ایک نیا کمال

کمال کلکدار اولو ترک اپوزیشن کے لیے امید کی کرن بن کر نمودار ہوئے ہیں۔ پارٹی نے لیڈر بدل لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لیڈر بھی پارٹی کو بدل سکتا ہے؟ ترکی میں آج کل لوگ اس نکتے پر بحث کر رہے ہیں کہ سابق سول سرونٹ کمال کلکدار اولو، جو سیکولر دی ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کا رخ بدل سکتے ہیں؟ ۲۲ مئی کو پارٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مندوبین کی اکثریت نے کلکدار اولو کو سربراہ منتخب کیا۔ کلکدار اولو کا ابھر کر سامنے آنا ترکی میں سیکولر ووٹروں کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے جو ۲۰۰۲ء سے اقتدار کے ایوانوں میں موجود قدرے اسلام نواز جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) کے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ اے کے کے اقتدار کو بظاہر کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں اور یہی سبب ہے کہ اب یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ پارٹی آمریت کی طرف جا رہی ہے۔

۱۹۲۳ء میں جدید ترکی کے بانی کمال اتا ترک کے ہاتھوں تشکیل پانے والی سی ایچ پی پندرہ سال سے اقتدار میں نہیں۔ اس کے ذمہ دار پارٹی کے سابق لیڈر ڈینز بیکل ہیں جنہوں نے اے کے پارٹی کے طیب اردگان کی جانب سے پیش کی جانے والی اصلاحات کی راہ میں خواہ مخواہ روڑے اٹکائے اور لوگوں کو اپنی پارٹی سے متنفر کیا۔ ڈینز بیکل جرنیلوں کو اقتدار دینے کے خلاف تھے۔ ان کے خیالات اور پارٹی لائن میں مکمل ہم آہنگی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ وہ اب پارٹی کی قیادت سے الگ نہیں کیے جاسکیں گے مگر ایک اسلامی ویب سائٹ پر ڈینز بیکل اور ان کی سیکریٹری کی ایسی وڈیو نمودار ہوئی جس میں وہ نازیبا حرکات کرتے دیکھے جاسکتے تھے۔ بس پھر کیا تھا، ڈینز بیکل کے خلاف احتجاج ہوا اور پارٹی میں ان کی مخالفت اس قدر بڑھی کہ انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ ان کے سیاسی مستقبل پر خاتمے کی مہر اس وقت لگی جب ان کے ایک قریبی ساتھی اوندر ساو نے کلکدار اولو کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کلکدار اولو، جو خاصے نرم مزاج ہیں اور سادگی اپنائے رہتے ہیں، اپنی پارٹی کا راستہ بدل سکتے ہیں جو اشرافیہ کے طور طریقوں کی حامل ہے؟ کلکدار اولو کے خیالات میں سوشلزم نمایاں ہے۔ انہوں نے قیادت سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کی سمت تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ ان کے پاس کرد مسئلے کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں، حالانکہ وہ خود کرد ہیں! اپنی تقریر میں انہوں نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا۔ انہوں نے ترک شیعوں (علویوں) سے روا رکھے جانے والے امتیازی رویے کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا۔ یہ فرقہ منفرد طور پر ترک ہے۔ اور خود کلکدار اولو بھی علوی شیعہ ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ترکی کو بھارت اور چین کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

بیشتر ترک ووٹر لبرل ایجنڈے پر کم توجہ دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر وہ بیرونی حالات کو بھی بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ کلکدار اولو نے عہد کیا کہ وہ بیروزگاری کا گراف نیچے لانے پر توجہ دیں گے اور پس ماندہ طبقات کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔ اے کے پارٹی غریبوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیتی رہی ہے۔ یہ اس کا خاص میدان ہے۔ اب کلکدار اولو نے جو کچھ کہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اے کے پارٹی کے مخصوص میدان میں بھی اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بڑے شہروں کے نواح میں پائی جانے والی غریب بستیوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے کر وہ پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی جماعت کے لیے لازم قرار دی جانے والی کم از کم دس فیصد ووٹوں کے حصول کی حد کو بھی نیچے لانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ حد کرد جماعتوں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔

کلکدار اولو کے لیے سب سے بڑا ایڈوانٹیج یہ ہے کہ ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال استنبول کی میئر شپ کے انتخاب کے موقع پر اے کے پارٹی کے بعض ارکان کی کرپشن کے ثبوت منظر عام پر لاکر لوگوں کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ طیب اردگان نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب استنبول کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں تب ان کے ساتھیوں کی کرپشن کے شواہد ان کے پاس موجود ہیں اور آئندہ سال کے عام انتخابات کے موقع پر یہ شواہد سامنے لائے جاسکتے ہیں۔

کلکدار اولو کے لیے دوسرا بڑا ایڈوانٹیج یہ ہوسکتا ہے کہ ترک وزیر اعظم اور اے کے پارٹی کے سربراہ طیب اردگان حد سے بڑھے ہوئے اعتماد میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے سی ایچ پی کو ٹن کا ایسا ڈبہ قرار دیا ہے جس پر سے سونے کا ملمع اتر چکا ہے۔ انہوں نے کلکدار اولو کے عقیدے پر بھی ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے حامیوں کو انہوں نے candas قرار دیتے ہوئے ان سے سوال کیا ہے کہ وہ can کا ساتھ دیں گے؟ یہ اصطلاح ترکی میں علوی شیعوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ رائے عامہ کے تازہ جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلکدار اولو کی قیادت میں سی ایچ پی ۳۲ فیصد تک ووٹ لے سکے گی۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو اے کے پارٹی کو تیسری بار تنہا حکومت بنانے سے روکا جاسکے گا۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*