دنیا میں افریقا ایک ایسا خطہ ہے جہاں ترقی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، ہر دور کی سپر پاور نے اس براعظم پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اس خطے کو جہالت کی تاریکیوں میں ڈبوئے رکھا تاکہ ان کے مفادات کے سامنے کوئی عوامی دیوار نہ حائل ہو سکے۔ براعظم افریقا مشرقِ وسطیٰ کے بعد تیل اور قدرتی وسائل کا خزانہ رکھنے والا دوسرا بڑا خطہ ہے۔ اس کے وسائل ہی اس کی زوال پذیری کا باعث بنے۔ افریقا میں جاری خانہ جنگی اور خون کی ہولی کے علاوہ استعماری طاقتیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں تاکہ افریقا کے وسائل پرآسانی سے قبضہ کیا جا سکے۔
سوچنے والی بات ہے کہ سوڈان کے حوالے سے اسرائیل، یورپ، اقوام متحدہ اور امریکا کا کیا تعلق ہے۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ سوڈانی حکومت کے خلاف لڑنے والے تخریب کاروں کو امریکا، اسرائیل اور یورپ کی حمایت حاصل ہے تاکہ سوڈان کے حالات بدستور کشیدہ رہیں اور وسائل کے دولت سے مالا مال یہ ملک کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہ کر سکے۔
عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق صہیونی، مغربی استعماری طاقتیں اور امریکا ہر اس ملک اور خطے میں خانہ جنگی کو ہوا دیتے ہیں جہاں چین نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ چین اور امریکا کی خارجہ پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ افریقا میں عیسائی پادری اور یہودی تبلیغ کے ذریعے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی پادریوں اور صہیونی این جی اوز کے ذریعے اسلحے اور ڈالر شرپسند عناصر کو مہیا کیے جا رہے ہیں تاکہ افریقا پر فساد پھیلانے والوں کا قبضہ ہو اور مغربی استعماری طاقتیں اور امریکا افریقی وسائل پر قبضہ کر سکیں۔ افریقی خطے میں جو اسلامی تنظیمیں مغربی، صہیونی و امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے خلاف جہاد کر رہی ہیں ان کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اور جو حکومت امریکی و صہیونی مذموم عزائم کو نہیں مانتی بلکہ اپنے ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے ان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اس ملک کو دہشت گرد اسٹیٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یعنی سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر جن کو امریکا مخالف سمجھا جاتا ہے ان کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں کیونکہ ان کے مطابق وہ سوڈان کے علاقے دارفر میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوڈان کے جس علاقے میں یہ خانہ جنگی کی گئی وہاں پر عیسائی پادریوں نے لوگوں کو مسلح کیا اور حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا جس پر یہ کارروائی کی گئی تھی۔ چین کے تھنک ٹینک کو بھی اب یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ افریقا کے اندر سرمایہ کاری اور توانائی کے معاہدوں کے ساتھ اب ان کو افریقی عوام کے دل بھی جیتنے ہوں گے۔ اگر افریقی عوام چین کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی چین کو افریقا میں مفادات حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے افریقا میں اپنی فلاسفی کنفیوشس کا پرچار شروع کر دیا ہے۔ جس پر مغربی میڈیا نے بے تحاشہ شور و غوغا کیا کہ چین افریقا میں نئی قسم کی جنگ شروع کرنے جا رہا ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق اب افریقا میں اسلحہ اور فسادات کے علاوہ مذاہب کے درمیان جنگ کا آغاز بھی ہو چکا ہے لیکن یہاں یہ بات غورو طلب ہے کہ مذاہب کا پرچار افریقی عوام کے حالات بدلنے کے لیے نہیں بلکہ افریقی قدرتی وسائل اور تیل حاصل کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہی عناصر نے افریقا میں اسلام کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔
افریقا میں اس وقت چینی مذہب جسے کنفیوشس ازم کا نام دیا جاتا ہے سب سے زیادہ فروغ پا رہا ہے۔ چین نے توانائی کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی افریقا میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ سب سے پہلے چین نے افریقا کے مختلف تعلیمی اداروں کے معلموں کو تربیت دی اور کنفیوشس ازم کے متعلق آگاہ کیا جس کے بعد افریقا میں بے تحاشہ کنفیوشس ازم کی تبلیغ کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کر دیے۔ امریکا اور مغرب نے پادریوں اور این جی اوز کی مدد سے لوگوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر چین نے افریقی عوام میں سے ہی افراد کو لیا اور ان کے ذریعے کنفیوشس ازم کا پرچار شروع کیا۔ چین نے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ وہ افریقا کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور اس کے عزائم مذموم نہیں بلکہ وہ افریقی عوام میں شعور بیدار کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں چین کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے افریقا میں چین نے ۲۰۰۴ء میں “The Hanban” (The Chinese National Office for Teaching Chinese as a foreign Language) کے نام سے قائم کیا تھا۔جس کے خاطر خواہ فوائد حاصل ہوئے چینی زبان سکھانے کے بعد باقاعدہ طور پر کنفیوشس اداروں کے قیام کا آغاز کر دیا گیا تھا۔اس وقت افریقا کے حوالے سے کنفیوشس ازم چینی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون بن چکا ہے۔ چین افریقا کی سیاست کو تبدیل کرنے کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ چینی فلاسفی افریقا میں اس لیے سودمند ہے کہ اس کو حکومتی حمایت حاصل ہے کیونکہ اس میں فسادی عناصر اور تخریب کاری کی کوئی جگہ نہیں جس کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کے افریقی عوام نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ۲۰۰۶ء تک افریقا میں ۱۹ کنفیوشس ادارے قائم ہو چکے تھے جن میں کچھ کنفیوشس دفاتر کا کام بھی سرانجام دے رہے تھے جن کا مقصد اسکولوں اور کالجوں کو فنڈ دینا تھا تاکہ یہ ادارے خالصتا چینی مذہب کا پرچار کریں۔ چین کی امداد سے قائم کیے گئے کنفیوشس اداروں میں کی گئی سرمایہ کاری پر کوئی سود لاگو نہیں کیا گیا اور نہ ہی حکومت اس قرضے کو واپس کرنے کی پابند ہے۔
یہ چین کی افریقا کے حوالے سے ثقافتی پالیسی ہے جس پر چینی حکومت بڑی ایمانداری سے کام کر رہی ہے۔ افریقا میں کنفیوشس تعلیمی ادارے اس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں کہ افریقا میں موجود دوسرے مذاہب کسی نہ کسی حد تک تشدد پسند ہیں جبکہ کنفیوشس ازم امن کا پیغام دیتا ہے۔ افریقا کے علاوہ یورپ، آسٹریلیا اور دوسرے براعظموں میں بھی چین نے کنفیوشس ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کو سالانہ فنڈ چینی حکومت دیتی ہے تاکہ اس ملک میں موجود چینی مفادات کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ آسٹریلوی شہر ملبورن میں ساڑھے سات لاکھ ڈالر کا سالانہ بجٹ کنفیوشس ادارے کے لیے مختص کیا گیا ہے جس پر کوئی سُود نہیں جس کو سالانہ بنیادوں پر بڑھایا جا رہا ہے۔ زمبابوے میں گزشتہ سیاسی بحران کو بھی تجزیہ نگار چین کی سرمایہ کاری سے جوڑ رہے ہیں کیونکہ زمبابوے میں بھی چین نے دوسرے افریقی ممالک کی طرف سرمایہ کاری کی ہے اور زمبابوے یونیورسٹی میں ۸ لاکھ ڈالر فنڈ دے کر ایک کنفیوشس ڈپارٹمنٹ بھی بنایا ہے جو کہ ابھی تک کام کر رہا ہے۔
چینی پالیسی کے مطابق چین اس سال کے آخر تک پورے افریقا میں پانچ سو کے قریب کنفیوشس ادارے قائم کرے گا۔ جس کے لیے بغیر سود کے تین سو ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں جس کو ضرورت کے تحت بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ ان اداروں میں افریقی طالب علموں کو تعلیم مفت دی جاتی ہے اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کی برٹش کونسل نے بھی افریقا میں اپنے ادارے مفت تعلیم کے حصول کی غرض سے شروع کیے ہیں جو کہ درحقیقت عیسائیت کا پرچار کر رہے ہیں لیکن کنفیوشس اداروں نے افریقا میں اپنا اثر و رسوخ کافی حد تک قائم کر لیا ہے۔ حکومتِ برطانیہ نے اس مقصد کے لیے افریقا کے لیے چار سو ملین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے بینن (Benin) اور مارشیس (Mauritius) میں کنفیوشس ادارے قائم کر رکھے ہیں جن پر تقریباً سالانہ خرچ ۲۰۰ بلین ڈالر تک آتا ہے جہاں پر مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
