
روٹی، کپڑا، مکان … اور جنس۔ جی ہاں، ہماری چار بنیادی ضروریات یہی ہیں۔ آج کے دور کی یہی وہ ضروریات ہیں جو انسان کو کچھ کرنے کی تحریک اور ترغیب دیتی ہیں۔ ابراہم ماسلو نے بنیادی ضرورتوں کا ذکر کیا تو جنس کا تذکرہ بھول گیا۔ اب کلاس روم میں پیٹ بھرنے، تن ڈھانپنے اور سر چھپانے کے ساتھ ساتھ جنس کا پہلو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔
’’اب ہم چند انٹر ایکٹیو وڈیو دیکھیں گے جو انسانی رویوں کو ظاہر کریں گی۔‘‘ ہمارے استاد اعلان کرتے ہیں۔ چند لمحات کے بعد ہم چند ایسے اشتہارات دیکھتے ہیں جن میں جنس کے پہلو اور عریانیت کے گرد معاشی تحریک کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ایک ایسی لا حاصل بحث چھڑتی ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان وڈیوز سے مشہور برانڈز کی کامیاب تشہیر مقصود ہے۔
میں مارکیٹنگ الیکٹیو کورس کی کلاس میں بیٹھی ہوں۔ اس کورس کو کنزیومر بیہیویئر (صارف کا رویہ) کے نام سے بھی شناخت کیا جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ کلاس میں صرف جنس کے پہلو پر بحث ہو رہی ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ لڑکے اور لڑکیاں کسی بھی قسم کی پریشانی محسوس کیے بغیر ایک ساتھ بیٹھے ہیں، جی بھر کے ڈسکشن کر رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں اور میں حیران و گم سم بیٹھی رہ جاتی ہوں۔ کیا میں واحد فرد ہوں جو اس گروپ کا حصہ بننے پر شرمندہ ہوں۔ کیا ہم اپنی تمام اَقدار اور اخلاقیات سے یکسر محروم ہوچکے ہیں؟ میرا خیال ہے میں طلبہ کے طبقۂ اشرافیہ کے بارے میں بات کر رہی ہوں جو اس موضوع پر گفتگو کرنے کو بے باکی اور اعتماد کی نمایاں ترین علامت گردانتا ہے۔ اِس سے بڑھ کر بے شرمی اور دکھ کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی حیا سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟ اسلام حیا کو اس سادگی سے تعبیر کرتا ہے جو ہماری زندگی میں حقیقی حسن اور نکھار پیدا کرتی ہے۔ ’’گفتگو میں حیا اور سادگی ایمان کے بنیادی اجزا ہیں۔ بے ڈھنگے انداز اور زیادہ بولنا صرف منافقت کی علامت ہے‘‘ (ترمذی) اور اپنے آپ کو حقیقی اعتبار سے زندہ ثابت کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان حیا کو اپنائے کیونکہ یہ حیا ہے جو ہمارے قلب کو زندہ رکھتی ہے، ہم میں روحانیت یعنی زندگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارا دین مکمل ضابطۂ حیات ہے ہمارے افکار اور اعمال سے اسلام کو جھلکنا چاہیے۔ اِس کورس کے دوران ہمارے استاد نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمیں کسی بھی حال میں مذہب پر بات کرنے کی اجازت ہے نہ سیاست پر۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے تمام اساتذہ کا یہ خیال ہے کہ اسلام ہمارا انفرادی معاملہ ہے۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ ہم بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی اسناد اپنے دین کو کھو کر حاصل کرتے ہیں۔ کیا ہم اچھی خاصی رقوم محض اس نکتے پر بحث کے لیے خرچ کر رہے ہیں کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دی جانی چاہیے یا نہیں۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم کی صورت حال۔ اس تعلیم نے ہمیں سیکولر بنادیا ہے۔ ہم انگریزی بولنے کی مہارت رکھنے کے معاملے میں تو عام انگریزوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں مگر اس روش نے ہمیں اسلام سے دور کردیا ہے۔
گھنٹی کی آواز میرے خیالات کو منتشر کردیتی ہے۔ میں ماحول کا جائزہ لیتی ہوں، کتابیں سمیٹتی ہوں اور ذہن میں یہ سوال لیے کلاس روم سے نکل جاتی ہوں کہ میری شناخت کیا ہے؟ میں مسلم ہوں یا ایک سیکولر کلاس کا حصہ ہوں جس کے لیے حیا جیسا موضوع مردہ ہوچکا ہے؟ مجھے اس مرحلے پر ایک حدیث یاد آرہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اسلام ایک اجنبی تصور کی حیثیت سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یہ پھر اجنبیت کا حامل ہوتا جائے گا۔ اجنبیوں کا ہنس کر خیر مقدم کرو‘‘۔
یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کہ ہم اپنے دین سے کتنے دور اور شناخت سے محروم ہوچکے ہیں۔ آج کے دور میں جو لوگ اسلام پر عمل کرتے ہیں وہ معاشرے کے لیے اجنبی کا درجہ رکھتے ہیں اور اقلیت کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر اِن کا بھرپور خیر مقدم کیا جانا چاہیے کہ یہی تو اللہ کے محبوب ترین بندے ہیں۔
(مصنفہ پاکستان کے ایک صفِ اوّل کے بزنس اسکول کی ایم بی اے ہیں)
(“A Question of Identity”. Quarterly “Hiba”. April – June 2012)
Leave a Reply