
شاعری کا کمال اگرچہ فکرِ عمیق اور معانی دقیق میں ہے مگر اندازِ بیان، جدت اظہار اور ندرت احساس نہ ہو تو ایسی شاعری مقبول و معتبر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح ایک ڈپلومیٹ کے لیے زمینی حقائق کا ادراک ایک بدیہی حقیقت ہے، اسی طرح شاعر کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کی سوچ اور پسند و ناپسند سے آگاہی رکھتا ہو اور یہ امر تخلیقی عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ علامہ اقبال کے کلام میں ڈرامائی کیفیت انہیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جدتِ اظہار، ندرتِ بیان اور سب سے بڑھ کر والہانہ خلوص (جسے کبھی کبھی وہ عشق سے بھی تعبیر کرتے ہیں) کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
انسان کی فطرت میں تحّیر Suspence، نشیب و فراز، عروج و زوال، اشتعال و اضطراب، بدرجہ اتم موجود ہیں۔ قاری، جب شاعری میں اس کیفیت سے گزرتا ہے تو وہ ذہنی طور پر موضوع کی کیفیت کی گرفت میں آ جاتا ہے اور کلام اس کی بھرپور توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، فرماتے ہیں:
اسی میں دیکھ مضمر ہے کمالِ زندگی تیرا!
کہ تجھ کو زینت دامن کوئی آئینہ رو کر لے
’’کمالِ زندگی‘‘ ،’’زینت دامن‘‘، ’’آئینہ رو‘‘، یہ وہ جاندار تراکیب ہیں جو علامہ اقبال کی شاعری کا محور و منتہا اور حدِ کمال ہیں۔ لہٰذا اقبال کی شاعری محض کردار کی نمائش، قافیہ پیمائی، تشبیہات و استعارات کی فراوانی، اظہارِ بیان وغیرہ کی جادوگری ہر گز نہیں۔ دراصل ان کی شاعری میں احساسات و جذبات کو ہلا دینے والی کیفیت موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی مثنوی اسرار خودی کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
شاعری زیں مثنوی مقصود نیست
بُت پرستی، بُت گری مقصود نیست
وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ:
یا مردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد ہے جو کچھ کر کے دکھایا جائے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں تحیرات اور انکشافات جگہ جگہ موجود ہیں۔ مثلاً وہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری شاعری کا مقصد انسان کو وہ لائحہ عمل فراہم کرنا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی حقیقت سے آشنا ہو۔ وہ اس پتے کی طرح نہ ہو جو دریا میں بہنے پر مجبور و معذور ہے۔ اسی طرح ’’ساحل افتادہ‘‘ کی بھی مثال دی جا سکتی ہے۔ اقبال فرشتوں کو بھی آگاہ کرتے ہیں کہ ’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ اور انسان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ خدا کے سامنے سربسجود ہو اور اس کی عظمت کا اقرار کرے۔ اگر اسے سپاٹ انداز سے بیان کیا جاتا تو مطلب کی وضاحت نہ ہوتی۔ دیکھیے کیا انداز اختیار کیا ہے:
کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
گستاخ ہے کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے، کاشی نہ سمرقندی
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی
جدوجہد، عمل اور سعی پیہم اقبال کی فکر اور شاعری کا مرکزی نقطہ ہیں۔ کارگاہِ حیات میں وہ گو مگو، تامل، بے عملی، مایوسی اور بے حسی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک مقام پر ساحل اور موجِ دریا کا مکالمہ پیش کیا ہے۔ ساحل مقصد زندگی سے ناواقف ہے۔ حیات بے مقصد کا رونا روتا ہے اور کہتا ہے کہ اس وسیع سمندر میں پڑا ہوا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ زندگی کن مقاصد کے تحت وجود میں آئی ہے۔ موج اسے آگاہ کرتی ہے کہ زندگی کن مقاصد کے تحت وجود میں آئی ہے۔ حاصل یہ کہ زندگی رواں دواں ہے تو وجود رکھتی ہے ورنہ اس کے لیے عدم ہی مقبول ہو چکا ہے۔ جس طرح موج میں جمود اس کی موت ہے۔
چار مصرعوں کی یہ نظم ملاحظہ فرمایئے:
ساحلِ افتادہ گفت گرچہ بسی زیستم
ہیچ نہ معلوم شدہ، آہ کہ من چیستم
موجِ ز خود رفتۂ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم، گر نروم نیستم
راقم الحروف کا آزاد ترجمہ حاضر ہے:
ایک دن ساحل نے یہ مجھ سے کہا
زندگی بے مقصد و بے مدعا
موجِ دریا اس طرح گویا ہو گئی
زیست کی لذت ہے عزمِ تیز پا
اقبال اذہان کے دریچے کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ برطانوی سامراج اور استعمار جدید نے برصغیر کے مسلمانوں میں دین سے بیزاری اور لاتعلقی پیدا کر دی ہے۔ نژاد نو اس سے متاثر نظر آتی ہے۔ جدید تعلیم نے انہیں مادہ پرست بنا دیا ہے۔ اس نقطے کے اظہار کے لیے اقبال نے دو کرداروں کا انتخاب کیا۔ مصلح الدین سعدی شیرازی اور الطاف حسین حالی۔ مصلح الدین سعدی اپنی شہرہ آفاق تصانیف ’’گلستان و بوستان‘‘ کی وجہ سے اور حالی مدو جزر اسلام یا مسدس حالی کے باعث شہرتِ دوام کے مالک ہیں۔ اعلیٰ درجے کی شاعری ان دونوں بزرگوں کی مشترکہ میراث ہے۔ چنانچہ فردوس میں ایک مکالمہ میں دونوں محوِ گفتگو ہیں:
حضرت سعدی دریافت کرتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی کیا کیفیت ہے؟ حالی تاسف کے ساتھ کہتے ہیں:
جب پیرِ فلک نے ورق ایام کا اُلٹا
آئی یہ صدا پائو گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے مگر اس سے عقیدے میں تزلزل
دنیا تو ملی طائرِ دیں کر گیا پرواز
پانی نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز
لیکن اس نظم میں دلوں کو ہلا دینے والی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب حالی نے سعدی سے درخواست کی:
یہ ذکرِ حضور شہ یثرب میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غمّاز
اوّل تو فردوس میں ایک مکالمہ کا عنوان ہی تحیر و تجسّس لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ ان دو بزرگوں کے تبادلۂ خیالات نے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں مکالمہ ڈرامے کی جان ہے۔ مکالمے ہی کے ذریعہ واقعات بڑھتے ہیں اور خیالات میں نت نئی تبدیلی اور کردار کے محاسن و عیوب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کا ایک اور مکالمہ خدا اور انسان کے درمیان ہے خدا، انسان کی بے راہ روی پر گرفت کرتا ہے اور سوال کرتا ہے:
من از خاک پولاد ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
انسان بڑی بے باکی سے جواب دیتا ہے۔ دراصل انسان خلاصہ کائنات ہے۔ انسان کا وجود، خدا کی ربوبیت کی دلیل ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں انسان کو بلند مقام حاصل ہے:
نعرہ زد عشق کہ خونین جگرے پیدا شد
حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد
مذکورہ بالا نظم ’’خدا اور انسان‘‘ میں انسان کہتا ہے:
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
ترجمہ: اے خدا! تو نے رات بنائی میں نے رات کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے چراغ بنایا۔ تو نے شیشے کو وجود بخشا میں نے شیشے کو ڈھال کر پیمانہ بنایا۔ تو نے جنگل و بیابان بنائے۔ میں نے چمن و گلستان بنا کر تیری تخلیق میں چار چاند لگا دیئے۔
ایک اور مقام پر جگنو اور پروانے کی گفتگو ہے۔ اگرچہ مختصر سی نظم ہے مگر گہری سوچ کی حامل ہے بلکہ آج کل کے تناظر میں تو اس میں بلیغ اشارے ہیں:
پروانہ کہتا ہے:
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتش بے سوز پہ مغرور ہے جنگو؟
اب جنگو جواب دیتا ہے:
اللہ کا شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں
جگنو کے جواب میں اقبال کی خود داری اور غیرت کی تلقین ابھر کر سامنے آ گئی ہے۔ بقول حسرت موہانی ’’کوششِ ذاتِ خاص پر، ناز کر اعتماد کر‘‘ مانگے تانگے کی چیز قابل قبول نہیں۔ وہی شے مقبول اور باقی رہنے والی ہے جس میں اپنی کوشش کو دخل ہو۔
شاعرِ مشرق کی نظر میں منطق و فلسفہ اگرچہ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے پرکشش موضوعات ہیں مگر زندگی کی گاڑی چلانے میں کارگر نہیں۔ ان سے رہنمائی کی بجائے گمراہی ملتی ہے۔ دین میں استحکام اور عقائد کی مضبوطی کے لیے ایمان کی ضرورت ہے۔ ہمیں قرآن پاک اور اسوۂ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر راہِ پرآشوب میں روشنی کا حصول سعی لا حاصل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے روحانی مرشد جلال الدین رومی نے کہا:
گر بہ استدلال کار دیں بُدے
فخر رازی، راز دار دیں بُدے
ترجمہ: اگر دلیل ہی دین کی بنیاد ہوتی تو فخر الدین رازی دین کے پاسدار ہوتے جبکہ ایسانہیں ہے۔ اقبال اپنے پیرو مرشد سے متاثر ہو کر کہتے ہیں:
نے مہرہ، نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
یورپ جو فلسفہ جدید کا مرکز و منبع ہے اقبال اس کے ’’راز درون خانہ‘‘ سے آشنا کرتے ہیں:
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
یورپ کے فلسفیوں کو ببانگِ دہل کہتے ہیں:
عجب آن است کہ اعجاز مسیحا داری
عجب آن نیست کہ بیمار تو بیمار تر است
اقبال جرمنی کے مشہور فلسفی نٹشے کے بارے میں چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے؟
اقبال استعارات و تلمیحات پر عبور رکھتے ہیں۔ وہ تاریخی و شہرہ آفاق ناموں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلاً محمود غزنوی اور اس کے غلام ایاز کے ذکر سے:
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی
نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
اقبال نے مجسم بدی کو بولہب یا ابولہب کہا ہے ابولہب ایک بدترین دشمن اسلام ہے جس کے خلاف سورہ لہب نازل ہوئی۔ چراغ مصطفوی، آوازِ حق اور صدائے وحدانیت، کفر و ضلالت کے خلاف اعلانِ جہاد ہے۔ فرماتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغِ مصطفوی سے، شرارِ بولہبی
بیداری اور عمل پیہم کی اقبال نے محض تلقین ہی نہیں کی بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے بے یقینی خوف و ہراس، مایوسی و تاریکی کا سدباب کیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ برصغیر، وسط ایشیا اور دنیائے عرب بے حس و حرکت پڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات تو اور بھی دلشکن ہیں۔ انہوں نے ملّت خوابیدہ کو جگانے کے لیے لکھا:
معمارِ حرم باز با تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز
حاصل مطالعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے زندگی کو متحرک آرزوئوں سے معمور اور حرکت و عمل کے چراغ سے منور کر دیا ہے۔ ان کا کلام اردو ہو یا فارسی، قوم و ملت کے لیے مژدہ جانفزا ہے۔ روح کی طمانیت اور ذوق کی بلندی و برتری سے معمور ہے۔ اقبال نے بتایا کہ زندگی بے کار محض یا دیوانے کا خواب نہیں یہ ایک حقیقت شناس انسان کے لیے بے انتہا امکانات لیے ہوئے ہے:
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
(بحوالہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘ اپریل تا جون ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply