عبدالقادر مُلّا شہید کا آخری خط

جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر مُلّا کو ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں نظریہ پاکستان کی حمایت پر سزائے موت دی گئی۔ عبدالقادر مُلا نے تختہ دار پر جانے سے قبل اپنی اہلیہ کے نام ایک مفصل خط لکھا تھا، جو درج ذیل ہے:

پیاری رفیق حیات السلام علیکم!

میری پھانسی کا مکمل فیصلہ لکھا جا چُکا ہے۔ قوی امکان ہے کہ کاغذ کا وہ ٹکڑا کل رات یا اس کے بعد جیل کے دروازے تک پہنچ جائے۔ جس کے بعد اصولاً مجھے کال کوٹھری میں منتقل کردیا جائے گا۔ شاید یہ حکومت کا آخری عمل ہے، اس لیے وہ اس غیر منصفانہ عمل کو بہت تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ نظر ثانی کی درخواست بھی قبول نہیں کرے گی۔ اور اگر انہوں نے ایسا کیا بھی تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل لے۔ البتہ یہ دوسرا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سازش میں اپنی چال چلے لیکن اس کا ابدی و دائمی قانون بتاتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔

ان جیسے لادینوں نے کئی پیغمبروں کو بغیر کسی جُرم کے قتل کیا۔ حضور اکرمؐ کے اصحابہ کرام حتیٰ کہ خواتین ساتھیوں کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا۔لیکن ان شہادتوں کا بدل اللہ تعالیٰ نے ایسے دیا کہ سچائی کا راستہ ہموار کردیا اور اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں بھی ایسا ہی کرے گا۔

کل بھارتی وزیر خارجہ نے نہ صرف عوامی لیگ کو داد دی بلکہ حسین محمد ارشاد پر دبا ؤبھی بڑھایا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے جماعت شبر کے برسر اقتدار آنے سے بھی انہیں ڈرایا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جماعت شبر سے اختلاف اور نفرت بھارت کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔

یہ میں روزِ اول سے ہی کہتا آرہا ہوں کہ ہمارے خلاف جتنے بھی فیصلے اور اقدامات ہوئے، وہ سب بھارتی ٹیبل پر تیار ہوتے ہیں۔ عوامی لیگ اگر اس سب سے دستبردار بھی ہونا چاہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتی کیوں کہ اس بار وہ بھارتی آشیرباد سے ہی اقتدار میں آئی ہے۔

یہاں بہت سے لوگ ہیں جو اصولوں اور اخلاق کی بات کر رہے ہیں۔ جس طریقے سے مجھ سمیت جماعتِ اسلامی کو ایک مخصوص بنائے گئے سانچے میں ڈالا گیا ہے اور جس طریقے سے میڈیا حکومت کے ان غیر منصفانہ اقدامات کی حمایت و مدد کر رہا ہے، ان حالات میں حکومت کی طرف سے اصول اور اخلاق کی بات کس منہ سے کی جا رہی ہے جبکہ عدالتی نظام اور ٹرائل خود جلاد بن کر معصوم لوگوں کی جان لینے کے شوق سے مخمور ہو چکا ہے۔ ایسے لوگوں سے انصاف کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ سارا میڈیا بھی ہمارا مُخالف ہے۔ اس لیے مجھے بس اس بات کا پچھتاوا ہے کہ میں اس قوم کو یہ بتانے سے قاصر ہوں۔ میں یہ بات قوم تک نہیں پہنچا سکتا کہ کس طرح غیر منصفانہ طریقے سے ہمیں اور بالخصوص مجھے سزائے موت سُنائی گئی۔ لیکن قوم اور دنیا بھر کے لوگ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے۔ میری موت اس جابر حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی۔میری موت تحریک اسلامی کی ترقی کا موجب بنے گی کیونکہ یہی انصاف کی بات ہے، ان شاء اللہ۔

کل میں نے سورہ توبہ کی آیت ۱۷سے ۲۴دوبارہ پڑھیں۔ آیت ۱۹میں واضح انداز میں لکھا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرنا، خانہ کعبہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ افضل ہے‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کی راہ میں اسلامی نظام کے قیام اورنا انصافی کے خلاف لڑنا طبعی موت مرنے سے کہیں زیادہ افضل و اعلیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات مجھے جنت میں یہ افضل درجہ دینا چاہتی ہے تو میں بخوشی اس موت کو گلے لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں کیونکہ جلادوں کے ہاتھ غیر منصفانہ موت تو جنت کا پروانہ ہے۔

۱۹۶۶ء میں مصر کے ظالم حکمران کرنل ناصر نے سید قطبؒ، ڈاکٹرعبد القادر عودہؒ اور دیگر کو پھانسی پرلٹکاکر شہید کر دیا۔ میں نے یہ بات تحریک اسلامی سے متعلق کئی لیکچرز میں سُنی۔۔ پروفیسر غلام اعظم بھی میرے کاندھے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کرکہا کرتے تھے کہ پھانسی کی رسّی ان کاندھوں پر بھی پڑ سکتی ہے۔ میں آج بھی اپنا ہاتھ کندھے پر پھیر کر سوچتا ہوں کہ اگر اللہ کی ذات آج تحریک اسلامی کی ترقی اوراس جابر کی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ کر چکی ہے تو جان لو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے، یہ میری کامیابی ہے۔

نبی اکرمﷺ جب شہدا کے اعلیٰ مرتبے کی بات کرتے تھے تو وہ اس خواہش کا بھی اظہار کیا کرتے تھے کہ کاش انہیں بار بار زندگی ملے اور بار بار اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہیں۔

وہ لوگ جو شہید ہو چکے ہیں، جنت کے اعلیٰ درجوں میں بیٹھ کر اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ ہمیں ایک بار پھر اس دنیا میں بھیجا جائے تاکہ ہم پھر شہادت کی موت پائیں۔

بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ کا فرمان سچ ہے۔اگر اس پر کوئی شک ہو تو ایمان اور عقیدے کا احتساب لازمی ہے اگر حکومت غیر منصفانہ اقدام پر عمل کرتے ہوئے مجھے تختۂ دار پر لٹکادیتی ہے تو ہو سکتا ہے میری نماز جنازہ ڈھاکا میں کروانے کی اجازت نہ دی جائے۔اگر ممکن ہو تو میری نماز جنازہ میرے گاؤں کی مسجد میں کرانے کا انتظام کرنا۔اگر پادمہ دریا کے پار رہنے والے لوگ میری نماز جنازہ پڑھنا چاہیں تو انہیں اس کی پہلے سے اطلاع دی جائے۔۔ میں اس سے پہلے بھی آپ کو اپنی قبر کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ کہ اسے میری ماں کے قدموں میں بنایا جائے۔ میری قبر پر کوئی فضول خرچی نہ کی جائے جیسے قبروں کے گرد فصیل بنا کر مقبرے بنائے جاتے ہیں، اس کی بجائے یتیم لوگوں پر جتنا خرچ کر سکو کرو، ان خاندانوں کا خیال رکھنا جنہوں نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ بالخصوص اُن شہدا کا، جو میری گرفتاری اور سزائے موت کے خلاف احتجاج کے دوران مارے گئے۔ جو خاندان اس ظالم حکومت کے خلاف اپنے بیٹے اس تحریک کو دے چکے ہیں، جب بھی برا وقت آئے تو سب سے پہلے ان کی خیر خیریت دریافت کرنا۔

حسن مودود کی تعلیم کے فوراً بعد شادی کروا دینا اور اسی طرح نازنین کے فرض سے بھی سبکدوش ہونا، میں آپ کے اور اپنے بچوں کے بہت سے حقوق پورے نہیں کر سکا، مجھے معاف کر دینا، صرف یہ سوچ کر کہ اللہ کے ہاں آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا۔ میں اللہ کے ہاں دعا کرتا ہوں کہ جب آپ اپنے بچوں اور اس کے دین کی ذمہ داریاں پوری کر لیں تو ہم دوبارہ ملیں۔ دعا کرو کہ دنیا کی ذرّہ بھر بھی محبت میرے دل میں ہو تو اللہ مجھے اس سے دور کر دے۔اور میرے دل کو اپنے اور اپنے رسولؐ کی محبت سے لبا لب بھر دے۔ ان شاء اللہ ہم جنت کی پگڈنڈیوں پر دوبارہ ملیں گے۔ بچوں کو ہمیشہ حلال کمائی کی نصیحت کرتی رہنا، تمام فرض اور واجب کا خیال رکھنا خصوصاً نمازوں کااور تمام رشتہ داروں کو بھی یہی ترغیب دیتی رہنا۔ میرے باپ کو ہر ممکن آرام اور ہمدردی دیتی رہنا، جب تک وہ زندہ رہیں۔

آپ کا اپنا عبد القادر مُلّا

(ترجمہ: علی حارث)

(youtube.com/watch?v=mmcOcpt5-KM&sns=em)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*