افریقا میں کنفیوشس تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افریقی طلبہ کو اسکالر شپ دے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے چین کی یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم دی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں ۱۲۲۵ افریقی طلبہ چین میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جن کی تعداد ۲۰۰۶ء میں چار ہزار تک پہنچ چکی تھی، ۲۰۰۸ء کے آخر تک ایک سروے کے مطابق اس وقت چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں افریقی طلبہ کی تعداد بارہ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا نے اس خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کوئی ملک بھی اس وسائل سے مالا مال خطے پر سو فیصد کنٹرول اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اس خطے کو اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال نہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بیرونی ہاتھ اپنی استطاعت کے مطابق افریقا میں مذہب کا پرچار کر رہا ہے۔ چند دہائیوں پہلے جب امریکا اور یورپی یونین نے اقوام متحدہ کی مدد سے افریقا میں مداخلت کا آغاز کیا تھا اس وقت سے ہی چند مذموم عزائم رکھنے والی یہودی این جی اوز نے بھی لوگوں کی فلاح کے نام پر افریقی عوام کو حکومتوں کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا تھا۔ مذہبی پالیسی اس لیے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس میں منافقت کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ یہودیوں اور عیسائی پادریوں نے افریقی عوام کے ذہنوں میں سب سے پہلے یہ ڈالا کہ موجودہ حکومت ان کی فلاح نہیں بلکہ ان پر ظلم کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ وہاں آپ کو بچانے کے لیے آئے ہیں اس کے بعد اقوام متحدہ کی امداد کے ذریعے لوگوں کو عیسائی تعلیم دینا شروع کر دی جس میں امن کا درس دیا جاتا تھا اور بتایا یہ جاتا تھا کہ اسلام دہشت پھیلا رہا ہے۔ اسلام میں سلامتی نہیں۔ اس کے بعد ان کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی تھی اور حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے باقاعدہ مسلح جدوجہد کرنے کے لیے قائل کیا جاتا تھا۔ سوڈان میں ہونے والی خانہ جنگی میں اب یہ بات بالکل کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ دارفر میں شرپسند عناصر کو ڈالر اور اسلحہ یورپی استعمار طاقتیں اور این جی اوز فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت افریقا میں دو رُخی جنگ لڑی جا رہی ہے پہلا مقصد تو افریقا کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے جبکہ دوسرا مقصد افریقا میں اسلام کا نام و نشان مٹانا ہے جس کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
عیسائی اور یہودیت کا پرچار افریقا میں اسلام کا زور توڑنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جو کہ تاحال بے سود ثابت ہوا۔ صومالیہ میں جاری سیاسی کشیدگی بھی اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ امریکا اور مغربی استعماری طاقتیں افریقا کے سب سے اہم تجارتی علاقے کو مسلمانوں کو کیونکر دے سکتے ہیں؟ لہٰذا جب بھی اسلامی شرعی نظام صومالیہ میں رائج کیا جاتا ہے اس وقت بیرونی طاقتیں فساد پھیلانا شروع کر دیتی ہیں۔ عیسائی تنظیمیں پادری، یہودی اور این جی اوز کا منشور ایک ہے اور ایک ہی ایجنڈے پر افریقا میں کام کر رہے ہیں۔ اگر افریقا میں مسلمان اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں اور اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں تو پھر آپس کے انتشار کو ختم کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ایک ناکام ریاست کی طرح پورے افریقا پر بیرونی استعماری طاقتوں کا قبضہ ہو گا۔ اس میں چین بھی بیرونی ہاتھ ہے۔ اگرچہ اس کی پالیسی تو اس وقت امریکا سے زیادہ سود مند دکھائی دے رہی ہے اس ضمن میں عرب ممالک کو افریقا مسلم ممالک کا ہر حال میں ساتھ دینا ہو گا۔
افریقا میں اب جس تہذیبی اور مذہبی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اس کے نتائج مسلمانوں کو ناکامی کے بعد صدیوں تک بھگتنا پڑیں گے کیونکہ جنگ کے ذریعے تو علاقے پر قبضہ کیا جاتا ہے لیکن موجودہ مذہبی جنگ میں علاقے کی بجائے لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کر کے قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اگر کوئی بیرونی ہاتھ چاہے وہ چین ہے یا پھر امریکا اس مذاہب کی جنگ جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے ہتھیاروں کے بغیر پورے افریقا پر قابض ہونے کا موقع مل جائے گا۔ کیونکہ افریقی عوام ہی اس کی فوج کا کام کرے گی۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ یکم ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply