
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں مجموعی طور پر ۱۹ فیصد ووٹ اور لوک سبھا کی ۱۱۶ نشستیں حاصل کی تھیں۔ گجرات، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں بی جے پی کی پوزیشن اچھی رہی تھی اور وہاں اس نے اپنے لیے تمام امکانات کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ سادہ اکثریت سے ۱۵۷ نشستیں دور تھی۔ حکومت سازی کے قابل ہونے کے لیے لازم تھا کہ بی جے پی کم و بیش ۲۶ فیصد ووٹ یعنی مجموعی طور پر ۴۵ فیصد ووٹ حاصل کرتی۔
جب ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو کچھ واضح نہ تھا کہ بی جے پی حکومت سازی کے قابل ہونے کے لیے اضافی ووٹ کہاں سے حاصل کرے گی۔ ۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۴ء بی جے پی نے چند بڑی علاقائی جماعتوں کی مدد سے حکومت کی تھی مگر اب اس کی کوئی گنجائش نظر نہ آتی تھی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے، ٹی ایم سی، جے ڈی یو، بی جے ڈی اور دیگر جماعتوں سے اسے خاطر خواہ حمایت ملنے کی توقع نہ تھی۔ بی جے پی کو چند ’’محفوظ‘‘ ریاستوں سے تو بھرپور نشستیں ملنے کی توقع تھی اور اس کے بعد مہا راشٹر اور راجستھان میں بھی اس کی پوزیشن خاصی مضبوط تھی مگر اس کے باوجود اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا کہ وہ حکومت بنانے کے قابل ہونے کے لیے ۲۷۲ سے زائد نشستیں حاصل کرپائے گی۔
بی جے پی کی طاقت دراصل طاقت سے زیادہ حریفوں کی کمزوری تھی۔ کانگریس نے اتحادی جماعتوں سے اپنے اختلافات دور کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی اور بہار کے سوا تمام ریاستوں میں تنہا الیکشن لڑا۔ یو پی اے نے انتخابی مہم خاصی تاخیر سے اور قدرے نیم دِلی کے ساتھ شروع کی۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور خود نریندر مودی نے انتخابی مہم کئی ماہ قبل شروع کردی تھی۔ ان کا جوش و خروش نمایاں تھا اور سب کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ان میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت یا سکت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ وہ ۳۱ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر اب بھی وہ ۴۵ فیصد کی منزل سے تو بہت دور ہے۔ ملک کے کئی حصے ایسے ہیں جن میں اب بھی بی جے پی کی بھرپور کامیابی نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔ کئی ریاستوں میں سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں اور نہ ان ریاستوں نے بی جے پی کی لہر میں بہنے کی کوشش کی ہے۔ مغربی بنگال، کیرالا، آندھرا پردیش، تلنگانا، تامل ناڈو اور اُڑیسہ میں بی جے پی کا جادو برائے نام ہی دکھائی دیا۔ ان ریاستوں میں لوک سبھا کی ۱۷۲ نشستیں ہیں۔ مگر اس کے باوجود بی جے پی نے ملک گیر سطح پر اتحادیوں کے ساتھ مل کر ۲۸۲ نشستیں حاصل کیں۔ یہ تو چمتکار ہوگیا۔ اس چمتکار کی تفہیم کس طور ہوسکتی ہے؟
انتخابی نظام کچھ اس نوعیت کا ہے کہ پورے ملک میں مجموعی طور پر ۲۶ فیصد ووٹ لینے والی جماعت بھی حکومت بناسکتی ہے اور کوئی جماعت ۷۴ فیصد ووٹ لے کر بھی حکومت سازی کے مرحلے سے دور رہ سکتی ہے۔ کسی بھی حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو فاتح قرار دیا جاتا ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ پورے حلقے کے چند ہزار افراد ہی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے درمیان نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی فرق اس قدر ہے کہ ان کا مزاج آپس میں ملتا ہی نہیں۔ بہت سی ملک گیر جماعتیں ایسی ہیں جن کا متعدد ریاستوں میں کوئی ووٹ بینک نہیں۔ شمالی بھارت کی بیشتر جماعتیں جنوبی اور مشرقی ریاستوں میں برائے نام وجود رکھتی ہیں۔ ایسے میں مرکز میں حکومت بنانے والی کوئی جماعت بھی پورے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔
کانگریس کی سربراہی میں یو پی اے کی سابق حکومتیں مجموعی طور پر پورے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ کرسکتی تھیں۔ ۴۸ تا ۵۰ فیصد ووٹ حاصل کرکے بنائی جانے والی حکومت کو کسی بھی اعتبار سے غیر نمائندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بی جے پی کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب ایسا نہیں کہ اسے پورے ملک کی نمائندہ جماعت قرار دیا جاسکے۔ جنوبی، مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کا ووٹ بینک کمزور رہا ہے۔ ان ریاستوں کو مرکزی حکومت میں برائے نام بھی نمائندگی نہیں مل سکی ہے۔
۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی نے ۲۹۱ نشستیں حاصل کی تھیں اور اس کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب ۴۱ فیصد تھا۔ اتحادیوں کے ووٹ ملانے سے یہ تناسب ۵۲ فیصد تک ہوگیا تھا۔ مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی تھی کہ جنتا پارٹی چند ایسے گروپوں کا مجموعہ تھا جن کے مفادات آپس میں بھی بہت ٹکراتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں کے کم تناسب کو کیا ’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘‘ (ایف پی ٹی پی) کا شاخسانہ قرار دیا جائے؟ ایسا ممکن نہیں۔ ایف پی ٹی پی ہی کے ذریعے پہلے بھی حکومتیں بنتی آئی ہیں۔ چھ عشروں کے دوران بھارت میں معرض وجود میں آنے والی حکومتیں اس قدر غیر نمائندہ کبھی نہیں تھیں۔ بی جے پی محض ۳۱ فیصد ووٹ حاصل کرنے پر پورے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ تو ہرگز نہیں کرسکتی۔ مبصرین اور انتخابی امور کے ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ بی جے پی کی کامیابی ایف پی ٹی پی کی مرہون منت ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی عمومی رجحان سے دور رہی ہے۔
کسی بھی دوسرے سماجی نظام کی طرف انتخابی نظام بھی انسانوں ہی کا بنایا ہوا ہے۔ اگر اس نظام کو بہتر نتائج دینے کے قابل بنانا ہے تو اس کے لیے طے کردہ تمام قواعد اور ضوابط کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ایسا کیے بغیر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کا تجربہ اس لیے ناکام رہا ہے کہ انتخابی نظام میں خامیاں پائی گئی ہیں اور جن لوگوں کو عوام نے برائے نام حمایت سے نوازا ہو، وہ اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ انتخابی قوانین میں اصلاحات کی بات ہو رہی ہے۔ یہ اصلاحات منظور اور نافذ ہوگئیں تو بہت کچھ بدلے گا اور جمہوریت کے حوالے سے قابلِ رشک تبدیلی رونما ہوگی۔ ہم محصولات اور دیگر بہت سے نظاموں کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص نظام میں پائی جانے والی کسی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھائے مگر پھر بھی لوگ کسی نہ کسی طرح فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ انتخابی نظام کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سی اصلاحات کے بعد بھی انتخابی نظام اور بالخصوص پولنگ کے طریق کار میں ایسی خامیاں رہ گئی ہیں جن کا فائدہ اٹھاکر کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ جب تک انتخابی نظام کی تمام خامیاں دور نہیں کی جائیں گی، یہی ہوتا رہے گا یعنی غیر نمائندہ سی حکومتیں مسلط ہوتی رہیں گی۔ کہیں مکاری سے کام لیا جاتا ہے اور کہیں مکر و فریب سے۔ تشدد کا سہارا لینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔
بھارت کی آبادی کم و بیش ایک ارب ۲۷ کروڑ ہے۔ ووٹروں کی تعداد ۸۱ کروڑ ہے۔ پولنگ میں حصہ لینے والے بھارتیوں کی تعداد ۳ء۶۶ فیصد تھی۔ یعنی ۵۴ کروڑ ۱۰ لاکھ بھارتی باشندوں نے ووٹ ڈالا۔ ڈالے جانے والے ووٹوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۳۱ فیصد ووٹ ملے۔ یعنی ۱۶ کروڑ ۵۰ لاکھ ووٹ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ارب ۲۷ کروڑ کی آبادی میں ایک ارب افراد نے تو بی جے پی کے لیے ووٹ کاسٹ کیا ہی نہیں! حد یہ ہے کہ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے بھی ۶۵ کروڑ نے بی جے پی کو حمایت سے نہیں نوازا۔ اس وقت بی جے پی نے جو حکومت بنائی ہے، وہ بھارت کی تاریخ میں سب سے غیر مقبول اور غیر نمائندہ ہے۔ اس صورت حال کا ایف پی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملات کو بگاڑا گیا ہے، انتخابی سیٹ اپ سے کھلواڑ کی گئی ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بی جے پی نے ملک بھر میں مجموعی طور پر بہت کم ووٹ لیے ہیں اور اس کی حاصل کردہ ۹۵ فیصد نشستوں کا تعلق اتر پردیش اور بہار سے ہے۔ بی جے پی نے جو ووٹ لیے ہیں، ان میں سے اگر اتر پردیش اور بہار میں حاصل کردہ ووٹ نکال دیے جائیں تو باقی ملک سے حاصل کردہ ووٹ صرف ۵ء۲۰ فیصد رہ جاتے ہیں۔
۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو اتر پردیش میں صرف ۱۰ نشستیں ملی تھیں۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے بعد بی جے پی کی چوتھی پوزیشن تھی۔ دیگر تینوں جماعتوں نے بیس بیس نشستیں حاصل کی تھیں۔ بہار میں جنتا دل یونائٹیڈ کے ساتھ مل کر بی جے پی نے ۱۲ نشستیں لی تھیں۔ جنتا دل یونائٹیڈ نے ۲۰ نشستیں حاصل کی تھیں۔ بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں بہار میں دگنی نشستیں اور اتر پردیش میں سات گنا نشستیں حاصل کی ہیں۔
بی جے پی کا یوں اچانک بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہونا اس لیے بھی حیرت انگیز ہے کہ بی جے پی نے قیادت کی سطح پر کوئی انقلابی تبدیلی متعارف نہیں کرائی۔ اس کی قیادت میں اب بھی طلسماتی عنصر عنقا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پانچ برسوں کے دوران بی جے پی نے ایسی کوئی سیاسی یا سماجی تحریک نہیں چلائی جس کی بنیاد پر لوگ اسے ووٹ دینے پر مائل ہوتے۔ جب بی جے پی نے کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہی نہیں کی تھی تو پھر لوگ اس کی طرف مائل کیسے ہوئے؟ اس قدر بھرپور کامیابی اسے کس طور مل پائی؟ یہ بات مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے لیے انتہائی حیرت کا باعث ہے۔
