چشم فلک نے طاقت کے نشے میں چُور ہوکر کسی بھی کمزور ملک پر چڑھ دوڑنے والے ممالک تاریخ کے ہر دور میں دیکھے ہیں۔ یہ دنیا اسی طور چلتی آئی ہے۔ طاقتور وہ نہیں جو اپنی قوت کے ذریعے اپنے جیسے یا اپنے سے زیادہ طاقتور ملک سے ٹکرائے بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہی طاقتور دکھائی دیتے ہیں جو کمزوروں کو دبانے اور معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی تگ و دو کرتے رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکا نے دو عشرے اس طور گزارے ہیں کہ ہر طرف تباہی اور بربادی کا سلسلہ دکھائی دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکا نے دنیا کو بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی ہے۔ کم و بیش سات عشروں تک ہر کمزور کو دباکر اس کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے والے امریکا نے جب جمہوریت اور تہذیب سکھانے کا بیڑا اٹھایا تو ایک دنیا کو ہنسی آئی۔ جو خود انتہائی خونخوار اور بدتہذیب ہے وہ دنیا کو تہذیب سکھانے نکلا ہے۔ نصف صدی سے زائد مدت کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے مختلف خطوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ان پر چڑھائی کی اور وہاں مستقل عسکری موجودگی یقینی بنانے پر خاص توجہ دی۔ نکاراگوا، پانامہ، ویتنام، افغانستان اور عراق اس حوالے سے نمایاں ترین مثالیں ہیں۔ افغانستان میں دو عشروں تک امریکی فوج نے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔
امریکا کے تین صدور نے افغانستان میں کمزور و نہتے شہریوں پر بم برسانے کے عمل کو جنگ کا نام دیا۔ افغانستان جیسے ملک کی کیا مجال کہ کسی بھی بڑے ملک پر حملہ کرے اور اسے تباہ کرنے کا سوچ بھی سکے۔ اور پھر امریکا؟ افغانستان کسی بھی حیثیت سے اور کسی بھی معاملے میں امریکا سے ٹکراسکتا تھا؟ یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا بہانہ تراشا گیا۔ نائن الیون کے ذریعے فضا تیار کی گئی اور جب معاملات قابو میں آگئے تو افغانستان پر چڑھائی کردی گئی۔ طالبان اور القاعدہ کو کچلنے کے نام پر پوری دنیا سے افواج جمع کی گئیں۔ کمزور اور نہتے افغانوں پر ظلم ڈھانے کا یہ شرم ناک عمل پوری دنیا نے مجرمانہ خاموشی سے دیکھا۔ دو عشروں تک ایک تباہ حال ملک کو مزید تباہ کرنے کا عمل جاری رکھا گیا۔ نہتے افغان شہریوں کو نشانہ بنانے میں کسی بھی مرحلے پر شرم محسوس نہیں کی گئی۔
معروف امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے رپورٹر کریگ وِٹ لاک نے ’’دی افغانستان پیپرز: اے سیکریٹ ہسٹری آف دی وار‘‘ میں بتایا ہے کہ کس طرح امریکا کے تین صدور نے افغانستان کے حوالے سے مجموعی طور پر دو عشروں تک جھوٹ بول کر اپنی ہی قوم کو دھوکا دیا۔ کتاب ۳۱؍اگست کو سائمن اینڈ شسٹر کے بینر تلے شائع کی جارہی ہے۔ کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’خودکش بمبار ۲۷ فروری ۲۰۰۷ء کی صبح بگرام ایئر بیس پر ٹویوٹا کورولا میں پہنچا۔ وہ پہلی چیک پوسٹ پر افغان پولیس سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا اور کم و بیش مرکزی دروازے کی طرف ایک چوتھائی میل تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ وہاں وہ ایک اور چیک پوسٹ کی طرف بڑھا۔ یہاں امریکی فوجی تعینات تھے۔ اس نے رکاوٹوں، پیدل چلنے والوں اور ٹریفک کے ہجوم میں خود کش جیکٹ کا ٹریگر دبادیا۔ اس دھماکے سے ۲۰ افغان مزدور مارے گئے جو اس روز کام کی تلاش میں وہاں آئے تھے۔ دھماکے سے بین الاقوامی فوجی اتحاد سے وابستہ دو امریکی اور جنوبی کوریا کا ایک باشندہ بھی ہلاک ہوا‘‘۔
حملے کے وقت بگرام ایئر بیس پر امریکی نائب صدر ڈک چینی بھی موجود تھے جو مکمل محفوظ رہے۔ اُن کی موجودگی کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی تھی۔ ڈک چینی خطے کے دورے کے موقع پر ایک دن پہلے ہی خاموشی سے وار زون میں داخل ہوئے تھے۔ اسلام آباد سے ایئر فورس ٹو کے ذریعے افغانستان پہنچنے والے ڈک چینی (اس وقت کے) افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے لیے چند گھنٹے افغان سرزمین پر گزارنا چاہتے تھے۔ خراب موسم نے انہیں افغانستان کے دارالحکومت کابل تک جانے سے روک دیا تھا اس لیے انہوں نے رات بگرام ایئر بیس پر گزاری۔ کابل سے تیس میل دور واقع بگرام ایئربیس پر اس وقت نو ہزار نفوس پر مشتمل امریکی عملہ تعینات تھا۔ خودکش دھماکے کے چند ہی گھنٹے بعد طالبان نے صحافیوں سے رابطہ کرکے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور یہ بھی کہا کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی ان کا ہدف تھے۔ تاہم امریکی فوجی حکام نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شر پسند محض جھوٹ بول رہے ہیں۔
۲۰۰۷ء کے اس واقعے سے دو محاذوں پر جنگ کی شدت اختیار کرنے کا پتا چلتا ہے۔ غیر معمولی سیکورٹی انتظامات کی حامل بگرام ایئر بیس میں امریکی نائب صدر کو نشانہ بنانے کی کوشش کے ذریعے طالبان نے یہ جتادیا کہ وہ جنوبی اور مشرقی افغانستان میں اپنے گڑھ سے کسی بھی ہائی پروفائل مقام پر بڑے پیمانے کا جانی نقصان کرنے والے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور دوسری طرف نائب صدر ڈک چینی کے نزدیک پہنچ جانے والے حملہ آور کے معاملے میں جھوٹ بول کر امریکی فوج عوام کو جنگ کے حوالے سے تاریکی میں رکھنے کی راہ پر چل پڑی۔
یہ کتاب، جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ افغانستان میں آخر کہاں کہاں کیا کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔ کس طور سابق صدور جارج واکر بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس سچائی کو دو عشروں تک چھپایا کہ کس طور امریکا ایک ایسی جنگ ہار رہا تھا جسے ابتدا میں امریکیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ سچ بیان کرنے کے بجائے تین صدور اور ان کے ماتحت کام کرنے والی انتظامیہ نے اپنی غلطیوں کو چھپانے کو ترجیح دی اور اس کے نتیجے میں جنگ میں بالا دستی والا معاملہ نہ رہا۔ یوں صدر بائیڈن کو اسی سال افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل کرنے کا اعلان کرنا پڑا اور طالبان ۲۰۰۱ء کے بعد سے کسی بھی مرحلے کے مقابلے میں مضبوط تر ہوکر ابھرے ہیں۔
امریکا نے افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے نام پر جو کچھ کیا وہ ایک طرف تو غیر معمولی مالی بوجھ کا باعث بنا اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اس نام نہاد جنگ نے امریکا میں عام آدمی کو شدید احساسِ جرم سے دوچارکیا۔ افغان قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم نے امریکا کے ہزاروں فوجیوں کو شدید نوعیت کے ڈپریشن اور احساسِ جرم کے دائرے میں قید کردیا ہے۔ بے قصور مردوں، عورتوں اور بچوں کو اندھا دھند بمباری، گولا باری اور فائرنگ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے والے امریکی فوجیوں میں سے بہت سوں کو اب تک مختلف ذہنی عوارض نے گھیر رکھا ہے۔ جن فوجیوں نے یہ سب کچھ نہ چاہتے ہوئے کیا وہ آج روحانی طور پر انتہائی زخمی اور کھوکھلے ہیں۔
آج بھی امریکی فوج کو اندرونی سطح پر اسی بحران کا سامنا ہے۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے قصور افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے امریکی فوجی آج مختلف ذہنی و روحانی عوارض کا شکار ہیں۔ بہت سے مکمل پاگل ہوچکے ہیں۔ ضمیر کی خلش بہت سوں کو انتہائی بے چین رکھتی ہے۔ امریکا میں نفسی امراض کے علاج کے لیے اسپتالوں کا رخ کرنے والے سابق فوجیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
(یہ مضمون۳۱؍اگست کو شائع ہونے والی کتاب کے اقتباسات پر مبنی ہے)
“The Afghanistan papers: A secret history of the war “. (“washingtonpost.com”. Dec. 9, 2019)
Leave a Reply