پلٹن میدان میں پاکستانی فوج کی پسپائی و خود سپردگی اور سقوطِ ڈھاکہ کے چند مہینوں کے بعد میں نے اہم سیاستداں چوہدری خلیق الزماں سے اُن کے گھر پر ملاقات کی۔ چوہدری صاحب کے پاس میرے جانے کی وجہ یہ تھی کہ میرے مدیر یوم پاکستان کے حوالے سے اپنے میگزین کی خصوصی شمارے کے لیے اہم شخصیات سے انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔ یہ ملاقات یاد کرکے آج بھی میں اچنبھے میں پڑجاتا ہوں جب میں چوہدری صاحب کے الفاظ کے معنی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔
دیرینہ سیاستداں بیمار تھے اور صاحب فراش تھے لیکن انہوں نے اپنے ساتھی صحافی حسن عسکری فاطمی کو اور خود مجھے بھی خوش آمدید کہا۔ کچھ رسمی گفتگو کے بعد میں نے یومِ پاکستان کے شمارے کے لیے انٹرویو کی درخواست کی۔ ان کا جواب چونکا دینے والا تھا ’’پاکستان؟‘‘ کہاں ہے میرا پاکستان؟ چوہدری صاحب نے اچانک فرمایا ’’آپ لوگ تو میرے پاکستان کو تباہ کرچکے ہیں۔ اب کوئی پاکستان نہیں ہے۔‘‘ میں نے چوہدری صاحب کے ساتھ کوئی بحث نہیں کی صرف اس لیے نہیں کہ مجھے ان سے انٹرویو لینا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ میں ان کے جذبات و احساسات سے متفق تھا۔ ملک دو لخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان اب بنگلا دیش ہے۔ لہٰذا ان کے موقف پر کوئی سوال کیے بغیر میں نے دوبارہ چوہدری صاحب سے جناح صاحب سے متعلق انٹرویو کے لیے کہا ۔ مجھے معلوم تھا کہ اب وہ قائداعظم کے خیالات سے کچھ اختلاف بھی رکھتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ ان کے تبصرے قبل کے تبصروں سے زیادہ حیران کن ہوں گے۔ وہ بستر پر بیٹھ گئے او ر کہا ’’جناح! انہیں پاکستان سے کیا لینا دینا تھا؟‘‘ اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے چوہدری صاح نے مزید فرمایا ’’پوری قوم جذباتی نعروں میں بہہ گئی تھی جو اُس وقت کے نوجوانوں نے پاکستان سے متعلق اختراع کیے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جناح نے آخری لمحے تک پاکستان کے خیال کی مخالفت کی تھی اور باکل آخر میں وہ اس کے ساتھ ہوئے۔‘‘ پھر چوہدری صاحب قدرے پرسکون انداز میں اپنی پشت کو سہارا دیتے ہوئے بولے کہ ’’اب یہ واضح ہواکہ پاکستان کی مخالفت کا اُن کا موقف صحیح تھا۔‘‘ دوسروں کی طرح چوہدری صاحب بھی ۱۹۷۱ء کے سقوطِ سے بہت زیادہ پریشان تھے۔ زخم تازہ تھا اور قوم کی توہین نے ہر ایک کو بے چین کیے رکھا تھا۔ جو لوگ تحریکِ پاکستان کی اگلی صفوں میں تھے انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان ایک دن ٹوٹ جائے گا ۔ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ بنگال کے لوگ جو تحریک پاکستان کے ستون تھے وطنِ عزیز کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے جو ان کے دیرینہ آرزوئوں کی تکمیل تھا۔ اس سیاق میں چوہدری صاحب بعض سیاستدانوں کے رویے پر ناراض تھے اور اُس انداز پر ناخوش تھے جو نام نہاد مہاجرو ں کے ساتھ سلوک میں روا رکھا گیا‘ ان کا خیال تھاکہ تحریک پاکستان کے علم برداروں کو نظرانداز کیا گیا۔ اُن کی اہلیہ بیگم زاہدہ بھی تھوڑا شریک ہوئیں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ اپنے شوہر کے خیالات سے اتفاق کرتی ہیں۔ قصہ مختصر کہ چوہدری صاحب نے ہمیں انٹرویو نہیں دیا او رہمارے مدیر اس بات کو یومِ پاکستان شمارے میں شائع کرنا نہیں چاہتے تھے جو انہوں نے جناح صاحب سے متعلق کہی تھی۔ اس کے باوجود فاطمی اور میں اکثر اس ملاقات کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے۔ حال ہی میں میرا سامنا کچھ ایسے واقعات سے ہوا جو اسی طرح ہوشربا تھے۔ ایک اخباری نامہ نگاروں کو ایک فوجی جنرل کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ تھی۔ دوسرا بنگلا دیش کی ایک صحافی کا دورہ تھا۔ جنرل نے اپنی عجیب و غریب منطق کا سہارا لیتے ہوئے بیان کیا کہ تحریکِ پاکستان بنگلا دیش بنانے کے واسطے بنگالیوں کی جانب سے ایک سازش تھی۔ اس نے اس سازش میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو بھی شامل کرلیا ہے۔ اس کے مطابق مسلم لیگ بنگالیوں نے بنائی اور قراردادِ پاکستان ایک بنگالی رہنما مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ میں ایک فوجی افسر کی طرف سے اس فلسفے کی تشہیر کے سر پیر سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اپنی جانب سے بنگلا دیشی خاتون صحافی یہ جاننا چاہتی تھی کہ ہم ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے واقعا ت کو کس انداز سے لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ جن لوگوں کو تفصیلات کا علم ہے وہ ان واقعات سے کافی پریشان اور دُکھی معلوم ہوتے ہیں میں نے وضاحت کی کہ اس کی ایک ذاتی وجہ یہ ہے کہ مجھ سمیت دوسرے صحافیوں نے حکومتی دبائو کے آگے سر تسلیم ختم کردیا ہے اور حقائق کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا ہے۔ اُس نے سوال کیا کہ ’’کیا آپ اسے تحریک آزادی تسلیم کرتے ہیں؟‘‘ یہ نقطہ نظر بہت افسوسناک تھا کیونکہ میں نے کبھی اس شورش کو تحریک آزادی خیال نہیں کیا تھا۔ ہمارا یہ خیال تھاکہ لوگ حکمراں ٹولے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اس لیے کہ اکثریتی جماعت کو اس کا قانونی حق نہیں دیا گیاتھا۔ لیکن بنگلا دیشی صحافی کا نقطۂ نظر مختلف تھا۔ اس سے بھی زیادہ اچھنبے کی بات دفتر کارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا بیان تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’بنگلا دیشی شہری مطیع الرحمن کا جسدِ خاکی اظہارِ خیر سگالی کے طور پر بنگلا دیش کے حوالے کی جائے گی۔‘‘ واضح رہے کہ رحمن پاکستانی فضائیہ کا جہاز اغواء کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ہوا باز راشد منہاس نے اس کی مزاحمت کی اور انہوں نے بھی موت کو گلے لگایا تھا۔ بنگلا دیشی صحافی کے مطابق رحمن کو بنگلا دیش کا ہیرو قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے اس کے جسد خاکی کا مطالبہ کیا ہے۔ رحمن کی نعش کی بنگلا دیش کو حوالگی اظہار نیک نیتی ہوسکتی ہے لیکن ایک پاکستانی افسر کی جانب سے اُسے ایک بنگلا دیشی شہری قرار دینا میرے فہم سے بالاتر ہے۔ بہرحال بنگلا دیش کا اس وقت کوئی وجود نہیں تھا جس وقت کہ رحمن پیدا ہوا‘ فضائیہ کے جہاز کو اغواء کرنے کی کوشس کی۔ بدمزگی کے یہ نکات ثابت کرتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء کے قضیے کو بھلایا نہیں جاسکا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘۔ شمارہ۔ مئی ۲۰۰۶ء)
I totally agree with his views. Ch. Khaliquzzaman Shb played a key role in Pak Movement however, I strongly feel that his contributions are never acknowledged in Pak. only b/c He was not a ‘Yes Man’ to Jinnah Shb & had different views. In our country individuals are expected to be loyal to party leaders & not the country…hence, Ch. Sahib’s contributions & sincerity is ignored & other leaders who played a vry small role in the freedom movement are given more importance… just b/c they were ‘yes man’ … Sad.