
امریکا،افریقا،وسطی ایشیااور بلکان ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں جانثار مریدپنسلوانیا میں مقیم ایک شخص سے ہدایات وصول کرتے ہیں کہ ان کو کیسے اعمال کرنے،کس طرح بولنا ہے اور زندگی کس طرح گزارنی ہے۔بہت سے قارئین کے لیے یہ بات ہضم کرنا شاید مشکل ہو کہ لوگ بھاری رقوم کا نذرانہ دے کر صرف نام نہاد رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کیوں اس شخص کے جانثار مرید بن جاتے ہیں۔ اس بات کو عقل قبول نہیں کرتی یا یہ کہہ لیں کے معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں جتنا لگتا ہے۔اس مثال کا مقصد آپ کی توجہ ایک ایسی مذہبی تحریک کی طرف دلوانا ہے، جس کا مرکز امریکا اور ترکی ہے۔
یہ ۲۰۰۵ء کی بات ہے،میں ڈیلاس میں اپنے گھر بیٹھی خبروں کے مختلف چینل دیکھ رہی تھی تو مجھے ایک چینل پر حیرت انگیز ویڈیو دیکھنے کو ملی۔’’گولن تحریک‘‘ کے پیروکار ہیوسٹن سے اپنے چارٹر اسکول، ثقافتی مراکز، بین المذاہب انجمنیں اور دیگر ذیلی تنظیمیں جو ان کے تحریکی ڈھانچے سے وابستہ ہیں، ان کی ترقی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کر رہے تھے۔ اس وقت میں اسکول میں زیر تعلیم تھی، ترک نژاد امریکی مسلمان نوجوان ہونے کی حیثیت سے مجھے تعجب ہواکہ ایک مسلمان تنظیم ایسی تحریک کیوں چلائے گی جس کا امریکا میں مقیم مسلمانوں سے کوئی خاص تعلق بھی نہ ہو۔ میں ڈیلاس کی مقامی اسلامک ایسوسی ایشن آف نارتھ ٹیکساس کی مسجد میں اتوار کے دن لگنے والے اسکول جایا کرتی تھی۔ میں نے کبھی وہاں گولن تحریک کی کسی ترک رکن کو درس وغیرہ میں شریک ہوتے نہیں دیکھا۔ تحریک کے ہیوسٹن میں ہونے والے اس اعلان نے امریکا کے مسلمانوں کو شک میں مبتلا کر دیا۔ عرب اور ایشیائی مسلمان وہاں اکثر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی ترک کو اپنی مسجدوں میں آتے نہیں دیکھا۔
گولن تحریک کے لوگوں کی مخصوص طبقہ میں اور الگ تھلگ رہ کر کام کرنے کی حکمت عملی، ان کے امریکی سیاستدانوں کے ساتھ مل کرپچاس ریاستوں میں بین المذاہب سرگرمیاں کرنے سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ امریکا کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کر کے اس کی نظر میں اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مہنگے ترین ہوٹلوں میں پر تعیش دعوتوں کا اہتمام، کانگریس کے ارکان اور اعلیٰ سرکاری افسران کے ساتھ ملاقاتیں کرنا گولن تحریک کے لوگوں کے معمول کا حصہ ہے۔ اسی لیے گولن تحریک کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’ہم ترک ہیں، روایتی مسلمان ہیں اور ہم ہی اس متبادل اسلام کے پیروکارہیں، جو آپ چاہتے ہیں‘‘ اور ’’ہم ہی امریکا کے وفادار دوست ہیں‘‘۔
اہم سوال یہ کہ امریکی عوام گولن تحریک کے لوگوں کو کتنا جانتے ہیں؟؟ گولن تحریک کے لوگ مسکرا کر ملتے ہیں،ان کی خواتین اسکارف لیتی ہیں، پانچ وقت کی نماز اپنے گھروں میں ادا کرتے ہیں، اپنے ثقافتی مراکز پر آنے والوں کی ترک کافی اور ترک کھانوں کے ساتھ ضیافت کرتے ہیں، بہت محنتی ہوتے ہیں اور پیشہ وارانہ امور کے ماہر ہوتے ہیں، پیشے سے اپنی تحریک کی نمائندگی کرتے ہیں، چاہے استاد ہوں یا منتظم یا پھر انجینئر اور ڈاکٹر، جہاں بھی ہوں ایک کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس طرح بظاہر یہ ایک مکمل اور خوبصورت تصویر سامنے آتی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں جتنا باہر سے نظرآتا ہے۔
بین الاقوامی وکیل رابرٹ ایمسٹرڈیم کے مطابق یہ تعلیمی بنیاد کی حامل تحریک سے بڑھ کر کچھ اور ہی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ جو قارئین اس بات پر حیران ہیں کہ ایک اسلامی تحریک کیوں امریکا کو اپنا مرکز بناتی ہے اور تعلیم کے شعبے کا انتخاب کر کے امریکی نظام میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ ’’گولن تحریک‘‘ دراصل امریکی حکومت کے تعاون سے چلنے والا ایک پروجیکٹ ہے۔ اس کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکڑوں، ہزاروں غیر ملکی اس تحریک سے وابستہ ہو کر امریکا کے ۱۲۰ سے زائد اسکولوں میں مصروف عمل ہیں۔ اب اچانک نہ صرف اس مافیا طرز تحریک سے پردہ اٹھ گیا ہے، بلکہ امریکاکا کردار بھی کھل کر سامنے آیا ہے، جس نے لاکھوں ڈالر اسلام کے اس جعلی برانڈ کو مضبوط کرنے کے لیے لگائے تھے۔اس بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی وجوہات ہیں۔
ایک امام جوعیسائیوں اور یہودیوں کا نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کرے اورپوری مسلم دنیا میں صرف اپنے آپ کو سچائی کا علمبردار سمجھتا ہو۔ لیکن یہ دعویٰ وہ کھلے عام نہیں کرتا، بلکہ امام اور اس کے پیروکار اپنے آپ کو یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ صرف اس لیے وابستہ کرتے ہیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ گولن کا نظریہ اسلام ہی بہترین انتخاب ہے جسے یہودی اور عیسائی اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر کسی بھی ابراہیمی عقیدہ رکھنے والے کے لیے پرکشش ہو سکتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا طریقہ ایک فرقے کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعدشروع کیا گیا، جب امریکا کو اسلام کے ایک ایسے ماڈل کی ضرورت تھی جسے وہ دنیا کے سامنے مثال بنا کر پیش کر کے کہہ سکے کہ یہی دراصل اسلام کا اصل چہرہ ہے۔ باوجود اس کے کہ گولن تحریک کے عیسائیوں اور یہودیوں سے بہترین تعلقات قائم ہو گئے لیکن امریکا اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا کیوں کہ یہ تحریک کبھی بھی امریکا میں موجود مسلمانوں کے مرکزی دھارے میں اپنی جگہ نہ بنا سکی۔
گولن تحریک نے اپنا سارا سرمایہ اور صلاحیتیں تعلیم کے شعبے پر صرف کیں۔یہ شعبہ کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جال میں پھنسا لیا جائے۔ یہاں آنے والے طلبہ میں سے بیشتر ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی راہنمائوں کے رشتے دار ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ طلبہ ہوتے ہیں جنہوں نے مستقبل میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہونا ہوتا ہے۔ اس لیے ان طلبہ پر کام کر کے انہیں اس مافیا طرز کی تحریک سے جوڑ لیا جاتا ہے۔ اور ان کی خفیہ وابستگی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ ان کی وابستگی کا امتحان تحریک کی سرگرمیوں کے لیے دیے جانے والے فنڈ سے کیا جاتا ہے۔لیکن یہ امتحان صرف رقم فراہم کرنے تک محدود نہیں۔پیروکاروں کے لیے لازم ہے کہ وہ احکامات پر بھی عمل کریں۔اس مافیا طرز کی تحریک کے کا م کا عملی طریقہ یہ ہے کہ تحریک کے راہنما گولن احکامات دیتے ہیں اور ان احکامات پر نچلی سطح تک عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
اس تحریک میں کام کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے کہ وہ پیروکار جو تحریک کے سربراہ کے نہایت قریب ہوتے ہیں یا تمام چیزوں سے با خبر ہوتے ہیں وہ احکامات لے کر تحریک کے اندرونی حلقے تک پہنچاتے ہیں،پھر ان فیصلوں اور احکامات پرعملدرآمد کے لیے ایک مخصوص وقت میں فنڈجمع کرنے کا ہدف دیا جاتا ہے۔ تحریک کے ارکان اپنے ہفتہ وار اجلاس کے ذریعے فنڈ جمع کر تے ہیں۔اس کے علاوہ پیروکاروں کو امریکا میں موجود مسلمانوں کی عام مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں،اسی طرح ایسی خواتین پر کام کیا جاتا ہے جو اسکارف نہ لیتی ہوں تاکہ وہ معاشرے میں آسانی سے گھل مل سکیں، ہر رکن آٹھ سے دس کاپیاں ’’زمان اخبار‘‘ کی لینے کا پابند ہوتا ہے، اس کے علاوہ بڑے بھائی اور بڑی بہن کا تقرر کیا جاتا ہے،جو نئے شامل ہونے والوں کو تحریک کا نظریہ بتاتے ہیں اور کام کا طریقہ کا ر سکھاتے ہیں اور اہم بات یہ کہ اپنے حلقے کے علاوہ کسی فرد سے شادی کرنے کی بہت زیادہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اسے اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا،اکثر کی تو اس بنیاد پر تحریک کی رکنیت بھی معطل کر دی جاتی ہے۔
اس خفیہ تحریک،جس کے بارے میں اور بھی بہت کچھ بیان کیا جا سکتا ہے، اس کا مقصد امریکا پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔گولن تحریک ایک عالمی سطح کی بین العقائد تحریک ہے،جو نورسی نظریہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مثبت سرگرمیوں کی طرف لوگوں کو کھینچتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کی فراہمی، مختلف طبقوں کے درمیان مذاکرے اور مرکزی و مقامی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا تاکہ امریکی نمائندگان کو یقین دلایا جاسکے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے مصروف عمل ہیں۔
دراصل امریکی عوام گولن تحریک کے بارے میں یہ نہیں جانتے کہ ترک حکومت اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، تحریک کے لوگ عدالتی نظام میں رکاوٹ ڈالنے، سیاستدانوں کے فون ریکارڈ کرنے، سرکاری نوکریوں کے لیے ہونے والے امتحانات کے جوابات پہلے سے فراہم کر دینے (تاکہ اپنے لوگوں کو سرکاری عہدوں پر بٹھایا جاسکے) جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اور اب ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کو تو ان لوگوں نے ترکی میں باقاعدہ فوجی بغاوت ہی کردی۔ گولن کے دہشت گردوں نے نہ صرف نہتے عوام پر گولیاں برسائیں، بلکہ پارلیمنٹ کی عمارت پر بم بھی برسائے، قومی خفیہ ایجنسی کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا، خصوصی فوج کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا، اور سب سے اہم یہ کہ انہوں نے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے ہمارے راہنما ’’صدر ایردوان‘‘ کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس وقت ان غداروں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ ترکی کی مسلح افواج کو اس مافیا طرز کی تحریک سے اب بھی خطرہ برقرار ہے۔ جیسا کہ یہ لوگ اپنی شناخت چھپانے کے ماہر ہیں، اس لیے حکومت مافیا کے کارندوں کو گرفتار کرنے کے لیے بھرپور آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔جمعہ کو ترک عوام پر گولن تحریک کایہ نفسیاتی حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی طریقے سے حکومت حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ اپنی اس فاش غلطی کے بعد ان کو اندازہ ہوا کے ترک عوام کی اکثریت فوجی بغاوت کے خلاف ہے۔
عوامی اتحاد کے شاندار مظاہرے کے بعد فوج میں موجود گولن کی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں کو اندازہ ہوا کے عوام کس قدر ان کے خلاف ہے۔ جمہوریت کی اس جنگ میں ہم نے ۲۹۰ لوگوں کو کھو دیا اور ۱۵۰۰ لوگ زخمی ہوئے۔ اس دہشت گرد تنظیم کے اس عمل سے اندازہ ہوا کہ اب ان کے پاس کھونے کو مزید کچھ باقی نہیں۔ترک حکومت اور خفیہ ادارے اس کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔فوج،عدلیہ اور پولیس میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب باقی نہیں رہیں گی۔
اب وقت آگیا ہے کے امریکا اس معاملے پر توجہ دے۔ترک حکومت اس تحریک کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے،ترکی میں گولن پر مقدمہ چلنے سے پہلے اگر امریکا اسے ترک حکومت کے حوالے کر دیتا ہے تو یہ امریکی اور ترک عوام دونوں کے مفاد میں ہوگا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“A mafia-cult exposed in America”.(Daily “Sabah” Istanbul. July 19, 2016)
Leave a Reply