
افغانستان سے آنے والی دوخبریں بیان کرتی ہیں کہ کیسے ۲۰۰۱ء میں امریکا کے ہاتھوں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغان تنازع آگے بڑھ رہا ہے۔
پہلی خبر یہ کہ کابل میں ایک خودکش حملے میں افغان نائب صدر بال بال بچ گئے، اس حملے میں۱۴؍افراد ہلاک ہوئے اور اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، دوسری خبر یہ کہ افغان طالبان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع پکتیکا صوبے کے دو اضلاع پر قبضہ کرلیا۔ ان خبروں میں کیا بات چھپی ہے، کیا حالیہ برسوں میں امن کے لیے ترسے ہوئے ملک میں امن کی امید کی جاسکتی ہے؟
اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس خبر کے ایک روز بعد ہی افغانستا ن میں نیٹو فوج کے سربراہ جنرل جان نیکولسن نے کہا کہ’’امریکا طالبان کے ساتھ بین الاقوامی فوج کے کردار کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔ دوسری طرف طالبان اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ افغان حکومت غیر قانونی ہے اور بات صرف ا مریکا کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کسی بھی سمجھوتے کا لازمی حصہ ہوگا، طالبان نے مذاکرات کی امریکی پیشکش مسترد نہیں کی مگر انہیں امریکا کی جانب سے بات چیت کی باقاعدہ پیشکش کا انتظار ہے۔
’’انٹرنیشنل کرائسس گروپ‘‘ کے گریم اسمتھ کاکہنا ہے کہ ’’افغان حکومت کے اعلیٰ حکام کے مطابق یہ ساری پیش رفت ان کا منصوبہ ہے‘‘۔ افغان حکام نے حالیہ برسوں میں امن عمل کی سست روی پر شدید مایوسی کا اظہارکیا ہے، انہوں نے ہی جمود توڑنے کے لیے امریکا سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے کہا۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیدر ناؤٹ کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کی افغان پالیسی تبدیل نہیں ہوئی، ہم افغان حکومت کی قریبی مشاورت کے ساتھ امن عمل آگے بڑھانے کے لیے تمام راستے تلاش کررہے ہیں، کوئی بھی امن مذاکرات افغان قیادت میں ہی کیے جائیں گے، ہم اپنے اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کی سابق قائم مقام نمائندہ خصوصی لارا ملر کا کہنا ہے کہ ’’اگر اس طرح کی کوئی پیشکش کی گئی تو طالبان اس کو قبول کرلیں گے، اس سے طالبان کی خود کو ایک قانونی طاقت کے طور پر منوانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا، سارا انحصار اس بات پر ہے کہ مذاکرات کس طریقے سے کیے جاتے ہیں، اس سے ممکنہ طور پر افغان حکومت کی قانونی حیثیت بھی متاثر ہوسکتی ہے‘‘۔ امریکا کی جانب سے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش کرنا اور افغان حکومت کی جانب سے پیشکش کی حمایت کرنا عسکری گروپ کے حوالے سے ایسی تبدیلی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ فروری میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی غیر مشروط پیشکش کی، جس کے بعدرمضان میں بھی اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو جنگ بندی کی غیر مشروط پیشکش کی گئی، اگر یہ پیشکش حیران کن تھی تو طالبان کا جواب بھی کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا، طالبان نے جنگ بندی کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو تین دن تک حملے نہ کرنے کا حکم دیا۔ معاہدے پر موثر عمل درآمد کے ساتھ عید کے فوری بعد لڑائی کے آغاز نے ظاہر کیا کہ طالبان کا اپنے جنگجوؤں اور افغان حکومت کا اپنے فوجیوں پر کتنا قابو ہے، یہی نہیں ہوا بلکہ جنگ بندی کے موقع پر عوامی جشن بھی منایاگیا، طالبان کے مسلح جنگجو افغان فوجی اہلکاروں سے گلے ملے اور تصویریں بھی کھنچوائی گئیں۔ تین دن کے دوران افغانستان میں جاری خونریزی میں ڈرامائی کمی آگئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں ہر ایک بشمول جنگجو کتنا تھک چکاہے، افغان تنازع تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہے۔ عام لوگوں کے نزدیک طالبان کا عوام میں اس طرح آنا ان کی جانب سے سمجھوتے کی حمایت کا اظہار ہے، ویسے بھی طالبان کو شہری اہداف پر حملوں سے روک دیاگیا ہے۔
امریکا کی جانب سے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش افغانستان کے لیے اچھی امید کو مضبوط کرتی ہے۔ عام عوام کا خیال ہے کہ ’’آخرکار امریکا امن کے بارے میں سنجیدہ ہوگیا ہے‘‘۔ گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ’’یہاں اس حوالے سے کچھ تشویش بھی موجود ہے، کیونکہ کوئی نہیں چاہتا ہے کہ امریکا اچانک افغانستان سے نکل جائے، جس کے بعد ایک اور خانہ جنگی کا دور شروع ہوجائے، لیکن حالیہ جنگ بندی کے بعدلوگ بہت زیادہ پر امید ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیا پالیسی کے اعلان کے ایک برس بعد امریکا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش سامنے آئی ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں امن لانے کے ساتھ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا تھا، خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی کے تناظر میں امریکا نے کہناشروع کردیا کہ’’افغان سرزمین پر افغان حکومت کی مکمل رٹ قائم ہونے تک امریکا افغانستا ن میں رہے گا‘‘۔ افغان سرزمین پر حکومتی رٹ قائم کرنے کا عمل انتہائی سست ہے اورافغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نظر بھی نہیں آرہا ہے، امریکاجب تک افغانستا ن میں موجود رہے گا، کسی بھی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
’’امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے امن‘‘ میں موجود افغان امور کے ماہر جانی والش کاکہنا ہے کہ’’جنوبی ایشیا کی پالیسی کے اعلان کے بعد سے گزشتہ برس کے دوران امن عمل میں انتہائی اہم پیش رفت امریکی پیشکش ہی ہے،ہم بحث کرسکتے ہیں کہ گزشتہ برس میدان جنگ میں کیا ہوتارہا، مگر اس دوران امن کے امکانا ت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔ ٹرمپ کی حکمت عملی کے موثر ہونے کے حوالے سے افغانستان کے بارے میں ماضی کے تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گریم اسمتھ کے مطابق امریکا کے طالبان کے ساتھ صدر جارج ڈبلیو بش کے زمانے سے غیر روایتی مذاکرات جاری ہیں، پھر اوباما کے دور میں طالبان سے براہ راست بات چیت کی گئی، مگر مذاکرات کی کوششیں عسکریت پسندوں کے درمیان حکمت عملی پر اختلاف کی وجہ سے ختم ہوگئیں۔ اس دوران اوباما انتظامیہ کے افغان صدر حامد کرزئی سے تعلقات بھی کشیدہ رہے،اس کے ساتھ ہی فریقین کے درمیان عدم اعتماد اور اندرونی اختلافات بھی مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنے،پھر طالبان کی جانب سے کابل میں ہر بڑے حملے نے نوزائیدہ امن عمل کا گلا گھونٹ دیا۔گریم اسمتھ کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے سخت گیروں نے مذاکرات کی مخالفت کی۔جنگ بندی کے موقع پر بعض لوگوں نے طالبان کی جانب سے حملوں کا انتباہ بھی کیا۔ ان کے مطابق جنگ بندی سے کام نہیں چلنے والا، کیونکہ طالبان عارضی جنگ بندی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شدید اور حیران کن حملے کرسکتے ہیں، اگرچہ ایسا کچھ نہیں ہوا، مگراس سے اشرافیہ کے درمیان اختلافات کا اندازہ ہوگیا۔بعض باغی رہنمابھی ایسی ہی سو چ رکھتے ہیں، انہیں کئی برسوں کی قربانیوں کے باوجود غیر ملکیوں کو نکالنے اور اسلامی نظام کی واپسی کے مقاصد حاصل نہ ہونے کی پریشانی ہے۔
پاکستان افغانستا ن میں کسی بھی سیاسی حل کے نتیجے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے، طالبان امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے بہت خوش ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ کیا طالبان مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر افغان حکومت کو مذاکرات میں شامل کرنے کی مخالفت جاری رہی توامن کی حالیہ کوششوں کا انجام بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ مگریہاں اچھی امید رکھنے کی وجہ بھی موجود ہے،طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ٹرمپ انتظامیہ کا اہم ترین مقصد ہے۔ طالبان امریکا کے ساتھ بات چیت کو اپنے لیے سیاسی طور پر قانونی حیثیت حاصل کرنے کے راستے کے طور پر دیکھتے ہیں اور افغان حکومت بھی مصالحتی عمل کی کامیابی چاہتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ میں افغان امن عمل کے حوالے سے خدمات انجام دینے والے والش کا کہنا ہے کہ’’افغان حکومت دو شرائط پر ہی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرے گی، پہلی یہ کہ جن امور پر بات چیت ہورہی ہے، ان سے کابل کو مکمل طور پر باخبر رکھا جائے اور شفافیت اختیار کی جائے، دوسری یہ کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے افغان نمائندوں کی غیر موجودگی میں کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں، اصل افغان فریقوں کے درمیان بامعنی سمجھوتے کے بغیرامریکا طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرسکتا‘‘۔
لارا ملر کا کہنا ہے کہ’’امریکا کو باضابطہ طور پر امن منصوبے کو آگے بڑھانا چاہیے، جس سے افغان معاملے کے حوالے سے اس کی سنجیدگی کا اظہار ہوگا،یہ تمام فریقین کے لیے اہم بھی ہے، جن میں امریکا، افغان اتحادی حکومت اور طالبان شامل ہیں۔ یہی امن عمل کو آگے بڑھانے کا واحد راستہ ہے،اس میں بات چیت کے موضاعات، تمام فریقین کے مفادات اور مطالبات شامل ہیں،اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مذاکرات کے ابتدامیں ہی کچھ دے دیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ناصرف اپنے بلکہ دوسروں کے بھی مطالبات اور مفادات کے حوالے بات چیت کے عمل پر مکمل اعتماد کا اظہار کریں‘‘۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“A Sudden burst of movement on the Afghan peace process”. (“defenseone.com”. July 26, 2018)
Leave a Reply