(بنگلادیش کے رہنما، عبدالقادر ملا کی شہادت کا ایک سال مکمل ہونے پر اُن کے خاندان کی جانب سے ان کے بڑے صاحبزادے حسن جمیل نے بنگلادیش سپریم کورٹ بار کے آڈیٹوریم میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس کا ترجمہ نذرِ قارئین ہے۔ ادارہ)
قابلِ احترام صحافی دوستو! السلام علیکم
میں عبدالقادر ملا شہید کے خاندان کی جانب سے یہاں موجود ہوں۔ آپ نے ہماری دعوت قبول کر کے اس پریس کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ آپ کے مہربان اور پر خلوص تعاون پر میں اپنے خاندان کی طرف سے آپ کا تہہِ دل سے مشکور ہوں۔
آپ سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ موجودہ حکومت ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو میرے والد کو پھانسی کی سزا دے کر قتل کر چکی ہے۔ میرے والد کو جائز قانونی حقوق نہیں دیے گئے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اپلیٹ ڈویژن کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد وکلا میرے والد سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ میرے والد نے انہیں نظرثانی کی درخواست تیار کرنے کی ہدایت کی۔ اس ملاقات کے بعد وکلا نے جیل کے دروازے پر ۱۰؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو صحافیوں کو آگاہ کیا کہ میرے والد نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ خبر اس وقت تمام میڈیا میں نشر ہوئی۔
میرے والد کی ہدایت کے عین مطابق، وکلا نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ جبکہ اس کے برخلاف ہمارے وکلا کا دعویٰ تھا کہ آئین کی شق نمبر۱۰۵ کے تحت نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ وکلا نے اس وقت وضاحت کی تھی کہ اپیلٹ ڈویژن نے ٹرائل کورٹ کی تجویز کردہ سزا کو بڑھا دیا ہے اور عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کر دیا ہے، اس لیے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا موقع اور گنجائش دی جانی چاہیے۔ اس وقت عوام بھی پریشانی اور بے یقینی صورتِ حال سے دوچار تھے۔
۱۰؍دسمبر ۲۰۱۳ء کی شام کو جیل حکام نے ایک تحریری خط کے ذریعے ہمارے خاندان کو عبدالقادر ملا سے ملاقات کرنے کا پیغام بھیجا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیرِ مملکت برائے قانون اور وزیرِ مملکت برائے امورِ داخلہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں عبدالقادر ملا کو ۱۳؍بج کر ایک منٹ پر پھانسی دینے کے حکومتی ارادہ کا انکشاف کیا۔
اس خبر کو سنتے ہی وکلا صفائی فوراً اس وقت کے چمبر جج سید محمد حین کے گھر کی طرف دوڑے اور ان کو میرے والد کی جانب سے نظرثانی درخواست دائر کرنے کی ضرورت اور وجہ کے بارے میں سمجھایا۔ چمبر جج نے اگلے دن صبح دس بجے تک سزائے موت پر عمل در آمد رکوا دیا۔ اگلے روز ہمارے وکلا نے سزائے موت پر عمل در آمد روکنے اور فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔ درخواست کی سماعت فوراً ہی شروع ہو گئی اور بعد میں عدالت کا وقت ختم ہونے کے باعث روک دی گئی۔ دونوں اطراف کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور اگلے دن ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو بالآخر درخواست مسترد کر دی گئی۔
میرے والد یہ تک نہ جان سکے کہ ان کی نظرثانی کی درخواست کو کس بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے۔ درخواست رد کیے جانے کے فوراً بعد حکومت نے میرے والد کو رات دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دینے کے فیصلے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔
یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، ریاست ہائے متحدہ امریکا، آسٹریلیا، ترکی اور بہتیرے دیگر مما لک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے سزا پر عمل درآمد روکنے کی درخواست کی لیکن اس درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت نے میرے والد کو قتل کر دیا۔
ہم نے صرف میرے والد کو نہیں کھویا بلکہ ہم نے ایک اسلامی تحریک کے بانی اور ایک عظیم مدرس اور صحافی کو کھویا ہے۔ میرے والد کی پھانسی کے ۳۸۴ روز بعد میری نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ شائع کیا گیا ہے۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نظرثانی درخواست قابلِ سماعت ہے اور اپلیٹ ڈویژن کے فیصلے کے پندرہ یوم کے اندر اس کا داخل کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن عبدالقادر ملا کو فیصلہ سنائے جانے کے سات روز کے اندر ہی پھانسی دے دی گئی۔
دنیا سے رخصت ہونے سے قبل میرے والد نہ جانتے تھے کہ آیا انہیں نظرثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ جب کسی شخص کو اس کے جائز قانونی حقوق دیے بغیر پھانسی دی جائے تو یہ سراسر قتل کے مترادف ہے۔
اس حکومت نے ظالمانہ طریقے سے میرے والد کو قتل کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں اپنے والد کی نمازِ جنازہ ادا کرنے تک کی اجازت نہیں دی۔ ہمیں آخری موقع پر ان کا چہرہ دیکھنے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ اس رات ایک طرف میرے والد کو پھانسی دی گئی اور دوسری طرف بر سرِ اقتدار جماعت کے شر پسندوں نے میرے خاندان کے لو گوں پر حملہ کیا۔ میرے خاندان کے کئی لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ یہ کتنا غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک تھا، ہم وطن اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ میں حکومت کے اس غیر انسانی اور سفاکانہ سلوک پر لوگوں کے ضمیر کی عدالت میں انصاف طلب کرتا ہوں۔
ہم امید کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جبر و تشدد کے بارے میں انصاف کرے گا۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کی قربانی و شہادت کو قبول کرے گا اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے گا۔ ایک مظلوم باپ کے بیٹے کی حیثیت سے میں ہم وطنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حکومت کے جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اپنے خاندان کی جانب سے میں ان تمام حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے حکومت کے غیر منصفانہ اور غیر قانونی اقدام کے خلاف احتجاج کیا اور جنھوں نے ہمارے خاندان سے اظہارِ ہمدردی کیا اور غائبانہ نمازِ جنازہ کا انتظام کیا۔
آخر میں مَیں اپنے تحریری بیان کو آپ سب کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔
آپ سب کا بہت شکریہ۔
حسن جمیل
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Abdul Quader Molla did not get due legal rights; the government killed him through hurried execution, alleges Hasan Jamil”. (“jamaat-e-islami.org”. Dec. 11, 2014)
Leave a Reply