
میں نے ۳۳ سال تک ایران کے دارالحکومت تہران میں امریکی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔ اسی سفارت خانے میں یرغمال بنائے جانے والے ۴۵۲؍امریکیوں کو جب چھوڑا گیا اور وہ وطن روانہ ہوئے، تب میں الجزائر کے دارالحکومت الجزیرہ کے ایئر پورٹ پر تھا۔ اس کے بعد امریکی سفارت خانے کی عمارت کو پاس دارانِ انقلاب کے تربیتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ اقدام اس بات کا مظہر تھا کہ اب امریکی شہریت رکھنے والے افراد اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔ میں نے کئی بار تہران پہنچ کر امریکی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار مجھے داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ میں اس عمارت کو ایک بار اندر سے دیکھنا چاہتا تھا۔
نومبر میں جب ایران اور چھ طاقتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا اور امریکا و ایران کے تعلقات کچھ بہتر ہوئے تو مجھے تہران میں امریکی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہ عمارت اب دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے علامتی حیثیت کی حامل ہے۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں امریکی سفارت خانے کی عمارت میں سرکاری مہمان کی حیثیت سے گیا کیونکہ اب امریکیوں کے لیے یہ عمارت ممنوع نہیں رہی۔
یہ دو منزلہ عمارت دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا میں بنائے جانے والے ہائی اسکولوں کی عمارت سے مشابہ ہے۔ سفارت کار اس عمارت کو پیار سے ہینڈرسن ہائی کہتے ہیں۔ لوئے ہینڈرسن ایران میں امریکا کے پہلے سفیر تھے، جنہوں نے ۱۹۵۳ء میں سی آئی اے کے تحت برپا کی جانے والی اُس بغاوت کی منصوبہ بندی کی تھی، جس کے ذریعے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کا تختہ الٹ کر رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کو بحال کیا گیا۔ ایران میں سی آئی اے کی اس مداخلت کے جواب ہی میں پچیس سال بعد ایران کے طلبہ نے انقلاب برپا کیا اور رضا شاہ پہلوی کو بچانے کی امریکی کوششوں کا راستہ روکا۔ ہینڈرسن ہائی میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ پرانا شاندار قالین اب بھی ہے، گوکہ بہت گندا ہے۔ دیواروں پر ایرانی حکومت نے ویت نام، عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے ’’کارناموں‘‘ پر مبنی تصاویر بنائی ہیں۔ میرے گائڈ رضا محمد شوگی نے بتایا کہ یہ سب کچھ آزادی اور بنیادی حقوق کے نام پر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے امریکا کے خلاف بولنا شروع کیا کہ نائن الیون کو امریکا نے صرف اس لیے اسٹیج کیا کہ اسے افغانستان پر حملے کے لیے کوئی بہانہ درکار تھا اور یہ امریکی ٹی وی شو، ماہرینِ سیاسیات اور ماہرینِ نفسیات مل کر تیار کرتے ہیں تاکہ بیرونی ثقافتوں کو برباد کیا جاسکے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ امریکی تصورات اور نظریات سے واقفیت انسان کو کمزور کردیتی ہے۔
جو کچھ امریکی سفارت خانے کی عمارت میں ایرانی گائڈ نے مجھ سے کہا، اس سے قطعِ نظر ایران میں مجموعی طور پر اب امریکا مخالف موڈ نہیں پایا جاتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ گزشتہ برس کے انتخابات میں حسن روحانی کو منتخب کرکے عوام نے سخت گیر فکر اور رویہ رکھنے والوں کو مسترد کردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آٹھ برس کے دوران ایران کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس عرصے میں حکومت کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ ایسے میں ایرانی عوام کے پاس تبدیلی لائے بغیر چارہ نہ تھا۔ بین الاقوامی پابندیوں نے بھی ایران کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔ نومبر میں ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے نے ایران میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ جہاں کل تک امریکا کو شیطانِ بزرگ کہا جاتا تھا، وہاں اب لوگ بہتر تعلقات کی بات کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
