
کم و بیش ۱۵ فیصد امریکی افلاس زدہ زندگی بسر کر رہے ہیں مگر مین اسٹریم میڈیا میں کوئی بھی اس کا ذکر نہیں کرتا۔ ایسا کیوں ہے؟
میری اس تحریر کا بنیادی مقصد امریکی حکومت کو شٹ ڈاؤن یا سیاسی بحران (صدر اوباما اور ری پبلکن پارٹی کے درمیان پائی جانے والی کشمکش) کے حوالے سے شرمسار کرنا نہیں۔ یہ بات کوئی بھی بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ امریکا میں ہر طرح کا میڈیا کسی ایک موضوع ہی پر مرتکز رہتا ہے۔ عام طور پر لوگ یا میڈیا پرسنز جس رائے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں، اس کے مقابلے میں حقیقت کچھ اور زیادہ شدید ہوتی ہے۔
فوڈ اسٹیمپ فائٹ آپ کو یاد نہیں؟ دو ہفتے پہلے ہی کی تو بات ہے کہ ری پبلکن اکثریت والے ایوانِ نمائندگان نے بل پیش کیا کہ دس برسوں میں فوڈ اسٹیمپ پروگرام سے ۴۰ ارب ڈالر کی کٹوتی کی جائے گی۔ جو لوگ جسمانی طور پر بہتر حالت میں ہیں یعنی کام کرسکتے ہیں، انہیں خوراک کے معاملے میں حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں دی جائے گی اور یہ کہ اس وقت جو لوگ کوئی بھی کام نہ کرکے محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور امداد وصول کر رہے ہیں، انہیں کسی نہ کسی حد تک کام کا پابند کیا جائے گا۔ ماہرین نے ری پبلکن پارٹی کے اس اقدام کو سفاک قرار دیا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لاکھوں مفلس امریکی امداد سے محروم ہوجائیں گے اور ان کی زندگی میں مشکلات کا دائرہ وسیع ہوجائے گا۔ ماہرین کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ایسے اقدامات سے ملک میں سماجی تحفظ کا ڈگمگاتا ہوا نظام مزید کمزور پڑ جائے گا۔ یہ سب کچھ درست مگر اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک کے سب سے سنگین اور سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے مسئلے یعنی ’’افلاس‘‘ کو منظرِ عام پر لانے میں ایک سفاک اور بے رحم قانون متعارف کرانے کی ضرورت پیش آئی۔
پیو ریسرچ سینٹر کے پروجیکٹ فار ایکسیلنس اِن جرنلزم نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۲ء تک امریکا کے ۵۲ بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس میں نیوز کے لیے جو وقت مختص کیا جاتا ہے، اس میں افلاس اور اس سے متعلق صورتِ حال کی کوریج کو دیا جانے والا وقت ایک فیصد سے بھی کم تھا۔ یہ حقیقت مزید حیرت انگیز یوں بھی ہوجاتی ہے کہ اسی دوران عالمی سطح پر شدید کساد بازاری پیدا ہوئی اور امریکی معیشت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا آؤٹ لیٹس میں افلاس کی کیفیت کو اس لیے بھرپور کوریج نہیں دی گئی کہ اشتہارات دینے والے ادارے نہیں چاہتے کہ ان کے متوقع (یعنی مالدار) کرم فرما ملک کی خراب حالت دیکھ کر اپنی رائے تبدیل کریں اور اپنے اخراجات پر نظرثانی پر مجبور ہوں۔ معروف جریدے ’’ٹائم‘‘ کے لیے سماجی موضوعات پر مضامین لکھنے والی باربرا ایرنرائخ کہتی ہیں: ’’بڑے تجارتی ادارے اپنے اشتہارات کے نزدیک ایسے مضامین کی اشاعت نہیں چاہتے، جن میں ملک کے خراب حالات اور بالخصوص افلاس کی عکاسی کی گئی ہو‘‘۔
افلاس کی کوریج زیادہ محنت اور اس سے بھی زیادہ بجٹ مانگتی ہے۔ کسی بھی خرابی کو کور کرنے کے لیے اس کے کئی پہلوؤں کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں کوئی نیوز ایڈیٹر اپنے کسی رپورٹر کو ایسی رپورٹ کی تیاری پر نہیں لگا سکتا، جس میں محنت بھی زیادہ کرنی پڑے اور اخراجات بھی بڑھ جائیں۔ ٹیمپا بے ٹائمز کے لیے میڈیا سے متعلق امور کے نقاد ایرک ڈیگنز نے سالِ رواں کے اوائل میں نائمین فاؤنڈیشن فار جرنلزم کو بتایا تھا کہ ’’افلاس بہت حد تک پورے معاشرے کے لیے احساسِ ذمہ داری کا معاملہ ہے‘‘۔
امریکا میں اس وقت کم و بیش ۴۶ لاکھ افراد (یعنی آبادی کا تقریباً ۱۵ فیصد) افلاس کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کے بنیادی مسائل کو یہ کہتے ہوئے میڈیا میں کور کرنے سے انکار کردینا افسوسناک ہے کہ اس سے تجارتی پہلو متاثر ہوگا۔ یہ تو مفادِ عامہ کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں میڈیا کی واضح ناکامی ہے۔
امریکا میں میڈیا چونکہ افلاس کی کوریج کو ترجیحات میں شامل نہیں کرسکتا، اس لیے افلاس کی زَد میں آئے ہوئے لوگ پریشان ہیں کہ اپنی بات کس طور متعلقہ حکام تک پہنچائیں یا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔
۵۰ سال قبل امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے افلاس کے خلاف جنگ چھیڑی تھی۔ تب افلاس زدہ امریکیوں کے لیے سماجی تحفظ اور صحت سے متعلق سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسے حالات پیدا کیے گئے، جن میں یہ سوچنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا کہ امریکا میں کوئی غریب پایا جاتا ہے۔ میڈیا نے عوام کو مختلف طریقوں سے اس قدر مسحور کردیا کہ وہ یہ سوچنا بھی بھول گئے کہ ملک میں کوئی غریب پایا جاتا ہے۔ امریکا کے سابق وزیرِ خوراک ڈین گلک مین نے یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ میں لکھا تھا کہ غربت کے خلاف جنگ چھیڑتے وقت پہلا معرکہ اس حقیقت کو تسلیم کرانے کا ہے کہ امریکا میں غربت پائی جاتی ہے!
سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس کے متعارف کرائے جانے کے بعد صورتِ حال بہت حد تک تبدیل ہوگئی ہے۔ بہت سے بلاگس پر امریکی معاشرے کی خرابیاں اور کمزوریاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ٹوئٹر پر بھی افلاس زدہ طبقے کی نمائندگی خوب ہو رہی ہے۔ معروف دو ماہی جریدہ ’’دی امریکن پروسپیکٹ‘‘ افلاس زدہ طبقے اور تیزی سے سکڑتے ہوئے متوسط طبقے کے بنیادی مسائل کو عمدگی سے منظرِ عام پر لاتا ہے اور ان پر بحث چھیڑ کر حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ امریکا میں سالِ رواں کے دوران فاسٹ فوڈ ورکروں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے تحریک چلائی ہے۔ مرکزی دھارے کے الیکٹرانک چینل، اخبارات اور جرائد نے انہیں خاطر خواہ کوریج نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر فاسٹ فوڈ ورکروں کے مسائل کو خاصا اجاگر کیا گیا۔ آزاد اور غیر جانبدار ٹی وی نیٹ ورک ’’ڈیموکریسی ناؤ‘‘ نے غیر معمولی کوریج دی۔
اگر امریکا میں افلاس زدہ طبقے کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو امریکا میں میڈیا کی آزادی اور خود مختاری داغدار ہوتی رہے گی۔ یہ ناگزیر ہے کہ میڈیا انہیں کوریج دے جو مشکلات سے دوچار ہیں اور اپنی بات کسی اور ذریعے سے زیادہ مؤثر طور پر آگے نہیں بڑھا سکتے۔
(“About 15% of Americans live in Poverty, so why is no one talking about it?”…”The Guardian” London. Oct. 5, 2013)
Leave a Reply