
اگر بیسویں صدی خلا میں چاند کو تسخیر کرنے کی صدی تھی تو اکیسویں صدی سیاروں پر کمند ڈالنے کا عہد ہو سکتی ہے۔ مریخ پر خلائی مشن روانہ کرنے کے بعد اب ناسا (NASA) زُحل (Saturn) جیسے دو افتادہ سیارے پر مشن روانہ کر چکا ہے۔ ویسے تو نظامِ شمسی میں نو سیارے سورج کے اطراف گھوم رہے ہیں۔ ان میں زُحل کا شمار نظامِ شمسی کے بیرونی سیاروں میں کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا فاصلہ سورج سے ڈیڑھ ارب کلو میٹر سے زیادہ ہی ہے جبکہ زمین کا سورج سے فاصلہ محض ۱۵ کروڑ ۲۰ لاکھ میٹر ہے۔ زُحل جو ساری دنیا کے نجومیوں کے پاس منحوس سیارے کی حیثیت سے بدنام ہے‘ ایک ایسا سیارہ ہے جو ۳۱ چاندوں کے ہجوم میں گھرا ہوا ہے۔ ان چاندوں کے ہجوم کی وجہ زُحل رنگ برنگے چھلوں کے اندر ایک گولے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے بعض ماہرینِ فلکیات زُحل کو کثیف چھلوں کی کثرت کی وجہ سے چھلوں کا دیوتا یعنی (Lord of the Rings) بھی کہتے ہیں۔ زُحل کے یہ چھلے برف کے ذروں اور چٹانوں کے ریزوں سے بنے ہیں۔ ان چاندوں میں سے ایک چاند جسے ٹائٹن (Titan) کا نام دیا گیا ہے‘ سیارہ عطارد اور سیارہ پلوٹو سے بھی بڑا ہے۔ ٹائٹن کا قطر ۵۱۵۰ کلو میٹر ہے۔ یہ سیارہ مریخ سے قدرے چھوٹا ہے۔ چاند اور مریخ کے بعد اب خلائی کھوج کی منزل زُحل ہے۔ چنانچہ زُحل پر کمند ڈالنے کے لیے فلوریڈا کے اسپیس سینٹر سے ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ایک ایسا مرکب خلائی جہاز بھیجا گیا ہے جسے دو مشہور ماہرینِ فلکیات کی یاد مین کاسینی‘ ہائی جنس مشن (Cassini-Hugens Mission) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ خلائی جہاز ۸۷ ہزار کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ۷ سال کے عرصے میں ۵ء۳ ارب کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے نظامِ شمسی کے دوسرے بڑے سیارے زُحل کے مدار میں داخل ہو گا۔ اس سے قبل تقریباً ۲۵ سال پہلے ناسا کے اگلے پروازی مشن (Fly by Missions) پانیر۔۲ (۱۹۷۹ء) اور وائیجر۔۱ اور واے جر۔۲ (۱۹۸۰ء) کے ذریعے زُحل کی خلائی تصویریں بھجوا چکے ہیں لیکن کاسینی۔ہائی جینس مشن زُحل کی ابتدا‘ ارتقا‘ موجودہ ساخت اور گیسوں بھرے اس سیارے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کر کے زمین کو روانہ کرے گا۔ اپنی ابتدا سے لے کر اس خلائی پروگرام کو مکمل کرنے تک ۳۰ سال کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زحل کے اندرونی سیارے پر پہنچنے سے قبل خلائی سائنس دانوں کی دلچسپی سیارے سے کہیں زیادہ اس کا چاند یعنی ٹائی ٹن ہے۔ ٹائی ٹن بجائے خود ایک دیو قامت چاند ہے جسے ماہرینِ سیارہ بھی سمجھتے ہیں۔ زُحل ایک ایسا عجیب و غریب سیارہ ہے جس میں چاندوں کی جسامت ایک ذرہ سے لے کر ٹائی ٹن جیسے دیو قامت چاند تک بھی ہے۔ چاندوں کی جسامت‘ شکل اور رنگوں میں اتنا تنوع ہے کہ بعض ماہرینِ زُحل کی اپنی اس دنیا کی بجائے خود ایک چھوٹا موٹا نظامِ زُحل سمجھتے ہیں۔ ٹائی ٹن کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ۱۸۰ درجے نیچے ہے۔ یعنی یہ اتنا سرد ہے کہ یہاں زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر سائنس دانوں کو ٹائی ٹن کی تاریخی فضائی غلاف سے کچھ ایسے گیسی اشارے ملے ہیں جو اس پر نامیاتی زندگی کے وجود کے بارے میں روشنی ڈالتے ہیں۔ اس لیے ناسا کا مشن اصل سیارے زحل کی بجائے ٹائی ٹن کی کھوج میں دل چسپی لے رہا ہے کہ شاید اس کھوج سے زمین کے ابتدائی دور میں زندگی کے ارتقا کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو سکیں۔
کاسینی۔ہائی جینس مشن ایک ایسا خلائی مشن ہے جسے دو یورپی ماہرینِ فلکیات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جین ڈومینک کاسینی (JD Cassini-1625-1712) ایک فرنچ۔ اطالوی سائنس دان تھا‘ جس نے ۱۶۵۵ء میں پہلی بار زُحل کے چار چاندوں کی دریافت کی تھی جبکہ کرسچین ہائی جینس (۱۶۹۵۔۱۶۲۹ء) ایک ایسا ولندیزی (ڈچ) ماہرِ فلکیات تھا جس نے زُحل کے دیگر چاندوں کے ساتھ اس کے سب سے بڑے دیو قامت چاند ٹائی ٹن کو دریافت کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ زُحل کے خلائی کھوج کے مشن میں یورپ کی خلائی تنظیم یورپین اسپیس ایجنسی (ESA) امریکا کی مشہور زمانہ ناسا کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اس پورے تحقیقاتی مشن میں امریکا کے ۲۶۰ اور یورپ کے ۱۳ سائنس دان حصہ لے رہے ہیں۔ کاسنی ہائی جینس مشن کی جملہ لاگت ساڑھے تین ارب ڈالر ہے جس میں سے امریکا ۶ء۲ ارب ڈالر اور یورپین اسپیس ایجنسی نے ۵۰ کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کی ہے۔ خلا میں زمین کی چاند کی مہم کے بعد سیاروں کے درمیان خلائی جہازوں کو روانہ کرنے کی مہم میں کاسنی۔ ہائی جنس مشن کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچیکہ مریخ اور عطارد کے مداروں پر بھی روس اور امریکا نے خلائی جہاز روانہ کیے تھے مگر موجودہ خلائی جہاز اب تک خلائی جہازوں سے سب سے وزنی‘ پیچیدہ اور بڑا مشن ہے۔ تمام تر ایندھن سے لیس‘ کاسینی‘ ہائی جینس خلائی جہاز کا جملہ وزن ۷ء۵ ٹن ہے اور ۷ میٹر اونچا اور ۴ میٹر چوڑا ہے۔ خلائی جہاز سے باہر نکلتا ہوا ایریل کی مانند مقناطیسی بوم (Boom) ہے‘ جو زُحل اور اس کے چاندوں کے بارے میں ان کی مقناطیسی خواص کے بارے میں مشاہدات اور ان کی تصویریں روانہ کرے گا۔
اب تک کی انجام دینے والی خلائی پروازوں میں کاسنی۔ ہائی جنس مشن نے پہلی بار ۱۱ جون ۲۰۰۴ء کو زُحل کے ایک چاند فوبے (Phoebe) سے ربط میں آیا جو زُحل سے تقریباً ۵ء۱ لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آئندہ ۶ ماہ میں یہ خلائی مشن ٹائی ٹن پر لینڈ کرنے سے پہلے کم سے کم دو بار اس کے پاس سے پرواز کر کے اس کی سطح اور فضا کے بارے میں معلومات اور تصویریں روانہ کرے گا۔
۲۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو بیٹری کی توانائی سے چلنے والا آلہ ٹائی ٹن کے فضا کے علاقے میں داخل ہو گا جبکہ اس کی رفتار ۲۰ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ اس کھوج کے دوران جہاز کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ ٹائی ٹن کے سب سے سرد درجہ حرارت یعنی منفی ۲۰۰ درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ اس عظیم گرمی کو بھی جھیل سکے جو خلائی جہاز کے رگڑ سے ٹائی ٹن کی فضا میں ۱۲ ہزار درجہ تک پیدا ہو سکتی ہے۔ فی الوقت تو زُحل کی کھوج کے منصوبوں میں اس کے ایک چاند یعنی ٹائی ٹن پر ہی توجہ دی جارہی ہے تاکہ زُحل کی اصل سرزمین پر اترنے سے پہلے ضروری معلومات حاصل کی جائے۔
چاند‘ ستاروں اور اب سیاروں کی کھوج کے بارے میں جو علوم‘ کمپیوٹر اور خلائی سائنس کی وجہ سے سامنے آئے ہیں‘ ان کو علوم سیارگان (Planetary Sciences) کہا جاتا ہے ان علوم کی مدد سے نہ صرف ہم آفاق کی ابتدا‘ ارتقا اور اس کی ساخت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ زمین کی تاریخ اور اس کے وسائل کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان علوم سیارگان کو وسیع معنوں میں ماحولیاتی علوم کا بھی ایک جز سمجھا جاتا ہے۔
(بحوالہ: سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply