ایک لمحہ میں ہم اشوک مترا کی کتاب کی طرف آئیں گے جس میں انہوں نے من موہن سنگھ کو ایک امریکی پودے کے طور پر لعن طعن کی ہے لیکن پہلے ہم جنوبی ایشیا کی پَھلتی پُھولتی جمہوریائوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔
کتنا عرصہ قبل اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی تھی؟ اندرا گاندھی کی ڈکٹیٹر شپ ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء کے دوران ۱۸ ماہ تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ موصوفہ نے انتخابات کا اعلان کر دیا اور ہار بھی گئیں۔ جبر پر مبنی اس مختصر مدت کی حکومت کے خلاف احتجاج کی آوازیں بیشتر مغربی ممالک کی طرف سے اس زور سے بلند ہوئیں کہ کان کے پردے پھٹنے لگے۔ یہ اس دنیا کی طرف سے ایک عجیب رویے کا اظہار ہے جس نے دیش کے ضیاء الرحمن اور پاکستان کے ضیاء الحق جیسے بدمعاش جنرلوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کھیلیں۔ ہم سری لنکا کے جونیئس جے وردھنے کو نہ بھولیں۔ ہمیں اندرا گاندھی کے حالات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ خاص طور سے کہیں زیادہ سنگین واقعات کے بعد جو عدلیہ کے حوالے سے صورت پذیر ہیں، مثلاً آج پاکستان میں۔ مسز گاندھی سویت یونین کی حاشیہ بردار تھیں اور ان کی ایمرجنسی کو ان کے ماسکو حامی دوستوں کی حمایت حاصل تھی۔ مثلاً کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی۔ یہ بہت بری صورت حال تھی۔ دوسری جانب جو ان کا مخالف گروہ تھا، اس میں کانگریس سے ٹوٹا ہوا امریکا نواز دھرہ تھا اور ہندو احیا پرست تنظیم تھی یعنی جن سنگھ جو دنیا کی وہ مخلوق ہے جس نے جنوبی ایشیا میں اشتراکیت مخالف حکمتِ عملی کی اصلاً بنیاد رکھی اور آج جو بی جے پی کے ہراول دستوں میں ہے، بھی شامل تھی۔ علاوہ ازیں مسز گاندھی کے دشمنوں میں چین کے حامی اشتراکی بھی شامل تھے۔ جمہوریت کی تخریب کے آج جو معیارات ہیں، اس روشنی میں مسز گاندھی کا انداز قدرے نرمی کا معلوم ہوتا ہے۔
۱۲ جنوری ۱۹۷۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموہن لال سہنا نے انتخابی مہم کے لیے حکومتی مشنری کے ناجائز استعمال کی بنا پر اندرا گاندھی کو مجرم قرار دیا۔ عدلیہ نے ان کے انتخاب کو باطل قرار دیا اور لوک سبھا کی ان کی رکنیت کو ختم کر دیا۔ عدلیہ نے ان پر آئندہ چھ برس تک کوئی انتخاب لڑنے پر بِھی پابندی عائد کر دی۔ یہی کچھ امریکا نواز جے وردھنے نے بھی سری لنکا میں بندرانائیکے کے ساتھ کیا جو اس وقت وہاں کی وزیراعظم تھیں۔ جے وردھنے نے انہیں معطل کیا اور آئندہ کسی انتخاب میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حقیقتاً جو سنگین الزامات تھے مثلاً ووٹروں کو رشوت دے کر رام کرنا اور دوسری انتخابی دھاندلیاں، وہ اندرا گاندھی کے مقدمے سے حذف کر دیے گئے۔ اس کے بجائے انہیں ملزم اس بنا پر ٹھہرایا گیا کہ انہوں نے صوبائی پولیس اہلکاروں سے ڈائس تیار کراویا اور الیکٹریسٹی بورڈ جیسے حکومتی ادارے کی بجلی انتخابی جلسوں میں استعمال ہوئی اور یہ کہ جو ڈائس انہوں نے تقریب کے لیے استعمال کی، اس کی اونچائی بہت زیادہ تھی۔ جو بھی ان امور سے واقف ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس طرح کی سہولیات وزیراعظم کے سکیورٹی پروٹوکول کے لیے بہت ضروری ہیں۔ سیاسی اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال کا معیار جو آج ہے، اس حوالے سے یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ اندرا گاندھی پر حکومتی مشنری کے ناجائز استعمال کا جو الزام تھا، وہ اس لیے تھا کہ انہوں نے ایک حکومتی ملازم یشپال کپور سے انتخابی مہم میں کام کروایا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بے چارے کا قصور یہ تھا کہ حکومتی ملازمت سے استعفیٰ منظور ہونے سے پہلے اس نے اندرا گاندھی کی انتخابی مہم میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ چونکہ عدالت نے اندرا گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت نسبتاً غیرسنجیدہ الزامات کے ساتھ ختم کیا تھا چنانچہ ’’ٹائمز‘‘ نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا کہ “Firing the Prime Minister for traffic Ticket” یعنی ٹریفک ٹکٹ کے لیے وزیراعظم کو برطرف کرنا۔ بہرحال اس کے جواب میں اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی۔ اس کی سنگینی کو رائے عامہ نے اس لیے شدت سے لیا کہ جنوبی ایشیا میں یہ سرد جنگ کے قریبی پس منظر میں کھیلا جانے والا شطرنج کا کھیل تھا۔ آمریت سے متعلق عام طور پر اپنے ایپروچ کا تعین پالتو کتّے کی صفات کی بنا پر نہیں کرتے بلکہ اس کے مالک کے عوامی اثر و رسوخ کی بنا پر کرتے ہیں۔ اس بات کی کوئی لائقِ یقین وجہ نہیں ہو سکتی کہ دنیا نے کیوں امسال جنوری میں بنگلا دیش میں فوج کی عائد کردہ ایمرجنسی کو گلے سے لگا لیا جو خاموش انداز میں چور دروازے سے وارد ہوئی۔ بنگلا دیش میں نگراں حکومت کے مشیرِ اعلیٰ کے طور پر ڈاکٹر فخرالدین احمد کے ورود نے اس گمشدہ سِرے کو اس طرزِ حکومت میں دریافت کر لیا ہے جو سرد جنگ کے بعد جنوبی ایشیا میں کچھ برسوں سے مروج ہے۔ ڈاکٹر فخرالدین احمد ایک بینکر ہیں جنہیں ورلڈ بینک میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کا تجربہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شوکت عزیز بھی ایک بینکر ہیں۔ ان کی آخری پوسٹنگ نیویارک میں Citi Corp. (سٹی کارپوریشن) میں تھی۔ دونوں کو اپنے ملک کی مسلح افواج کی حمایت حاصل ہے اور اس گھومتے ہوئے دروازے کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے جو بھارتی وزیراعظم کے دفتر کو (واضح رہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا دفتر سب سے زیادہ طاقتور ہے) ورلڈ بینک سے مربوط کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کے دو کلیدی معاون افسران یعنی ریزرو بینک کے سربراہ اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی ورلڈ بینک سے مستعار ہیں اور بھی کئی افسران کا اس گھومتے دروازے سے ربط ہوتا رہا ہے لیکن فی الوقت صرف ۲ افسران ہیں۔ واجپئی کے دور میں نج کاری کے جو وزیر تھے وہ ورلڈ بینک کے سابق ملازم تھے۔ یہ بات آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی کہ جب جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر ۱۹۹۹ء میں نواز شریف کو ایک پُرامن فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا تو واجپئی نے علانیہ جنرل مشرف کے خلاف کافی برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم اس بات کو بھی پسند نہیں کر رہے تھے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پبلک میں دیکھے جائیں جو کہ پاکستان میں اقتدار کے غاصب ہیں۔ اس ناراضی کے سبب کاٹھمنڈو میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس ایک سال کی تاخیر سے منعقد ہوئی۔ بھارت کی پرویز مشرف کے ساتھ عوامی ناراضی کھوکھلی معلوم ہوئی جب ہم نئی دہلی کو بنگلا دیش کی فوج کے حالیہ عوامی چہرے کے ساتھ عافیت اور گرمجوشی کا احساس کرتے دیکھتے ہیں۔ دہلی کے ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے موافقت میں فرق کو واضح طور سے سمجھنا چاہیے۔ ۱۹۹۹ء میں دنیا (یعنی امریکا) کو حقیقتاً معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کا نیا ڈکٹیٹر نواز شریف کی بازار دوست اقتصادی پالیسی کو عملاً موثر بنا سکے گا۔ یہ شبہ فوجی بغاوت کے ایک ماہ کے اندر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا جب شوکت عزیز کو نیویارک سے وزیرِ مالیات کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بلایا گیا۔ لیکن بھارت نے تھوڑا وقت لیا، اس بات کے لیے کہ وہ پرویز مشرف کی اقتصادی پالیسی میں تسلسل کا مشاہدہ کر سکے اور ہمیں یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارت نے یہ وقت اس لیے بھی لیا تھا کہ وہ اپنے غرور کا کچھ خمار توڑ سکے۔ گزشتہ ہفتے شوکت عزیز جب نئی دہلی کے دورے پر تھے تو اس دوران انہوں نے پرائیوٹائزیشن اور لیبرلائزیشن کے منتر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے اس طرح کی بات پریس کانفرنس میں بھی کی اور دو دیگر فورم سے بھی کی۔ یہ ترغیب ہے اور شاید اس بات کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدلیہ کے ساتھ اپنی حکومت کی موجودہ مشکلات کا ربط پرائیوٹائزیشن کے لیے اپنی فکر مندی سے جوڑ سکیں۔ یہ وہ فکر مندی ہے جس میں جنوبی ایشیا کے ان کے دوسرے ساتھی بھی شریک ہیں۔ اپیکس کورٹ کی ۹ رُکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس افتخار کر رہے تھے، سعودی عرب اور پاکستان کے سرمایہ کاروں کے ۳۶۲ ملین ڈالر کی مشترک سرمایہ کاری کے عوض اسٹیل مل کی نجکاری کے پروگرام کو مسترد کر دیا۔
جس طرح Bertolt Brecht نے ہٹلر کو یہ مضحکہ خیز مشورہ دیا تھا کہ وہ ’’نئے لوگوں کا انتخاب کر لے‘‘ اسی طرح مشرف اور عزیز کی دوہری شراکت نئی عدلیہ کے انتخاب میں کوشاں معلوم ہوتی ہے۔ متوقع طور سے یہ قدم نج کاری کے حوالے سے ان کی فکرمندی کے حق میں جائے گی۔ اعلیٰ سطح کا نِروان (نجات) کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو بازار دوست ورلڈ بینک کا مرید ہے، اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ Unocal کی طرح کسی بھی آئل ٹرانسنیشنل کی خدمت گزاری کرے۔ ہم کابل میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ڈاکٹر مترا نے اپنی دلچسپ کتاب “A Pratter’s Tale” (ایک بسیار خور کی کہانی) میں کہا ہے۔ یہ کتاب جو بنگالی سے ترجمہ ہوئی ہے، گزشتہ جذباتی تاثرات و تجربات پر مشتمل یادوں کا مجموعہ ہے۔ ۸۰ کی دہائی میں پہنچے جناب مترا ماضی میں اندرا گاندھی کے اقتصادی مشیر رہے ہیں اور مغربی بنگال کی مارکسی حکومت میں وزیرِ مالیات رہے ہیں۔ وہ ۱۹۹۱ء میں وزیراعظم سرسمہا رائو کی کابینہ میں من موہن سنگھ کے بطور وزیرِ مالیات، غیر متوقع تعین کے حوالے سے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہیں جو خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’بیرونی زرِ مبادلہ اس حد تک گم ہو گیا تھا کہ وہ صرف ۱۵ روز کی درآمدات کے لیے کافی ہو سکتے تھے۔ بھارت بڑی تیزی سے دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ارتباط سے دہلی کو ایک واضح پیغام بھیجا، اس ’’خفیہ مذاکرات‘‘ کے ذریعہ جس کا آغاز لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے معلوم ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ ’’ہمارا حکم مانو اور اپنے آپ کو بچائو یا اعتراض کرو اور لٹک جائو‘‘۔ دہلی حکم ماننے پر رضامند ہو گیا۔ لیکن اس قسم کی یقین دہانیوں کی عدم تکمیل کے خوف سے جس کا تجربہ لاطینی امریکا میں ہوا تھا، واشنگٹن نے کسی شک و شبہ سے بالاتر ضمانت کا مطالبہ کیا۔ یہ فیصلہ ہوا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ملک کے وزیرِ مالیات کو امریکی حکام سے مشورہ کے بعد نامزد کریں گے۔ نئے وزیرِ مالیات کی نامزدگی کا اختیار بھی واشنگٹن کو منتقل ہو گیا۔ چنانچہ گھومتا دروازہ جو ہمارے رہنمائوں سے مربوط ہے خواہ وہ ڈیمو کریٹ ہوں، ڈکٹیٹر ہوں یا بینکر ہوں، بڑی بے دردی سے قسمت کا پہیہ گھمانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوا ہے اور یہی بالآخر جنوبی ایشیا کے مستقبل کا تعین کرے گا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۹ اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply