
چاند پر پہلے انسان نیل آرمسٹرونگ کی ۱۹۶۹ کے موسم گرما میں چہل قدمی کے محض دو ہفتے بعد ہی راکٹ سائنس کے ایک ماہر ’وہر نروان بران‘ نے انسان کو مریخ پر اتار نے کا ایک تفصیلی منصوبہ مع ممکنہ اخراجات کی فہرست، ناسا کو پیش کر دیاتھا۔ امریکا کے چاند پر پہنچنے کے پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر وان بران کا خیال تھا کہ خلاء بازوں کو ابتدائی طور پر دو سال کے لیے اس سرخ سیارے پر بھیجا جائے گا اور واپسی پر وہ زہرہ (وینس) کے قریب سے گزرتے ہوئے آئیں۔ منصوبے کے تحت یہ کام ۱۹۸۲ تک ہو جانا تھا اور اس میں کمپیوٹرائز ڈراکٹ استعمال ہونا تھا۔ اس راکٹ کو زمین کے مدار میں رکھا جانا تھا جہاں سے اسے آٹھ سوٹن بھاری خلائی گاڑی کو مریخ تک لے جانا اور واپس لانا تھا۔ پروفیسر وان بران کے اندازے کے مطابق اس منصوبے پر سالانہ چھ ارب ڈالر کے اخراجات ہونا تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ ۱۹۶۰ تک ذرائع ابلاغ اور سیاست دان اپنا اپنا خلاء کا شو پورا کر چکے تھے اور اس وقت معاشی طور پر بھی یہ منصوبہ زیادہ پر کشش نہیں لگ رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر وان بران کی تجاویز پر کسی نے کان نہ دھرے۔ درمیانی عرصے سے تیزی سے گزرتے ہوئے خود کو موجود صدی میںلے آئے۔ سن ۲۰۰۱ میں یورپی خلائی ایجنسی نے ’ارورا‘ نامی ایک تحقیقی پروگرام کی منظوری دی جس کا حتمی ہدف سن ۲۰۳۰ تک انسان کو مریخ پر اتارنا بتایا گیا۔ پھر سن ۲۰۰۴ میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی انسان کو دوبارہ چاند پر بھیجنے کے ایک پروگرام کا اعلان کیا جس کا اگلا مرحلہ مریخ پر پہنچنا ہے۔
بہت بڑا چیلنج:
اگر چہ ڈاکٹر وان بران کے ابتدائی منصوبے کے بعد بھی انسان کو مریخ پر بھیجے جانے کا خواب ہمیشہ زندہ رہا لیکن اس درمیانی عرصے میں کسی دوسرے منصوبے پر اس سنجیدگی سے غور نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مریخ پر جانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے انسان کو وہاں اتارنا نہ صرف چاند پر جانے سے زیادہ مشکل ہے بلکہ اس کے اخراجات بھی کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل کے پیش کیے جانے والے مختلف منصوبوں کے مطابق یہ اخراجات کم سے کم بیس ارب ڈالرز اور زیادہ سے زیادہ چار سو پچاس ارب ڈالر تک ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن کے نیشنل ائر اینڈ سپیس میوزیم کے چیئر مین ڈاکٹر راجر کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ کسی سے پوچھیں کہ مریخ پر جانے کا خیال کیسا ہے تو آپ کو یہی جواب ملتا ہے کہ یہ زبردست خیال ہے لیکن مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ ممکنہ اخراجات کی بات کرتے ہیں۔ اکثر کا جواب ہوتا ہے آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اتنی بڑی رقم ہمیں شاید کسی بہتر جگہ استعمال کرنی چاہیے۔
ممکنہ اخراجات:
جب بھی آپ کسی سے پوچھیں کہ مریخ پر جانے کا خیال کیسا ہے آپ کویہی جواب ملتا ہے۔ یہ زبردست خیال ہے لیکن مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ ممکنہ اخرجات کی بات کرتے ہی۔ اسی طرح امریکی خلائی ادارے ناسا کے سربراہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں مریخ پر جانے کا خواب اگلے بیس برس تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ہالینڈ میں قائم یورپی خلائی ایجنسی کے ایک اعلیٰ اہلکار سکاٹ ہو ولینڈ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں بھی انسان کو مریخ پر اتارنے کا منصوبہ مستقبل بعید کی بات ہے۔ ابھی ہمیں بہت سی چیزوںکا جائزہ لینا ہے۔ ہمیں کئی چیزوں کے معاملے میں اپنی معلومات میں بہت اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اخراجات میں شراکت کا خیال:
اسکاٹ ہو ولینڈ کا خیال ہے کہ مریخ پر اترنے کے منصوبے پر صرف اس صورت میں عمل ہو سکتا جب اس میں کئی ممالک شامل ہوں یعنی جب بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تعاون موجود ہو۔ امریکی خلائی ادارے کی توجہ زیادہ تر انسان کو چاند پر دوبارہ بھیجنے پر مرکوز رہی ہے لیکن رواں سال کے دوران ادارہ ایک منصوبے کا آغاز کر رہا ہے جس کا مقصد مریخ پر جانے کے ممکنہ منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینا ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک بھی اس قسم کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن کا مقصد انسان کے طویل مدت تک خلاء میں رہنے کے امکانات کا جائزہ لیناہے۔ روس بھی کچھ ایسے ہی تجربات میںمصروف ہے۔ روس اگلے سال مارچ سے ایک خاص منصوبے پر کام شروع کر رہاہے۔ مارس ۵۰۰ نامی اس منصوبے کا مقصد چھ رضا کاروں پر ان حالات کا تجربہ کرنا ہے جو مریخ کے سفر پر کسی بھی خلاء باز کو پیش آئے گے۔ چھ رضاکاروں کو ستر ہ ماہ تک ایک ہوا بند کیپسول میں بند کر دیا جائے گاجہاں وہ نہ صرف خلاء بازوں کے لیے مخصوص کھانا کھائیں گے بلکہ جس ہوا میں سانس لیں گے وہ بھی مصنوعی برونو گارڈینی ہوگی۔ سائنسدان پانچ سو پچاس مربع میٹر کے کیپسول میں بند ان چھ افراد کے رویوں کا جائزہ لیں گے یورپی خلائی ایجنسی کے برو نو گارڈینی کے مطابق ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ شاید بوریت ہو۔ پانچ سو دنوں تک ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار رہیں گے خلاء بازوں کا ایک دوسرے سے رویہ ان باتوں سے لگتا ہے کہ ہم شاید کسی ٹی وی ریئلٹی شو کی بات کر رہے ہیں لیکن سانسدانوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے سے انھیں صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ طویل مدت تک خلاء میں ایک تنگ جگہ پر رہنا کیسا ہو گا اس کا ایک اہم پہلویہ ہے کہ ایسے تجربات سے آپ خلاء بازوں کا صحیح انتخاب کر سکیں گے خلاء بازوں کی نفسیات جاننا اپنی جگہ لیکن خلاء میں بھیجے جانے والے افراد کو نفسیاتی دبائو کے علاوہ کئی دیگر مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ جب خلاء باز زمین کے ارد گرد موجود محفوظ مقناطیسی مدار سے باہر پہنچیں گے تو وہ خلائی شعاعوں کا نشابہ بھی ہوں گے یہ لوگ کہکشاں میں مسلسل ٹوٹتے ہوئے ستاروں سے نکلنے والی کیلیکٹگ گیماریز کی زد میں ہوں گے۔ یہ شعاعیں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں اور باریک ذرات کی شکل میں خلائی گاڑی اور اس پر سوار انسانوں کے جسم میں بھی پیسوت ہو سکتی ہیں جس میں سے گزرتے ہوئے یہ شعاعیں آپ کے ڈی این اے آپ کی جینز اور خلیوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔مسٹر ہوولینڈ کا کہناہے کہ یہ بات مسئلہ پیدا کر سکتی ہے اور ہمیں خلاء بازوں کو ان شعاعوں سے بچانے کا انتظام کرنا ہوگا۔
پلاسٹک بہترین حل:
برونو گارڈینی کے مطابق خلائی شٹل پر محض موٹی دھات چڑھانے سے ان شعاعوں سے نہیں بچا جا سکے گا بلکہ اس طرح بات مزید بگڑ جائے گی کیونکہ ان شعاعوں کے دھات پر پڑنے سے جو توڑ پھوڑ ہوتی ہے اس سے مزید ذرات پیدا ہوتے ہیں۔ خلا میںموجود بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر کیے جانے والے تجربات میں معلوم ہوا ہے کہ پولی ایتھلین سے بنی ہوئی پلاسٹک کی تہہ شعاعوں کو روکنے میں بہت موثر ثابت ہوتی ہے پلاسٹک میںہائیڈروجن ہوتی ہے جو شعاعوں کو جذب کر لیتی ہے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چاہے ہم پوری خلائی گاڑی پر پلاسٹک کی تہہ نہ بھی لگائیں لیکن جس حصے میں خلاء بازوں کو رہناہے ہم اسے پلاسٹک لگا کر بچا سکتے ہیں۔ تاہم شعاعوں سے بچائو کے لیے پلاسٹک سے بہتر مواد بھی موجود ہے اور وہ ہے پانی۔ اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ خلائی شٹل پر پانی سے بھرے ٹینک رکھ کر اس کے مخصوص حصوں کو بچائے رکھنا زیادہ موثر ہوگا۔
خلابازوں کا انتخاب:
ان مسائل کے علاوہ خلاء بازوں کے انتخاب میں اس با ت کا بھی بڑا دخل ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد پر شعاعوں کے برے اثرات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً عمومی طور پر مرد اس معاملے میں خواتین سے بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح جوانوں کے مقابلے میں بوڑھے لوگ کم متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن خلاء بازوں کے حتمی انتخاب کے وقت جو دیگر باتیں سامنے رکھی جائیں گی ان کے پیش نظر اس بات کا امکان کم ہے مریخ پر بھیجے جانے والے تمام پہلے خلاء باز بوڑھے مرد ہوں گے۔
سفر کی طوالت:
مریخ پر کششِ ثقل زمین کی کششِ ثقل کا تیس فیصد ہوتی ہے لیکن کئی ماہ خلاء میںبے وزنی کی کیفیت میں گزارنے کے بعد مریخ کی سطح پر چلنے سے انسانی جسم پر شدید دبائو پڑ سکتا ہے۔ ان تمام مسائل کا مطلب یہ ہے کہ مریخ تک سفر کا دورانیہ کم سے کم ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو خلاء پر بھیجنے کے لیے جو راکٹ استعمال کیے جائیں گے ان کا نہایت طاقتور ہونا ضروری ہو گا۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر انسان کو مریخ پر جانا ہے تو اس کے لیے جو راکٹ استعمال ہو گا اس میں ایسا ایندھن استعمال ہو گا جسے اسٹور کیا جا سکے اور اسے جوہری طور پر چلا یا جا سکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں وقت بچانے کے لیے بہت زیادہ ایندھن استعمال کرنا پڑے گا جس کے نتیجہ میں خلائی شٹل کا حجم اور وزن بھی بڑھانا پڑے گا۔ اور اس کے لیے مزید رقم درکار ہو گی۔
چھوٹی، تنگ خلائی گاڑی:
مریخ کے سفر کے لیے جو طریقہ کار اپنا یا جائے گا شاید اس میں سازو سامان اور خلاء بازوں کو دو مراحل میں وہاں اتارا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں سامان پہنچایا جائے گا جب کہ دوسرے مرحلے میں ایک تیز رفتار ہلکی خلائی گاڑی میں خلاء بازوں کو بھیجا جائے گا۔ اس سے ایندھن اور سفر کے وقت دونوں کی بچت ہوگی۔ خلائی گاڑی کے اندر ہوا اور پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے نظام سے اس وزن سے چھٹکار مل جائے گا جو ان دو اشیاء کو ساتھ لے جانے میں درکار ہو سکتا تھا۔ سائنسدان اس امکان کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ خلاء باز اپنے لیے کچھ خوراک مریخ کی آب و ہوا میں ہی پیدا کر لیں۔ اس کے لیے درکار کار بن ڈائی آکسائیڈ (co2) مریخ کے اردگرد موجود میتھین گیس (ch4) سے حاصل کی جا سکے گی۔ یہی میتھین واپسی پر راکٹ کو چلانے کے لیے بھی استعمال کی جا سکے گی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ مریخ پر انسانی قدم رکھے جانے کے خواب کی تعبیر سے پہلے ہمیں بہت سے مراحل سے گزرنا ہو گا۔ اور لگتا ہے کہ حکومتوں کو اس مد میں پیسے لگانے کے کوئی خاص فائدے بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ بقول سکاٹ ہو ولینڈ کے ’’ میں بچپن سے ہی اپالومشن جیسی چیزوں سے متاثر رہا ہوں،اس لیے میرے لیے تو انسان کے مریخ پر اترنے کا محض خیال ہی جوش دلانے کے لیے کافی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر کے لیے درکار رقم کی منظوری میرے ہاتھ میں نہیں۔
(بحوالہ: ’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply