
اندلس میں اسلامی حکومت کی بنیاد ۹۲ھ/۷۱۱ء میں پڑی۔ اسلامی فتح سے قبل وہاں کی علمی سرگرمیوں کے ریکارڈ سے تاریخ کا دامن بالکل خالی ہے۔ اسلامی اندلس میں علمی ترقی مشرق کی بہ نسبت تاخیر سے شروع ہوئی جس کی بڑی وجہ وہاں کے مقامی حالات تھے۔ ابتدائی عہد کے مسلم حکمرانوں کو علمی و فکری ترقی کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ اس کے باوجود عبدالرحمن الداخل (۱۳۸۔۱۷۱ھ) عوام میں علم و ادب کا شوق بیدار کرنے کے لیے مشاعروں اور مناظروں کی مجالس منعقد کرواتے اور خود علمی مجالس میں شریک ہوتے۔
لیکن عبدالرحمن ثانی (۲۰۶۔۲۳۸ ھ) کے عہد حکومت سے اندلس میں حقیقی ترقی کا آغاز ہوا۔ آرٹ اور تعمیرات کے ساتھ ساتھ ادبیات اور علوم عقلیہ کی سرپرستی بھی کی گئی۔ عبدالرحمن ثانی نے مشرق کے خلفاء کی طرح اپنے دربار میں فضلاء اور اعیانِ علم کو جمع کیا ‘ ان کے دربار میں یحییٰ بن یحییٰ‘ عبدالملک بن حبیب‘ اصبغ بن فرج اور محمد بن مزین جیسے محدثین و فقہا اور یحییٰ بن حکم ‘ تمام بن علقمہ جیسے شعراء بھی موجود تھے۔ اس نے علمی و ادبی کتب کی فراہمی کے لیے کئی اہلکار مقررکئے جو بلادِ مشرق کے سفر کرتے‘ نئی اور نایاب کتابیں حاصل کرکے اندلس پہنچاتے۔ اس دور میں فقہا مالکیہ کا اثر و رسوخ کافی بڑھا ہوا تھا لہٰذا علوم عقلیہ عام نہ ہوسکے۔ البتہ عبدالرحمن الناصر (۳۰۰۔۳۵۰ھ) کا دور آزادیٔ افکار کا دور تھا لیکن اندلس میں فراہمی کتب اور تصنیف و تالیف کا انقلابی دور عبدالرحمن ناصر کے جانشین الحکم ثانی (۳۵۰۔۳۶۶ھ) کا دور رہا۔ حکم ثانی عالمِ اسلام کے خلفا میں سب سے بڑا عالم تھا۔ اس میں جامعہ قرطبہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ یہاں طبیعات ‘ ریاضی‘ فلکیات ‘ کیمیا سمیت جملہ علوم پڑھائے جاتے تھے۔
ان کے کارندے مختلف ممالک سے مخطوطات یا ان کی نقلیں حاصل کرتے لہٰذا الحکم کی لائبریری قرون وسطیٰ کی سب سے بڑی لائبریری بن گئی۔ اس دور میں علمی ترقی کا یہ عالم تھاکہ بقول پروفیسر رائن ہارڈ ڈوزی:’’ اسپین کے تقریباً ہر آدمی کو لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مسیحی یورپ علم کی مبادیات ہی جانتا تھا اور یہ مبادیات بھی بڑی حد تک گنتی کے چند اراکین کلیسا ہی جانتے تھے۔‘‘
اس علمی ترقی کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اندلس میں علماء کو حکمرانوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ لہٰذا مشرق و مغرب کی اسلامی ریاستوں کے سیاسی اختلافات کے باوجود کئی علماء مشرق سے ترک وطن کرکے اسپین میں آباد ہوئے۔
الحکم ثانی کی وفات کے بعد حقیقی اقتدار ابن ابی عامر المنصور کے ہاتھ آیا۔ جو بہترین منتظم اور علم دوست تھا۔ اسے جلد احساس ہوا کہ اس کی فلسفہ پسندی اور علوم عقلیہ سے رغبت کو فقہا مالکیہ جن کو عوام کی دینی اور روحانی قیادت کا منصب حاصل ہے‘ پسند نہیں کرتے۔ یہ عوام کو منصور کے خلاف کرسکتے ہیں لہٰذا المنصور نے علماء کی خوشنودی اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکم جاری کیا کہ الحکم ثانی کے کتب خانہ میں فلسفہ و ہیٔت کی جس قدر کتابیں ہوں جن کا پڑھنا ازروئے دین حرام ہوں انہیں علیحدہ کرکے جلوادیاجائے۔ ان حالات میں کئی لوگوں نے ایسی کتابیں چھپا دیں اور علوم عقلیہ پر گفتگو روک دی گئی۔
قرطبہ کا عظیم الشان اور بارونق شہر جو اسپین میں اموی خلافت کا صدر مقام رہا اسلامی علم و ادب‘ ثقافت‘ تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ فلپ ہٹی اپنی کتاب ’’ہسٹری آف دی عربس میں لکھتے ہی:’’مسلم اسپین نے زمانہ وسطی کے یورپ کی علمی تاریخ میں ایک روشن ترین باب کا اضافہ کیا ہے۔‘‘
رابرٹ بریفالٹ اپنی تصنیف Making of Humanity میں لکھتے ہیں:’’عربوں اور اسپینی مسلمانوں کے ثقافتی اور علمی اثرات کے تحت پندرہویں صدی میں یورپ کے نشاۃ ثانیہ کی ابتداء ہوئی۔ اسپین نہ کہ اٹلی یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا گہوارہ تھا۔‘‘
بنوامیہ کے زوال پذیر ہونے کے بعد تین بڑے گروہوں نے جنم لیا۔ بربر‘ صقالبہ‘ اندلسی لہٰذا کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں۔ حاکم المریہ و مرسیہ زہیر کا وزیر ابن عباس عالم اور علماء کا قدردان تھا۔ اس کے کتب خانہ میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ احمد کے جانشین بھی علم و ادب کے سرپرست تھے۔ ان کے دربار میں شعراء کا ہجوم رہتا۔ اولین جغرافیہ نگار ابوعبید البکری عصر الطّوائف الملوک میں المریہ بھی بام عروج کو پہنچا۔
اشبیلیہ کے حکمران المعتضد اور المعتمد خود شاعر اور شعراء کے قدر دان تھے۔ طلیطلہ کے بنو ذوالنون سائنسی علوم کی ترویج و ترقی میں دیگر مراکز سے بازی لے گئے۔ ماہر فلکیات الزرقالی‘ فلسفی ریاض دان سعید بن محمد‘ نامور طبیب اور ماہر نباتات ابن الوافد محمد التمیمی‘ ابوالولید‘ مورخین میں صاعد الطلیطلی اور الحجازی دربار طلیطلہ سے وابستہ تھے۔ سرقسطہ کے بنو ہود فلسفہ‘ ریاضیات اور فلکیات میں بہ ذات خود دلچسپی رکھتے۔
اندلس میں مرابطین کے عہد کو ڈوزی نے علمی اعتبار سے انمول عہد قرار دیا جبکہ عبدالواحد المراکشی نے مرابطین کے دور کو جہالت اور مذہبی تعصب کا دور قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ علمی و ادبی ترقی جو عصر الطوائف الملوک میں جاری تھیں مرابطین کے دور میں بھی جاری رہی۔ قرطبہ‘ مرسیہ‘ المریہ‘ دانیہ ‘ اشبیلیہ‘ بلنیہ‘ طرطوشہ‘ غرناطہ‘ بطلیوس‘ شاطبہ میں نہ صرف تعلیمی ادارے قائم تھے بلکہ کئی نامور علماء بھی نظر آئے ان میں مشہور فلسطی ابن باجہ‘ ریاضیات میں ابن مسعود‘ جابربن افلح‘ جغرافیہ میں ابو حامد‘ تاریخ میں ابن الغبی اور کئی نام ملتے ہیں۔ لیکن الموحدین برسراقتدار آئے تو علمی و فکری ترقی کی رفتار تیز ہوگئی۔اس دور میں صرف قرطبہ میں ۸۰۰ تعلیمی ادارے ایسے تھے جہاں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام تھا۔ اس دور میں فلسفہ کے دو باقاعدہ فکری مدارس وجود میں آگئے ایک ارسطی مدرسہ جس کے نمائندے ابل طفیل اور ابن رشد تھے دوسرا افلاطونی مدرسہ جس کے نمائندے محی الدین ابن العربی تھے۔ لیکن جب مسلمانوں کی حکومت غرطانہ تک محدود ہوگئی تو تب بھی مملکت غرناطہ میں انتہائی نامساعد حالات میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ علمی ترقی میں بھی خاطر خواہ حصہ لیا۔
بنو نصر کے حکمران یوسف ابوالحجاج نے غرطانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ ایک سو بیس عالم‘ ادیب‘ مورخ‘ محدث اور سائنس دان جن کے طفیل غرناطہ یونیورسٹی اس عہد میں بھی بے نظیر مانی جاتی تھی۔ اس یونیورسٹی کے علاوہ ۷۰ عام کتب خانے ۱۷ کالج ‘ ۲۰۰ ابتدائی مدارس تھے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ۔ ’’اخبار نما‘‘ جامعہ کراچی ۔ شمارہ:دسمبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply