سنہری چھتوں، خوبصورت آبشاروں اور شراب کے جاموں کی کھنکھناہٹ کے ساتھ امپوریو مال نئی دہلی میں وہ شایانِ شان مقام ہے جہاں ڈیزائنر بوتیکوں کا معائنہ کرتے ہوئے گرم دوپہر کو عافیت کے ساتھ گزارا ہو سکتا ہے۔
مال کے اطراف میں پام کے درخت سایہ کیے ہوئے ہیں اور اندرونی حصہ لوینڈر کی خوشبو سے معطر ہے۔ ہندوستان کے دولت مندوں کی خصوصی جگہ جہاں بحرانِ معیشت کے باوجود نقد رقوم کی بہتات ہے جس کی وجہ سے ہزار ڈالر قیمت والی اشیاء بھی لوگ خرید رہے ہیں۔
تپتے ہوئے دارالحکومت کی ہما ہمی میں اس چھوٹی سی ایئرکنڈیشنڈ جنت تک رسائی بھی ۵ ڈالر وصول کرلیتی ہے یہ رقم بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ۸۰ فیصد لوگوں کی ہفتہ وار آمدنی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کا ایک ہجوم ہے جو محروموں اور غریبوں کو مال سے دور رکھتا ہے اور جہاں تک داخلہ فیس کے طور پر ایک قابل ذکر رقم کی وصولی کا تعلق ہے تو بعض معاشرتی مشاہدین اسے پہلا لگژری مال تصور کرتے ہیں جو اقتصادی اپارتھیڈ کی علامت ہے اور جس کی وجہ سے بھارت میں روز بروز منعموں (Have) اور محروموں (Have Nots) کے مابین تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی اسکول آف اکنامکس میں سماجیات کے پروفیسر ستیش دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ ’’حالات، زمینی حالات مغربی شہروں کی طرح نہیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رفتار کے ساتھ اقتصادی اپارتھیڈ کی جانب بڑھ رہے ہیں جو کہ جدائی کی ایک بہت شدید نوعیت ہے اور یہ جدائی شہروں میں نصب شدہ گیٹوں کی رہنے والی محفوظ برادری میں بہت واضح طور سے عیاں ہے‘‘۔
دولت کی بڑھتی ہوئی خلیج بھارت کے لیے اہم مضمرات رکھتی ہے جسے آئندہ سال عام انتخابات کا سامنا ہے اور جو اپنے صوبوں میں پائی جانے والی تشدد کی متعدد لہروں سے طائون زدہ ہے جن کے متعلق تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے یہ کم از کم جزوی طور پر تو سماجی و معاشی تفریق کا نتیجہ ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں اجنبیت اور جُدائی پیدا کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ ممکن ہے آئندہ عام انتخابات میں مرکزی کردار ادا کرے جس میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی کانگریس پارٹی دوبارہ منتخب ہونا چاہے گی۔ یہ پارٹی چار سال قبل ایک مخلوط حکومت کی صورت میں برسرِاقتدار آئی تھی۔ پارٹیوں کا اتحاد وہ پلیٹ فارم تھا جو بھارت کے محروم طبقوں کی قدرے سنجیدہ ترقی کے مقصد سے معرضِ وجود میں آیا تھامگر یہ وعدہ حکومتی اتحاد پورا کرنے میں ناکام رہا۔
ایشیا کی یہ تیسری بڑی معیشت گزشتہ چار سالوں سے تقریباً ۹ فیصد سالانہ شرح کے ساتھ ترقی پاتی رہی ہے۔ اس معیشت کو جن عوامل نے مہمیز لگایا ہے اُن میں متوسط طبقہ کے صارفین کی ضروریات اور بڑھتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس ترقی کے باوجود ایک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی میں ۸۰ کروڑ لوگ اب بھی نصف امریکی ڈالر کی روزانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں۔ بھارت کی آبادی کے دس فیصد اعلیٰ طبقے کے لوگ ملک کی ۳۳ سے ۵۰ فیصد دولت کے مالک ہیں۔ یہ اندازا حکومت، تھنک ٹینکس اور دانشوران کے تخمینوں پر مشتمل ہے۔ اس ناہموار معاشی ترقی کے سبب بھارت کو سلامتی سے متعلق سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ یہ اعتراف گزشتہ دسمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ نے کیا تھا جب وہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے تھے کہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد کا تعلق ہندوستان کے اُن علاقوں سے ہے جہاں ترقی کا کام نہیں ہوا ہے۔ جہاں متوسط اور دولت مند انگریزی بولنے والا طبقہ اس معاشی ترقی سے لطف اندوز ہو رہا ہے وہاں یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاشی ترقی کا فائدہ کروڑ ہا ہندوستانیوں کو کس طرح پہنچے گا جو چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے غریب ترین علاقوں میں سماجی انصاف کی عدم فراہمی اور ترقی سے محرومی نے عوام کو مراعات یافتہ طبقات سے بیگانہ کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے اقتصادی، سماجی اور مذہبی امتیاز و تفریق کا دروازہ کھل گیا ہے۔ کہا جاتا ہے سماجی و اقتصادی امتیازات اور حکومت کی بے رُخی یہ وہ دو عوامل ہیں جو بھارت میں پرتشدد باغیانہ سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں جن میں ہزار ہا لوگ قتل کیے جا چکے ہیں۔ ان باغیانہ سرگرمیوں میں چار دہائیوں پر مشتمل مائو نواز بغاوت اور دور دراز شمال مشرقی علاقے کی مسلح تحریکیں بھی شامل ہیں۔ روزگار اور ترقی کی دوڑ میں مقابلہ جزوی سبب ہے ان پُرتشدد ہندو عیسائی فسادات کا جو ملک کے مشرق میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال صوبائی وزرائے اعلیٰ کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’’ان امتیازات اور تفریقات کا نتیجہ عدمِ الفت، بڑے پیمانے پر مہاجرت اور ناچاقی ہے‘‘۔ عدم مساوات اور داخلی سلامتی کے مابین تعلق کی نشاندہی کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’بہت سارے واقعات میں داخلی سلامتی کے مسائل اُبھرتے ہی ناہموار ترقی کی وجہ سے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم اس مسئلے کی جانب توجہ دیں اگر ہمیں انتہا پسند عناصر سے مقابلے میں کوئی طویل المیعاد پیش رفت کرنی ہے‘‘۔
گزشتہ سال حکومتی پینل کی غیر رسمی سیکٹر پر ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ اس صدی کے آغاز میں معیشت میں اُبھار نے لوگوں میں فرطِ مسرت کا ایک احساس پیدا کر دیا تھا۔ بہرحال لوگوں کی اکثریت جن کی روزانہ آمدنی ۲۰ روپے بھی نہیں ہے اس خوشی کی کیفیت میں شریک نہیں تھے۔ سال ۰۵۔۲۰۰۴ء کے آخر تک ۸۳ کروڑ ۶۰ لاکھ یا ۷۷ فیصد کے قریب لوگ ۲۰ روپے سے کم کی روزانہ آمدنی پر گزارا کر رہے تھے۔
امپوریو مال کے اندر کی جو تعیش پسندانہ شان ہے وہ جمنا ندی کے کنارے کی جُھگی جھونپڑیوں کی آبادیوں کی حالت زار سے بالکل مختلف ہے۔ یہ نئی دہلی کی بدنام ترین آبادیاں ہیں جہاں شہر کی غلاظتوں کی بدبو کھلے نالوں سے آرہی ہوتی ہے اور جہاں اس گندگی میں پا برہنہ بچے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ مال میں داخل ہونے والوں کو گیٹ پر کھڑے دربان سلام کرتے ہیں اور شیشے کا دروازہ کھولتے ہیں پھر آنے والے اوول شکل کے دو بڑے ہالوں کی جانب چلے جاتے ہیں جہاں کرسٹل کے فانوس آویزاں ہیں اور فرش پر لکڑی، پیتل اور شیشے کے کام کیے ہوئے ہیں۔ مال کے خوردہ خرید و فروخت کا علاقہ ۳۲۵۰۰ مربع میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں مخصوص برانڈز کی مخصوص جگہیں ہیں مثلا Cartier، Dior، Jimmy Choo، Zegna، Chopard اور Dolce & Gabbana بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کروڑ پتی بنیاد کے پیش نظر شاید ہی یہ بات تعجب خیز ہے کہ یہ ملک لگژری برانڈز کے لیے ایک اچھے مرکز کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ جب تک یہ مال نہیں کھلا تھا یہ برانڈز لگژری ہوٹلوں کے چھوٹے بوتیکوں میں فروخت ہوتے تھے۔ ریٹیل کنسلٹنٹ ٹیکنوپاک کا اندازا ہے کہ بھارت میں کوئی ۱۸ لاکھ گھرانوں کی آمدنی ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ ہے جو اپنی آمدنی کا دسواں حصہ پرتعیش چیزوں کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔
۱۸ بلین ڈالر کی ممکنہ مارکیٹ اس کے علاوہ ہے جس کے متعلق یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ۲۰۱۲ء تک ۵۶ بلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے مالی بحران اس مارکیٹ کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ جب ۱۹۴۷ء میں بھارت آزاد ہوا تھا تو اس ملک نے سوشلسٹ روش کو گلے لگایا تھا جس میں زیادہ خرچ کرنے یعنی اسراف کے رویئے کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن یہ روش ۱۹۹۱ء میں معیشت کی آزادی کے ساتھ تبدیل ہو گئی۔ زرق برق کو اپنانے کی غیر ذمہ دارانہ روش نے بھارت کی سماجی تقسیم کو گہرا کر دیا ہے۔ دنیا میں جن چیزوں کے لیے بہت زیادہ اشتیاق پایا جاتا ہے وہ یہاں آسانی سے دستیاب ہیں مگر زندگی کی بنیادی ضرورت سے لوگوں کی اکثریت محروم بھی ہے۔ شاید امپوریو مال میں تعیش پسندی کا اظہار جس قدر ڈھٹائی سے دیکھنے میں آتا ہے اتنی کاملیت کے ساتھ کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتا۔
سریش گارگ جو ایک بھاری بھرکم تاجر ہے امپوریو میں خریداری کرتے ہوئے ایک نئے اور لذت پرست ہندوستان کی روح کی ترجمانی کر رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ ’’ہم اب تیسری دنیا کے ملک سے کہیں آگے جا چکے ہیں، لیکن ابھی ہم پہنچے ہی ہیں لہٰذا اب ہمیں اس اظہار کی ضرورت ہے کہ ہم اب کسی سے کم نہیں ہیں‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply