
انسان کی ایک اور عمومی روش جس کا ذکر قرآن پاک میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے وہ اس کا تنگ دل ہونا ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’آپ فرما دیجیے کہ اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہو جانے کے ڈر سے یقینا تم ان کو روکے رکھتے (مخلوقِ خدا کو ہر گز اس سے کوئی فیض پہنچنے نہ دیتے)اور انسان تنگ دل واقع ہوا ہے۔‘‘
تنگ دلی کی یہ خصلت جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے یہ بلا تخصیص مرد و زن ہر اس انسان میں پیدا ہو جاتی ہے جس کو جب بھی فراخی مال عطا کی جاتی ہے تو وہ بجائے شکر گزار ہونے کے خود کو مال کا اصلی مالک سمجھ بیٹھتا ہے۔ ایسا شخص مذکورہ آیت مبارکہ کی رو سے ایسا تنگ دل ہو جاتا ہے کہ اگر اسے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں (جن کا کوئی حساب کرنا انسانی اختیار میں نہیں) کا مالک بھی بنا دیا جائے، اسے اتنا عطا کر دیا جائے جو اس کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر ہو تو بھی وہ خرچ ہو جانے کے ڈر سے اسے اپنے ہاتھ سے کسی کونہیں دے گا۔ جاہلی اورمشرک معاشرے کی یہ برائی ہمیں اپنے دیہی معاشرے کی ان خوش حال خواتین میں بھی مل جاتی ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے یکسر نابلد ہیں۔ اس طرح انسان سے اللہ تعالیٰ یوں خطاب فرماتا ہے:
’’غارت ہو وہ انسان (جو اس نعمت کو پا کر اس کی قدر نہیں کرتا)وہ کیسا ناشکر گزار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو کس چیز سے پیدا کیا۔‘‘
یہ آیات اور ان سے ملحقہ بعد کی آیات میں اللہ رب العزت نے انسان کے نفس کے بے لگام گھوڑے کو جھنجھوڑ ڈالا ہے کہ وہ زندگی اور دین (قرآن و سنت) جیسی بے بہا نعمتوں کو پاکر ناشکری کرتا ہے اور اپنی اصل کو بھول جاتا ہے کہ حقیقتاً اس کی اصلیت تو پانی کی حقیر بوند ہے۔
اس طرح سورۃ المعارج میں فرمایا:
’’ہر گز نہیں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو کھال ادھیڑ ڈالنے والی ہے وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جس نے (دنیا میں اللہ کے حکم سے)پیٹھ پھیری اور روگردانی کی ہوگی اور (مال و دولت) جمع کیا گیا ہو گا اور سنبھال سنبھال کر رکھا ہو گا۔بلا شبہ انسان پیدا ہی بے صبرا ہوا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ واضح کرتی ہیں کہ گروہِ مرد و زن کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عمل کرنے کے لیے بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے، جو حکم الٰہی سے بے اعتنائی اور بے رخی کے بدلے کے طور پر ان کا دائمی ٹھکانہ ہو گی۔
حدیث مبارکہ ہے:
’’اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کی اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘
گھر اور اس کے اندر کے فرائض وہ ہیں جن سے عورت کا بچنا کسی طور ممکن نہیں۔ گھریلو امور میں سے ہر ایک میں اس کے لیے اجر رکھا گیا ہے۔ جب کہ گھریلو خرچ چلانے کے لیے دولت کمانے پر اسے مجبورنہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ اضافی ذمہ داری کے طور پر ایسا کرتی ہے تو اس پر بھی اس کے لیے اجر ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے خرچ کرتی ہے (غلط کاموں پر نہیں) تو اس کو اس خرچ کا اجر ملتا ہے اور شوہر کو اس کے کمانے کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
سورۃ الانفطار میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے ربّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا۔‘‘
کہ تو مال و دولت، جسمانی حسن و جمال اور عزت و طاقت اور شہرت و ناموری اور اقتدار کو پا کر ایسا متکبر ہوا کہ اپنی اصلیت اور اپنے مقابلے میں اپنے رب کے فضل و کرم کو نہ پہچان سکا۔
پھر فرمایا:
’’جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟‘‘
اور حقیقت تو یہ ہے کہ عورت اللہ کی حسین ترین تخلیق ہے جس کو مستوریعنی پردے میں رکھا گیا ہے اس کی تخلیق کی نفاست لا جواب ہے مگر وہ اپنے خالق کو پہچاننے کا موقع اور وقت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے اوریہ نہیں یاد رکھتی کہ یہ چند روزہ زندگی اس کو اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے نہ کہ سطحی خواہشات کی تکمیل اور دنیاوی رشتوں کی پاسداری میں حکم الٰہی کو نظر انداز کرنے کے لیے۔اللہ تعالیٰ کی حسین ترین مخلوق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بے خبر ہو، یہ خالق کا منشا نہیں ہے۔ خالقِ کائنات نے عورت کو کار آمد اور تعمیر کے کاموں میں برابر کا سرگرم بنایا ہے۔
عورت معاشرے کی مفید اور سرگرم شہری
قرآن پاک میں ہے:
’’اور اگر یہ مومن مرد اور مومن عورتیں (مکہ میں) نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے (تو تم کو اس وقت بھی فتح مکہ نصیب ہو سکتی تھی لیکن) یہ احتمال تھا کہ تم ان کو بھی پیس ڈالو گے پھر تم کو ان (مسلمانوں) کے باعث ایسے کام کی بنا پر نقصان پہنچے گا جو تم نے بے خبری میں کیا (تاخیر اس لیے ہوئی کہ جو مسلمان مکہ میں ہیں وہ نکل آئیں اور جو کافر اسلام کی صداقت سے متاثر ہونے والے ہیں وہ مسلمان ہو جائیں) کہ اللہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔‘‘
پھر سورۃ النساء آیت نمبر۱۲۴ ؍پچھلی آیت کی روشنی میں پڑھی جائے تو شیاطین یا گمراہ لوگوں کی نگاہ میں عورت کے مقام ِ پست کا پتا چلتا ہے۔
’’یہ مشرک اللہ کے سوا پس عورتوں کو ہی پکارتے ہیں(ان کے لات، منات، عزیٰ سب مؤنث ہیں خواہشِ دنیا میں مبتلا ہیں فرشتوں کو بھی عورت ہی سمجھتے ہیں) اور بس سرکش (اور مردود) شیطان ہی کو پکارتے رہتے ہیں (اس کے پجاری بنے ہوئے ہیں اسی کے گرویدہ ہیں)۔‘‘
اس کے برعکس اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کو معاشرے میں جو مقام عطا فرمایا ہے وہ ایک متحرک اور سرگرم رکن کا ہے اسی لیے سورۃ النساء کی آیت مبارکہ نمبر۱۲۴ ؍میں فرمایا:
’’اور جو کوئی نیک کام کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو وہ صاحبِ ایمان اور عمل صالح کرنے والے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ برابر بھی ان کی حق تلفی نہ ہو گی۔‘‘
اگلی آیت مبارکہ میں فرمایا:
’’اور اس شخص سے بہتر کس کا دین ہو گا جس نے اپنی ذات کو اللہ کے حوالہ کر دیا (جس نے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا) اور وہ نیک کاموں میں لگا رہا۔ (اخلاص کے ساتھ اللہ کو حاضر ناظر جان کر اسوہ حسنہ کی اتباع میں لگا رہا)اور یکسو ہو کر (ہر تذبذب سے بلند رہ کر) ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرتا رہا (تو وہ ابراہیم علیہ السلام کا دوست بن گیا) اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔‘‘
مذکورہ آیات مرد و عورت کے درجہ ایمانی کو اْجاگر کرتی ہیں جن میں مقاصدِ شریعت کے لحاظ سے عمل کی اساس کو ارادے کی درستی اور نیت کے اخلاص کے ساتھ ملا کر بیان فرما دیا گیا ہے۔
بقول ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ:
’’صفاتِ حسنہ، اعمالِ صالحہ اور دین کے اہم شعبوں کے ذکر کے وقت قرآن مجید صرف مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر اور یہ اشارہ ہی نہیں کرتا کہ اعمال صالحہ اور صفاتِ کریمہ میں ذکور و اناث میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وہ ایک ایک صفت کو الگ الگ بیان کرتا ہے اورجب مردوں کی صفت کا ذکر کرتا ہے تو اسی صفت سے عورتوں کو بھی موصوف کرتا اور ان کا مستقل ذکر کرتا ہے اگرچہ اس کے لیے طویل پیرایہ بیان ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔‘‘
اسلامی احکامات میں نسوانیت
شریعت میں جہاں خواتین کو کوئی عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی عمل سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں ان کی نسوانیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اس کی واضح مثال عورت کے احوالِ شخصیہ کے حوالے سے احکام و مسائل کی بحثیں ہیں۔ ان میں نکاح و طلاق، مہر، عدت، رضاعت، نفقہ، ملکیت وغیرہ سے متعلقہ مسائل کی بحثیں شامل ہیں۔
قرآن مجید میں احکامِ حجاب اور دیگر معاشرتی احکام کا مطالعہ بھی اس حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔ سورۃ الاحزاب، سورۃ النور اور سورۃ الحجرات وغیرہ میں بیان کردہ احکامات میں خواتین کے حوالے سے پر حکمت بیان موجود ہے اسی طرح قرآنِ مجید میں سورۂ آل عمران آیت۳۶ میں فرمایا:
وَ لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی۔۔۔
اور سورۃ التکویر آیات ۸ و ۹ میں فرمایا:
وَ اِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْo بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْo
ان آیات میں عورت کی جداگانہ فضیلت کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔
غرض اسلامی شریعت کی حکمت میں مواخذہ کے لحاظ سے افراد جدا ہیں اور من حیث القوم وہ ایک اکائی بھی ہیں۔ مذکورہ تحریر کا مقصد بھی اس امر کو ہی اجاگر کرنا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں امتوں کی تباہی کو بیان فرمایا گیا ہے وہاں وجوہات میں سب گروہ اپنی بد اعمالیوں کے لحاظ سے شریکِ گناہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اصلاح و تربیت میں بھی سب گروہوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں عورت کی تربیت و اصلاح اور تزکیہ نفس بھی لازمی امر ہے جس کا مقصد شخصیت کی متوازن اورمعتدل تشکیل و تعمیر ہوتا ہے اسے اگر محض فلسفے کی بحث شمار کیا جائے تب بھی مقصد حل نہیں ہوتا، اگر معاشرت کی بحث کہا جائے تو بھی ناکافی ہے اور اگر سیاسی و معاشی بحثوں میں اس کا شمار کیا جائے تب بھی نامکمل مطالعہ ہو گا۔ چنانچہ عورت سے متعلق مسائل اور بحثوں کو مذکورہ کسی ایک علم کی بحث کی روشنی میں پڑھنا ایک محدود امر ہے۔
بقول قاضی قیصر الاسلام:
’’۔۔۔فلسفہ نسائیت عورتوں کے سیاسی حقوق اور سماجی مفادات کے تحفظ کے مسائل سے سروکار رکھتا ہے، یہ اصطلاح اپنے محدود معنی میں جہاں ایک طرف عورتوں کے سیاسی، آئینی و قانونی حقوق کے تحفظ و حصول کی جانب اشارہ کرتی ہے وہیں دوسری طرف یہ اپنے وسیع تر معنی میں دو متضاد جنسی طبقات کے درمیان موجود معاشرتی تفاوت، عدم مساوات، مردوں کی عورتوں پر بالادستی، عورتوں پر مردوں کے جابرانہ، تحکمانہ اورہتک آمیز رویے کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کا طبقہ عالمگیر سطح پر مردوں کے خلاف آوازِ احتجاج بلند کرتا نظر آتا ہے۔‘‘
مذکورہ عبارت کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ معاشرتی عدم تفاوت ہی کو جب بنیادی حیثیت عورت کے حوالے سے دے دی جاتی ہے تو اصل مقصد پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جو عورت کا خود اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ طبقاتی کش مکش میں مصروف ہو کر اگر معاشرے میں مرد کی برابری کرنے کے لیے ہی تعلیم حاصل کرنا مقصد رہ جائے تو بھی اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور مسلمان ہونے کی اپنی حیثیت کو فراموش کر کے عورت کا معاشرتی ترقی میں مصروف ہونے کے لیے گھر سے نکل آنا بھی اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ علمی، تحقیقی، سائنسی اور فلسفیانہ تمام پہلوؤں سے جائزہ لے کر بھی عورت اپنی اخلاقی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ قرآن و حدیث کو اس معاملے میں امام نہ بنا لے۔
[مضمون نگار لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں]
(بشکریہ: ششماہی ’’معارف مجلہ تحقیق‘‘کراچی۔ جنوری تا جون ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply