
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب انتخابی مہم چلا رہے تھے، تب یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اگر انہیں ملک پر حکومت کرنے کا موقع دیا گیا تو وہ بدعنوانی ختم کریں گے اور ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر بھرپور توجہ دیں گے۔ یہ دونوں نعرے کام کرگئے۔ عوام نے نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھرپور اکثریت سے نوازا جس کے نتیجے میں نریندر مودی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔
اب بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر تو نریندر مودی کے ڈائی ہارڈ قسم کے پرستار بھی بہت افسردہ ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بدعنوانی ختم کرنے اور ملک کو حقیقی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر ڈالنے سے متعلق کیے گئے تمام وعدے بھلا کر اب ملک کو سیاسی اور ثقافتی بنیاد پر مزید منقسم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مذہبی بنیاد پر تعصب نے بھارتی معاشرے کو پہلے بھی شدید بگاڑ سے دوچار کیا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت عظمت سے ہمکنار ہونے کی تیاری کر رہا ہے اور انتہا پسند ہندو اسے دوبارہ تقسیم در تقسیم اور نفرت کے دور سے گزارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
نریندر مودی حال ہی میں امریکا کی سلیکون ویلی میں بڑے آجروں سے خطاب کرکے وطن واپس آئے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو ڈجیٹل بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ بھارت میں سب کچھ کمپیوٹرائز ہوجائے۔ انہوں نے سلیکون ویلی کی منتخب شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیجیٹل بھارت کی تشکیل کے لیے ہمیں بھی اُسی طرح سوچنا پڑے گا جس طرح آپ سوچتے ہیں۔
دادری میں، جو دارالحکومت نئی دہلی سے زیادہ دور نہیں، اخلاق احمد کو محض اس بنیاد پر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت ہونے کی افواہ تھی۔ جنونی انتہا پسند ہندوؤں نے اخلاق احمد کے گھر کا دروازہ توڑا۔ پہلے اینٹ مار کر ان کے بیٹے کا سر پھوڑ دیا گیا۔ پھر اخلاق احمد کو گھسیٹ کر نیچے اتارا گیا اور بیچ سڑک پر سیکڑوں افراد کے سامنے ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ لوگ محض تماشا دیکھتے رہے۔ کوئی بھی اخلاق احمد کو بچانے کے لیے نہیں بڑھا۔ جنونی ہندوؤں نے اخلاق احمد کی ۷۰ سالہ والدہ کو بھی نہیں بخشا اور تشدد کرکے ان کی ایک آنکھ ضائع کردی۔ اخلاق احمد کا بیٹا اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ درندوں نے اخلاق احمد کی بہو اور پوتی کو بھی گالیاں دیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ اخلاق احمد کے ساتھ کیا گیا، کیا ایسے سلوک کے ساتھ بھارت کبھی جدت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک حقیقی ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوسکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ دادری میں ہوا، وہ حکمرانوں کے علم میں نہ تھا۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے بتایا ہے کہ ’’گائے بچاؤ‘‘ تحریک کے سرکردہ ارکان کا تعلق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ ایف آئی آر میں جن دس افراد کے نام درج ہیں، اُن میں سات کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی کے ضلعی عہدیدار سنجے رانا کے خاندان سے ہے۔ ایف آئی آر میں سنجے کا بیٹا وشال بھی نامزد ہے۔ ایک شخص کو اس کے کھائے ہوئے کی بنیاد پر قتل کردیا جائے! یہ تو سراسر غلط ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس پورے معاملے میں عجیب اور معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اخلاق احمد بھارتی فضائیہ میں کام کرنے والے سرتاج کے والد ہیں۔ جو شخص ملک کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے کام کر رہا ہے، اس کے والد کو یوں قتل کردیا جائے! بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اروپ راہا نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ متاثرہ خاندان کو ایئر فورس کے کسی محفوظ علاقے میں رہائش فراہم کی جائے گی۔
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اتر پردیش کی حکومت نے اخلاق احمد کے ریفریجریٹر میں رکھے ہوئے گوشت کے قتلوں کو جانچ کے لیے لیباریٹری بھیجا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اگر گوشت گائے کا ثابت ہوجائے تو اخلاق احمد کا قتل درست تھا؟ یہی وہ حماقت ہے جو سیاسی طبقے کے غلط کاموں کے ساتھ ساتھ رونما ہو رہی ہے اور جس سے ایک قوم کی ہم آہنگی شدید خطرے کی زد میں ہے۔
جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے، وہ بھارت کے لیے نیا نہیں۔ گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کئی بار رونما ہوچکے ہیں۔ میڈیا پر پوری تفصیل موجود ہے مگر حکومت اس معاملے کو قبول یا تسلیم کرنے سے صاف انکار کر رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس معاملے میں ایسی خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو ان کے بارے میں تشویش کو جنم دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لیے حتمی طور پر ذمہ دار نریندر مودی نہیں، مگر جو شخصیت بلیئرڈ چیمپین شپ کے بارے میں ٹوئیٹ کرسکتی ہے، وہ اگر ملک کے بیشتر معاملات میں خاطر خواہ دلچسپی لے تو ایسے بہت سے اقدامات کرسکتی ہے جن سے معاشرے میں ہم آہنگی بڑھے گی اور مختلف طبقات ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئیں گے۔ اگر نریندر مودی ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں، تو لازم ہے کہ وہ بھارت بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، انتہا پسند ہندو زور پکڑنے لگے ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر وزیراعظم کی خاموشی اس بات کا اشارا سمجھی جارہی ہے کہ جنونی ہندوؤں کو ان کی حمایت حاصل ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے ہندو انتخابات سے قبل ہندوتوا کا معاملہ ضرور اٹھاتے ہیں۔ مختلف واقعات کو بنیاد بناکر یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ بھارت میں ہندو دھرم کو خطرات لاحق ہیں اور اگر ہندوؤں نے مذہب کی بات کرنے والوں کو ووٹ نہ دیے تو ملک ان کے ہاتھ میں چلا جائے گا جو ہندو دھرم کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ عام ہندوؤں کی مختلف طریقوں سے ایسی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل اور شیو سینا کی طرف جھکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۴ء میں اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں بھی یہی ہوا تھا۔ انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف فضا تیار کی اور عام ہندوؤں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ ان کا دھرم خطرے میں ہے۔ اور یہ کہ انہیں میدان میں آنا ہی پڑے گا۔ جب میں رپورٹنگ کے لیے علاقے میں پہنچا تو میں نے کئی لوگوں کے منہ سے سنا کہ اس علاقے میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں اور ان میں اچھی ہم آہنگی رہی ہے۔ ایک چھوٹے سے واقعے نے خطرناک شکل اختیار کی یا اسے خطرناک شکل دے دی گئی۔ اس کے نتیجے میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ خاکستر ہوگیا۔ ۶۰ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر کیمپوں میں رہنا پڑا۔ فسادات کی آگ بھڑکا کر جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے ذہن میں مسلمانوں کا خوف بٹھا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا کی مظفر نگر سے تمام نشستیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کھاتے میں چلی گئیں۔ اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ دادری اور ایسے ہی دوسرے بہت سے واقعات سے فائدہ اٹھاکر بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
ایک طرف تو گائے کا گوشت کھانے کو بہانہ بناکر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا کو گائے کا گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں بھارت، برازیل اور آسٹریلیا سے بھی آگے ہے۔ رواں مالی سال کے دوران بھارت نے امریکا کو ۲۴ لاکھ میٹرک ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا۔ برازیل ۲۰ لاکھ میٹرک ٹن اور آسٹریلیا ۱۵ لاکھ میٹرک ٹن کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر رہے۔ بھارت کے حوالے سے یہ تاثر اور تصور بھی عام ہے کہ صرف مسلمان اور عیسائی گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں سال سے نچلی ذات کے ہندو اور انتہائی غریب قبائلی بھی روایتی طور پر گائے کا گوشت کھاتے آئے ہیں۔
جو کچھ دادری میں ہوا، وہ ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ بھارتی معاشرے میں آج بھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر نفرت اور تعصب کو کس طور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیاسی عناصر عوام کے جذبات سے کھیل کر انہیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نوعیت کا تشدد دراصل ہندو ریاست کی خدمت ہے۔ انتہائی پسماندہ اور قبائلی علاقوں میں لوگ بہت تیزی سے سنگھ پریوار (جنونی ہندوؤں) کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر اس تصور کے حامل ہوتے جارہے ہیں کہ گائے کو کٹنے سے بچانا ان کے تمام مسائل کا حل ہے۔
ایک طرف تو نریندر مودی بیرونی دوروں میں ہائی ٹیک سی ای اوز اور دیگر تاجروں کے گلے لگ کر بھارت کو جدت سے ہمکنار کرنے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف بھارتی وزیر مملکت برائے ثقافت مہیش شرما کہتے ہیں کہ بھارت کو اپنی روایات پر ناز ہے اور ہم رات دن جدت کے اثرات سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کھانے پینے سے لے کر کپڑوں اور فیشن تک ہمیں جو کچھ بھی مغرب زدہ دکھائی دے گا، ہم اس کا رخ موڑتے رہیں گے۔ اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے سیاسی ماحول میں اب بھی ملک کو آگے لے جانے کی بات کرنے والے کتنے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو اب تک ہزاروں سال پہلے کے عہد میں جی رہے ہیں۔ مہیش شرما کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ، ادب اور تعلیم سمیت جہاں بھی آلودگی ہوگی ہم ضرور پاک کریں گے۔
مہیش شرما اور ان کی سی سوچ رکھنے والوں کے لیے عالمگیریت یک طرفہ راستہ ہے۔ ان کا واضح پیغام یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت میں سرمایہ لگائے اور اسے سوفٹ ویئر دے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی دریدہ دہن رہنما سادھوی پراچی کا کہنا ہے کہ جو کچھ دادری میں ہوا، وہ بالکل درست ہے۔ جو لوگ گائے کا گوشت کھائیں، ان کے ساتھ یہی سلوک کیا جانا چاہیے۔
ملک کے سکیولر اداروں کو انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں جاتا دیکھ کر اور اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کے عمل کو محض تماشائی بن کر دیکھنے والے ملک کو مزید خرابی اور انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے، انہیں ٹھوس موقف اپناتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرنا ہی ہوگا تاکہ معاشرے میں عدم استحکام دور ہو۔ بھارت کے نائب صدر حامد انصاری کا کہنا ہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل ۲۱ کے تحت ریاست کے ہر فرد کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ یہ صرف ریاست کا نہیں بلکہ عوام کا بھی فرض ہے کہ کسی کی زندگی خطرے میں نہ ڈالیں بلکہ اگر اسے خطرات لاحق ہوں تو جان بچانے کی کوشش کریں۔ بھارت میں بسنے والوں کے پاس اپنی اپنی مذہبی کتب ہیں مگر ریاست کے باشندوں کی حیثیت سے سب کے لیے آئین ہی مذہبی کتاب کے مانند ہے۔ آئین کہتا ہے کہ کسی کو بھی زندہ رہنے کے حق سے بِلاجواز محروم نہیں کیا جاسکتا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Cows are protected; humans are not: A new reality in digital India!”
(“countercurrents.org”. October 7, 2015)
Leave a Reply