
غم کی رسومات دھیان بٹانے کا باعث بنتی ہیں۔جیسا کہ تھائی لینڈ کا معاملہ ہے،جہاں طویل ترین مدت تک بادشاہ رہنے والے بھومی بل ادلیادیج،۱۳ اکتوبر کو ۸۸ سال کی عمر میں انتقال کر گئے،ان کی تدفین کی رسومات کے موقع پر فضاسوگوار تھی۔ ان کی وفات کے ایک دن بعد، لاکھوں کی تعداد میں سیاہ پوش سوگواران نے تھائی لینڈ کے دارالحکومت، بینکاک کے شاہی محل کے قریب جمع ہو کر اپنے معزز بادشاہ کو خراج تحسین پیش کیا، جس نے ۷۰ سال حکومت کی تھی۔ ایک ۵۸ سالہ مساج کرنے والی بوڑھی خاتون شاہی محل کے باہر صبح سویرے سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ــــــــ’’ہم نے اپنا باپ کھودیا ہے‘‘۔ اور’’میں اس ڈراؤنے خواب سے بیدار ہونا چاہتی ہوں‘‘۔
شاہی محل کے مندر میں نامزد ولی عہد نے اپنے والد کو خوشبو والے پانی سے غسل دیا اور ان کے بال سنوارے۔پھر اس نے کنگھے کے دو ٹکڑے کر دیے۔بادشاہ بھومی بل اب ایسی دنیا کی طرف چلے گئے جہاں جسم کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جب کوئی بادشاہ وفات پاتا ہے تو تھائی زبان میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’جنت کی طرف لوٹ گیا‘‘۔اب بدھ سادھو ۱۷۲دنوں تک چکری خاندان کے اس نویں بادشاہ کے لیے دعائیں مانگتے رہیں گے۔یہ ان کی ۸۰۰ سال پرانی روایت ہے۔ لکڑیوں کا ڈھیر لگا کر بادشاہ کی میت کو اس میں رکھا جائے گا اور پھر اسے جلایا جائے گا جیسا کہ لارڈ بدھا اس سے قبل جلایا گیا تھا۔ آخری تدفین کی کوئی تاریخ مقرر تو نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ کم از کم ایک سال سے پہلے یہ متوقع نہیں۔
تھائی لینڈ قومی سطح پر سوگ منا رہا ہے۔ سرکاری طور پر اس سوگ کا دورانیہ ۱۲ ماہ پر محیط ہو گا۔ تھائی لینڈ کے عوام نے اپنی فیس بک پروفائل پر لگی تصاویر تبدیل کرکے کالی تصاویر لگا دیں۔ بادشاہ کی وفات کے بعد بنکاک کے زیادہ تر شہریوں نے سیاہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ دکانداروں نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر اپنی دکان پر رکھے انسانی مجسموں کو سوگ کا لباس پہنا دیا تھا۔ سرکاری ملازمین تو ایک سال تک اس لباس میں رہنے کے پابند ہوں گے۔اگلے ایک ماہ تک تھائی لینڈ میں تمام تر تفریحی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔قومی ٹی وی پر ڈانس دکھانے پر پابندی ہو گی۔
تھائی لینڈکا سرکاری طور پرمنا ئے جانے والا غم دراصل ان کا حقیقی غم ہے،لیکن یہ غم قوم کے مستقبل کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے توجہ ہٹانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ تھائی بادشاہ بہت عرصے سے بیمار تھے اور ان کی موت متوقع تھی۔لیکن ان کی موت نے عوام کو گہرے غم میں ڈبو دیا ہے۔ بادشاہ کی طویل علالت کے دوران تھائی لینڈ میں فسادات جاری رہے۔ایک طرف شاہی اشرافیہ تھی تودوسری طرف تھاکسن شیناوترا کے حامی جو کہ سابق وزیر اعظم ہیں اور جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں انھیں بدعنوانی کے الزامات پر سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ تھاکسن ایک ارب پتی شخص ہیں،جو عوام میں کافی مقبول ہیں۔ ۲۰۰۶ ء کی فوجی بغاوت میں انھیں معزول کر دیا گیا تھا۔ اور ۲۰۱۴ء کی خفیہ بغاوت میں دوبارہ منتخب ہونے والے ان کے حامی گروہوں کو بھی حکومت سے فارغ کر دیا گیا۔
اس وقت سے اب تک جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک پر فوجی حکومت کا راج ہے۔جو ’’قومی کونسل برائے امن و سلامتی‘‘کے نام سے حکومت کر تی ہے۔فوجی حکومت نے مخالفین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور تھائی عوام نے مستقل سیاسی افراتفری کی وجہ سے فوج کے خلاف کسی بڑے ردعمل سے گریز کیا۔انتخابات کو ۲۰۱۷ ء کے آخر تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ایک سابقہ تھائی سفارت کار جو آج کل یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ’’تدفین کی رسومات کے دوران کوئی بھی ملک کے مستقبل کے حوالے سے بات نہیں کرے گا‘‘۔ تھائی لینڈ کی فوجی حکومت اس سفارت کار کا پاسپورٹ منسوخ کر چکی ہے، کیوں کہ انھوں نے حکومت پر تنقید کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ فوج ملک کا اقتدار سنبھال کر اپنے آپ کو قوم کے بہترین منصف کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے،اور یہ بات جمہوریت کے لیے مفید نہیں‘‘۔
پچھلے کچھ سالوں سے تھائی لینڈ سیاسی احتجاج کے باعث مفلوج ہے، بالخصوص جب سے آمدنی عدم مساوات کا شکار ہے۔ درجنوں افراد تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ سربراہان کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی بارہا کوششیں فوجی بغاوت کی صورت میں ہوتی رہیں۔ بادشاہ بھومی بل کے بعد، جو فوج پر نظر رکھتے تھے اور غریب اور احساس محرومی کا شکار عوام کا سہارا تھے، اب قوم تقسیم کا شکار ہو جائے گی۔ ۵۵ سالہ وزارتِ تجارت کے ملازم نے بادشاہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں پریشانی کی وجہ سے ساری رات سو نہیں سکا۔قطع نظر ان کی سیاسی وابستگی کے، لوگ انھیں پسند کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم اب کیا ہوگا کہ جب وہ نہیں رہے ہیں۔‘‘
آخری فوجی بغاوت کے سربراہ آج کل تھائی لینڈ کے وزیر اعظم ہیں۔ انھوں نے امریکا سے اپنے آپ کو دور کر کے چین کو گلے لگایا ہے۔ عالمی مخالفت کے باوجود انھوں نے بیجنگ کو خوش کر نے کے لیے چینیوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں رد کر دی ہیں اوران کے پناہ گزین واپس بھیجے ہیں۔ تھائی لینڈ کی معیشت کا دسواں حصہ سیاحت پر انحصار کرتا ہے۔ اس سال متوقع سیاحوں کی تعداد ۳۳ ملین ہے۔ ان میں سے چین سے آنے والے ۳۰ فیصد ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے تھائی لینڈ چین کی آغوش میں آتا جارہا ہے، ویسے ہی امریکا کی خارجہ پالیسی کو نقصان ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس وقت امریکا کو چین سے نمٹنے کے لیے اور جنوبی چین کے سمندر پر چینی اثرورسوخ کے خاتمے کے لیے خطے میں جو مدد درکار ہے، وہ کھوتا جارہا ہے۔
تھائی معاشرے کی بنیادتین چیزوں پر ہے۔ بادشاہت، فوج اور عوام۔۱۹۴۶ء میں اپنے بڑے بھائی کے قتل (ان کی لاش بستر پر ملی تھی، انھیں گولی ماری گئی تھی)پر جب بھومی بل غیر متوقع طور پر تخت نشین ہوئے، تو بادشاہت ریاست پر اپنی طاقت کھو رہی تھی اور اقتدار کے بھوکے جنرل اختیارات پر قابض ہو رہے تھے۔ لیکن جب سرد جنگ نے جنوب مشرقی ایشیاکو پراکسی جنگ کا میدان بنایا، تو امریکا کو کسی دور میں سیام کہلانے والی اس باشاہت کے حوالے سے پریشانی لاحق ہوئی۔ قوم کے امریکی نژاد بادشاہ، جسے موسیقی اور اپنی خوبصورت بیوی سے بہت لگاؤ تھا،اس نے امریکا کو یقین دلایا کہ وہ اپنی ریاست یعنی تھائی لینڈ کو اشتراکی بلاک کا حصہ نہیں بننے دے گا۔ واشنگٹن کی حمایت اور اس کی اپنی سیاسی فراست سے نوجوان بادشاہ نے ایک مثالی بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ جہاں فوج کو بھی آئینی اختیارات دیے گئے اور فوج نے بھی بادشاہت کی حفاظت اور حمایت کا یقین دلایا۔
بھومی بل نے اس امریکا کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا، جس کی مدد سے غربت کا شکار اور کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والے علاقوں میں بادشاہ کی تصویروں والے تھیلوں میں راشن تقسیم کیا جاتا تھا۔بھومی بل نے یورپ کے پرتعیش ماحول میں اپنی نوجوانی گزارنے کے باوجود، پر آسائش شاہی محل کو چھوڑ کر ملک کے دور دراز علاقوں میں جا کرترقیاتی منصوبوں کی ازخود نگرانی کی۔ صدیوں سے جاگیردارانہ ماحول میں رہنے والے لوگوں کے لیے بادشاہ کا یہ روپ نیا بھی تھا اور اپنی طرف متوجہ کرنے والا بھی۔
۱۹۷۳ء میں بادشاہ نے جمہوری سوچ کے حامل احتجاج کرنے والے طلبہ کو فوج سے بچایا اور اپنے محل میں پناہ دی تھی، جس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔اس کے تین سال بعد فوج کی جانب سے طلبہ کا قتل عام ہوا۔پھر متواتر فوجی بغاوتوں نے کمزورسیاستدانوں کی حیثیت ہی ختم کر دی۔ مگر بادشاہ کا اپنا مخصوص کردار قائم رہا۔ وہ ملکی سیاست سے بالاتر قومی یکجہتی کی علامت بنے رہے۔۱۹۹۲ ء میں فوج نے دوبارہ نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔اس واقعہ کے بعد ایک تصویر بہت مشہور ہوئی، جس میں بادشاہ سنجیدہ انداز میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے فوجی حمایت یافتہ وزیر اعظم اور احتجاجی تحریک کے بدھ راہنما گھٹنوں کے بل بیٹھے ہیں۔اس تصویر کے عام ہونے کے فوراً بعد فوج کے آدمی ’’سشندہ کرپایوں‘‘ نے استعفیٰ دے دیا۔ بادشاہ بھومی بل نے کہا کہ’’مغرب مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ بالکل متضاد بات نہیں کہ آپ بادشاہ ہیں، لیکن جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں،میں ان سے کہتا ہوں کہ تھائی لینڈ میں بادشاہت جمہوریت کی ضامن ہے‘‘۔
جہاں بادشاہ بھومی بل کی شخصیت عوام کی نظر میں سادگی پسند اور غریبوں کی آواز سننے والے بادشاہ کی سی تھی، وہیں ان کا ۶۴ سالہ بیٹا (جو ایک پائلٹ ہے اور جس نے ابتدائی تعلیم بر طانیہ اور آسٹریلیا میں حاصل کی ہے) ایک عیاش شخص کی حیثیت سے مشہور ہے۔ جسے چاول کی فصلوں میں گھومنے اور جمہوری اداروں کے حوالے سے بیان دینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔۳ شادیاں کرنے والے اس ولی عہد کی، جس نے کافی عرصہ یورپ میں گزارا ہے، ایک وڈیو منظر عام پر آئی، جسے تھائی لینڈ میں نشر ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ اس وڈیو میں اسے اپنی اس وقت کی بیوی کے ساتھ اپنے پالتو کتے کو کیک کھلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس ویڈیومیں اس کی بیوی انتہائی نا مناسب لباس میں تھی۔اس ویڈیوکی منظر عام پر آنے کے بعد اس کی بیوی کو ملکہ کے رتبے سے ہٹادیا گیا، جس پر ولی عہد کو بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔امریکی سفارتی خفیہ معلومات کے مطابق وہ کتا گزشتہ برس مر گیا،اس کتے کو فوجی عہدہ دیا گیا تھا۔ولی عہد کے دو سابقہ قریبی ساتھی،جن سے وہ دوری اختیار کر چکا تھا،فوج کی تحویل میں وفات پا گئے۔
بیٹے کی خراب کارکردگی کے باوجود بادشاہ نے واضح الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ بادشاہت ان کے بیٹے کو ہی منتقل ہوگی۔ حالانکہ اکثریت ان کی چھوٹی بہن شہزادی ماہا چکری کو یہ منصب دینے کی حمایتی ہے۔ مگربادشاہ کے انتقال کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد حکومتی راہنما پرایوتھ نے حیرت انگیز اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ولی عہد موزوں وقت تک کرسی نہیں سنبھالیں گے،کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو اس غم سے نکلنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے‘‘۔پرایوتھ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ولی عہد ’’وجیر الونگکورن‘‘کے حوالے سے کسی کو شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔اور ۱۸ اکتوبر کو انھوں نے اعلان کیا کہ ولی عہد اسی ماہ کے اختتام تک بادشاہت سنبھال لیں گے(اس سے پہلے تھائی لینڈ کے نائب وزیر اعظم نے بیان دیا تھا کہ ولی عہد کو بادشاہت سنبھالنے میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے)۔ اس دوران سابق فوجی افسر اور سابق وزیراعظم قائم مقام نگراں کی حیثیت سے کام کریں گے، ان کی عمر ۹۶ برس ہے۔
تھائی لینڈ میں عوامی سطح پر اس تخت نشینی کے مراحل پر بھی زیادہ بات نہیں کی جاسکتی۔فوج کسی کو بھی ’’امن و امان‘‘ خراب کرنے کے جرم میں جیل میں ڈال سکتی ہے۔پرا یوتھ کا کہنا ہے کہ ’’ان کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی صحافی کو جھوٹی خبر دینے پر سزا دے سکتے ہیں‘‘۔ تھائی لینڈ میں اب بھی شاہی خاندان کے خلاف بات کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔اور جب سے فوجی حکومت آئی ہے اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔کسی بھی فرد کی جانب سے کسی پر بھی باشاہ،ولی عہد،یا شاہی خاندان کے کسی فرد کے خلاف بات کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔اس طرح کے ماحول میں افواہیں اور قیاس آرائیاں بڑھ جاتی ہیں۔اس لیے نگرانی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، کیوں کہ جتھوں کی جانب سے ان لوگوں پر حملہ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن پریہ شک ہو کہ وہ حکومت یا بادشاہت پر تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ پرایوتھ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ان لوگوں کو نشانہ نہ بنایا جائے جو سوگ کا لباس زیب تن نہیں کر رہے۔ دریں اثنا وزیر انصا ف کا کہنا ہے کہ سوگ نہ منانے والوں کو سزادینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان پر معاشرتی پابندیاں لگائی جائیں۔
۲۰۰۵ء میں بادشاہ نے خود کہا تھا کہ وہ بھی تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔ تھائی لینڈکے سابق وزیر خارجہ نے ۲۰۱۰ء میں امریکا میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں شاہی نظام پر بات کرنی چاہیے کہ اسے کس طرح جدید دور سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اس بات پر بحث کرنی ہو گی کہ ہم کس طرح کا جمہوری نظام چاہتے ہیں‘‘۔ لیکن چھ سال گزرنے کے بعد بھی تھائی لینڈ میں جمہوریت پنپ نہیں سکی ہے۔شاہی خاندان پر نظر رکھنے والوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ولی عہد کی تخت نشینی میں تاخیر کا اعلان حکومت کے سربراہ نے کیوں کیا ؟یہ اعلان تو شاہی خاندان کے ترجمان کو کرنا چاہیے تھا۔یوسف اسحاق انسٹی ٹیوٹ، سنگاپور کے مائیکل مونٹیسانو، جو تھائی لینڈ کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں،کا کہنا ہے کہ ’’۲۰۱۴ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے فوج اور شاہی شراکت داری میں فوج حاوی ہو گئی ہے،اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر بادشاہ کا کردار بالکل کم ہو کر رہ جائے گا‘‘۔
جب بومی پون نے ۷۰ سال پہلے تخت سنبھالا تھا تو شاہی خزانہ تقریباً خالی تھا۔آج شاہی پراپرٹی بیورو کی، جو کہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، سرمایہ کاری کے ذریعے یہ دنیا کا سب سے بڑا شاہی خزانہ کہلاتا ہے۔اس کی مالیت تقریباً ۳۰ ارب ڈالر ہے۔ وفات پا جانے والے بادشاہ کی تصویر تھائی لینڈکے سکوں پر نمایاں ہے۔تھائی لینڈ کے اکثر و بیشتر دفاتر اور گھروں میں بادشاہ کی تصاویر لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی میں بادشاہت پرانے زمانے کی بات لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوامی سطح پر منائے جانے والا یہ سوگ، جس میں لاکھوں لوگوں نے سیاہ کپڑے پہنے، اس گزر جانے والے سنہری دور کی یاد میں ہے جب بادشاہت دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی تھی۔
(ترجمہ : عبد الرحمن کامران)
“A tense Thailand mourns its king — and fears for its future”. (“Time”. Oct. 14, 2016)
Leave a Reply