
پہلی خلیجی جنگ (۱۹۹۲ء) کے ایک سال بعد میں نے ڈک چینی کو جو اس وقت وزیرِ دفاع تھے‘ یہ کہتے سنا کہ امریکا نے عراق پر حملہ نہ کر کے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ عراق پر قبضہ جمانے اور وہاں حکومت کرنے کے مسئلے میں الجھ کر رہ جاتا۔ میں نے یہ کہتے بھی سنا کر میرے ذہن میں یہ سوال بھی رہ رہ کر ابھرتا ہے کہ کتنے زیادہ اور امریکی فوجی مارے جائیں اور کیا صدام کی قیمت ان امریکی سپاہیوں سے زیادہ اور اس کا جواب بھی یہی ہے کہ نہیں۔ وہ اتنا اہم نہیں کہ اس کے لیے امریکی فوجیوں کو موت کے منہ میں جھونکا جائے۔
فروری ۲۰۰۱ء میں کولن پاول نے کہا تھا کہ صدام حسین نے ایسی کوئی صلاحیت نہیں پیدا کی ہے کہ وہ ایسے ہتھیار بنا سکے جس سے اکثریت کو ختم کیا جاسکے۔ وہ تو اپنے پڑوسیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اب روایتی قسم کے ہتھیار بھی نہیں بنا سکتا۔
ایک ماہ میں نے CIA کی ایک رپورٹ دیکھی جس میں کہا گیا تھا ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں ہے کہ عراق نے پہلی خلیجی جنگ کے بعد کا وقفہ اکثریت کو ختم کرنے والے ہتھیار Weapons of mass distruction بنانے یا تیار کرانے میں استعمال کیا ہے۔
جولائی ۲۰۰۱ء میں کونڈو لیزا رائس نے کہا ’’ہم اس قابل ہیں کہ ان کے ہتھیار سے ان کو دور رکھ سکیں انہوں نے اپنی ملٹری کو دوبارہ منظم نہیں کیا ہے۔
ستمبر ۲۰۰۱ء میں حملوں کے چھ گھنٹوں بعد ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے سنا کہ موقعہ ہے کہ عراق پر حملہ کر کے وہاں پر اپنا ہر طرح کا تسلط قائم کر لیا جائے۔
میں نے کونڈو لیزا رائس کو یہ کہتے ہوئے سنا‘ ہم ان مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں‘ میں نے سنا کہ صدر امریکا نے ۱۷ ستمبر کو ایک دستاویز پر دستخط کیا ہے جس پر ٹاپ سیکرٹ لکھا تھا۔ اس میں پینٹا گون کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ حملہ کے لیے تیاریاں شروع کر دے اور کچھ مہینوں بعد انہوں نے بڑی رازداری اور غیرقانونی طور پر افغانستان پر حملہ کیے جانے کے لیے ۷۰۰ ملین ڈالر کی جو رقم منظور کر لی تھی‘ اسے اس نئے حملہ کے لیے منظوری دے دی۔
فروری ۲۰۰۲ء میں ایک گمنام سینئر ملٹری کمانڈر کو یہ کہتے سنا کہ ہم اپنے فوجیوں اور محکمہ خفیہ کے افراد کو افغانستان سے نکال رہے ہیں تاکہ مستقبل میں عراق میں ہونے والی جنگ کی تیاری کر سکیں۔
میں نے امریکی صدر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عراق ہمارے لیے فوری طور پر خطرناک ہو گیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ عراقی حکمراں کے پاس چھپائے گئے اتنے خطرناک ہتھیار ہیں جو ابھی تک کہیں تیار نہیں ہو سکے ہیں۔ میں نے نائب صدر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سیدھے سادے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ عراق کے پاس عوام کی اکثریت کو ختم کرنے والے خطرناک ہتھیار (WMD) ہیں۔
میں نے صرف کانگریس کو مخاطب کر کے یہ کہتے سنا کہ ہمارے ملک کو زبردست خطرہ لاحق ہے بلکہ یہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ عراقی حکومت نیوکلیئر بم بنا رہی ہے اور ایک سال میں وہ اپنے وسائل سے ایسا بم تیار کر لے گی۔
میں نے انہیں یہ کہتے بھی سنا کہ جو خطرہ ہمیں آج درپیش ہے‘ وہ ماہ بہ ماہ بڑھتا ہی جائے گا۔ انہیں نظرانداز کرنے کا مطلب اس کی ہمت افزائی کرنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عراقی حکومت انتھریکس یا گیس یا نیوکلیائی ہتھیار اپنے دہشت پسند حلیفوں کو مہیا کرتا رہے گا۔ میں نے صدر کو اپنے یونین کے خطاب میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ عراق نے ایسے عناصر پوشیدہ کر رکھے ہیں‘ جو ۲۵۰۰۰ لیٹر انتھریکس گیس بنانے کے لیے کافی ہو گا۔
میں نے صدر کو یہ کہتے سنا کہ عراق نے یورنیم خریدنے کی کوشش کی ہے جو نیوکلیائی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ میں نے نائب صدر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اپنی ساری صلاحیت نیوکلیائی ہتھیار بناے میں صرف کر رہا ہے ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے ایسا ہتھیار بنا لیا ہے۔
میں نے صدر کو یہ کہتے سنا ’’صرف تصور کیجیے کہ ۱۹ ہائی جیکر جو صدام حسین کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے لیس ہوں‘ وہ ہمارے ملک پر اتنا خطرناک حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں جس کے خطرناک نتائج کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔
میں نے امریکن سفیر کو یورپین یونین سے یہ کہتے سنا ’’آپ کے پاس یورپ میں ہٹلر تھا اور کسی نے بھی اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح کا دوسرا آدمی بغداد میں ہے‘‘۔
اقوامِ متحدہ میںمَیں نے کولن پاول کو یہ کہتے سنا کہ ’’اگر بہت کم کر کے بھی اندازہ لگایا جاتا ہے تو بھی صدام حسین کے پاس نیوکلیائی ہتھیاروں کے ایسے ذخیرے ہیں کہ ۱۰۰ اسکوائر کلومیٹر میں سب کچھ تباہ کر دیں جو مین بٹن علاقے کے پانچ گنا زیادہ وسیع ہے اور میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں‘ اس کے میرے پاس وافر ثبوت موجود ہیں‘‘۔
میں نے صدر کو کہتے سنا ’’عراق کے پاس ایسے ایسے ہوائی جہاز ہیں‘ جن سے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بہت بڑے علاقوں میں بربادی لاسکتے ہیں‘‘۔ میں نے کہتے سنا کہ صرف حکم دینے کے ۴۵ منٹ کے اندر وہ ہتھیار قیامت برپا کر دیں گے۔
میں نے ٹونی بلیئر کو کہتے سنا ’’ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم اس بات کو قبول کر لیں کہ عراق نے ایسے ہتھیار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ میں کہتا ہوں کہ اس طرح کی بات کرنا ہی حماقت انگیز ہے۔
میں نے صدر کو کہتے سنا ’’ہم جانتے ہیں کہ عراق اور القاعدہ پچھلے دس سالوں سے اعلیٰ پیمانے پر ایک دوسرے سے ربط رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ عراق نے القاعدہ کے ممبروں کو بم بنانے اور خطرناک گیس بنانے کی ٹریننگ دی ہے۔ اس طرح دہشت گردوں سے تعلق کی بنا پر عراق امریکا پر کئی حملے کرا سکتا ہے اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملے گا کہ یہ حملہ عراق نے کروایا ہے‘‘۔
میں نے نائب صدر کو کہتے سنا کہ ’’اس بات کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ عراق اور القاعدہ میں گہرے رشتے استوار ہیں‘‘۔
میں نے کولن پاول کو کہتے سنا کہ ’’عراق کے حکمراں القاعدہ کے ساتھ اپنے رشتوں سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا یہ انکار قابلِ قبول نہیں‘‘۔
میں نے کونڈو لیزا رائس کو کہتے سنا ’’القاعدہ اور صدام حسین کے درمیان اتنے گہرے روابط موجود ہیں کہ اس معاملے پر بھی دستاویزات پیش کیے جاسکتے ہیں‘‘۔
میں نے سنا پینٹاگون کے ایک ترجمان نے ملٹری منصوبہ کو ’’شاک اینڈ اوے‘‘ دھکا لگانا اور خوف پیدا کرنے کا نام دیا ہے۔ اس نے بتایا کہ تین سو سے چار سو تک کروز میزائل ہر روز داغے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت تک چلے گا جب تک بغداد میں کوئی محفوظ جگہ باقی نہ رہ جائے۔ میں نے ترجمان کو کہتے سنا ’’آپ بغداد میں بیٹھے ہیں‘ آپ جنرل ہیں کہ اچانک آپ کی تیس ڈویژن فوج نیست و نابود ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی شہروں کا بھی حساب کیجیے اس طرح سے میری مراد ہے کہ شہروں میں بجلی پانی کی سپلائی ختم۔ تین چار دنوں میں آپ جسمانی‘ نفسیاتی اور جذباتی طور پر ٹوٹ جائیں گے۔ اس طرح منصوبے نہ تو پہلے بھی بنایا گیا نہ ایسے منصوبے پر بھی غور کیا گیا۔
میں نے سنا میجر جنرل چارلس سانیک نے وعدہ کیا کہ ہم ایک بادام توڑنے کے لیے بڑے ہتھوڑے کا استعمال کریں گے۔
میں نے پینٹاگون کے ایک ترجمان کو کہتے سنا کہ ’’یہ وہ خلیجی جنگ نہیں ہو گی جو آپ کے والد نے لڑی تھی۔ میں نے سنا ہے کہ صدام کی پالیسی امریکی حملہ کے خلاف یہ ہو گی کہ وہ باندھوں اور پلوں اور تیل کے کنوئوں میں آگ لگا دیں اور جنوب کی جانب رسد کی فراہمی روک دیں تاکہ امریکیوں کو لاکھوں بھوکے شہروں کو کھانا کھلانا پڑے۔ میں نے سنا کہ بغداد کے چاروں طرف ریپبلکن گارڈ کے دو چیمبر دائرے تعینات کیے جائیں گے جو ہر طرح کے کیمیائی ہتھیاروں سے مسلح ہوں گے تاکہ امریکی فوج‘ عراقیوں کے خلاف فوری طور پر استعمال کر سکیں۔
میں نے سنا کہ عراق لمبی دوری تک مار کرنے والی اپنی اسکڈ میزائل جو ہر طرح کیمیائی اور حیاتیاتی آلوں سے آراستہ ہو گی‘ سے اسرائیل پر حملہ کرے گا تاکہ اس حملہ کو امریکی اسرائیل اتحاد کے خلاف حملہ کہا جاسکے اور عرب دنیا سے اسے تعاون مل سکے۔ میں نے نائب صدر کو کہتے سنا کہ جنگ کا خاتمہ ہفتے بھر میں ہو جائے گا۔ یہ مہینوں تک چلنے والی جنگ نہیں ہے۔
میں نے سنا ڈونلڈ رمسفیلڈ نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عراق میں امریکی فوجیوں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ یاد کیجیے کہ کس طرح افغانستان میں ہوا۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر ناچ رہے تھے‘ گا رہے تھے‘ تالیاں بجا رہے تھے‘ پتنگ اڑا رہے تھے اور ہر وہ کام کر رہے تھے‘ جن کی ممانعت طالبان اور القاعدہ نے کر رکھی تھی۔
میں نے نائب صدر کو کہتے ہوئے سنا ’’میرا یقین ہے کہ لوگ ہمیں اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے‘‘۔ میں نے سنا کہ عراق کے وزیرِ خارجہ طارق عزیز نے کہا ’’امریکی فوجیوں کو پھولوں کے ساتھ خوش آمدید نہیں کہا جائے گا بلکہ بندوق کی گولیوں سے ان کا استقبال کیا جائے گا‘‘۔
صدر امریکی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس جنگ میں ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہو گا۔ صدر امریکا نے جنگ شروع ہونے سے پہلے شام عراقی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ جنگ ان قانون شکن لوگوں کے خلاف ہے جو آپ کے ملک پر حکومت کر رہے ہیں جیسے ہی ہماری اتحادی فوجیں آئیں گی ان کے اختیارات چھین لیں گی۔ ہم آپ کو غذا اور دوائیں اور ہر وہ چیز جن کی آپ کو ضرورت ہے‘ فراہم کریں گے۔ ہم ایک نیا عراق بنانے میں آپ کی مدد کریں گے جو آزاد اور خوشحال ہو۔ اب عراق میں مخالفوں کو پھانسی نہیں دی جائے گی‘ ناقدوں کی زبان بند نہیں کی جائے گی‘ نہ کوئی دہشت گرد ہو گا نہ ریپ روم ہو گا۔ ہم اس وقت تک یہیں رہیں گے‘ جب تک آپ کا ملک آزاد نہیں ہو جاتا۔ میں نے پینٹا گون ترجمان کو یہ کہتے سنا ’’عراق میں ۹۵ فیصد جانی نقصان فوج کے لیے مناسب عمر کے نوجوانوں کا ہو گا‘‘۔
میں نے ریڈ کراس کو یہ کہتے سنا کہ بغداد میں اس قدر اموات ہوئیں کہ اسپتالوں نے ان کی گنتی بند کر دی ہے‘ جن کے بعد لُوٹ اور تباہی مچی جس کے بارے میں ڈونلڈ رمسفیلڈ نے کہا ’’یہ بہت گندی اور غلط بات ہے لیکن آزادی میں یہ چیزیں شامل ہیں اور جب نیشنل میوزیم خالی ہو گیا اور نیشنل لائبریری جل کر خاک ہو گئی تو ڈونلڈ رمسفیلڈ نے کہا اپ ٹی وی پر جو تصویر دیکھ رہے ہیں وہ بار بار دکھائی جارہی ہے کوئی شخص ایک مرتبان لے کر عمارت سے نکل رہا ہے۔ اسی تصویر کو آپ سو مرتبہ دیکھ رہے ہیں اور آپ سوچتے ہیں ’’میرے خدا کیا وہاں اتنی بہت مرتبان تھے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ پورے ملک میں اتنے مرتبان ہوں‘‘۔
میں نے سنا دس ہزار عراقی شہری مارے گئے ہیں۔
میں نے کولن پاول کو کہتے سنا ’’مجھے سو فیصد یقین ہے کہ عراق کے پاس WMD ہے اور اس کا ثبوت جلد ہی ملنے والا ہے۔ ہم اسے تلاش کر کے نکال لیں گے‘ صرف کچھ وقت لگے گا‘‘۔
میں نے رمسفیلڈ کو کہتے سنا ’’ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں‘ وہ تکریت اور بغداد کے پاس ہیں اور مشرق میں‘ مغرب میں‘ جنوب میں اور شمال میں کہیں نہ کہیں ضرور ہیں‘‘۔ میں نے سنا کہ چند مہینوں کے اندر میکڈونالڈ کی شاخیں عراق میں چاروں طرف قائم ہو جائیں گی اور وہاں کے بینک پورے ملک میں اپنی کیش مشین لگائیں گے۔
میں نے سنا کہ وہاں نیو بریگیڈ اسٹریٹرجی کے تحت پورے عراقی بازار کو ختم کر کے اپنے بڑے بڑے اسٹور وہاں قائم کریں گی۔
یکم مئی ۲۰۰۳ء کو میں نے صدر کو ایک پائلٹ کے لباس میں دیکھا جس پر جھنڈا لگا تھا اور جس پر لکھا کہ مقصد پورا ہو گیا ہے۔ یہ اعلان کیا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق کی جنگ میں فتح حاصل ہوئی فتح دراصل دہشت پسندوں پر ہوئی ہے جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں شروع ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں زبردست فتح حاصل ہوئی ہے۔ ہم نے القاعدہ کے ایک حلیف کو ختم کر دیا ہے اور دہشت گردوں کو جہاں سے فنڈ ملتا تھا‘ وہ ذریعہ ختم کر دیا۔ اب ایک چیز یقینی ہے کہ اب کوئی دہشت گرد کبھی عراق سے ہتھیار نہیں پا سکے گا لیکن وہ حکومت اب ختم ہو گئی۔ ان ۱۹ مہینوں میں جس نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے‘ ہمارے ہتھیار ٹھیک نشانے پر لگے۔ ہم ۱۱ ستمبر کو مارے گئے لوگوں کو بھولے نہیں ہیں۔ اپنے ان حملوں سے دہشت گردوں نے امریکا پر حملہ کیا تھا اور حملہ کا جواب انہوں نے اپنی شکست میں پالیا ہے۔
یکم مئی ۲۰۰۰ء کو میں نے سنا کہ اس جنگ میں ۱۴۰ امریکن فوجی مارے گئے ہیں۔ میں نے لیفٹیننٹ جنرل جے گارنر کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’ہمیں آئینہ دیکھ کر اپنے اوپر فخر کرنا چاہیے اور اپنا سینہ پھلا کر اسے چومنا چاہیے اور خوشی سے جھوم جانا چاہیے کیونکہ ہم امریکن ہیں۔ میں نے سنا کہ پینٹاگون میں منصوبہ بندی کرنے والوں نے پیش گوئی کی ان گرمیوں کے بعد امریکی افواج کی تعداد میں تیس ہزار کی کمی ہو جائے گی۔
میں نے سنا کہ صرف بغداد شہر میں ہزاروں لوگوں کو یرغمال بنایا جارہا ہے۔ عصمت دری ہو رہی ہے‘ اسکول‘ اسپتال‘ دکانیں‘ کارخانے لُوٹے جارہے ہیں۔ وہیں بجلی کی بحالی ناممکن ہو گئی ہے کیونکہ تانبے کے سارے تار بجلی گھروں سے چوری کر لیے گئے ہیں۔
میں نے پال مارکر کو کہتے سنا ’’ملک میں زیادہ تر علاقوں میں امن و امان قائم ہے۔ کہیں کہیں کچھ علاقوں میں کچھ مسائل ضرور پیدا ہو رہے ہیں‘ جو القاعدہ یا ان کے حلیف دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ جیسے جیسے امریکن فوجیوں پر حملوں کی تعداد بڑھتی گئی امریکی جنرلوں میں اس بات پر اختلافات بڑھتے گئے کہ ان پر حملہ کون کر رہا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی یا بعث پارٹی کے باقی ماندہ لوگ۔ عراقی لوٹ پاٹ کرنے والے غیرملکیوں کے بھاڑے کے ٹٹو یا عام شہری اپنے مادرِ وطن کی پامالی کا بدلہ لے رہے ہیں۔ میں نے امریکی صدر اور نائب صدر کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ امریکی فوجیوں پر حملہ کر رہے ہیں‘ وہ صرف اور صرف دہشت گرد ہیں۔
میں نے سنا کہ پچیس ہزار عراقی شہری اس دوران مارے گئے ہیں۔
میں نے سنا کہ کرنل ناتھن سا سامان نے کہا بہت زیادہ خوف اور تشدد کے ساتھ ہی عراقی کی تعمیرِ نو کے لیے وسائل اور بجٹ کی فراہمی کے ساتھ ہی ہم ان لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہم واقعی ان کی مدد کے لیے آئے ہیں۔
میں نے رچارڈ بیرل کو یہ کہتے سنا ’’اگلے سال ایسے وقت میں مجھے امید ہے کہ یہاں تجارت اور صنعت و حرفت کا کوئی فروغ ہو چکا ہو گا اور ایک سال بعد مجھے اس پرتعجب ہو گا اگر کسی چوراہے پر صر بش کا مجسمہ نہ ہو اور وہ چوراہا بھی بش کے نام سے نہ پکارا جائے۔ میں نے کہا عراقی فوجی قوانین کے تحت جس عراقی حملہ میں تیس یا اس سے زیادہ عام شہری کے مارے جانے کا خطرہ ہو اس کی منظوری ڈیفنس سیکرٹری سے لینا ضروری ہے اور یہ کہ ڈونلڈ رمسفیلڈ نے بخوشی ایسے مشوروں کو اپنی منظوری دے دی۔
میں نے بحریہ کے کمانڈر کو یہ کہتے سنا ’’ہم نے ان پلوں کو نیپام بموں سے اڑا دیا۔ بدقسمتی سے اس وقت وہاں بہت سے شہری موجود تھے۔ مرنے کا یہ طریقہ نیا نہیں تھا۔ میں نے سنا کہ پینٹاگون نے اس بات سے انکار کیا کہ نیپام کا استعمال کر رہے ہیں۔ پینٹاگون نے کہا ہ وہ صرف مارک ۷۷ کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارک ۷۷ نیپام کا دوسرا نام ہے۔
میں نے ایک بحریہ فوجی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم لوگوں سے مردوں کی شناخت اور گنتی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ آپ عراقی کے سینہ میں دو گولی مارتے ہیں‘ ایک اس کے سر میں لیکن جب آپ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں‘ جہاں وہ زخمی پڑے ہیں۔ آپ جان نہیں سکتے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا۔ اس لیے وہ ہمیں مردوں کی گنتی کے طریقہ کی تعلیم دیتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کو اپنے بوٹ سے دبائو کیونکہ کوئی شخص جو جان بوجھ کر مردہ بنا ہے وہ فوراً بوٹ سے دبانے پر کراہے گا اگر وہ ہلتا ہے تو آپ اس کے دماغ میں گولی مار دیں گے۔ آپ اس لیے ایسا کریں گے کہ جو جوش بنا ہوا ہے وہ قائم رہے کیونکہ ایسا نہ کرنے پر آپ کے مڑتے ہی وہ زخمی شخص آپ کو گولی مار دے گا۔ جب امریکی فوجیوں کی اموات میں اضافہ ہونے لگا اور ان کی تعداد ۵۰۰ سے اوپر پہنچ گئی تو کولن پاول نے کہا ’’ہمیں امید نہیں تھی کہ اس طرح کی مزاحمت اتنی شدت کے ساتھ اتنے دنوں تک چلے گی‘‘۔
ڈونلڈ رمسفیلڈ ہمیں اس وقت اپنے عزم سے مقابلہ آرائی کرنا پڑ رہی ہے۔ میں نے ٹونی بلیئر کو کہتے سنا ’’چار لاکھ انسانوں کی بچی کچھی لاشیں اجتماعی قبروں میں پائی گئی ہیں۔ ٹونی بلیئر کے یہ الفاظ امریکی حکومت کے پمفلٹ میں پائے گئے ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکی حکومت نے اسے انسانیت کے خلاف ایک جنگی جرم کا نام دیا ہے۔
میں نے سنا کہ جنگ کے زمانہ کا یہ پہلا امریکی صدر ہے جو کبھی کسی فوجی کے جنازے میں نہیں شریک ہوا۔ میں نے سنا کہ قومی پرچم میں لپٹے ان تابوتوں کی تصویروں کی اشاعت اخبار میں ممنوع قرار دی گئی ہے۔ میں نے سنا کہ پینٹاگون نے لاشوں کو ڈھونے والے تھیلوں کا نام بدل کر ٹرانسفر ٹیوب کر دیا ہے۔
میں نے سنا کہ امریکی فوجیوں کی ہونے والی اموات میں سات فیصد کی موتیں خودکشی کے سبب ہوئی ہیں اور دس فیصد امریکی فوجی بیمار تھے۔ انہیں نفسیاتی علاج کے لیے بھیجا گیا اور ۲۰ فیصد تا عمر اِن بیماریوں سے نجات نہیں پائیں گے۔
میں نے سنا ڈونلڈ رمسفیلڈ یہ کہتے ہیں کہ امریکی سپاہیوں پر حملہ کرنے والے ٹھگوں کے گروہ اور دہشت گرد ہیں۔
میں نے سنا کہ عراق میں اس وقت تیس ہزار سے زائد متفرق جنگجو گروہ ہیں۔ میں نے سنا کہ ٹیلی ویژن کے رپورٹر نہیں مستقلاً ہمیں پال بارمر کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ اس نے پورے عراق کو اپنے خلاف متحد کر دیا ہے۔
میں نے صدر کو کہتے سنا ’’اگر مجھ پر بھی کسی کا تسلط ہو جائے تو میں بھی اس سے راضی نہیں ہوں گا۔ میں نے سنا ٹونی بلیئر کو یہ کہتے ہوئے اس سے پہلے لوگ کثیر اموات کے ہتھیاروں کا ثبوت مانگیں میں لوگوں سے کچھ اور صبر اور انتظار کرنے کو کہوں گا‘‘۔
میں نے ایک جیل کے وارڈن کیپٹن ڈونلڈریس کو کہتے سنا ’’قیدیوں کو بغیر لباس کے دیکھنا عام سی بات ہے‘‘۔ مجھے بتایا گیا کہ برہنہ کرنا پوچھ تاچھ کا ایک طریقہ ہے جسے ملٹری انٹیلی جنس والے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے سنا کہ جن لوگوں کے خلاف زیادتیاں ہوئیں یہ زیادتیاں نہ تو پوچھ تاچھ کے دوران ہوئیں اور نہ اس کے طریقہ کار کی بدولت۔
قیدی ۲۷‘ ۳۰‘ ۳۱ کے جسموں سے سارے کپڑے اتار لیے گئے ان کو ایک ساتھ ہتھکڑے پہنائی گئی۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے پر لیٹ کر جنسی فعل کریں۔ اس دوران ان کی تصویریں لی گئیں۔ قیدی ۸ کا کھانا پائخانہ میں پھینک دیا گیا اور پھر اسے حکم دیا گیا کہ وہ اسے کھائے۔ قیدی نمبر۸ سے کہا گیا کہ کتے کی طرح بھونکے۔ اس دوران ملٹری پولیس کے لوگ اس پر تھوکتے اور پیشاب کرتے رہے پھر اس کے انس میں بانس ڈالا گیا اور پولیس اسے دیکھتی رہی۔ قیدی ۳ کی ایک خاتون سپاہی جھاڑو سے آبرو ریزی کرتی رہی۔ قیدی ۱۵ کو ایک بکس پر کھڑا کر کے اس کے سر پر ہوڈ رکھا گیا۔ اس کے اعضا تناسل سے زندہ بجلی کا تازہ باندھ کر اسے دھچکا دیا گیا۔ محبوس ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۳‘ ۲۴‘ ۲۶‘ ۱۶ کو ایک دوسرے پر لیٹ کر ہاتھ سے جنسی فعل کرنے کو مجبور کیا گیا۔
محبوس ۵ کو ایک شہری نمبر۱ کو ایک ۱۵ سالہ لڑکے کا ریپ کرتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کیا گیا اور ایک خاتون سپاہی نے اس منظر کی فوٹو گرافی کی۔ کچھ پکڑے گئے لوگوں کا کپڑا اتار کر انہیں عورتوں کا انڈر ویئر سر پر پہننے کے لیے مجبور کیا گیا۔
میں نے ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھے ہیں تو آپ کے لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ دنیا بھر کے جیل خانوں میں آدھی رات کے بعد قیدیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
میں نے سنا کہ عراق میں ریڈ کراس نے اپنا دفتر بند کر دیا ہے۔ کیونکہ وہاں کام کرنا بہت خطرناک ہو گیا تھا۔ میں نے سنا جنرل الیکٹریکل اور سائنس کارپوریشن کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا ہے۔ میں نے سنا کہ اب عراق میں موجود صحافی اپنے ہوٹل سے ڈر کے مارے باہر نہیں نکلتے۔ جب ان کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد بچے کچھ مغربی تاجروں کے لیے بیمہ حد سے زیادہ مہنگا ہو گیا۔ اب ایک ہفتہ کا بیمہ دس لاکھ ڈالر میں ہوتا ہے۔
میں نے سنا کہ پچاس ہزار عراقی شہری مارے جاچکے ہیں۔ میں نے سنا کہ وزیراعظم بننے سے پہلے ایاد علاوی بغداد کے ایک پولیس اسٹیشن پر گئے جہاں چھ مشتبہ گوریلا کو ہتھکڑیوں سے جکڑ کر دیوار کے سہارے کھڑا کیا گیا تھا۔ میں نے سنا کہ جہاں درجنوں عراقی سپاہی اور کچھ امریکن اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ علاوی نے اپنا پستول نکال کر ان سب کو گولی سے بھون دیا۔ میں نے سنا کہ انہوں نے کہا ایسے شرارتی لوگوں سے ایسے ہی نپٹنا چاہیے۔
میں نے ڈونلڈ رمسفیلڈ کو کہتے سنا ’’ہمیں اس کا کبھی یقین نہیں تھا کہ ہم WMD (کثیر اموات کے ہتھیار) کے پانے میں اتنی ٹھوکریں کھائیں گے یا وہ ہمیں فوراً مل جائیں گے۔ میں نے کونڈو لیزا رائس کو کہتے سنا کہ ہمیں امید نہیں تھی کہ انہیں پانے کے لیے ہمیں گیراجوں کی تلاشی لینی پڑے گی۔
میں نے رمسفیلڈ کو کہتے سنا‘ انہیں شاید ان ہتھیاروں کو ضائع کرنے کا موقع مل گیا۔ اب میرے پاس جواب نہیں ہے۔
میں نے رچرڈ پیرل کو کہتے سنا ’’ہمیں معلوم نہیں کہ ہم انہیں کہاں تلاش کریں اور نہ ہی کبھی معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں اور اس طرح سے ہم ۲۰۰ سال تک بھی تلاش کرتے رہیں‘ کبھی نہیں پائیں گے۔
میں نے صدر کو یہ کہتے سنا ’’میں ایک جنگی صدر ہوں‘‘ میں نے سنا کہ ایک ہزار امریکی سپاہی مارے گئے ہیں اور مزاحمت کے دوران ۷۰۰۰ امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ میں نے سنا کہ امریکی فوجیوں پر یومیہ ۸۷ حملہ ہو رہے ہیں۔
میں نے کونڈو لیزا رائس کو کہتے سنا ’’ہم نے جیسا چاہا تھا سب اس منصوبہ کے خلاف ہو رہا ہے‘‘۔
میں نے کولن پاول کو کہتے سنا ’’ہم نے مشکلات کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا‘‘۔
میں نے ایک گمنام امریکی سپاہی کو کہتے سنا ’’ہمارا خیال تھا کہ عراقیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا‘ عراق تو اب جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے‘‘۔
میں نے میجر تھامس یمیر کو یہ کہتے سنا ’’اب لوگوں کے ذہنوں سے بغاوت کا خیال ختم کرنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ پوری آبادی کو ختم کر دیا جائے‘‘۔
میں نے امریکن نائب صدر کو کہتے سنا ’’اس وقت ہمارا سامنا جس طرح کے دشمن سے ہے‘ اس کی دشمنی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اسے خوش بھی نہیں کیا جاسکتا‘ نہ ہی اس سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اسے صرف ختم کیا جائے گا اور ہم اسی کام میں لگے ہیں‘‘۔ میں نے امریکی صدر کو کہتے سنا ’’ٹھگوں اور ظالموں کا گروہ امریکا کو عراق سے باہر نہیں نکال سکتا‘‘۔
میں نے اس عراقی بارات کے بارے میں سنا جس پر امریکی ہوائی جہازوں نے حملہ کیا تھا اور اس حملہ میں ۴۵ باراتی مارے گئے تھے۔ بارات کی تصویر کھینچنے والا فوٹو گرافر ان خوشیوں کی اس وقت تک تصویر کھینچتا رہا‘ جب تک خود نہیں مارا گیا اور اگرچہ یہ ٹیپ ٹی وی پر دکھایا گیا میں نے بریگیڈریئر جنرل ایکٹ کو یہ کہتے سنا ’’شادی اور بارات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ ہاں ہو سکتا ہے کچھ تقریب منا رہے ہوں۔ بڑے لوگ بھی اکثر تقریبات مناتے ہیں‘‘۔ میں نے ایک عراقی کو کہتے سنا ’’میں قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے کتوں کو عورتوں کا جسم کھاتے دیکھا ہے‘‘۔
جب ایاد علاوی امریکا گئے تو میں نے صدر کو یہ کہتے سنا ’’امریکیوں کو سچی بات ہمیشہ سے پسند ہے اور سچائی اس وقت ہمارے سامنے وزیراعظم کی شکل میں موجود ہے‘‘۔
جب علاوی سے پوچھا گیا کہ عراق میں نسلی اور مذہبی جنگ چھڑی ہوئی ہے‘ انہوں نے جواب دیا کہ عراق میں مکمل امن ہے‘ وہاں سنی‘ شیعہ‘ کرد‘ عرب‘ ترک‘ سب مل کر رہ رہے ہیں۔ کوئی مسئلہ پریشانی نہیں‘ سوائے فلوجہ کے تھوڑے علاقے میں‘‘۔ میں نے سنا کہ تقریباً ۸۰ ہزار عراقی شہری اب تک مارے جاچکے ہیں۔ میں نے سنا کہ اب امریکی فوجیوں پر اوسطاً ۱۳۰ حملے یومیہ ہو رہے ہیں۔
میں نے سنا ’’پندرہ ہزار امریکی فوجیوں نے فلوجہ پر حملہ کیا‘ جب کہ ان کے ہوائی جہازوں نے ان کے ٹھکانوں پر ۵۰۰ پونڈ بم گرائے۔ میں نے سنا کہ انہوں نے نازل ایمرجنسی اسپتال جو شہر کے وسط میں واقع ہے‘ کو برباد کر دیا اسے ایک فوجی نے عام شہریوں کی موت کا پروپیگنڈہ مرکز بتایا۔ انہوں نے اسپتال میں کام کر رہے ۲۰ ڈاکٹروں کو بھی مار ڈالا۔ انہوں نے سارے موبائل فون بھی ضبط کر لیے اور ڈاکٹروں کو اور ایمبولینس گاڑیوں کو باہر نکلنے نہیں دیا تاکہ زخمیوں کو مدد نہ ہو سکے۔ میں نے سنا کہ انہوں نے شہر کے پاور ہائوس کو بم سے اڑا دیا تاکہ پورے شہر میں اندھیرا ہو جائے اور پانی کی سپلائی بھی کاٹ دی۔ میں نے سنا کہ انہوں نے ہر دکان اور مکان پر X کا نشان بنا دیا تاکہ پتا چل سکے کہ اس جگہ کی تلاشی ہو چکی ہے۔
میں نے ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’شہر کے معصوم شہریوں کو شرارتی عناصر سے بچانے کی ہر کوشش کی جارہی ہے اور شہریوں میں مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور جو بھی مرے ہیں‘ انہیں امریکی فوجیوں نے مارا ہے۔
میں نے خبر سنی کہ اس ۱۵۰ مسجدوں والے شہر میں اب کہیں سے اذان کی آواز نہیں سنائی دیتی۔
میں نے محمود عبود کو یہ کہتے سنا کہ اپنے گھر سے اسپتال تک نہ جا پانے کی وجہ سے اس نے اپنے نو سالہ لڑکے کا خون بہہ کر مرتے ہوئے دیکھنا پڑا اور چونکہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اسے قبرستان تک نہیں لے جاسکتا تھا‘ اس لیے اپنے ہاتھ سے قبر کھود کر پائیں باغ میں دفن کرنا پڑا۔
میںنے ریڈ کراس کو کہتے ہوئے سنا کہ ان حملوں میں ۸۰۰ عام شہری مارے گئے ہیں لیکن ایاد علاوی نے کہا کہ فلوجہ میں کوئی شہری نہیں مارا گیا۔
ایک شخص کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا ’’پہلے معمر مردوں اور عورتوں کو گولی مارتے ہوئے پھر جو شخص ان کی لاش لینے آتا ہے‘ اسے بھی گولی مار دیتے ہیں۔ میں نے جنرل جون ٹیلر کو یہ کہتے سنا کہ فلوجہ کی بربادی سے باغیوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
میں نے سنا کہ فلوجہ میں صرف پانچ سڑکیں ہی کھلی رہیں گی‘ باقی ساری سڑکیں بند کر دی جائیں گی۔ شہر میں داخل ہونے والی ہر شخص کی فوٹو لی جائے گی‘ اس کی انگلیوں کے نشان لیے جائیں گے اور اس کے بعد اسے شناختی کارڈ دیا جائے گا۔ یہ شناختی کارڈ ہر شخص کو ہر وقت پہننا پڑے گا تاکہ وہ دور سے نظر آئے۔ کوئی پرائیویٹ گاڑی شہر میں داخل نہیں ہو سکے گی۔ جتنے مرد ہیں‘ ان کے کام کا بریگیڈ بنایا جائے گا تاکہ وہ شہر کی تعمیر میں حصہ لے سکیں۔ انہیں مزدوری ملے گی لیکن کام کرنا سب کے لیے ضروری ہو گا۔
میں نے محمود سے ایک دکاندار کو یہ کہتے سنا ’’میں اب بھی اس چیز کی تلاش کر رہا ہوں‘ جسے وہ جمہوریت کہتے ہیں‘‘۔
میں نے ایک سپاہی کو یہ کہتے سنا ہے اس نے پادری سے عراقیوں کو مارنے کی بابت پوچھا۔ پادری نے جواب دیا اگر تمہیں مارنے میں مزہ نہیں آتا تو حکومت کے لیے دشمن کو مارنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں نے سنا کہ اس سپاہی کو پادری کے اس قول پر شک پیدا ہو گیا‘ پھر اس نے گالی بکتے ہوئے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کہاں کہا تھا کہ حکومت کے لیے معصوم لوگوں کو مارا جاسکتا ہے۔
میں نے ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے سنا ’’مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ حکومت یا انتظامیہ سے کبھی کسی نے یہ کہا ہو کہ عراق کے پاس نیوکلیائی ہتھیار ہیں‘‘۔
میں نے سنا کہ جب ایک اخبار نویس نے ڈونلڈ رمسفیلڈ سے پوچھا ’’عراق کے جنگ سے پہلے بڑے زور و شور سے جنگ کے حق میں جواز دیا تھا کہ عراقی کھلے دل سے آپ کا استقبال کریں گے۔ رمسفیلڈ نے درمیان میں اسے ٹوکتے ہوئے کہا ’’میں نے ایسا بھی نہیں کہا تھا شاید تمہارے ذہن میں کسی اور کا خیال ہے۔ میں نے کبھی بھی ایسی کوئی بات نہیں کی جو تم نے ابھی میری بابت کہا۔
اور احمد شلابی جنہوں نے امریکا کو WMD کی اطلاع بہم پہنچائی تھی‘ نے اپنا کندھا جھٹکتے ہوئے کہا ’’ہم غلطیاں کرنے میں بہت جری ہیں۔ جو باتیں پہلے کہی گئیں‘ وہ اب اہم نہیں ہیں‘‘۔
میں نے پال وولفووز کو یہ کہتے سنا ’’انتظامیہ کے نقطۂ نظر سے ہم نے صرف ایک مسئلہ کو اٹھایا۔ WMD تاکہ عراق پر حملے کا جواز پیدا ہو سکے اور شاید یہی وہ بات تھی‘ جس پر سب متفق ہو گئے۔
میں نے سنا کہ سیکڑوں اسکول بالکل برباد ہو گئے ہیں اور ہزاروں اسکولوں کو لوٹ لیا گیا ہے اور یہ زیادہ تر لوگ اسے حد سے زیادہ خطرناک سمجھ کر اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج رہے ہیں۔
میں نے سنا کہ عراق میں اب بینکنگ کا کوئی نظام باقی نہیں رہا۔ میں نے سنا کہ اب اتنے دنوں بعد عراق کے شہروں میں مشکل سے دس گھنٹے بجلی فراہم ہو رہی ہے اور پینے کا پانی بھی کم لوگوں کو میسر ہو سکا ہے۔ میں نے سنا کہ یوگنڈا سے زیادہ عراقی بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ میں نے سنا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہونے والے دو لاکھ ستر ہزار بچوں کو ٹیکہ نہیں لگ سکا ہے۔
میں نے سنا کہ جو لوگ ووٹ ڈالنے کے قابل تھے‘ ان میں صرف پانچ فیصد لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے۔ میں ڈونلڈ رمسفیلڈ کو یہ کہتے سنا ’’چلیے یہ ہم کہیں گے کہ ہم نے عراق کے تین چوتھائی یا اس سے زیادہ یا اس سے کم حصوں میں الیکشن کرایا تھا۔ کچھ علاقوں میں نہیں کرا سکے کہ وہاں مزاحمت بہت زیادہ ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے‘ آخر زندگی میں بہت سی چیزیں مکمل نہیں ہوتیں۔
میں نے ایک انجینئر کو یہ کہتے سنا ’’جائیے ووٹ ڈالیے اور پھر مارے جائیے۔ کس لیے تاکہ جمہوری نظام قائم ہو سکے‘ کیا آپ مذاق کر رہے ہیں؟ میں نے ایک عراقی جنرل کو یہ کہتے سنا کہ اس وقت تقریباً دو لاکھ جنگجو میدان میں سرگرم ہیں۔ میں نے سنا کہ الجزیرہ کے نامہ نگاروں پر عراق میں پابندی لگا دی گئی ہے۔ ڈونلڈ رمسفیلڈ نے کہا کہ الجزیرہ غلط پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ جھوٹی خبریں نشر کر رہا ہے۔
میں نے سنا کہ اسپین نے اپنی فوجیں واپس بلا لی ہیں۔ رضامندوں کے اتحاد کو اس نے چھوڑ دیا ہے‘ گوٹے مالا بھی علیحدہ ہو گیا ہے۔ ہونڈ ڈراس بھی الگ ہو گیا ہے‘ میں نے سنا کہ فلپائن پہلے ہی الگ ہو چکا ہے۔ ناروے نے بھی رشتہ توڑ لیا ہے۔ پولینڈ اور ہالینڈ بھی علیحدہ ہو رہے ہیں۔ تھائی لینڈ بھی انہیں چھوڑ رہا ہے۔ بلغاریہ اپنی فوجوں کی تعداد کم کر رہا ہے۔ ملڈوڈا نے اپنی فوجوں کی تعداد ۴۲ سے گھٹا کر ۱۲ کر دی ہے۔
میں نے صدر کو ایک بار کہتے سنا اب سے دو سال بعد صرف برطانیہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا اور ایک وقت آنے پر ہم اکیلے وہاں رہ جائیں گے۔ میرے لیے تب بھی مناسب رہے گا کیونکہ ہم امریکن ہیں۔
میں نے سنا کہ ایک لاکھ عراقی شہری مارے جاچکے ہیں اور یہ کہ اب امریکی فوجیوں پر ۱۵۰ حملے یومیہ ہو رہے ہیں۔ میں نے سنا کہ بغداد میں اکیلے ۷۰۰ شہری ہر ماہ غیرجنگی اسباب سے مارے جارہے ہیں۔ ہم نے سنا کہ اب تک ۱۴۰۰ امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی صحیح تعداد ۲۵۰۰۰ سے زیادہ ہے۔
میں نے سنا کہ رمسفیلڈ مرنے والے فوجیوں کے گھر پر مشینی دستخط سے اپنا تعزیت نامہ بھیج رہے ہیں جب اس پر ہنگامہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ آئندہ سے وہ خود دستخط کریں گے۔ میں نے صدر کو یہ کہتے سنا کہ اب وہ امن کے صدر بننا چاہتے ہیں اور ان کی صدارت کے اگلے چار سال امن کا دور ہو گا۔
میں نے سنا کہ امریکی افواج نے ایک ارب پچاس کروڑ گولیاں خریدی ہیں‘ مطلب ہر عراقی مرد اور بچے کے لیے ۵۸ گولی۔
میں نے سنا کہ صدام حسین اپنی قیدِ تنہائی میں اپنا وقت قرآن کی تلاوت کرنے‘ نظمیں لکھنے‘ بسکٹ کھانے‘ اپنے باغیچہ کی دیکھ بھال کرنے اور ناول لکھنے میں گزار رہے ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ ۲۵ مئی ۲۰۰۵ء۔۔۔ ترجمہ: محبوب الرحمن فاروقی)
Leave a Reply