
عراق کیا ہے؟ کاغذات کی حد تک ایک قومی ریاست جسے برطانیہ نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کی خاطر سلطنتِ عثمانیہ کے تین حصے جوڑ کر قائم کیا۔ یہ نہ تو ایک قوم تھی اور نہ ہی رضاکارانہ طور پر قائم شدہ ایک ریاست۔ اب یہ انتشار کے دہانے پر ہے، خاص طور پر جبکہ دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کی جانب سے ملک کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا گیا ہے اور وہ باقی حصوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
داعش شام کے بڑے حصے کو کنٹرول کررہی ہے مگر عراق میں اس کی پیش قدمی کسی حد تک رُکی ہوئی ہے۔ داعش کی طاقت کو سب سے پہلے شامی کُردوں نے چیلنج کیا جب انہوں نے دلیرانہ انداز میں ’’کوبانی‘‘ قصبے کا دفاع کیا۔ بعد ازاں ’’اربیل‘‘ میں، جو عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت کا دارالحکومت ہے، داعش کی پیش قدمی کو کردوں کی پیش مرگہ، ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا اور مؤثر امریکی فضائی بمباری نے روکا۔
آج کل یہ اتحاد سُنی اکثریت کے حامل صدام حسین کے آبائی قصبے تکریت کو داعش سے بچانے کے لیے پیش قدمی کررہا ہے جس پر گزشتہ برس جون میں قبضہ کیا گیا۔ اس شہر پر داعش کے بآسانی قبضے کو سُنیوں کی جانب سے شیعہ حکمرانی کے خلاف بغداد کو دیا جانے والا ایک پیغام قرار دیا جاتا رہا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں ترکی، جو کبھی اس خطے کی راہ نمائی کا خواہاں تھا، کہاں کھڑا ہے؟
انقرہ اُس وقت خاموش رہا، جب گزشتہ موسمِ گرما میں داعش نے سنجر پر حملہ کرکے قبضہ کیا اور یزیدی کُردوں، عیسائیوں اور ترکمانوں کا قتلِ عام کیا۔ یہی خاموشی اُس وقت بھی برقرار رہی، جب داعش کی جانب سے کُرد قصبے کوبانی کا محاصرہ کیا گیا۔ ترک حکومت کے پاس اس وقت ایک عذر تھا: موصل میں تُرک قونصل جنرل پر داعش کا دھاوا بول کر تُرک سفارتی عملے کو قیدی بنا لینے کا عذر موجود تھا۔ البتہ داعش کے قیدیوں کی رہائی کے بدلے سفارتی عملے کی بازیابی اور سلیمان شاہ کے مقبرے پر قبضے کے بعد وہاں تُرک فوجیوں کی تعیناتی کے نتیجے میں ترکی کا داعش مخالف چہرہ کچھ ابھر کر سامنے آیا۔
رواں ماہ کے اوائل میں صدر رجب طیب ایردوان کے سعودی عرب جانے اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائیڈ آسٹن کے حالیہ دورئہ ترکی کے بعد انقرہ نے اس حوالے سے کچھ اقدامات اٹھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکا کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا گیا جس میں کچھ اہم وعدے کیے گئے، مثلاً:
۱۔ ترکی میں موجود شامی باغیوں کو اسلحہ اور تربیت دینا۔
۲۔ عراقی حکومت کو عسکری ساز و سامان مہیا کرنا۔
۳۔ داعش کی نقل و حرکت روکنے کے لیے شام کے ساتھ سرحد پر سکیورٹی سخت کرنا۔
۴۔ داعش سے لڑنے والے بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا۔
بلاشبہ یہ تُرک سیاست دانوں کے دیرینہ بشار الاسد مخالف مؤقف میں نرمی کا اشارہ ہے۔ بہرحال جیسا کہ وزیراعظم احمد داؤد اولو نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ترکی داعش کے خلاف جنگ میں براہِ راست متحرک کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس کے بجائے ترکی نے انسانی بنیادوں پر امداد اور ہنگامی لینڈنگ کے لیے ملاتیا، باتمان اور دیارِ بکر ہوائی اڈوں کے ساتھ ساتھ انتہائی اہمیت کے حامل اِنجرلِک فضائی بیس کو بھی کھولنے کی پیشکش کی ہے۔
ترکی نے خفیہ معلومات کے لیے اواکس (Airborne warning and control aircraft) اور ایندھن کی ترسیل کے لیے تیل بردار طیاروں کی پیشکش کی ہے۔ موصل کے سُنی عرب قبائل، جن کے ساتھ انقرہ کے اچھے تعلقات ہیں کو خفیہ معلومات کی فراہمی اور کُرد پیش مرگہ کے ساتھ ساتھ شامی باغیوں کی فوج کو تربیت فراہم کرنا ترکی کے سرکاری رویے میں اہم تبدیلیوں کی عکاسی ہے۔
یہ سب دو وجوہات کی بنا پر ہوا۔ پہلی وجہ موصل میں کارروائی کے آغاز پر پناہ گزینوں کی نئی لہر آنے کا اندیشہ ہے۔ لاکھوں اضافی پناہ گزینوں کے لیے ترکی تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اُن میں داعش کے ارکان یا ہمدرد بھی ہوسکتے ہیں جو ترکی کی سلامتی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ دوسری وجہ علاقائی طاقت ہونے کے باوجود داعش مخالف اتحاد میں متحرک کردار ادا نہ کرنے اور کُردوں کی مدد کو نہ پہنچنے کے حوالے سے ترکی پر ہونے والی شدید تنقید سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ترکی کو نئے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، اگر اس نے خطے کو بیرونی عناصر سے پاک کرنے کی جدوجہد میں حصہ نہیں لیا۔
تیسری بات یہ کہ پیش مرگہ نامی عراقی کردوں کے علاوہ ترکی کے لیے سر درد بنے ہوئے کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے مسلّح جتّھے داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں اور داعش کی شکست کی صورت میں متوقع علاقائی منظرنامے میں اپنی جگہ بناتے جارہے ہیں۔
ترکی کا مسئلہ محض پی کے کے نہیں ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ بغداد کی شیعہ فوج اور ایران کی اپنی شیعہ ملیشیا سُنی قصبوں پر قبضہ کرسکتی ہے۔ ایرانی مفادات کی خاطر ان علاقوں پر قبضہ برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے جن میں تیل سے مالا مال موصل اور اس کے نواحی علاقے شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی ایک اور بنیاد پرست سُنی گروہ پیدا کرسکتی ہے، چاہے داعش کو شکست ہی کیوں نہ دی جاچکی ہو۔
(مترجم: حارث بن عزیز)
“Ankara’s second thoughts about ISIS”. (“Todays Zaman” Turkey. March17, 2015)
Leave a Reply