ایران میں توقعات بھی ہیں اور کشیدگی بھی۔ خواتین فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش کرنے والی آران آرٹ گیلری کی بانی اور مالک نازلہ نوبشری کا کہنا ہے کہ ’’ایران میں ایک بار پھر سورج چمک رہا ہے۔ ذہین افراد تبدیلی لارہے ہیں۔ دنیا اب ہم سے مختلف انداز سے بات کر رہی ہے، ہم سے روا رکھا جانے والا سلوک بھی اب مختلف ہے مگر خیر، ہم بھی دنیا سے مختلف انداز ہی سے بات کر رہے ہیں‘‘۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کہتے ہیں: ’’ایران کو اپنی بات کہنے اور اپنے اعتماد کو عمدگی سے بحال کرنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے‘‘۔
ایران اور چھ طاقتوں کے درمیان جوہری معاملات پر معاہدہ قلیل المیعاد نوعیت کا ہے۔ آئندہ چھ ماہ تک ایران اور ان چھ طاقتوں کے سفارت کار مل کر ایسا طریق کار وضع کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے معاہدے کو طویل المیعاد بنانے میں مدد ملے۔ ایران نے دس برس میں جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت بہت حد تک پروان چڑھالی ہے۔ اب عالمی برادری یہ چاہتی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے۔ اس کے جواب میں ایران چاہتا ہے کہ اسے سیاسی اور معاشی اعتبار سے ابھرنے کا موقع دیا جائے، پابندیاں مکمل طور پر ہٹالی جائیں اور کسی بھی معاملے میں کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں کھڑی نہ کی جائے۔
ایران میں اسی ماہ انقلاب کی ۳۵ ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ کئی بار غلط ابتدا کے ذریعے آپس میں الجھنے کے بعد ایران اور امریکا اب ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔ انہیں ایک نئی ابتدا کرنی ہے۔
تہران میں امریکی سفارت خانے کے دورے کے بعد میں نے ۱۹۷۹ء میں سفارت خانے کی عمارت پر قبضہ کرنے والے اسٹوڈنٹ لیڈر میں سے ایک ابراہیم اصغر زادے سے ملاقات کی۔ انہوں نے بعد میں پارلیمان کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور تہران کی سٹی کونسل کے رکن بھی رہے۔ ابراہیم اصغر زادے نے کہا: ’’ہم نے جب امریکیوں کو یرغمال بنایا، تب خیال تھا کہ یہ معاملہ تین سے پانچ دن چلے گا۔ مگر پھر معاملہ طول پکڑتا گیا اور ہمارے بس سے باہر ہوگیا۔ یہ ہمارے لیے بڑا زخم تھا۔ اب ہم چاہیں گے کہ زخم مندمل ہوں۔ میں چاہوں گا کہ دونوں ممالک قریب آئیں تاکہ ماضی کی تمام رنجشوں کو بھول کر نئی ابتدا کی جائے۔
ایران اس وقت بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔ امریکا کے لیے سوچ اگر تبدیل ہوئی ہے تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی افواج نے ایران کے دو حریفوں (افغانستان اور عراق) کو بہت حد تک غیر مؤثر اور عضوِ معطل کردیا ہے۔ دو مضبوط پڑوسیوں کو کمزور پاکر ایرانیوں کا اعتماد بحال ہونا فطری امر ہے۔ یہ سب کچھ امریکا کی بدولت ممکن ہوسکا ہے، اس لیے اب ایران میں امریکا کو زیادہ ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
افغانستان اور عراق میں القاعدہ اور سَلَفیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ایران کے لیے انتہائی خطرناک اور پریشانی کا باعث ہے۔ ایسے میں ایرانی امریکا کو فطری اتحادی کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ سَلَفی پورے مشرق وسطیٰ میں شیعہ اثرات کے خلاف ہیں۔ ابراہیم اصغر زادے القاعدہ کو اسلامی دنیا کے لیے سرطان زدہ پھوڑا قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں ایران اور امریکا انتہا پسندی سے لڑنے کے معاملے میں ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔
ایران کی مذہبی اشرافیہ بھی حالات کی بدلتی ہوئی نوعیت کے پیش نظر تبدیلی چاہتی ہے۔ ایران کے شہر قم سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوا محسن غراویاں نے ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں محمود احمدی نژاد کی حمایت کی تھی مگر اب وہ کہتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ وہ تو اس بات کے حق میں بھی ہیں کہ امریکی صدر براک اوباما کو ایران کے دورے کی دعوت دی جائے۔ انہوں نے ایران اور چھ طاقتوں کے درمیان طے پانے والے قلیل المیعاد جوہری معاہدے کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران ہمیشہ امریکا سے مخاصمت کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ آج بھی تہران میں جمعہ کی نماز میں امریکا مردہ باد کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ اس نعرے کی طویل تاریخ ہے۔ ایرانی عوام کے فکر اور رویے میں تبدیلی کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکا معاملات درست کرنے کی راہ پر کہاں تک جاتا ہے۔
حسن روحانی کو ان کے حامیوں نے کلید ساز کی عرفیت دی تھی کیونکہ عوام کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ محمود احمدی نژاد کے آٹھ سالہ دور کے بعد اب حالات میں مثبت تبدیلی کی کلید، اگر ہے تو حسن روحانی کے پاس۔
حسن روحانی نے ابھی صدر کی حیثیت سے صرف چھ ماہ گزارے ہیں مگر اپنے مخالفین کو بھی شدید حیرت میں ڈالا ہے۔ انہوں نے معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ملک کے بہترین ذہن جمع کیے ہیں۔ نوجوانوں میں مقبولیت کا گراف بلند کرنے کے لیے حسن روحانی نے سفید پگڑی ایک طرف رکھ کر بیس بال کیپ بھی پہنی ہے اور تہران کے نواح میں البرز کی پہاڑیوں پر وقت گزارنے کو بھی ترجیح دی ہے۔ حسن روحانی نے ٹوئٹر پر خواتین سے رابطہ رکھا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ خواتین کی عصمت صرف ان کے لباس سے متعین نہیں ہوتی۔ ۲۰۱۱ء سے اب تک ایرانی کرنسی کی قدر میں ۶۰ فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ حسن روحانی اور ان کے رفقا نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایرانی کرنسی ایک بار پھر مستحکم ہو۔ یہ سفر شروع ہوچکا ہے۔ افراطِ زر کی شرح ۴۰ فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو انتہائی خطرناک تھی۔ اب یہ نیچے آ رہی ہے۔ اس حوالے سے اکنامک منیجرز عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سیاسی اور سفارتی سطح پر حسن روحانی کی کارکردگی اب تک اطمینان بخش رہی ہے۔ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے تعلقات بہتر رکھے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف تو اعتدال پسند محمد خاتمی کی طرح بالکل پسپائی اختیار کرنے والا انداز اپنانے سے گریز کیا ہے اور دوسری طرف وہ محمود احمدی نژاد کی طرح دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کی پالیسی کو بھی گلے نہیں لگا رہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر دائیں بازو ہی کا راستہ اپنایا ہے مگر غیر معمولی توازن کے ساتھ۔ وہ ایران کی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں، جو امریکا دیکھنا چاہتا ہے۔ بالخصوص شخصی آزادی اور سینسرشپ کے حوالے سے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کی پالیسی یہ رہی ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل کو پیش نہ کیا جائے اور دنیا بھر کی باتیں بیان کی جائیں۔ حسن روحانی نے اس بات پر سرکاری ٹی وی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ چین میں پیدا ہونے والے پانڈا کی تو کوریج کرتا ہے مگر تنخواہ یا اجرت سے محروم محنت کشوں کے احتجاج کی خبر نشر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔
حسن روحانی نے حال ہی میں ’’ٹوئٹر‘‘ کے شریک بانی جیک ڈورسے کے چند سوالوں کے جواب دیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایران میں لوگ اب اطلاعات تک رسائی کے حق سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں مطلوبہ معلومات تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے اب تک چند ایک پابندیاں ہیں۔ لوگ ان میڈیا پر سرکاری سرورز کو بائی پاس کرکے نہیں پہنچ سکتے۔
بہت سے شعبے اور معاملے ایسے ہیں جن پر حسن روحانی کا اب تک کوئی کنٹرول نہیں۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ پر شدت پسندوں اور سخت گیر رویہ رکھنے والوں کا کنٹرول ہے۔ سیاسی اعتبار سے مستحکم اور اپنی بات منوانے والی فورس پاس دارانِ انقلاب پر بھی حسن روحانی کا کچھ زیادہ اختیار نہیں۔ ۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دو امیدوار، جو حسن روحانی کے دوست ہیں، اب تک گھر میں نظر بند ہیں۔
ایران میں بہت سے امور اب تک طے نہیں ہوسکے ہیں۔ ان میں سیاسی شناخت کا معاملہ بھی شامل ہے۔ محمد خاتمی کے دور میں توقعات پریشان کن حد تک زیادہ تھیں۔ ’’اصلاح پسند‘‘ کہتے ہیں کہ ایران کو سیاست کے حوالے سے اسلامی شناخت پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے اور ری پبلکن طریقِ زندگی اپنانا چاہیے۔ دوسری طرف ’’شدت پسندوں‘‘ کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں انقلاب کا نظریہ ہی دَم توڑ دے گا۔ حسن روحانی کے ہم نوا ’’حقیقت پسند‘‘ کہتے ہیں کہ اس معاملے کو بہتر طور پر طے کرنے کے لیے تحمل سے کام لینا چاہیے اور بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔
تہران یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر نازلہ ہادیاں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ایران میں سب کچھ درست ہوچکا ہے اور اب امریکا کو آسانی سے قبول کرلیا جائے گا۔ شدت پسند عناصر حسن روحانی کو کمزور کرنے کے لیے مناسب لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اکتوبر میں ایک رات اچانک تہران کی سڑکوں پر بڑے بڑے بل بورڈ دکھائی دیے، جن میں امریکیوں کو سوٹ میں ملبوس مذاکرات کرتے دکھایا گیا تھا جبکہ میز کے نیچے تھکا ہارا امریکی فوجی بیٹھا تھا جس کی سب مشین گن کا رخ ایرانی مذاکرات کار کی طرف تھا۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ شدت پسندوں کو مذاکرات کے حوالے سے امریکا کی نیت کا اعتبار نہیں۔
تہران سٹی کونسل میں حسن روحانی کے حامیوں نے ان بل بورڈز کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ محمود احمدی نژاد کے دور کا ایک بڑا بل بورڈ اب بھی تہران میں لگا ہوا ہے۔ اس دس منزلہ بل بورڈ میں امریکی صدر اوباما کو یزید کے ساتھی شِمر سے یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ ’’ہمارے ساتھ رہو تو محفوظ رہوگے‘‘۔
ایران کے ایک انتہائی سخت گیر اخبار ’’کیہان‘‘ کے ایڈیٹر حسین شریعت مداری کہتے ہیں کہ ’’امریکا اب بھی ایران کے تمام مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ شریعت مداری نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ایران کے حکمران رضا شاہ پہلوی کی مخالفت کی تھی، جس کے نتیجے میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ انقلاب کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ہی جیل سے باہر آپائے۔ حسین شریعت مداری کہتے ہیں کہ امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے پاس مجموعی طور پر ۱۷ ہزار جوہری ہتھیار ہیں۔ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد بھی ۳۰۰ سے کم نہیں۔ اب امریکا کو اس بات کا غم ہے کہ ایک اور جوہری ہتھیار نہ بنالیا جائے۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں؟ وہ لوگ جوہری ہتھیار سے نہیں بلکہ کسی اور بات سے خوفزدہ ہیں۔ اُنہیں یہ خوف ہے کہ ایران کہیں اسلامی دُنیا کے لیے قابلِ تقلید نمونہ نہ بن جائے۔
ایران نے چھ طاقتوں سے جو قلیل المیعاد معاہدہ کیا ہے اس کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام کو ایک حد تک روک دے گا اور چھ ماہ تک یومیہ بنیاد پر معائنے کی اجازت دے گا۔ اس کے عوض ایران کو پابندیوں میں نرمی کا تحفہ ملے گا، جو کم و بیش سات ارب ڈالر کے مساوی ہوگا۔ دوسری طرف امریکا میں کانگریس کے چند ارکان اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کردی جائیں اور اگر اسرائیل ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف کارروائی کرے تو امریکی افواج اُس کا ساتھ دیں۔ یہ پابندیاں چھ ماہ تک نافذ نہیں ہوسکیں گی۔ ۵۹؍امریکی قانون ساز دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران پر مزید دباؤ ڈالنے سے سفارت کاری میں امریکی فتح کے امکانات واضح ہوجائیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کہتے ہیں کہ امریکی قانون ساز جو کچھ سوچ رہے ہیں، وہ کسی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کرسکتا۔ اگر ہم نے بھی اِنہی خطوط پر سوچنا شروع کردیا تو معاملات بگڑ جائیں گے اور کچھ بھی حاصل نہ ہو پائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جنوری کے وسط میں ایران کی ۲۹۰ رکنی پارلیمان (مجلس) کے ایک تہائی ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی اس سطح تک لے جانی چاہیے، جہاں یہ جوہری ہتھیار کی تیاری میں استعمال ہونے کے قابل ہوسکے۔
امریکی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ ایران سے تعلقات بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آیا ہے، جو شدت پسندوں کے ہاتھوں ضائع بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ۱۲ جنوری کو ایک تقریر میں کہا کہ ایران سے معاملات درست کرنے کا جو موقع ملا ہے اس سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ امن کے دشمن اس موقع کو تباہ کردیں۔ سفارت کاری کو ایک بھرپور موقع دیا جانا چاہیے۔
تہران میں قیام کے آخری دن میں زہرا اشراقی سے ملنے گیا، جو حقوقِ نسواں کی پرجوش علم بردار ہیں۔ وہ آیت اللہ خمینی کی پوتی ہیں۔ ان کے بہنوئی صدر خاتمی ہیں۔ زہرا کے شوہر ایرانی پارلیمان کے ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں۔ آیت اللہ خمینی نے تہران میں امریکی سفارت خانے کے محاصرے اور اس میں امریکیوں کو یرغمال بنانے کی اجازت دی تھی مگر ان کی اولاد اصلاح پسند ہے اور معاملات کو نرمی سے درست کرنا چاہتی ہے۔ خمینی کے پندرہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اصلاح پسند ہیں اور اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں۔ زہرا اشراقی کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے کسی لباس کو لازم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خمینی نے خواتین کے سیاہ لباس کو انقلاب کا پرچم قرار دے دیا تھا۔ زہرا کو اس بات کا بھی شکوہ ہے کہ بارہ رکنی گارجین کونسل نے ۲۰۰۴ء میں اسے اور اس کے شوہر کو پارلیمان کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا۔
زہرا اشراقی کہتی ہیں کہ ایران نے جو قلیل المیعاد جوہری معاہدہ کیا ہے اُسی سے یہ بھی طے ہوگا کہ ایک عشرے کے دوران ایران میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی کیونکہ اِسی سال ایران میں پارلیمانی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی قوتوں سے تعلقات پارلیمانی انتخابات پر غیرمعمولی حد تک اثر انداز ہوں گے۔ اس وقت سب سے بڑا معاملہ خارجہ پالیسی کا ہے۔ ایرانی معاشرے میں تبدیلیوں اور شخصی آزادی سے متعلق معاملات کا نمبر بعد میں آئے گا۔ زہرا کہتی ہیں کہ جوہری معاہدہ اگر دیرپا ثابت ہوا، مغرب سے تعلقات بہتر ہوئے اور کشیدگی ختم ہوئی تو مغرب سے بہت سے سیاح ایران کا رخ کریں گے۔ اس کے نتیجے میں معاشی امکانات کی شمع روشن ہوگی اور ایران میں بہت سی تبدیلیاں خود بخود رونما ہونے لگیں گی۔ زہرا اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اب ایران کو مغرب سے مخاصمت مول لینے کے بجائے مل کر چلنا چاہیے۔ یہی ایران کے لیے زیادہ سودمند ہوگا۔
(“A new beginning in Tehran”. “Time” Mag.Jan. 27, 2014)
Leave a Reply