تم میں اس کے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو بھی اللہ اور آخرت سے امیدوار ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ (احزاب: ۲۱)
اگرچہ ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ آج رات سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوئوں میں سے ایک ایک پہلو لے کر اس پر گفتگو کا آغاز کریں گے، لیکن ایک بات ہمارے ذہن میں آئی جس کے متعلق ہم نے ضروری سمجھا کہ اسے کل کی گفتگو کے تسلسل میں عرض کریں۔
کل ہم نے عرض کیا تھا کہ ’’سیر‘‘ اور ’’سیرت‘‘ میں فرق ہے۔ ’’سیر‘‘ یعنی عمل۔ دنیا میں ہر انسان جس طرح گفتگو کرتا ہے، اسی طرح عمل بھی انجام دیتا ہے۔ لیکن سیرت، وہ خاص انداز، اسلوب، سلیقہ اور طرزِ عمل ہے جس سے صاحبِ اسلوب، صاحبِ طرز اور صاحبِ منطق افراد اپنی ’’سیر‘‘ میں کام لیتے ہیں۔ ہر انسان کی ’’سیر‘‘ ہوتی ہے لیکن ہر انسان کی ’’سیرت‘‘ نہیں ہوتی۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ہر انسان اپنے عمل میں ایک خاص منطق کی پیروی کرتا ہو اور اپنے کردار میں کچھ اصولوں کا پابند ہو، جو اُس کے عمل کا معیار ہوں۔
جو افراد کسی حد تک منطق سے واقف ہیں اُن کے لیے یہ دو جملے عرض کرتے ہوئے آگے بڑھ جائوں گا: منطقِ فکری میں سب لوگ سوچ بچار کرتے ہیں لیکن سب لوگ منطقی (انداز سے) سوچ بچار نہیں کرتے۔ منطقی (انداز سے) سوچنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس منطق کے عنوان سے کچھ معیار موجود ہوں جو علمِ منطق میں ثابت شدہ ہوں اور اس کا سوچ بچار انہی معیارات کی بنیاد پر ہو۔ گنتی کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سوچ بچار کے موقع پراس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اُن کا اندازِ فکر ان معیارات کے مطابق ہو۔ اسی طرح بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جن کا عمل منطقی ہوتا ہے یعنی کچھ معین معیارات کی بنیاد پر ہوتا ہے اور وہ ان معیارات اصولوں اور موقفوں سے ہر گز جُدا نہیں ہوتے۔ وگرنہ اکثر لوگوں کے عمل کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور جس طرح ان کی فکر کسی منطق کی حامل نہیں ہوتی، کبھی کچھ تو کبھی کچھ ہوتی ہے اُسی طرح اُن کے عمل کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔
ایک اور بات (عرض کرتے ہیں) تاکہ ہماری گفتگو ادھوری نہ رہ جائے۔ اگر ہم کبھی علمی اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بہت مختصر عرض کریں تاکہ ہمارے سننے والوں کی اکثریت کے لیے غیر موزوں نہ ہو جائے، لیکن کیونکہ ذکر نہ کرنے سے بات ادھوری رہ جاتی ے اس لیے ذکر کر دیتے ہیں۔
منطق کی تقسیم
حکمت اور فلسفے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکمت کی دو قسمیں ہیں: نظری اور عملی۔ الٰہیات، ریاضیات (حساب، جیومیٹری، ہیئت، موسیقی) اور طبیعیات (فزکس، زولوجی، باٹنی) کو حکمتِ نظری یا فلسفۂ نظری کہتے ہیں اور اس کے مقابلے پر اخلاق، سیاست اور تدبیر منزل کو حکمتِ عملی کہتے ہیں۔ منطق میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے لیکن بات درست ہے یعنی جس طرح فلسفے کی دو قسمیں ہیں: نظر اور عملی، اسی طرح منطق یعنی انسان کے معیارات کی بھی دو قسمیں ہیں: نظری معیارات (وہی عام منطق) اور عملی معیارات۔ عملی معیارات وہی ہیں جنہیں ہم ’’سیرت‘‘ یا روش کہتے ہیں۔
کیا عمل میں ایک مستقل منطق رکھی جاسکتی ہے؟
ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ بعض لوگ صاحبِ منطق ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ یہاں یہ مسئلہ پیش آتا ہے (خصوصاً ممکن ہے جوانوں کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے) کہ کیا ایک انسان ہر قسم کے زمانی اور مکانی حالات میں اپنے عمل کے اندر ایک منطق کا حامل ہو سکتا ہے، ایک مستقل اور ٹھوس منطق کہ وہ کبھی اپنی اس منطق سے تجاوز نہ کرے؟
ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہی بات کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص تھے جو اپنے عمل میں (ایک مخصوص) سیرت کے مالک تھے، ایک روش اور اسلوب رکھتے تھے، ایک منطق کے حامل تھے اور ہم مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اُن کی سیرت سے آشنا ہوں، اُن کی عملی منطق کو کشف کریں اس لیے تاکہ اپنے عمل میں اس منطق سے استفادہ کریں۔
اب، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان اپنی عمر کی ابتدا سے آخر تک ایک ہی منطق رکھتا ہو اور وہی منطق اس کے لیے اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہو؟ یا انسان ایک مستقل منطق رکھ ہی نہیں سکتا، یعنی انسان زمانی و مکانی حالات کا تابع ہے زندگی کی شرائط (Circumstances) اور خصوصاً طبقاتی صف بندی کے تابع ہے اور اپنے سماجی اور اقتصادی حالات کے مطابق ہر موقع پر جبراً ایک خاص منطق کی پیروی کرتا ہے؟
یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو آج کی دنیا میں زیرِ بحث ہے۔ مارکسزم اسی بنیاد پر ہے۔ مارکسزم جو اجتماعی اور اقتصادی حالات اور خصوصاً طبقاتی حالات کے مقابلے میں فکر، عقیدے اور ایمان کی کسی حیثیت کا قائل نہیں وہ کہتا ہے کہ بنیادی طور پر ایک انسان مختلف حالات میں ایک ہی انداز سے نہیں سوچ سکتا اور ایک ہی منطق پر کاربند نہیں رہ سکتا۔ انسان محل میں اور جھونپڑی میں دو علیحدہ علیحدہ منطقیں رکھتا ہے، محل میں رہتے ہوئے ایک انداز سے سوچتا ہے اور جھونپڑی میں رہتے ہوئے دوسرے انداز سے۔ محل انسان کو ایک قسم کی منطق دیتا ہے اور جھونپڑی دوسری قسم کی۔ ایک محروم انسان ایک ایسا انسان جو ہمیشہ ظلم و ستم اور گھٹن زدہ ماحول میں رہا ہو اور انواع و اقسام کی محرومیتوں کا شکار رہا ہو اور شکار ہو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک خاص انداز سے سوچتا ہے۔ یعنی اس کے حالاتِ زندگی اس کے لیے ایک خاص قسم کی سوچ پیدا کر دیتے ہیں۔ وہی ہے جو عدالت کی بات کرتا ہے وہی ہے جو مساوات اور برابری کی بات کرتا ہے، وہی ہے جو آزادی کی بات کرتا ہے۔ حقیقتاً بھی اس کی سوچ یہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے حالات اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس انداز سے سوچے۔
(لیکن) اگر اسی انسان کے حالات تبدیل ہو جائیں یہ جھگی نشین اگر محل نشین ہو جائے، جھگی محل بن جائے، اس کے خارجی حالات تبدیل ہو جائیں تو اس صورت میں اس کی سوچ بھی بدل جاتی ہے اور وہ کہنے لگتا ہے کہ نہیں، یہ جو باتیں کی جا رہی ہیں یہ درست نہیں ہیں۔ مصلحت کے تقاضے کچھ اور ہیں مساوات فضول بات ہے، آزادی کو بھی کچھ محدود ہونا چاہیے اور وہ عدالت کی بھی کسی اور انداز سے تفسیر کرتا ہے۔
یعنی اس کے حالاتِ زندگی تبدیل ہونے سے اس کے مفادات اور مصلحتیں بھی بدل گئیں۔ کیونکہ انسان اپنے مفادات اور مصلحتوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا (لہٰذا اس کی سوچ بھی تبدیل ہو جاتی ہے) اس مکتب (School of thought) کے مطابق انسانی سوچ کی سوئی اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ وہ اپنے مفادات ہی کی سمت مڑتی ہے۔ جب اس کے مفادات محروم طبقے کی سمت ہوتے ہیں تو یہ سوئی محروم طبقے کے مفادات کے گرد گھومتی ہے، جب اس کے مفادات تبدیل ہوتے ہیں اور وہ مالدار طبقے میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کی سوچ کی سوئی نہ چاہتے ہوئے بھی اور جبراً مالدار طبقے کی طرف گھوم جاتی ہے۔
دینی طالبِ علم اور نماز میں اقتدا کی داستان
پرانے زمانے میں ہم کچھ باتوں کو مذاق اور طنز سمجھا کرتے تھے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے ان باتوں کے لیے بھی فلسفہ بنایا ہوا ہے، کہتے ہیں کہ یہ باتیں مذاق نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہیں۔
ایک مذاق مشہد کے دینی طلاب کیا کرتے تھے، کہتے تھے: ایک طالب علم کہا کرتا تھا کہ میں ہمیشہ اُس پیش نماز کی اقتدا کرتا ہوں جو مجھے پیسہ دیتا ہے اور میری نماز درست ہے۔ جو کوئی مجھے پیسے دے گا، میں اسی کی اقتدا کروں گا اور میری نماز بالکل صحیح ہو گی لوگ اُس سے کہتے تھے کہ جو بھی تمہیں پیسہ دے تم اُس کے پیچھے نماز پڑھو گے، اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم پیسے کی اقتدا کرتے ہو۔ وہ کہتا تھا جوکوئی مجھے پیسے نہیں دیتا ہے تو کیونکہ وہ مجھے پیسے نہیں دیتا اس لیے میری رائے یہ ہو جاتی ہے کہ وہ فاسق ہے اور اب اگر میں اسکی اقتدا میں نماز پڑھوں تو میری نماز باطل ہو جائے گی۔ لیکن جوں ہی وہ مجھے پیسے دیتا ہے تو رقم میرے ہاتھ میں آتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ میری رائے تبدیل ہو گئی ہے، اسی لمحے میرا عقیدہ یہ ہو جاتا ہے کہ وہ عادل ہے اور اس وقت میں اس کے پیچھے جو نماز پڑھتا ہوں وہ نماز بھی درست ہے۔ کیونکہ میری رائے پیسے کے تابع ہے اگر وہ مجھے پیسہ دے دیتا ہے تو واقعاً میرا عقیدہ ہو جاتا ہے کہ وہ عادل ہے اور اگر نہ دے تو واقعاً میرا عقیدہ یہ ہو جاتا ہے کہ وہ فاسق ہے۔ لہٰذا مجھے کبھی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے جو مجھے پیسے نہیں دیتا کیونکہ (اس کے پیچھے) میری نماز باطل ہے اور جو شخص مجھے پیسے دے گا میں اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور میری یہ نماز درست ہو گی۔
ہم اسے ہمیشہ ایک مذاق سمجھا کرتے تھے لیکن اب دیکھتے ہیں کہ نہیں یہ خود دنیا میں کم و بیش ایک فلسفہ ہے کہ انسان کی فکر کی سوئی کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے مفادات اور مصلحتوں سے ہٹ کر سوچ ہی نہیں سکتا۔ تاریخ کا جبر ہے، اقتصاد کا جبر ہے،اس کے سوا اس کے لیے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔
اس نظریئے کو توڑنے والے تاریخی نمونے
یہ بھی ایک بات ہے لیکن دعویٰ ہے اور اس قسم کے دعوئوں کے درست یا غلط ہونے کو ہم کس طرح جان سکتے ہیں؟ ہمیں میدانِ عمل میں جاکر سمجھنا چاہیے۔ واقعاً جائیں، تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا ایسا ہی ہے؟
ہمیں انسانوں پر تجربہ کرنا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعاً افرادِ بشر کا ضمیر ان کے مفادات کے سامنے ایسا ہی کھلونا ہے؟ کیا واقعاً انسان کی ساخت اسی طرح کی ہے؟ کیا انسانی ضمیر اس حد تک اس کے مفادات کا کھلونا ہے؟ کیا یہ انسان کی توہین کی انتہا نہیں ہے؟ کیا یہ نظریہ ایک سو فیصد انسان مخالف نظریہ نہیں ہے؟
آیئے چلتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ سچی بات ہے خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتے ہیں کہ بات اس طرح نہیں ہے وہ لوگ جن کی کوئی منطق نہیں ہوتی، جن کا کوئی ایمان نہیں ہوتا، اُن کا معاملہ بے شک یہی ہے۔ لیکن ان متعدد دلائل کی بنیاد پر جو ہمیں اس کی مخالفت میں ملتے ہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان لازماً اور جبراً ایسا ہی ہے۔
حضرت علیؓ
علی الوردی نامی ایک عرب مصنف ہے، جو عراقی الاصل ہے، یونیورسٹی کا استاد تھا اور تقریباً بیس سال پہلے اس کی کچھ کتابیں شائع ہوئی تھیں جن میں سے بعض کا ترجمہ فارسی زبان میں بھی ہوا ہے۔ مارکسزم کی طرف مائل ہے کیونکہ وہ تھوڑا بہت مذہبی رجحان بھی رکھتا ہے اس لیے بعض اوقات مارکسزم کے خلاف بھی کچھ بول دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: سچی بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی زندگی میں مارکس کے اس اصول کو توڑ دیا کہ ایک انسان محل اور جھونپڑی میں رہتے ہوئے ایک ہی انداز سے نہیں سوچ سکتا وہ چاہے یا نہ چاہے اُس کی سوچ تبدیل ہو جائے گی اور اس کی سوچ کی سوئی اس کی سماجی حالت کی سمت مُڑ جائے گی۔ حضرت علیؓ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ہم حضرت علیؓ کو دو مختلف معاشرتی طبقاتی حالات میں دیکھتے ہیں، اُس صفر (Zero) سے نزدیک حد میں بھی اور اُس انتہائی نقطۂ اوج پر بھی جس سے بلند تر کوئی نقطہ نہیں۔ یعنی ایک دن ہم علیؓ کو ایک عام مزدور کی صورت دیکھتے ہیں ایک عام اور غریب سپاہی کی صورت ایک ایسے شخص کی صورت جو صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور مثلاً کھیتوں کو پانی دینے کے لیے درخت کاشت کرنے کے لیے، زراعت کرنے کے لیے اور کبھی مزدوری کرنے کے لیے، محنت کرنے اور ایک مزدور کی طرح مزدوری لینے کے لیے۔
ہم علیؓ کو ایک مزدور کی شکل میں دیکھتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک انداز سے سوچتے ہیں یہی علیؓ بعد میں جب اسلام پھیل چکا ہے اور مسلمانوں کے پاس بہت مال و دولت آ گیا ہے اور حتیٰ اپنی خلافت کے دور میں بھی اسی طرح سوچتے ہیں۔
حضرت سلمان فارسیؓ
مدائن کے حاکم سلمانؓ وہی پیغمبر اکرمؐ کے دَور والے سلمانؓ رہے۔ سلمانؓ جنہیں خلیفۂ وقت نے مدائن میں حاکم کے طور پر معین کیا، کیونکہ وہ ایرانی تھے اور مدائن بھی قدیم ایران کا دارالخلافہ تھا اور خلیفہ کی پالیسی کا تقاضا تھا کہ ایک ایسے مسلمان کو وہاں بھیجا جائے جو خود ایرانی ہو تاکہ اہلِ ایران نسلی اعتبار سے اجنبیت محسوس نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ہماری نسل کے علاوہ کوئی اور یہاں کیوں آیا ہے۔ اور دیکھ لیں کہ خود ان ہی کی نسل سے ایک سو فیصد مومن شخص آیا ہے۔ ایک ایسے مقام پر جہاں نوشیرواں حکومت کیا کرتا تھا، ایک ایسی جگہ پر جہاں اپنے ہزاروں غلاموں اور ہزاروں کنیزوں کے ساتھ خسرو پرویز حکومت کیا کرتا تھا، اس جگہ جہاں یزدگرد حاکم رہا تھا، جس کے کئی ہزار خدمتگار تھے اور دس بارہ ہزار عورتیں تو صرف اس کے حرم میں محبوس اور قید تھیں۔ ہاں یہی سلمان فارسیؓ جو اسلامی تربیت سے آراستہ ہیں ان کی حکومت کی ابتدا سے اختتام تک اُن کی زندگی کا کل اثاثہ صرف ایک پوٹلی تھی یعنی جب وہ اپنا اثاثہ جمع کرنا چاہیں تو اسے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر روانہ ہو سکتے تھے۔ (یہ سب) ان فتوحات کے بعد تھا جن میں بہت زیادہ غنائم ہاتھ آئے تھے۔
پیغمبرِ اکرمؐ
نبی اکرمﷺ کی زندگی نے اُسے کھوکھلا ثابت کیا ہے شعبِ ابی طالب کے پیغمبر کو دیکھیے اور روزِ وفات والے پیغمبر کو دیکھیے۔ شعبِ ابی طالب کے پیغمبر آپ ہیں اورآپ کے اصحاب کی ایک قلیل تعداد جو ایک درّے میں محبوس ہیں، پانی، خوراک اور دوسری ضروریات ان تک نہیں پہنچتیں۔ یہ ایام ان کے لیے اتنے سخت ہیں کہ مکہ میں اپنے اسلام کو مخفی رکھنے والے کچھ مسلمانوں نے شعب میں موجود بعض مسلمانوں بالخصوص حضرت علیؓ کے ساتھ (رابطہ قائم کیا ہوا تھا اور وہ) رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر جاتے اور کچھ خوراک لے کر آیا کرتے تھے اور ہر مسلمان بس صرف بھوک مٹانے کے لیے تھوڑی تھوڑی غذا کھایا کرتا تھا۔ یہی پیغمبرؐ بعد میں سن دس ہجری میں پہنچتے ہیں۔ سن دس ہجری میں دنیا کی حکومتیں ان کو اہمیت دینے لگتی ہیں اور اُن سے خطرہ محسوس کرتی ہیں نہ صرف پورا جزیرۃ العرب ان کے زیرِاثر ہوتا ہے اور وہ ایک طاقت بن جاتے ہیں بلکہ دنیا کے سیاستدان یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ قدرت عنقریب جزیرۃ العرب سے باہر نکل کر اُن کی طرف رُخ کرے گی۔ اس حال میں بھی سن دس ہجری کے پیغمبرؐ بعثت کے دسویں سال کے پیغمبرؐ سے جب وہ شعبِ ابی طالب سے باہر آئے تھے نفسیاتی لحاظ سے ذرّہ برابر مختلف نہ تھے۔
تقریباً سن دس ہجری میں جبکہ بہت زیادہ آمدورفت تھی اور پیغمبر اکرمؐ کی شہرت ہر جگہ پھیل چکی تھی ایک عرب بدو آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور جب وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے تو اُن چیزوں کی بناء پر جو اُس نے سُن رکھی تھیں اُس پر پیغمبرِؐ اسلام کا رعب طاری ہو جاتا ہے اس کی زبان میں لکنت آ جاتی ہے۔ آنحضرتؐ کو یہ صورتحال ناگوار گزرتی ہے کہ مجھے دیکھ کر اس کی زبان میں لکنت آ گئی؟ آپ فوراً اسے اپنی بانہوں میں لے لیتے ہیں اور اسے اس قدر بھینچتے ہیں کہ اُن کا بدن اِس کے بدن سے مس ہو جائے (اور فرماتے ہیں) بھائی! ھَوِّنُ عَلَیْکَ اطمینان سے بات کرو۔ کس بات کا ڈر ہے؟ جیسا تم سمجھ رہے ہو میں اُن جابروں میں سے نہیں ہوں۔ لَسْتُ بِمَلَکِ میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو اپنے ہاتھوں سے بکری کا دودھ دوہتی تھی۔میں تمہارے بھائی کی طرح ہوں۔ جو تمہارا دل چاہے بولو۔
کیا یہ حالت، یہ قدرت، یہ اثر و نفوذ، یہ وسعت اور یہ وسائل پیغمبرؐ کی روح میں ذرّہ برابر تبدیلی لاسکے؟ ہر گز نہیں! ہم نے عرض کیا کہ صرف پیغمبرؐ ہی ایسے نہ تھے، پیغمبرؐ اور علیؓ کا مقام توان باتوں سے کہیں بڑھ کر ہے ہمیں سلمان، ابوذر، عمار، اویس قرنی جیسے افراد اور ان جیسے سیکڑوں لوگوں کو دیکھنا چاہیے۔
پس ہم اس مسئلے کو کہاں سے پتا کر سکتے ہیں کہ انسان عملی منطق میں ایک مستقل اور یکساں منطق کا مالک ہو سکتا ہے اور اس میں تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کا مطالعہ کریں۔ مارکس غلطی کا مرتکب ہوا ہے اس کے مطالعات ناقص تھے۔ اس نے بااصول لوگوں کا مطالعہ کیے بغیراس قسم کی باتیں کی ہیں۔ اگر اُس نے بااصول لوگوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو ہر گز ایسی باتیں نہ کرتا۔
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں (ہر حال میں) ایک ہی سیرت اور عملی منطق رکھنے والے افراد موجود ہیں اور ایسے افراد کے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست مقام حاصل ہے۔ ان افراد کے پاس کچھ معیارات اور پیمانے ہوتے ہیں جن کی وہ کسی صورت خلاف ورزی نہیں کرتے یعنی معاشرتی حالت، اقتصادی صورتحال اور طبقاتی مقام ان اصولوں کو ان سے چھیننے پر قادر نہیں ہوتے۔
(بحوالہ کتاب ’’سیرت نبویؐ ایک مطالعہ‘‘)
Leave a Reply