
ڈیلی ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شہر راولپنڈی میں گزشتہ تین ماہ سے کچھ زائد عرصے میں ۲۷۰ جوڑے شہر کے ۳۳ فیملی کورٹس کے توسط سے طلاق لے چکے ہیں۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ۱۵ سو جوڑوں نے اپنی شادی کے خاتمہ کے لیے شہر کے مختلف کورٹس سے رجوع کیا ہے جن میں ۲۷۰ جوڑوں کی طلاق ہو گئی۔ ۴۵۲ جوڑے صلح جوئی کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے لگے اور ۷۷۸ جوڑوں کا معاملہ ابھی کورٹ میں فیصلے کا منتظر ہے۔ جن جوڑوں کی طلا ق ہوئی ہے ان میں بیشتر نے کورٹ میرج کی ہوئی تھی۔ شادی کے خاتمے کے پیچھے اصل محرک جہیز رہا ہے۔ ایک خاتون مدعی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈیلی ٹائمز کو بتایا کہ اس نے محبت کی شادی کی تھی اور شادی سے پہلے ہی وہ اپنے شوہر کو بتا چکی تھی کہ اگر عدالت میں شادی ہوئی تو وہ جہیز نہیں دے سکتی ہے جس پر اس کے شوہر نے جواب دیا کہ اس کے خاندان کو میرے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ شادی کے تین مہینے بعد ہی میرے شوہر اور اس کے والدین نے جہیز نہ لانے پر طعن و تشنیع شروع کر دی۔ خوشی خوشی زندگی بسر کرنا ایک خواب بن گیا ۔ لہٰذا میں نے طلاق کا فیصلہ کر لیا۔ یہ تھی اُس کی داستان جو اس نے بیان کی۔ ۳۰ سے زائد لاولد جوڑوں نے طلاق کے لیے فیملی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ تقریباً ۱۴ خواتین کی یہ شکایت ہے کہ ان کا شوہر انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارا کرتا ہے۔ دفتری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ۵۰سے زیادہ خواتین اپنے شوہروں سے طلاق اس بناء پر لینا چاہتی ہیں کہ انہیں اپنے شوہروں کے کردار پر شک ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے زائد کے عرصے میں ۱۰۰ خواتین نے معاشی عوامل کے پیش نظر طلاق کے لیے کورٹ سے رجوع کیا ہے اس لیے کہ ان کے شوہر بے روزگار ہیں اور اس طرح ان کا اپنے شوہروں کے ساتھ رہنا بہت دشوار ہے۔ تین سو خواتین اس لیے طلاق چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر دوسری شادی کرنے کے درپے ہیں۔ طلاق کی خواہش مند ڈیڑھ سو سے زائد خواتین نے ساس کی بدسلوکی کا ذکر کیا ہے۔ تقریباً ۲۳ شادیاں وٹہ سٹہ کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔ بعض خواتین نے اس لیے طلاق چاہی ہے کہ ان کے شوہر انہیں وقت نہیں دیتے اور نامعلوم اشخاص سے موبائل پر بات کرتے ہیں۔
(بحوالہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ ۱۱ اپریل ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply