
نئے شہنشاہ نارو ہیٹو کے دور میں جاپان کو خواہ کچھ ملے، ایک بات تو طے ہے کہ جاپانیوں کی واضح اکثریت شاہی خاندان کی حامی ہے اور سُورج مکھی تخت جاپانیوں کے لیے قومی وحدت کی ایک تابندہ علامت ہے۔ جاپانی شاہی خاندان کی حقیقی آزمائش یہ ہوگی کہ وہ جاپانی ریاست اور عوام کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری میں کیا کرتے ہیں۔ جاپانی شہنشاہ اور اُن کی ملکہ عالمی برادری میں چین کے سفیر کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دینے کے اہل ہیں مگر اِس سے بڑھ کر انہیں درون خانہ بہت کچھ درست کرنا ہوگا۔ اور یہی اُن کی صلاحیتوں کی حقیقی آزمائش ہوگی۔
برطانیہ، اسپین اور ڈنمارک کی بادشاہت کی طرح جاپان کی شہنشاہیت بھی آئینی اور علامتی نوعیت کی ہے یعنی اُسے سیاسی قوت حاصل نہیں۔ بہر کیف، بیرونی تعلقات میں جب معاملات بگڑنے لگیں تو یہ نام نہاد آئینی بادشاہ یا شہنشاہ اپنا کردار عمدگی سے ادا کرسکتے ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب ملک کو کسی ایسے ملک سے تعلقات درست کرنا ہوں جہاں آئینی یا حقیقی بادشاہت ہو۔ جاپانی شہنشاہ اور ان کی ملکہ ان تمام ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پر متوجہ ہوسکتے ہیں جن سے جاپان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا وجود اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب اور برونائی سے جاپان کے خصوصی معاشی تعلقات ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ان دونوں ممالک سے جاپان کو ڈیل کرنے میں الجھن کا سامنا رہتا ہے مگر جب بادشاہوں کی سطح پر بات ہو تو معاملات درست رہتے ہیں۔ ان دونوں ممالک سے تعلقات بہتر بنائے رکھنے میں شہنشاہ نارو ہیٹو اور اُن کی ملکہ انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بلجیم اور دی نیدر لینڈز (ہالینڈ) سے بھی جاپان کے تعلقات اچھے رہے ہیں۔ ان دونوں یورپی ممالک میں بھی نام نہاد یا علامتی نوعیت کی بادشاہت ہے۔ جاپانی شاہی خاندان اِن سے تعلقات بہتر بنائے رکھنے میں غیر معمولی اثرات کا حامل رہا ہے۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں بادشاہت ہے وہاں تخت نشینی اور تاج پوشی کی تقریب انتہائی پروقار اور رنگا رنگ ہوا کرتی ہے۔ جاپان کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو نارو ہیٹو کی تاج پوشی ہے۔ اس تقریب میں ۲۰۰ سے زائد ممالک کے مندوبین شریک ہوں گے۔ ٹوکیو میں منعقد کی جانے والی یہ تقریب اہمیت اور گلیمر دونوں حوالوں سے غیر معمولی نوعیت کی ہوگی۔ نئے شہنشاہ اور ان کی ملکہ کو مختلف معاملات میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک طرف تو انہیں قومی وحدت کی سب سے تابندہ علامت کے طور پر سامنے رہنا ہے اور دوسری طرف عالمی برادری میں جاکر جاپان کے لیے کسی بھی نوع کی مشکلات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی روکنا ہے۔
ملکہ ماساکو نے آکسفرڈ اور ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ نارو ہیٹو سے شادی سے قبل وہ کیریئر ڈپلومیٹ تھیں۔ اُن کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں۔ ان کی کارکردگی اب تک بہت شاندار رہی ہے۔ شہنشاہ نارو ہیٹو بھی ہارورڈ میں تعلیم پاچکے ہیں اور وہاں گزارے ہوئے دو برس اُن کے نزدیک زندگی کا بہترین حصہ رہے۔ شہنشاہ نارو ہیٹو اور ملکہ ماساکو اب جاپان کی سوفٹ پاور ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ ڈیوک یا ڈچیز آف کیمبرج یا اسپین کے شاہی جوڑے کی مانند غیر معمولی گلیمر اور اثرات کے حامل بھلے ہی نہ ہوں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُن کی کارکردگی سے جاپان کو عالمی برادری میں اپنی ساکھ مزید بہتر بنانے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ ان کے دم سے عالمی اسٹیج پر جاپان کو مزید گلیمر ملے گا۔
شہنشاہ نارو ہیٹو اور ملکہ ماساکو کو اندرونی محاذ پر تین بڑے مسائل کا سامنا رہے گا۔ پہلا مسئلہ تو جانشین کا ہے۔ اُن کی ایک ہی اولاد ہے اور وہ ہے ۱۷ سالہ شہزادی آئکو۔ وہ آئین کی رُو سے تخت نشین نہیں ہوسکتی۔ تخت صرف مرد کے لیے ہے۔ اگر شہزادی آئکو کی تاج پوشی ممکن بنانی ہے تو آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شادی کے بعد وہ شہزادی کے ٹائٹل سے بھی محروم ہوجائیں گی۔ نارو ہیٹو کے بھائی کا ۱۲ سالہ بیٹا ہسا ہیٹو اگلا شہنشاہ ہوسکتا ہے۔ جاپان کا قانون صنفی مساوات کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور مردوں کی طرح عورتیں بھی اچھی طرح تعلیم یافتہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہنشاہ نارو ہیٹو اپنی اہلیہ اور بیٹی دونوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اُن کا بے حد خیال رکھتے ہیں مگر یہ حقیقت شاہی خاندان میں پائے جانے والے صنفی امتیاز میں دھندلا سی جاتی ہے۔
شہنشاہ نارو ہیٹو اور ملکہ ماساکو کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ دربار ہے۔ شاہی اطوار کا معاملہ اِس قدر ٹیڑھا ہے کہ ملکہ ماساکو واضح ذہنی دباؤ کی شکار رہ چکی ہیں۔ شاہی جوڑے کی حیثیت سے شہنشاہ نارو ہیٹو اور ملکہ ماساکو کو اندرون اور بیرون ملک بہت کچھ کرنا ہوگا۔ انہیں ہائی پروفائل تقریبات میں جانا ہوگا۔ اور ایسی بہت سی تقریبات بھی ہوں گی جن میں نہ جانے کا آپشن نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے مرتب ہونے والے دباؤ کا انہیں ڈٹ کر سامنا کرنا ہے۔
تیسرا بڑا مسئلہ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے کا ہے۔ جنوبی کوریا کے حوالے سے شہنشاہ نارو ہیٹو اور ملکہ ماساکو پر زیادہ دباؤ ہوگا۔ اس حقیقت سے نظر نہیں چُرائی جاسکتی کہ شہنشاہ نارو ہیٹو کے دادا ہیرو ہیٹو کے دور میں ایشیائی ممالک اور بالخصوص پڑوسی ممالک میں جاپانی افواج کے تشدد کی ایک لہر سی چلی تھی۔ اس حوالے سے کئی ممالک اب تک جاپان سے نالاں ہیں۔
نارو ہیٹو کے والد ایکی ہیٹو نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپانی افواج کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ممالک اور بالخصوص ایشیا بحرالکاہل کے جزائر پر مبنی ریاستوں سے معذرت کی۔ نارو ہیٹو کو اب ان تمام ممالک سے کسی حد تک معذرت بھی کرنی ہے جن پر جاپان نے قبضہ کیا تھا اور ان سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی توجہ دینی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے بیلینسنگ ایکٹ ہوگا جس کے لیے غیر معمولی مہارت درکار ہوا کرتی ہے۔ ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ شہنشاہ نارو ہیٹو ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ہاں ایک بات ضرور پورے تیقن سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کے لیے مسائل کسی طور کم نہیں ہوں گے اور ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیتے رہیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“A new dawn for Japan’s imperial diplomacy?” (“theglobalist.com”. May 1st, 2019)
Leave a Reply