ بہیمانہ کارروائی ہے۔ یہ کوئی اسلام نہیں… ہر ٹاک شو میں مدرسے پر حملے عیسائیوں پر مظالم کی بات کی جارہی ہے۔ ہاں یہ ظلم تو ہے… ناٹو کی کارروائیوں اور ڈرون حملوں کا بدلہ عام عیسائیوں سے لینا غلط ہے۔ اس پر شور مچانا احتجاج کرنا اور اعتراض کرنا بجا ہے لیکن… کیا پاکستان میں نائن الیون کے جواب میں ڈرون حملے کرنا۔ لاکھوں عراقیوں کو صدام کے بارے میں جھوٹی اطلاعات پر قتل کردینا۔ لاکھوں افغانوں کو طالبان کے کسی ناکردہ یا کردہ گناہ کی پاداش میں بمباری کر کے ہلاک کردیا گیا۔ اب بھی کسی جھوٹی اطلاع پر پاکستان میں ڈرون حملہ کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے ٹی وی چینلز کے چھوٹے بڑے اینکرز سے درخواست ہے کہ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے ساتھ نہ مل جایا کریں بلکہ سیدھی صاف اور سچی بات کریں۔ کبھی ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مسجد پر حملے کے بعد ملک بھر کی مساجد کے اماموں سے انٹرویو لیے جارہے ہوں۔ ہر شہر کے احتجاجی مظاہرے کو دکھایا جارہا ہو… ایک مسجد کے سانحہ کو ایک سے دوسرے دن نہیں دکھایا جاتا لیکن عیسائیوں کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی پر اب بھی مسلسل ایک ایک گھنٹہ کی نشریات ہورہی ہیں اور اس بہانے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے۔ ہم کوئی حکم تو نہیں لگا رہے یا فتویٰ نہیں دے رہے، لیکن یہ حکم تو قرآن میں پڑھا بھی ہے کہ: ’’جنت میں موجود کچھ لوگ، جہنم میں موجود لوگوں سے جب سوال کریں گے کہ تمہیں کس چیز نے اس حال کو پہنچایا تو وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازیوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ مسکینوں کو کھلانے والوں میں نہیں تھے اور دین کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ مل کر دین کا مذاق اڑاتے تھے اور روز آخرت کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس یقینی چیز سے سابقہ پڑگیا‘‘ (سورہ مدثر)۔ اس ترجمے کے بعد، تشریح کی ضرورت نہیں رہتی۔ تمام تجزیہ نگاروں، ماہرین اور دین کا مذاق اڑانے والوں کے لیے بس یاد دہانی ہے۔ بہت واضح بات ہے: ’’اور وہ یقینی چیز آئے گی اور ضرور آئے گی، پھر کسی کی سفارش بھی نہیں چلے گی‘‘۔ ہم منتظر ہیں کہ ہمارے ماہرین کوئی ایک پروگرام کریں جس میں امریکیوں کے اس رویہ، امریکی میڈیا کی جانب سے زہریلے پروپیگنڈے کے نتائج اور سکھ پروفیسر کو محض داڑھی اور پگڑی کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنانے کے رویہ کو زیر بحث لایا جائے۔ اسلام کی جان چھوڑیے، حقائق پر بات کیجیے۔
Leave a Reply