حماس سے متعلق سخت موقف
مغربی کنارہ اور غزہ سٹی میں حماس کے برسراقتدار آنے کے بعد سے واشنگٹن کا جو سب سے پہلا قدم تھا وہ یہ کہ فلسطینی انتظامیہ کو دی جانے والی امدا دکو وہ بند کرے۔ اب امریکا اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک سے اس اسلامی گروپ کو رقم مہیا نہ ہوسکے۔ اس کے لیے وہ خطے میں عرب بینکوں پر دبائو ڈال رہا ہے کہ جو لوگ بھی فلسطینی انتظامیہ کو اپنی رقوم منتقل کرنے کی خواہش کا اظہار کریں بینک انہیں واپس کردے۔ وہ بینک جو امریکی خواہش کے برعکس کام کریں گے ان کو جرمانے اور دیگر قانونی اقدامات کے علاوہ جس بات کا خوف ہے وہ امریکا میں ان کے آپریشن پر پابندی لگ جانے کا ہے۔ ۷۰ ملین کی امداد جو قطر اور سعودی عربیہ کی طرف سے ہے وہ قاہرہ میں معلق ہے جہاں کم از کم چار بینکوں نے رقوم کی رملہ منتقلی کے لیے تار بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ خطے کے بینکروں اور افسران کی فراہم کردہ معلومات ہیں جنہوں نے اس طرح کے مخفی امور پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام پردۂ خفا میں رکھنے کی گذارش کی ہے۔ ٹریزی کی ترجمان Molly Millerwise کا کہنا ہے کہ ’’اگر کوئی تنظیم یا فرد حماس کے لیے براہ راست فنڈ ریزنگ کے کام قصداً کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو امریکی کارروائی کے لیے ہموار کر لے گا‘‘ دوسرے افسران جو حماس پر امریکی پالیسی سے بخوبی واقف ہیں اور جنہوں نے بغیر کسی اختیار ہی کہ یہ بیان دیا ہے جس کی وجہ سے اُن کا نام نہیں لیا جاسکتا‘ کا کہنا ہے اقتصادی ناکہ بندی ہی حماس کی حکومت کو ناممکن بنانے کے لیے امریکا کے پیش نظر ہے۔ اسرائیل نے ٹیکس اور کسٹم کی وہ رقوم روکے رکھی ہیں جو اُس نے فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے وصول کیے تھے اور یہ فی ماہ تقریباً ۵۰ ملین ڈالر کے حساب سے ہیں۔ امریکا میں فلسطین کے اعلیٰ سفارتکار عقیق صافح کا کہنا ہے کہ ’’یہ حماس کو دوبارہ تشدد کی طرف واپس بھیجنے کا یقینی راستہ ہے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’باہر سے تقریباً نہ ہونے کے برابر فنڈنگ ہونے کی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ فروری سے حکومتی ملازمین کو تنخواہیں دینے میں ناکام رہی ہے۔ تقریباً ایک تہائی فلسطینی عوام کا گزارہ سرکاری تنخواہ سے ہوتا ہے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ۔ ۸ مئی ۲۰۰۶ء)