ایک علمی و اخلاقی بحث

اہلِ مطالعہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے واقعات تمام سابقہ امتوں اور قوموںکے واقعات کی نسبت زیادہ ذکر کیے گئے ہیں اسی طرح تمام انیباء کرام میں سے سب سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا اسم گرامی قرآن مجید میں ایک سو چھتیس مقامات پر ذکر ہواہے جو کہ حضرت ابراہیم ؑ کے نام سے دوگنا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد سب سے زیادہ جس نبی کا تذکرہ قرآن مجید میں ہوا ہے وہ حضرت ابراہیمؑ ہیں یعنی ان کا اسم گرامی۶۹ مقامات پر ذکر کیا گیاہے اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام ہی وہ پاکیزہ دین ہے جو توحید کی بنیاد پر قائم اور اس کے موئسس حضرت ابراہیم ؑ ہیں اور اسی دین اسلام کو خداوندعالم نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لیے مکمل کیا چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد حق تعالیٰ ہے۔

’’دین اسلام تمہارے پدر بزرگو ارابراہیم کادین ہے انھوں نے ہی تمہیں مسلمان کے نام سے موسوم کیا تھا۔‘‘ (سورۃ حج ؛ آیت: ۷۸)

بنی اسرائیل کے بارے میں تاریخی شواہد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ تمام قوموں سے زیادہ ضدی اور جھگڑالو قوم تھی وہ حق کو تسلیم کرنے کی بابت تمام قوموں کی نسبت سب سے زیادہ دوری اختیار کرنے والے لوگ تھے یہی حال کفار عرب کا تھا کہ جن سے حضرت پیغمبر اسلام محمدﷺ کو پالا پڑا وہ بھی بنی اسرائیل کی مانند ضدی، جھگڑا لو اور حق سے دوری اختیار کرنے والے افراد تھے بلکہ ان کی تو یہ حالت ہو چکی تھی کہ خدا وند عالم نے ان کے متعلق آنحضرت سے یوں ارشاد فرمایا:

’’جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے برابر ہے کہ آپ انھیں انذار کریں یا انذارنہ کریں، خوف خدا سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں مانیں گے۔‘‘ (سورۃ بقرۃ : آیت: ۶)

حقیقت امر یہ ہے کہ قرآن مجید نے بنی اسرئیل کی جن برائیوں اور بری صفات و قبیح عادات کا تذکرہ کیا ہے مثلا ان کی سنگدلی، ظلم و ستم وغیرہ وہ سب کفار عرب میں موجود تھیں بہر حال اگر آپ قرآن مجیدمیں مذکور بنی اسرائیل کے واقعات پر غور کریں اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی عادات و اخلاق پر نظر کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ لوگ نہایت دنیا پرست، لالچی، ظاہری زندگی کی فنا پذیرلذتوں کے اسیر اور نفسانی خواہشات میں پوری طرح گھرے ہوئے تھے ،وہ لوگ اپنی عیاشیوں میں اس قدر سرمست تھے کہ عیش و عشرت کے سوا کسی چیز کو خاطر میں ہی نہ لاتے تھے محسوسات کے علاوہ کسی چیز پر ایمان نہ لانا اور ماورائے طبیعت کا کلی طور پر انکار کرنا ان کے اعتقادات کی بنیادیںتھیں، وہ مادی لذتوں اور دنیاوی کمالات کے سواکسی چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور وہ اب بھی اسی حال میں ہیں۔ ان کی یہ حالت و عادت اور غلط اعتقادی و عملی بنیادیں ہی اس بات کا سبب بنیں کہ وہ اپنی عقل وارادہ میں حس و مادہ، محسوسات و مادیات کے تابع ہوئے اور حس و مادہ ہی کو ہر چیز کی بنیاد قرار دے کر غیر مادی و نا محسوس امور کے منکر ہوئے یہاں تک کہ اگر کسی چیز کے بارے میں حس و مادہ سے تصدیق حاصل نہ ہو تی تو وہ اسے تسلیم ہی نہیں کرتے تھے خواہ وہ حق اور صحیح ہی کیوں نہ ہو، مادہ پرستی میں اس حد تک پہنچ جانا ہی اس بات کا موجب بنا کہ وہ اچھے اور برے کام کی تمیز و پہچان بھی مادی و محسوس ہونے کی بنیاد پر کریں اور جس چیز کو ان کے بزرگوں نے اچھا سمجھا یعنی دنیاوی لذتیں اور مادی آسائشیں وغیرہ وہ بھی اسے اچھا قرار دیں خواہ وہ ناحق و باطل ہی کیوں نہ ہوں اس غلط و نادرست نظریات و افکار اور اعمال کا نتیجہ یہ ہو اکہ ان کے قول و فعل میں تضاد پیدا ہو گیا چنانچہ انھوںنے نامحسوس امور میں ہر قسم کے اتباع و پیروی کو اندھی تقلید کا نام دے کر اسے مورود مذمت قراردیا خواہ وہ کام ہر لحاظ سے صحیح ہی کیوں نہ ہو جب کہ ہر محسوس و مادی اور ان کی نفسانی خواہشات سے مطابقت رکھنے والے امور میںہر طرح کے اتباع و پیروی اور دوسروں کے نقش قدم پر چلنے کو روا سمجھا خواہ وہ کام کتنا ہی برا کیوں نہ ہو۔ ان کے اس غلط نظریہ وروش کو مصر میں ان کے طویل عرصہ تک قیام پذیر رہنے نے مزید تقویت دی جب کہ مصریوں نے انہیں ہر طرح سے ذلت سے دو چار رکھا، انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا، ان پر ہر طرح سے سختیاں کیں، انھیں گونا گوں مظالم کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتے اور ان کی بیٹیوں کو گھروں میں کام کاج کرنے کے لیے زندہ رہنے دیتے تھے اور یہ سب کچھ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے لیے بہت بڑا امتحان تھا۔

بہر حال وہ اپنی مذکورہ عادات و اعمال اور افکار و روش کی وجہ سے اپنے انبیاء کے احکامات اور اپنے علماء کی ہدایات ونصیحتوں پر کان ہی نہ دھرتے تھے جب کہ انبیاء و علماء نے ہمیشہ انھیں اچھی زندگی بسر کرنے اور آخرت سنوارنے کے لیے بہترین رہنمائیاں کیں ا س سلسلے میں ان کی طرف سے حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک کو خاطر میں لائیں تو صورت حال واضح ہو جاتی ہے اس کے بر عکس وہ لوگ خود غرض حکام اور متکبر و ستم گر افراد کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے تھے یہی صورت حال آج بھی پائی جاتی ہے اورعصر حاضر میں بھی حق و حقیقت کا انہی مادی افکار او نظریات اور تباہ کن عادات وروش سے سامنا ہے جو ہمیں مغربی ممالک سے تحفہ کے طور پر دی گئی ہیں کہ جن کی بنیاد حس و مادہ کے سواکچھ نہیں بلکہ ان اہل مغرب کی تہذیب و ثقافت کی اصل و اساس ہی حس و مادہ ہے اور ان کے ہاں نا محسوس وغیر مادی چیز کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہی اس کی بابت کسی دلیل و ثبوت کو درخور اعتنا قرار دیا جا تا ہے جب کہ لذت بخش مادی و محسوس چیزوں کے صحیح ہونے میں کسی دلیل و ثبوت کی تلاش کو ضروری ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اسی وجہ سے تمام تر انسانی فطرتی تقاضے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ان کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور ہم بلند پایہ علوم و معارف اور پاکیزہ اخلاق سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ اس سے انسانیت کی عظیم عمارت کے منہدم ہونے اور دنیا ئے بشریت کی تباہی کا اندیشہ ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ تمام لوگ بہت جلد اس خطرہ سے باخبر ہو جائیں گے اور پوری ایمانی و انسانی قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے جس کے نتیجے میں ان غلط و نادرست نظریات کا قلع قمع ہو جائے گا اگر علم اخلاق کی روسے بھی دیکھاجائے تب بھی ان کے افکار و نظریات کی نفی ہوتی ہے کیونکہ یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ ہر دلیل قابلِ قبول اور ہر تقلید(دوسروں کے نقش قدم پر چلنا) مذموم ہے اس کی وضاحت کے لیے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان انسان ہونے کے حوالے سے اپنے ان ارادی افعال کے ذریعے جو اس کی قوت فکر و ارادہ پر موقوف ہیں کہ ان کے بغیر اس کا کوئی کام انجام پذیر نہیں ہو سکتا اپنی زندگی کے سفر کمال کو طے کر رہا ہے پس فکر و نظر ہی ایسی پختہ اساس و بنیاد ہے جس پر انسان کے وجود کا حقیقی کمال استوار ہے لہٰذا ہر انسان کے لیے ضروری و لازم ہے کہ جو کچھ بھی اس کے وجودی کمال سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی بھی طرح سے تعلق رکھتا ہو اسے عمل یا فکر و نظر کی قوتوں سے ہم آہنگ کرے یعنی جن عملی یا فکر و نظر کی قوتوں سے اس کے وجودی کمال کا بالواسطہ یا بلا واسطہ ربط ہو ان سے ہم آہنگی ضروری ہے اور یہ عملی و نظری تصدیقات دراصل اپنی بنیادی مصلحتوں کا دوسرا نام ہے جنہیں ہم اپنے روز مرہ کے انفرادی و اجتماعی کاموں کی اصل واساس قرار دیتے ہیں اور اپنے تمام افعال کے موجب و علت کے طورپر یاد کرتے ہیں یا یہ کہ پہلے ان مصلحتوں و حکمتوں کو ذہنی طور پر اپنے افعال سے ہم آہنگ کرتے ہیں پھر اس کے بعد وہ کام سر انجام دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مصلحتوں اور متوقع نتائج کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی انسان کی فطری طبع کا حصہ ہے کہ وہ ہر واقعہ کی علت و سبب کی جستجو میں رہتا ہے اور جو نیا واقعہ رونما ہو اس کے اسباب سے آگاہ ہونا چاہتا ہے بلکہ اس سے بالا تر یہ کہ جو چیز بھی ا س کے ذہن میں آئے اس کی بابت ہر طرح سے آگاہی حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب تک اپنے ذہن میں آنے والی چیز کی علت و سبب سے آگاہ نہ ہو جائے اسے عملی جامہ نہیں پہناتا۔ اسی طرح کسی علمی نظریہ کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرتا جب تک کہ اس کی علت و سبب سے آگاہ ہو کر اس کی علمی تصدیق کے مراحل طے نہ کر لے۔ یہ روش اس کی فطری طبع کے جزو لا ینفک کا درجہ رکھتی ہے کہ جس سے وہ ہرگز رو گردانی نہیں کرتا اور نہ یہ کسی سلسلے میں اسے نظر انداز کرتا ہے۔ تاہم اگر چند موارد ایسے نظر آئیں کہ جن میں اس کے اس فطری اصول کی بظاہر خلاف ورزی کا مظاہرہ دکھائی دے تو اگر اس میں بھی عمیق نظروں سے دیکھا جا ئے تو غلط فہمی دور ہو جائے گی اور معلوم ہو جائے گاکہ ان موارد میں بھی فطری طبع کا وہ جذبہ کار فرما تھا اور علت و سبب کی جستجو کے فطری تقاضے کی تکمیل ہوئی تھی کیونکہ یہ جستجو درحقیقت فطری طبع کا جزو لاینفک ہے کہ جسے نظر انداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا فطرت میں تبدیلی ممکن ہی نہیں اور نہ ہی اس کے بنیادی تقاضوں میں کوئی خلل واقع ہو سکتا ہے بلکہ اگر حقیقت بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی فطری جذبہ اس امر کا سبب بنا کہ انسان اپنی وسیع طبیعی احتیاجات کے پیش نظر اپنی طاقت و قوت سے بالا تر فکری و عملی میدان میں تحقیقی کاوشیں بروئے کار لائے لیکن چونکہ وہ اکیلا اپنی تمام تر احتیاجات اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی انفرادی صلاحیتوں کا سہارا لے کر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا تھا اس لیے فطرت نے اسے معاشرتی شاہراہ پر لا کھڑا کیا اور تہذیب و تمدن کے اجتماعی اصول اپنانے کی راہ دکھائی اور فطرت ہی نے زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تمام افراد معاشرہ کے درمیان ذمہ داریاں تقسیم کرنے کی ترغیب دلائی اس مطلب کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ انسان کے لیے اپنی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا انفرادی طور پر ممکن نہ تھا اس لیے فطرت نے اس کی احتیاجات کی وسعت اور تکمیل کے لیے انفرادی قوتوں کی عدم توانائی کے پیش نظر اسے اجتماعی قوتوں سے استفادہ کی راہ دکھائی اور اسے اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ وہ اپنے ہم نوع افراد کی صلاحیتوں سے باہمی طورپر فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرے اور ہر کام کے لیے کچھ افراد کو مخصوص کر کے اس کام کو انجام دینا ان کے سپرد کیا جائے اور معاشرہ کے تمام افراد اس طرح عمل کریں جس طرح ایک بدن کے اعضاء اپنی قوتوں سے باہمی اسفادہ کرتے ہوئے بدن کی سلامتی و بقا کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ میں بھی ہر شخص اپنی قوتوں و صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اجتماعی و معاشرتی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے،جس کے نتیجے میں ہر شخص کی انفراد ی زندگی کی احتیاجات کی تکمیل بھی ممکن ہے اور معاشرے کی بقاء و استحکام کی ضمانت مل سکتی ہے اور یہ بھی ناقابل انکار امر ہے کہ انسانی زندگی کی ضرورتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا چلا جا تا ہے جس کے نتیجے میں علوم و فنون اور صنعت و حرفت میں ترقی ہوتی ہے اور پھر ہر شعبہ میں ماہرین کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جس کے لیے ماہرین کی تربیت کا بندو بست کرنا بھی نا گزیر ہو جا تا ہے، اس معاشرتی ضرورت کی واضح مثال موجودہ دور میں پائے جانے والے علوم و فنون کی کثرت ہے ان میں سے کتنے ایسے علوم ہیں جو پہلے زمانے میں ایک علم کی صورت میں تھے اور ایک ہی شخص اس علم کا ماہر ہوتا تھا لیکن اب ایک علم کے متعدد شعبوں کے قیام کی وجہ سے ہر شعبہ میں ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً علم طب کہ جو زمانہ قدیم میں ایک ہی علم تھا اور علم طبعییات کی ایک فرع کے طور پر پہچانا جا تا تھا لیکن موجودہ دور میں اس کی متعدد قسمیں ہو چکی ہیں اور وہ کئی علوم و فنون اور شعبوں میں بٹ چکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنا ہی با کمال کیوں نہ ہو لیکن ایک سے زیادہ علم میں مہارت حاصل نہیں کر سکتا۔ بنا بریں ہر شخص کو فطری طور پر اس بات کا اشارہ ملا کہ جن امور میں اسے مہارت حاصل ہے ان کی بابت اپنے علم و آگہی کی بنیاد پر تحقیق و جستجو کے عمل کو جاری رکھے اور اپنی معلومات کو اساس قرار دیتے ہوئے عملی اقدام کرے اور جن چیزوں میں دوسرے افراد کو مہارت حاصل ہے ان میں انہی کی بات کو تسلیم کر کے ان کی مہارت علمی کا سہارا لے اسی حوالہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقلائے عالم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ہر شخص ہر فن میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کرے اور یہ رجوع کرنا دراصل ’’تقلید‘‘ ہی کے معروف و مشہور معنی سے عبارت ہے کہ جس سے مراد ہر اس مسئلہ و موضوع میں اجمالی دلیل کا سہارا لینا ہے جس کی تفصیلی دلیل تک دسترس حاصل نہ ہو سکے۔ جیسا کہ دوسری جانب یہ امر بھی مسلم ہے کہ انسان فطری طور پر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ جس چیز کی بابت اسے قوت وصلاحیت حاصل ہے اس میں دوسروں کی تقلید نہ کرے بلکہ بذات خود اس کے بارے میں بحث و تحقیق کر کے اس کے تفصیلی دلائل سے آگاہی حاصل کرے۔

بہر حال دونوں صورتوں اپنی تحقیق اور دوسروں کی تقلید میں اصل معیار عمل یہ ہے کہ کوئی شخص علم کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہ کرے اگر اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو تو اجتہاد کرتے ہوئے ہر اس مسئلہ و موضوع کی تفصیلی دلیلوں سے آگاہی حاصل کرے جو اسے روزمرہ کی زندگی میں در پیش ہو اور اگر اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس شخص کی تقلید کرے جو اس مسئلہ و موضوع کا علم رکھتا ہو اور چونکہ یہ امر محال و نا ممکن ہے کہ دنیائے انسانیت کا کوئی ایک فرد زندگی کے تمام امور اور مسائل و موضوعات میں علمی مہارت کا حامل ہو اور زندگی کے تمام بنیادی امور میں کسی کا سہارا لیے بغیر اجتہاد کر لے۔ لہٰذا یہ بات بھی محال و نا ممکن ہوگی پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص پایا جائے جو کسی کی تقلید نہ کرتا ہو اور اگر کوئی شخص اس کے بر عکس ادعاء کرے یا اپنے بارے میں اس کے علاوہ کچھ سوچتاہو مثلاً اپنے تئیں یہ سمجھتا ہو کہ زندگی کے کسی مسئلہ میں کسی دوسرے کی تقلید یا کسی کی علمی مہارت کا سہارا لینے کا محتاج نہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے اوراس نے خود اپنی حماقت و بے وقوفی کا ثبوت فراہم کر دیا ہے البتہ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مسائل میں دلیل و سبب سے آگہی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں ہو ان میں اندھی تقلید ہر گز درست نہیں اور اسی طرح جن مسائل میں بحث و تحقیق کی اہلیت ہی حاصل نہ ہو ان میں اجتہاد کرنا یا اجتہاد کا دعویٰ کرنا نہایت گھٹیا و پست اور غیر اخلاقی حرکت ہے کہ جس سے معاشرہ تباہ و برباد ہو جا تا ہے اور دنیا ئے بشریت کی پاکیزہ صورت بگڑ جاتی ہے بہر حال یہ بات ہر گز تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ معاشرہ کے تمام افراد زندگی کے تمام مسائل میں مجتہد ہوں اور کسی مسئلہ میں دوسرے کی تقلید نہ کرتے ہوں اور نہ ہی یہ کہ زندگی کے تمام مسائل میں دوسروں کی تقلید کریں اور دوسروں کی تقلید اور ان کی علمی صلاحیتوں کا سہارا لینا ہی ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرار پائے کیونکہ اس طرح کی پیروی خدا کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی یعنی خدا کی ذات ہی وہ عظیم ذات ہے جس کی پیروی کرنے میں کوئی محدودیت نہیں بلکہ ہر مسئلہ میں اس کے احکام کی اطاعت و پیروی کرنا ہی کمال انسانیت ہے اور اسی کی مطلق اطاعت و پیروی کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ ایسا مضبوط سبب ہے کہ تمام اسباب اسی تک پہنچتے ہیں وہی ہر سبب کا منتہا ہے۔

(بحوالہ ترجمہ ’’المیزان فی تفسیر القرآن‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*