امیت شاہ فیکٹر
یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ نریندر مودی نے اتر پردیش میں بھرپور انتخابی کامیابی یقینی بنانے کے لیے گجرات میں امور داخلہ کے سابق جونیئر وزیر اور اپنے دستِ راست امیت شاہ کو ایک سال قبل ذمہ داری سونپی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سینٹرل بیورو آف انٹیلی جنس (سی بی آئی) نے امیت شاہ پر کئی جعلی پولیس مقابلوں کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ ان مقابلوں میں متعدد بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے۔ امیت شاہ گجرات میں پولیس انٹیلی جنس سسٹم کا بھی سربراہ تھا۔ اس کے دور میں جو کچھ ہوا، اس کی بنیاد پر اس وقت اغوا اور قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں تین درجن سے زائد اعلیٰ پولیس افسران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یہ تمام گرفتاریاں ان الزامات کے تحت کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں سی بی آئی نے عائد کیے۔ خود امیت شاہ کو بھی مختلف الزامات کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا مگر کسی نہ کسی طور ضمانت پر رہا ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے بعد میں اسے گجرات سے نکل جانے کا حکم دیا۔ جس ریاست میں امیت شاہ نے وزارت اور اختیارات کے مزے لوٹے تھے، اسی کی حدود میں وہ قدم نہیں رکھ سکتا۔ یوں اس نے اتر پردیش کو ٹھکانہ بنایا۔
گجرات اور بہار میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک ہے۔ سپریم کورٹ کو اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرانی چاہئیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایسے کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے جن کے ذریعے اسے اتنی بھرپور انتخابی کامیابی ملی۔ امیت شاہ نے ایک سال قبل اتر پردیش میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رضاکاروں کو منظم کرنا شروع کردیا تھا۔ اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ امیت شاہ نے جب اتر پردیش میں قدم رکھا، تب وہاں اور بہار میں کئی مسلم کش فسادات ہوئے۔ مظفر نگر کا معاملہ سب سے شرم ناک تھا جہاں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔ بی جے پی نے ممکنہ طور پر مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھار کر ووٹ بینک مضبوط کیا۔ بہار میں تو امیت شاہ کے آنے سے بہت پہلے مسلم کش فسادات شروع ہوچکے تھے۔ آر ایس ایس کے رضاکاروں کو ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔
بھارت میں انتخابات کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کوئی نئی بات نہیں۔ اتر پردیش اور بہار میں بھی فسادات کا الزام مسلمانوں پر عائد کرکے انتقام لینے کا اعلان کیا گیا۔ امیت شاہ نے یہ کہتے ہوئے ووٹروں کو اکسایا کہ مسلمانوں سے بدلہ لینا عزت اور غیرت کا معاملہ ہے اور یہ کہ انتقام بیلٹ بکس کے ذریعے لیا جائے۔
گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد ۲۸۶؍افراد پر مقدمات درج ہوئے جن میں ۲۸۵ مسلمان اور ایک سکھ تھا۔ یعنی کسی ہندو پر مقدمہ دائر نہیں کیا گیا۔ اتر پردیش اور بہار میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی مسلمانوں سے ڈرا دھمکاکر بی جے پی کو ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو تو ویسے ہی بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کو اس مرتبہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ووٹ نہیں دیا۔ اس کا ووٹ بینک اعلیٰ و نچلی ذات کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے دم سے تھا۔ اس مرتبہ مسلمانوں کے ووٹ بھی بکھیر دیے گئے۔ گزشتہ انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی نے لوک سبھا کی ۲۱ نشستیں جیتی تھیں، اس مرتبہ وہ ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔ یہ تبدیلی خود بخود رونما نہیں ہوسکتی۔ نریندر مودی کو اندازہ تھا کہ ان کی فتح کا مدار اتر پردیش اور بہار میں غیر معمولی فتح پر ہوگا۔ انہوں نے فرقہ وارانہ بنیاد پر تناؤ پیدا کرکے دونوں ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کا غیر معمولی طور پر بڑا حصہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
بی جے پی نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہبی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنیاد پر ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ یہ سب کچھ آئین کی روح کے منافی ہے۔ اس معاملے کی چھان بین ہونی ہی چاہیے۔
“A stolen verdict”. (“countercurrents.org”. May 23, 2014)
Leave a Reply