مشرقِ وسطیٰ میں بہت کچھ تیزی سے بدل رہا ہے۔ بعض مقامات پر صورت حال انتہائی دھماکا خیز ہوچکی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ دیگر تبدیلیاں بھی جاری ہیں۔ مثلاً امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں بھی ایسی بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جو امریکا اور عالم اسلام کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بہت کچھ اِتنی تیزی سے اور اِتنے بڑے پیمانے پر تبدیل ہو رہا ہے کہ ہر معاملے کا احاطہ آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک طرف تو شام میں بھرپور خانہ جنگی کی ابتدا ہوا چاہتی ہے، دوسری طرف اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور تیسری طرف گستاخانہ فلم کے جاری ہونے کے بعد سے بیشتر اسلامی ممالک میں امریکا کے خلاف شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے اور امریکا کی حمایت سے سیاسی میدان میں پنپنے والا اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو براک اوباما کو دوبارہ صدر منتخب ہونے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اس نے اسرائیل کو امریکی سیاست میں براہِ راست داخل کردیا ہے۔ نیتن یاہو امریکا کو ایران کے خلاف جنگ کے میدان میں اترنے پر مجبور بھی کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ نیتن یاہو نے اس قدر کھل کر اور ایسی دیدہ دِلیری سے کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے عشروں پر محیط دوستانہ اور خاصے مفید تعلقات بھی داؤ پر لگ گئے ہیں۔
امریکا میں آباد یہودیوں کی رائے عامہ کا بہترین ترجمان سمجھا جانے والا اخبار ’’دی جیوئش ڈیلی فارورڈ‘‘ اپنے ایک حالیہ اداریے میں لکھتا ہے ’’بنیامین نیتن یاہو نے جس انداز سے اپنے آپ کو اور اسرائیل کو امریکی انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں اتارا ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسی بھی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قریبی اور قابل اعتبار اتحادی نے امریکا پر یوں کسی ملک سے انتہائی متنازع، غیر مقبول اور انتہائی خطرناک جنگ کے لیے دباؤ ڈالا ہو۔ یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خود نیتن یاہو کو بھی اندازہ تو ہوگا کہ امریکا اگر اسرائیل کے کہنے پر ایران کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے تو ایران کے علاوہ خود اِن دونوں ممالک کے لیے اُس جنگ کے کِتنے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے‘‘۔
اداریے میں مزید لکھا ہے ’’امریکی نہیں چاہتے کہ اب کہیں اور طالع آزمائی کی جائے۔ وہ کسی اور اسلامی ملک سے جنگ کے حامی نہیں اور وہ تو اس بات کے بھی حامی نہیں کہ اگر اسرائیلی حکومت ایران کے خلاف جنگ چھیڑے تو اس کا ساتھ دیا جائے۔ شکاگو کونسل آن گلوبل افیئرز نے حال ہی میں ایک سروے کرایا جس میں یہ سوال رکھا کہ اگر اسرائیلی فوج ایران پر حملہ کردے تو امریکا کو جنگ میں کودنا چاہیے یا نہیں؟ ۵۹ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ اس جنگ میں امریکا کو شامل ہوکر اسرائیل کا ساتھ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ صرف ۳۸ فیصد کا جواب یہ تھا کہ امریکا کو اس جنگ کے میدان میں فوج اُتارنی چاہیے‘‘۔
امریکی یہودیوں کے ایک سروے میں بھی ۳۶ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکا کو عسکری سطح پر متحرک ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بہت حیرت انگیز بات ہے۔
اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ براک اوباما کو ذاتی حیثیت میں بنیامین نیتن یاہو پسند نہیں۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں امریکی صدر سے اکیلے میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی مگر ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔ صدر اوباما نے حال ہی میں اپنے ملٹری چیف آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی کو اسرائیل بھیجا تھا تاکہ وہ اسرائیلی قیادت اور فوج پر واضح کردیں کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو عواقب اُسی کو بھگتنے ہوں گے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسرائیل کے اپنے دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم امریکا اس کے دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ ایسے میں تل ابیب میں جنگ کے حامیوں کے ارادوں اور امیدوں پر تو امریکی وضاحت سے ٹھنڈا پانی پڑگیا ہوگا۔
اسرائیل اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بڑھتی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام سے اب تک دونوں ممالک کے تعلقات میں اس قدر سرد مہری کبھی دکھائی نہیں دی، جتنی صدر اوباما کے چار سالہ دور اور بالخصوص چند ماہ کے دوران دکھائی دی ہے۔ امریکا میں یہودی لابی اور اسرائیلی حکومت نے امریکی سیاست پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہونے کی کوششیں اس قدر تیز کردی ہیں کہ اب اس بات کو امریکی سیاست میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا حقیقی دارالحکومت قرار دینے سے متعلق بورڈ بھی جان بوجھ کر ایک طرف رکھا گیا۔ بعد میں جب ری پبلکن امیدوار مٹ رومنے نے توجہ دلائی تو اس بورڈ کو سامنے لایا گیا۔ اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت کے حوالے سے امریکی قیادت نے اب تک جس غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اب چھٹکارا پانے کی کوشش صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی خاصی ڈرامائی ہے۔ صدر اوباما نے اپنی گزشتہ انتخابی مہم کے دوران یہودی ووٹروں کو خوش کرنے کی خاطر امریکا اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کے دفتر کا دورہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے امریکی یہودیوں اور اسرائیل کی ناراضی کے خوف سے ۲۰۱۰ء تک ان ۹ ترک امدادی کارکنوں کی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کی مذمت نہیں کی تھی جو غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف ایک امدادی قافلے کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اُسی سال صدر اوباما نے ترک فورینسک سوسائٹی کی جانب سے، سفارتی ذرائع کی مدد سے، ملنے والی وہ رپورٹ بھی دبانے کی کوشش کی، جس میں بتایا گیا تھا کہ اس واقعے میں مارے جانے والے واحد امریکی شہری پر اسرائیلی فوجیوں نے بہت قریب سے سر اور پیٹھ پر گولی چلائی۔ لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والوں، افریقی نسل کے امریکیوں، خواتین اور مختلف نسلوں کے لبرل یا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے نوجوان ووٹروں پر انحصار کرنے والے صدر اوباما اور ڈیموکریٹس کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اسرائیلی پالیسیوں کی غلامانہ انداز سے حمایت کرنا اور ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ کی ہر حالت میں غیر مشروط وکالت و حمایت یقینا ایسی پوزیشن نہیں جو انتخابات میں کامیابی کی ضمانت بن سکے۔
بہت سے لوگ ہر معاملے میں یہودیوں یا صہیونیوں کی سازش تلاش کرنے کے بھی عادی ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہنے سے نہیں چُوک رہے کہ اوباما اور نیتن یاہو کے درمیان جو مناقشہ ہے وہ دکھاوا ہے، نورا کشتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہے۔ ’’دی جیوئش ڈیلی فارورڈ‘‘ ہی وہ اخبار تھا جس نے نائن الیون کے موقع پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرتے ہوئے ٹاورز کے تناظر میں دریائے ہڈسن کے کنارے خوشی سے رقص کرنے والے یہودیوں کو موساد کے ایجنٹ کی حیثیت سے شناخت کیا تھا۔
اگر براک اوباما نیتن یاہو کی مخالفت برقرار رکھتے ہوئے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے تو امریکی سیاست پر یہودی اور اسرائیلی لابی کے اثرات کا شکنجہ ٹوٹ جائے گا اور اس تبدیلی کے نتیجے میں نئے رجعت پسندوں (Neocons) کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں استعماری امریکی پالیسی برقرار رکھنے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ بھی ختم ہو جائے گا۔ اگر ایک بار کوئی امریکی صدارتی امیدوار امریکا اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی اور اسرائیلی حکومت کے دباؤ کی مخالفت کرکے بھی منتخب ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر امریکی سیاست میں یہودیوں اور اسرائیل کا اثر نمایاں حد تک کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔
امریکی سیاست پر یہودیوں اور اسرائیل کے اثرات کم کرنا ایک مطلوبہ یا پسندیدہ نتیجہ ہے۔ اس نتیجے کو واقع ہونے سے روکنے والے عوامل بہت سے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً اگر اسلامی دنیا میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں اور بیرون ملک امریکی فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں تیزی سے اور غیر معمولی اضافہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکی عوام میں بدلہ لینے کا جذبہ بھرپور انداز سے پیدا یا بیدار ہو اور ایسے میں کسی جنگ کی حمایت سے گریز قدرے مشکل مرحلہ ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکیوں کی اکثریت نے القاعدہ اور طالبان سے بدلہ لینے کے لیے افغانستان کے خلاف جنگ کی حمایت کی، جبکہ طالبان کی اکثریت کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دنیا کے نقشے پر امریکا ہے کہاں! اگر مٹ رومنے کسی بھی طرح انتخابی مہم میں اپنی برتری بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو صدر اوباما کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اگر مٹ رومنے کو صدارتی انتخاب میں کامیابی ملی تو ایک بار پھر یہودی لابی امریکی سیاست میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ رومنے کے مشیر بھی وہی ’’نیو کونز‘‘ ہیں جنہوں نے جارج واکر بش کو افغانستان اور عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ شام میں حالات کا بہت خراب ہو جانا اور پھر امریکا کا وہاں فوجی اتارنے پر مجبور ہو جانا، صدارتی انتخابات میں وائلڈ کارڈ کے مترادف ہوگا۔
یہ وقت بہت پریشانی اور کشیدگی کا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بنیامین نیتن یاہو کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی سیاست پر اثر انداز کی کوشش کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرکے امریکا اسرائیل تعلقات میں تھوڑا بہت تعطل پیدا کرنے کی راہ ضرور ہموار کی ہے کیونکہ اب لوگوں نے اِس معاملے پر سوچنا شروع کیا ہے۔
(“A Sea Change in US-Israeli Relations?”… Weekly “Holiday” Dhaka. Sep. 21st, 2012)
Leave a Reply