
بنگلہ دیش کے ’’یوم فتح‘‘ ۱۶؍دسمبر سے صرف چند دن پہلے عبدالقادر مُلّا کو سزائے موت دے دی گئی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح رات کے اندھیرے میں ایک مقبول عوامی لیڈر کو دفنا دیا گیا۔ ظلم اور ظلمت کا باہمی تعلق کوئی نئی بات نہیں۔ منتقم مزاج حسینہ کا خیال تھا کہ رات کے اندھیرے میں عبدالقادر مُلّا شہید کا قصہ ختم ہوجائے گا، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ پورے بنگلہ دیش میں اور دنیا بھرکے ۴۰ ممالک میں لاکھوں لوگوں نے عبدالقادر مُلّا شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ کروڑوں مسلمانوں نے شہید کی بلندیٔ درجات کے لیے دعائیں کیں اور غم زدہ خاندان اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کا اظہار کیا۔ جھونپڑیوں سے لے کر ایوانوں تک، ہر جگہ شہید عبدالقادر مُلّا کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور عبدالقادر مُلّا کے کھلے عدالتی قتل پر حسینہ حکومت کی مذمت کی گئی۔ ہمارے حکمرانوں کی بات اور ہے، جو اَب بھی اس سزا کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ صرف اسی بات پر موقوف کیا ہے، ہمارے حکمرانوں نے اس سے پہلے کون سے عوام کی ترجمانی کی ہے؟ جو اَب کرتے۔ اس معاملے میں چوہدری نثار اور جاوید ہاشمی، داد کے مستحق ہیں جنہوں نے پہلے دن اپنے ردعمل میں عبدالقادر مُلّا کو شہیدِ پاکستان اور شہیدِ وطن قرار دیا۔ باقی حکمرانوں اور سیاست دانوں اور زبان وبیان کے معجزے دکھانے والے شوخ وشنگ اینکر پرسن کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ جماعت اسلامی پاکستان اور سول سوسائٹی کے دبائو اور محب وطن اور اسلام پسند کالم نگاروں کی تحریروں کی بدولت اتنا ہوا کہ قومی اسمبلی میں عبدالقادر مُلّاکی پھانسی کے خلاف قرارداد پاس ہوئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ساتھ عمران خان نے بھی عبدالقادر مُلّاکو بے گناہ قرار دیا۔ البتہ ایوان میں موجود پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے یہ کہہ کر قرارداد کی مخالفت کی کہ چونکہ عبدالقادر مُلّا کو بنگلہ دیش کی عدالت نے سزا دی ہے، اس لیے یہ قرارداد بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ اس قرارداد پر ردِعمل کے طور پر بنگلہ دیش میں پاکستانی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور اس کے سامنے اس قرارداد کی مذمت کی گئی، قرارداد کو واپس لینے کا مطالبہ ہوا۔ شیخ حسینہ کا بیان بھی آیا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے ہاں یہ کہا گیا کہ عبدالقادر مُلّا کو پاکستان سے محبت کی وجہ سے نہیں، بلکہ قتل اور ریپ کے الزامات کے تحت پھانسی پر لٹکایا گیا۔ ایک طرف سے یہ آوازبھی آئی کہ عبدالقادر مُلّا کو عوامی مطالبے اوردباؤ کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی۔
پہلی اصولی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ ۱۹۷۴ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ جنگی جرائم کا معاملہ نہیں اُٹھایا جائے گا۔ اسی معاہدے کے تحت ذوالفقارعلی بھٹو نے بنگلہ دیش کوتسلیم کیاتھا۔ لہٰذا جنگی جرائم کے نام پر ٹربیونل بنانا ہی پاکستان کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی کو کسی ایک ملک کا اندرونی مسئلہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
اصل کہانی یہ ہے کہ حسینہ حکومت آمرانہ طرز حکومت، کرپشن، بدعنوانی کی بدولت ابتدائی چند سالوں میں عوامی حمایت سے محروم ہو گئی۔ شیخ حسینہ اورعوامی لیگ کی قیادت کو صاف نظر آگیا کہ ان حالات میں حکومت کو چلانا اور پھر مستقبل میں عوامی حمایت حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ ایک اور بات یہ کہ بھارت، بی این پی اور جماعت اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہے اوراس کواپنی بغل میں بی این پی اور جماعت اسلامی کاحکومت میں آنا اس لیے منظور نہیں ہے کہ یہ لوگ بھارت کی بالادستی اور غلامی کوعوامی لیگ کی طرح تسلیم کرنے پر ہر گزیقین نہیں رکھتے۔ تب بھارت کی شہ پر حسینہ واجدنے ایک اور کھیل اور حربے کو اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہی پرانا حربہ جو ۱۹۷۰ء میں شیخ مجیب نے اختیار کیاتھا جو شایدعوامی لیگ کے خمیرمیں ہے۔ لہٰذاپاکستان مخالف جذبات کو بھڑکانے اور اسی کے بل پر تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی قوت جماعت اسلامی کے خاتمے اور اپوزیشن کو تقسیم کرنے کا خاکہ بنا۔ ۲۰۱۰ء میں اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے انٹرنیشنل وار کرائم ٹربیونل کے نام پر ایک ناٹک کو اسٹیج کیاگیا۔ جماعت اسلامی کی چوٹی کی قیادت اور بی این پی کے چندرہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمے چلانے شروع کیے گئے۔ ٹربیونل میں مقدمات کا سامنا کرنے والے جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں پر ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی بناپر غداری، قتل، املاک کو نقصان پہنچانے اور زنا بالجبر جیسے گھناؤنے الزامات لگائے گئے۔ حالانکہ پچھلے ۴۰ سالوں کے دوران جماعت اسلامی پر غداری کا الزام لگا، نہ قتل اور زنا کا کوئی مقدمہ سامنے آیا۔
انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل ابتدا ہی سے اعتراضات کی زد میں ہے۔ عوامی لیگ کے علاوہ بنگلہ دیش کے اندر کوئی بھی اس ٹربیونل کو عدالت کہنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا کے سفیر برائے جنگی جرائم اسٹیفن جے رپ (Stephen J. Rapp)، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن وقتاً فوقتاً اس نام نہاد کرائم ٹربیونل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ انھوں نے کبھی بھی اس کو غیر جانبدار اور شفاف قرارنہیں دیا۔ خود عالمی عدالت انصاف نے بھی اس ٹربیونل کو تسلیم نہیںکیا۔اس ٹربیونل کے ڈرامے کا پول اُس وقت پوری طرح کھُل گیا جب ٹربیونل کے سربراہ نظام الحق کی اسکائپ کے ذریعے ۱۷؍گھنٹے کی گفتگو اور۲۳۰ برقی خطوط (Emails) ’’اکانومسٹ لندن‘‘ نے اپنے دسمبر۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع کردیے۔ صرف جسٹس نظام الحق کا یہ ایک جملہ ملاحظہ ہو ’’حکومت مکمل طور پر پاگل ہوچکی ہے، وہ فوری فیصلے کے لیے جنونی اندازمیں دباؤ ڈال رہی ہے اور۱۶ دسمبر ۲۰۱۳ء تک فیصلہ چاہتی ہے‘‘۔ حکومت کی بدنیتی کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوٹ گیا۔ اس واقعے نے اس نام نہاد ٹربیونل اور حسینہ حکومت کو پوری طرح بے نقاب کیا۔ جسٹس نظام الحق کے مردہ ضمیرکی راکھ میں شایدہلکی سی چنگاری موجودتھی جس کی وجہ سے اُسے ٹربیونل کی سربراہی سے مستعفی ہونا پڑا لیکن شیخ حسینہ نے کسی ایسی ہلکی سی چنگاری سے محرومی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’’افرادکے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔
حسینہ حکومت کاایک ٹارگٹ تھا جو اس نے بہرصورت حاصل کرنا تھا۔ مقدمات چلتے رہے۔ یہاں تک کہ اسی بے چہرہ، بے وقعت اور نام نہاد عدالت نے عبدالقادر مُلّا کو عمرقیدکی سزاسنائی۔ اب ڈرامے کا دوسرا منظر شروع ہوا۔ عوامی لیگ نے شاہ باغ میں ایک میلہ سجایا۔ گویوں اور مراثیوں کو لایاگیا۔ ناچنے گانے اور پینے پلانے کے اس میلے میں ایک وقت میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ عوامی لیگ نے اسی میلے کی وساطت سے یہ ’’عوامی‘‘ مطالبہ سامنے لانا تھاکہ عبدالقادر مُلّاکی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کیا جائے اور جماعت کے باقی رہنماؤں کوبھی پھانسی کی سزا دی جائے۔ تاہم اس دوران وہاں بٹھائے گئے بلاگرزنے شانِ رسالت میں گستاخی کی، جس پر احتجاج کرتے ہوئے بنگلہ دیشی عوام کا سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا۔ ملک گیر ہڑتالوں اور شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت نے مظاہرین کے خلاف آہنی ہتھکنڈے اختیار کیے۔کیسے لوگوں کو قتل کیاگیااور کس طرح شیخ حسینہ نے جماعت اسلامی اور شبرکے ہزاروں کارکنوں کو پسِ زنداں دھکیل دیا۔ یہ ایک الگ طویل داستان ہے۔ اگرچہ حسینہ کی یہ سازش بھی بے نقاب ہوگئی۔ میلے کے لوگ بکھر گئے صرف چند سو لوگ رہ گئے۔تاہم حکومت نے اس میلے سے جو مقصد حاصل کرنا تھا،وہ کرلیا،اس میلے کے مطالبے کو’’ عوامی مطالبہ‘‘ قراردے کر حکومت نے آئین میں ترمیم کی اور اس طرح عبدالقادر مُلّا کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا راستہ ہموار کیاگیا۔
اب ایک نظرعبدالقادر مُلّا کی چارج شیٹ پر ڈالتے ہیں۔ عبدالقادر مُلّا پر چھے الزامات لگائے گئے۔ پراسیکیوٹر کے باہمی بحث و تمحیص کے بعدایک الزام کو حذف کردیاگیاجبکہ پانچ کو رہنے دیاگیا۔ ٹربیونل نے ان پانچ الزامات کی بنیاد پر عبدالقادر مُلّا کو عمرقیدکی سزاسنائی۔ سپریم کورٹ نے عبدالقادر مُلّا کی سزابڑھا کر سزائے موت میں بدل دی۔ یوں دنیا کی معلوم عدالتی تاریخ میںپہلی دفعہ ایک اعلیٰ عدالت نے ادنیٰ عدالت کی سزا بڑھا کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے عبدالقادر مُلّا کی چارج شیٹ میں سے ایک الزام کوان کی سزائے موت کے لیے بنیاد بنایا۔ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے صرف ایک گواہی کو کافی سمجھاگیا۔ اس ایک الزام کی اکلوتی گواہ کی کہانی بھی خاصی پُر اسرار ہے۔ میر پورسے تعلق رکھنے والی ایک خاتون مومنہ بیگم نے ٹربیونل کے سامنے گواہی دی کہ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو عبدالقادر مُلّاکے ہمراہ پاکستان آرمی کے کچھ لوگ آئے۔ جنھوں نے میرے والد حضرت علی سمیت پورے خاندان کو قتل کیا۔میں اور میری چھوٹی بہن ایک چارپائی کے نیچے چھپ گئیں۔ بعد میں میری چھوٹی بہن کی چیخ نکل گئی جس پر ان لوگوں نے ہم دونوں بہنوں کو چارپائی کے نیچے سے نکالا۔ ہم دونوں کو ریپ کیا، بعد میں میری چھوٹی بہن کو قتل کیا جبکہ میں کسی طریقے سے زندہ بچ گئی۔ واضح رہے کہ اس وقت مومنہ بیگم کی عمر۱۳ سال اور اس کی چھوٹی بہن کی عمر ۱۱ سال تھی۔ اس بھیانک الزام کی کہانی بھی حیرت انگیز ہے۔
ٹربیونل کے سامنے مومنہ بیگم کے اس بیان کی اِن کیمرہ ریکارڈنگ کی گئی۔ بیان دیتے وقت مومنہ بیگم نامی یہ خاتون مکمل طور پر نقاب میں تھی۔ تاہم ایک دو دفعہ اس کا چہرہ نقاب سے باہر بھی آیا۔ اس دوران میں وہ کئی دفعہ رو بھی پڑی۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے “New Age” میں ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس میں مومنہ بیگم کے بیانات کی کہانی پوری تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں David Bergman نے ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے BD/NN.COM پر اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کا بڑی شرح وبسط سے جائزہ لیا ہے۔ جس کے مطابق ٹربیونل کے اس بیان سے پہلے مومنہ بیگم کے دو اور بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک لبریشن وار میوزیم کے محقق کو دیا گیا ۲۰۰۷ء کابیان اور دوسرا ٹربیونل کے انویسٹی گیشن آفیسر کو ان کا دیا گیا ۲۰۱۰ء کا بیان۔ ان دونوں بیانات میں اس نے عبدالقادر مُلّا کا ذکر نہیں کیا۔ ڈیوڈ برگ مین نے اپنے مضمون میں لکھا کہ شاید بنگلہ دیش کے قانون یا جنگی جرائم کے لیے بین الاقوامی قانون میں صرف ایک گواہ کی شہادت کو قتل کے مقدمے کے لیے بنیاد بنایا جاسکتا ہو۔ تاہم ایسے مقدمے میں چارج شیٹ، دفاع سمیت پوراعدالتی عمل جس طرح عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق، شکوک وشبہات سے پاک اورہر لحاظ سے شفاف ہونا چاہیے، وہ یہاں مفقود ہے۔
مومنہ بیگم کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پچھلے ۴۳برسوں میں کبھی بھی کسی کو یہ نہیںبتایا کہ اس کے خاندان کے قتل کے دوران عبدالقادر مُلّا موجود تھا۔ پراسیکیوشن نے اس مقدمے میں اکلوتے گواہ کے سپورٹ میںکسی ایسے ایک فرد کے بیان کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کو پچھلے ۴۳ برسوں کے دوران مومنہ بیگم نے یہ بتایا ہو کہ عبدالقادر مُلّا اس کے خاندان کے قتل میں ملوث تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنے طویل عرصے میں اس نے اپنے خاندان کے قاتلوں کا نام کسی کونہ بتایاہو، نہ اپنے کسی دوست، رشتہ دارکونہ کسی حکومتی اہل کار اورنہ کسی سر پھرے صحافی کو؟ ۴۲ سال بعد اچانک وہ عدالت میں ایک فرد کا نام لیتی ہے۔
جرح کے دوران جب مومنہ بیگم سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ’’ میرے پاس بہت سارے لوگ آئے، میری تصویریں اُتاریں لیکن میں نے خوف کی وجہ سے کسی کے سامنے عبدالقادر مُلّا اور اختر غنڈہ کانام نہیں لیا‘‘۔ تاہم اس کو صرف مومنہ بیگم کے بیانات میں تضاد کانام نہیں دیا جاسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مومنہ بیگم کے اس سے پہلے کے دو بیانات ٹربیونل کے سامنے گواہی کو غلط اور بددیانتی پر مبنی ثابت کر رہے ہیں۔
۲۰۰۷ء میں لبریشن وار میوزیم کے ریسرچر کو بیان دیتے ہوئے مومنہ بیگم کہتی ہے کہ ’’قتل کے اس واقعے کے دوران وہ گھر پر موجود نہیں تھی‘‘۔ دی لبریشن وار میوزیم کا محقق لکھتا ہے کہ ’’وقوعہ سے دو دن پہلے حضرت علی کی بڑی بیٹی مومنہ بیگم اپنے سسرال چلی گئی تھی، اس لیے وہ زندہ بچ گئی… وقوعہ کے چنددن بعد حضرت علی کی بڑی بیٹی مومنہ بیگم کو وقوعہ کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوگیا، تاہم اس وقت تک میرپور کے حالات ٹھیک نہیں تھے، اس لیے وہ میرپور نہ آسکی‘‘۔
ڈیفنس کے وکلا نے جب مومنہ بیگم کے اس بیان کی فوٹوکاپی ٹربیونل میں جمع کرائی تو عدالت نے ایک اعتراض یہ لگایا کہ فوٹو کاپی مصدقہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے عدالت نے ڈیفنس کے وکلا سے دی لبریشن وار میوزیم کی اصل کاپی لانے کو بھی کہا تھا حالانکہ یہ کام عدالت کے کرنے کا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ لگایاکہ مذکورہ فوٹوکاپی مقدمے کے دوران بروقت جمع نہیں کرائی گئی۔ عدالت کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ میوزیم کا یہ بیان حلفیہ نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا کی کسی بھی عدالت میںغیر عدالتی بیانات کو شواہد کے سپورٹ میںاورگواہ کے اعتبار و ثقاہت کو جانچنے کے لیے زیر غور لایا جاتاہے۔
ٹربیونل کے ایک پراسیکیوٹر محمد علی نے “New Age” کو بتایا کہ مومنہ نے شاید عبدالقادر مُلّا کے خوف کی وجہ سے اُس کا نام نہ لیا ہو۔ یہ بات اس لیے بھی سمجھ میں آنے والی نہیں کہ میوزیم کا یہ بیان ۳۶ سال بعد ۲۰۰۷ء میں اس وقت لیا گیا جب جماعت اسلامی اور بی این پی اقتدارمیں نہیں تھیں۔
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ مومنہ بیگم کا ۲۰۱۰ء کا بیان بھی ٹربیونل کی گواہی سے مختلف ہے جو اس نے اُس انویسٹی گیشن آفیسر کو دیا جو عبدالقادر مُلّا کی تفتیش پر مامور تھا۔ اس موقع پر اگرچہ اس نے یہ بیان دیا کہ وقوعہ کے وقت وہ گھر پرموجودتھی تاہم اس نے عبدالقادر مُلّا کا نام پھربھی نہیں لیا۔
دو اور نکات بھی قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ مومنہ بیگم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اس کے خاندان کے قتل کے صدمے کی وجہ سے وہ دماغی توازن کھو بیٹھی اورپورے دوسال کے بعداس کے حواس بحال ہوئے۔ کیا ۴۲ سال بعد ایک ایسے شخص کی گواہی قابل اعتبار ہوسکتی ہے جو پورے دوسال تک دماغی توازن سے محروم رہا ہو۔
پھرعدالت میں بیان دیتے وقت ’’مومنہ بیگم‘‘ نامی یہ خاتون نقاب میں رہی، تاہم ایک دو دفعہ اس کے چہرے کی جھلک نظر آئی تھی۔ ڈیفنس کے وکلا نے جب لبریشن وار میوزیم میں بیان کے ساتھ لگی مومنہ بیگم کی تصویر دیکھی تو انہوں نے عدالت کے سامنے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے والی مومنہ بیگم اور لبریشن وار میوزیم کو انٹرویو دینے والی مومنہ بیگم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ خواتین ہیں۔ اس طرح اس پورے مشکوک عمل میں ایک اور شک کا اضافہ ہو گیا، وہ ہے مومنہ بیگم کی شناخت؟ کون سی مومنہ بیگم اصلی ہے؟ ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے والی یا ۲۰۰۷ء میں لبریشن وار میوزیم کو بیان ریکارڈ کرانے والی، جہاں اس کی تصویر بھی دستاویز کا حصہ ہے۔
پورے مقدمے پر نظر ڈالی جائے تو سازش کے تانے بانے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت کے نام پر عدل کا خون ہوتا نظر آتا ہے، ظلم و جبر کی زنجیر کی کڑیاں جھنکارتی ہوئی باہم جُڑتی سامنے آتی ہیں۔ ایک الزام اور اکلوتی گواہ، وہ بھی دماغی مریضہ۔ پھر گواہ کے تضادات سے بھرپور بیانات، پھر عدالت میں نقاب پہن کر گواہی دینے کا انوکھا انداز، ۲۰۰۷ء کی تصویر اور ۲۰۱۲ء میں ٹربیونل کے سامنے گواہی دینے والی کی شکل ایک دوسرے سے بالکل مختلف، پھر پراسیکیوٹرز اور ججوں کے عدل و انصاف سے عاری رویے اور اس پر مستزاد عوامی لیگ کے لیڈروں کے انتقام پر مبنی اشتعال انگیز بیانات۔۔۔کیا یہ سب اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ فیصلہ پہلے ہوچکا تھا، عدالت کے نام پر محض ایک ڈھونگ رچایا گیا۔ چارج شیٹ سے سزا تک ہر مرحلے پر شکوک وشبہات، بددیانتی، بدنیتی، جھوٹ، فریب، دھونس اور دھاندلی کے گھنے بادل چھائے نظر آرہے تھے۔ قدم قدم پرعدل وانصاف کا مذاق اڑایا گیا اور قانون کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے موم کی ناک بنایا گیا۔ کیا ان سب واقعات و شواہد پر نظر ڈالنے کے بعد بھی یہ شک رہتا ہے کہ عبدالقادر مُلّا کی شہادت عدالتی قتل نہیں ہے؟
اس وقت حسینہ حکومت ہر لحاظ سے اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔ ملک کے اندر ہڑتالوں کی وجہ سے کاروبارِ زندگی پچھلے ایک مہینے سے تقریباًمکمل طور پر مفلوج ہے۔اسی طرح عالمی سطح پرحسینہ حکومت بھارت کے سوا مکمل طور پر تنہائی کا شکار ہے۔ حسینہ واجد جن بدترین آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کر رہی ہے، اس پر شہید عبدالقادر مُلّاکے چھوٹے بھائی کا یہ تبصرہ بڑا مناسب ہے کہ حسینہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مجھے افسوس ہوتاہے کہ ہمارے بعض اینکر، صحافی اور سیاست دان اس وقت۱۹۷۱ء کی بات اپنے اپنے انداز میں سامنے لاکر خلط مبحث میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ تعصب کی عینک لگا کر تاریخ کو مسخ کرنے، حقائق کو جھٹلا نے اور قوم کو گمراہ کرنے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں۔ عبد القادر ملّا شہید کے معاملے میں پاکستان کو کیا اقدام اٹھانا چاہیے ؟اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں جانا چاہیے یانہیں۔غیرت اور وفا کے تقاضے کیا ہیں ؟ان سوالات کو جانے دیجیے۔لیکن حضور ایک درخواست ہے کہ انسانیت کے بھی توکچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ بنیادی اخلاقیات بھی تو کسی چیز کا نام ہے۔ خدا را! کچھ تو خیال کیجیے!
Leave a Reply