
افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ کو دس سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر امریکی ایوان صدر نے کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ شاید ایسا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ امریکا کے لیے یہ جنگ کوئی ایسی بات نہیں جسے یاد رکھا جائے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے دس سال مکمل ہونے پر صدر براک اوباما نے خاصی جامع تقریر کی تھی اور انہوں نے واضح کردیا تھا کہ وہ اب جنگ سے زیادہ امریکی معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا بیروزگاری اور مہنگائی کے چنگل میں ہے۔ عوام میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ صدر اوباما کی کارکردگی کو معیاری قرار دینے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ صدر اوباما نے افغان جنگ کو امریکا کی طویل ترین جنگ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ کروڑوں امریکیوں کو اب بھی اندازہ نہیں کہ عراق اور افغانستان میں جنگ کیوں لڑی گئی۔
براک اوباما اپنی تقاریر میں اب یہ واضح کرتے جارہے ہیں کہ امریکا کے لیے جنگ کو چھوڑ کر معیشت کو اولیت دینے کا وقت آگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کے دس سال پورے ہونے کی اہمیت اتنی نہیں جتنی اس بات کی ہے کہ ۲۰۱۴ء کی ڈیڈ لائن کے مطابق امریکی افواج افغانستان سے بخیریت نکل آئیں گی یا نہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی افواج افغانستان سے مکمل انخلاء تک سیکورٹی کے نظام کو اس حد تک مستحکم کرچکی ہوں گی کہ افغان فورسز کو کنٹرول سنبھالنے میں دشواری پیش نہ آئے؟ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ افغانستان میں سیاسی استحکام پیدا کرنا لازم ہے۔ نائن الیون کے دس سال مکمل ہونے پر سابق صدر جارج واکر بش نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ جارج واکر بش اور براک اوباما کے ادوار میں امریکی قوم نے تحمل ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں امریکا کا کردار خاصا طویل اور وسیع ہے۔ یہ جنگ مزید تین سال جاری رہے گی۔ افغانستان اور عراق میں اب تک مجموعی طور پر بیس لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں نے خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں ہزاروں ایسے بھی ہیں جنہیں افغانستان میں ایک سے زائد مرتبہ تعینات کیا گیا۔ عراق میں ۴۵۰۰ اور افغانستان میں ۱۸۰۰ امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
براک اوباما نے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد عراق جنگ ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان میں جنگ کو تھوڑا طول دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ابتدائی مرحلے میں مزید ۳۳ ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان کے طول و عرض میں تعینات کرنے کی منظوری دی۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے روانہ ہونے سے قبل اس قدر استحکام پیدا کردے کہ افغانوں کو ملک کا کنٹرول سنبھالنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر ایسا کوئی اہتمام کیے بغیر امریکی وہاں سے نکل آئے تو بہت بھد اڑے گی۔ اور پھر ۷۰ ہزار سے زائد امریکی فوجی افغانستان میں ۲۰۱۴ء کے آخر تک تعینات رہیں گے۔ ان کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ سینٹر فار نیو امریکن سیکورٹی کی ریسرچ فیلو نورا بینساہل کہتی ہیں کہ امریکا اب افغانستان میں اپنی بساط لپیٹ رہا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ملک میں خرابی بڑھ گئی ہے۔ امریکی صدر متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ ان کے لیے جنگ سے زیادہ امریکیوں کی بہبود اہمیت رکھتی ہے۔
انتخابی سال شروع ہونے والا ہے اور براک اوباما پر ری پبلکنز کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان پالیسی کو فوکس میں رکھا جائے۔ مگر اُن کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا میں خارجہ پالیسی پر اب معاشی اُمور حاوی ہوچکے ہیں۔
امریکا میں رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ جنگ سے عاجز آچکے ہیں اور اب ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ امن چاہتے ہیں۔ سی بی ایس کے ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا میں ہر ۱۰ میں سے ۶ افراد چاہتے ہیںکہ افغانستان میں مزید لڑائی نہ ہو۔ ۲ سال قبل رائے عامہ کے جائزوں میں ۷۰ فیصد امریکیوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے میں ہر تین میں سے ایک سابق فوجی نے کہا کہ افغانستان میں جنگ لڑنے کا کوئی جواز یا ضرورت سرے سے تھی ہی نہیں۔ اگست میں امریکن لیجین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے براک اوباما نے کہا تھا کہ اب افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو جلد از جلد واپس لانا ہماری ترجیحات میں نمایاں ہے اور ترجیحات میں سرفہرست امریکیوں کی بہبود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو امریکی فوجی اور ان کے اہل خانہ ایک عشرے سے لڑائی کے نتائج بھگت رہے ہیں اب اُنہیں سُکون کا سانس لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ صدر اوباما اب امریکی فوجیوں کی قربانیاں گنوانے کو بھی خاص اہمیت دیتے ہیں۔ نائن الیون کے دس سال مکمل ہونے پر انہوں نے نیویارک میں گراؤنڈ زیرو، پینٹاگون اور پنسلوانیا میں شینکزولے کا دورہ کیا جہاں طیاروں سے حملے کیے گئے تھے۔ صدر اباما کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بن روڈز کہتے ہیں کہ ’’ہم کئی حیثیتوں سے دیکھتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری زمین پر نائن الیون سے شروع ہوئی اور اسی سے پھیلتی گئی‘‘۔
افغانستان کی صورت حال اوباما انتظامیہ کو پریشان کر رہی ہے۔ افغان خفیہ اہلکاروں نے صدر حامد کرزئی کے قتل کا منصوبہ ناکام بنانے کا انکشاف کیا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا کس قیمت پر افغانستان سے بخیر نکل پائے گا؟ افغانستان کا سیاسی عدم استحکام بھی امریکی حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔
کونسل آن فارن ریلیشنز میں سینئر ڈیفینس پالیسی فیلو اسٹیفن بڈل کا کہنا ہے ’’اگر امریکی افواج نے افغانستان کو غیر مستحکم حالت میں چھوڑ کر انخلاء مکمل کیا تو امریکی قیادت اور خطے کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن ثابت ہوگی۔ دو برسوں کے دوران چند ایک علاقوں کو بہتر طور پر کنٹرول کرنا ممکن ہوا ہے۔ مگر اتنا کافی نہیں۔ امریکا کے لیے لازم ہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کا عمل بھی شروع کرائے۔ سیاسی میدان میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکا کے لیے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔‘‘
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ امریکا۔ ۶؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply