حقیقی عالمگیریت کی طرف

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کا شمار اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو حکمرانی کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کے حوالے سے بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ زیر نظر صفحات اُن کی کتاب ’’اچیونگ ٹرو گلوبلائزیشن‘‘ سے اقتباسات پر مشتمل ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے کے بعد شائع ہونے والی یہ کتاب ڈاکٹر کوہائی ہاشی موتو نے مہاتر محمد سے دس گھنٹے کی طوالت پر مبنی گفتگو کی مدد سے ترتیب دی تھی۔

ہر ملکا میں اس حوالے سے الگ تصور پایا جاتا ہے کہ کسی بھی رہنما کو کب تک خدمات انجام دینی چاہییں۔ چند ممالک میں تو یہ بھی طے کردیا جاتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم کو دو میعاد سے زیادہ مواقع نہیں دیے جاسکتے۔ بہت سے ممالک میں عمر کی حد بھی طے کردی جاتی ہے کہ کسی لیڈر کو کب تک عوام کی رہنمائی اور خدمت کرنی چاہیے۔ ملائیشیا میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر میں چاہتا تو بہ حیثیت وزیر اعظم کام کرتا رہتا۔ یہ سلسلہ مرتے دم تک جاری رہتا یا پھر عوام کی جانب سے ہٹائے جانے تک! میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی لیڈر کو ملک درست کرنے کے بعد رخصت ہو جانا چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ ملک اچھی حالت میں ہے، معیشت مستحکم ہے اور پارٹی بھی کمزور نہیں۔ مستعفی ہونے کا اس سے اچھا موقع بھلا کیا ہوسکتا تھا؟

اگر کوئی رہنما مشکل حالات میں اقتدار سے الگ ہو تو آنے والوں کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ انھیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اسی لیے حالات بہتر ہونے کا انتخاب کیا۔ اب پارٹی مستحکم ہے، معیشت کا حال اچھا ہے اور ملک بہت اچھے حالات میں ہے۔ مسائل تو آتے جاتے رہیں گے۔ کسی بھی ملک کو پنپنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تب میں اپنی بائیس سالہ کارکردگی سے مطمئن تھا۔ اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونے کا بہترین وقت یہی تھا۔

ملائیشیا میں روایت رہی ہے کہ جب کوئی لیڈر رخصت ہوتا ہے تو چارج اس کا نائب سنبھالتا ہے۔ مئی ۲۰۰۰ء سے میں اپنے نائب کی کارکردگی سے مطمئن تھا۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حکومتی امور کس طور انجام دیے جاتے ہیں اور مسائل کو کس طرح حل کیا جاتا ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ ملک کی پالیسیاں کیا ہیں اور کس طرح نافذ کی گئی ہیں۔ ملائیشیا میں حکومتی ڈھانچہ اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو ذاتی پسند یا ناپسند کے حوالے سے نہیں کرتے۔ کسی بھی معاملے میں اگر کسی کے پاس کوئی آئیڈیا ہو تو وہ اسے کابینہ میں پیش کرتا ہے، اس آئیڈیے پر غور کیا جاتا ہے اور اگر وہ قابل عمل ہو تو اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ اسی صورت وہ آئیڈیا عمل پذیر ہوسکتا ہے۔ میں بھی جب وزیر اعظم تھا تو کابینہ کو اپنے تصورات پر مطلع کرتا تھا۔ ہم جو کچھ بھی کرتے تھے، اجتماعی ذمہ داری کے ساتھ کرتے تھے۔ سوال صرف نئے آئیڈیا کا تھا۔ ہم سب کو اندازہ تھا کہ معیشت کس طرح کام کرتی ہے۔ پالیسیوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں تو رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے اپنے نائبین پر پورا بھروسہ تھا۔ مستعفی ہوتے وقت مجھے کسی بات نے تشویش میںمبتلا نہیں کیا۔

ایسٹ ایشین اکنامک کاکس

میں نے دسمبر ۱۹۹۰ء میں مشرقی ایشیا کے ممالک میں اتحاد پیدا کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔ ابتدائی مرحلے میں چند ایک مشکلات درپیش تھیں۔ اب میرا تصور ’’ایشین پلس تھری‘‘ کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ میں نے اصلاً یہ تصور پیش کیا تھا کہ یہ ایک طرح کا مشاورتی فورم ہوگا، جس میں مشرقی ایشیا کے ممالک اپنے مسائل پر غور کرتے ہوئے ان کا حل تلاش کیا کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچا گیا تھا کہ اس فورم کی مدد سے کسی بھی بین الاقوامی مسئلے پر ہم آہنگ ہوکر مشرقی ایشیا کی بات بیان کی جاسکتی ہے۔ اس فورم کو پورے ایشیا پر محیط بنانے کا کوئی ارادہ نہ تھا کیوں کہ یہ بہت بڑا بر اعظم ہے۔ پورے بر اعظم کو کسی ایک فورم کے دائرے میں لانا بہت مشکل کام ہے۔ میں نے مشرقی ایشیا کے ایک فورم کا تصور پیش کیا اور بتایا کہ اسے درجہ بہ درجہ توسیع دی جاسکتی ہے۔ یورپی اتحاد کا بھی یہی معاملہ تھا۔ بات دو ممالک سے ’’یوروپین اسٹیل اینڈ کول کمیونٹی‘‘ کی شکل میں شروع ہوئی تھی۔ آج ہمارے سامنے جو یورپی اتحاد موجود ہے اسے اس مقام تک آنے میں پچاس سال لگے ہیں۔ ایشیائی اتحاد کے لیے بھی ایسا ہی سوچا جاسکتا ہے۔ ایشیا بہت بڑا براعظم ہے۔ اس میں زبانوں‘ نسلوں اور ثقافتوں کا غیر معمولی تنوع پایا جاتا ہے۔ یورپ میں تقریباً سبھی باشندے ایک لسانی گروہ (لاطینی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مابین مذہبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود انھیں متحدہ ہونے، مشترکہ منڈی تشکیل دینے اور مشترکہ کرنسی اپنانے میں پچاس سال لگے۔ ۱۹۹۱ء میں جب ہم نے مشرقی ایشیا کے اتحاد کا تصور پیش کیا تو امریکا کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اس تصور کا حامی تھا۔ جنوبی کوریا بھی چاہتا تھا کہ ان خطوط پر سوچا جائے۔ امریکی دباؤ کے تحت جاپان البتہ خاصا مخالف رہا۔ آخر کار امریکی مخالفت کا زور توڑنے کے لیے ایسٹ ایشین اکنامک کوکس کو ایشین پلس تھری میں تبدیل کرکے اپنایا گیا۔

ایشیائی اقوام میں زبانوں، نسلوں، مذاہب اور ثقافتوں کا اس قدر تنوع موجود ہے کہ انھیں متحد ہونے میں پچاس سال سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ یورپ ایک مثال کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے بہت کچھ سوچا اور کیا جاسکتا ہے۔ اگر پیش رفت سست رفتار بھی ہو تو کیا ہے، مقصود تو اتحاد ہے۔

عراق کے خلاف جنگ اور اس جنگ کی راہ ہموار کرنے والے واقعات کی نوعیت پر غور کرنے سے بین الاقوامی تعلقات کی نئی سمت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ عراق کے خلاف جنگ معاملات کو بات چیت سے سلجھانے کے بجائے صرف طاقت کے استعمال کے ذریعے طے کرنے کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ کلیدی مسئلہ یہ ہے کہ امریکا نے فیصلہ سازی کے بین الاقوامی نظام کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ امریکا اپنی طاقت کے زعم میں کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر لیگ آف نیشنز بنائی گئی تھی۔ اس بین الاقوامی تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد جنگ کی راہ مسدود کرنا تھا۔ طے پایا تھا کہ کوئی بھی رکن ملک کسی ملک پر جنگ نہیں تھوپے گا اور جنگ کو صرف دفاعی حکمت عملی کے طور پر اپنائے گا، اور وہ بھی اس وقت کہ جب مفاہمت کے دیگر تمام راستے بن ہوچکے ہوں۔ بعد میں کیا ہوا؟ امریکا اس تنظیم سے نکل گیا جس کے نتیجے میں اس کی تحلیل واقع ہوئی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بار پھر سوچا گیا کہ جنگ کی راہ کس طرح روکی جائے۔ دونوں عالمی جنگوں میں انسانیت کا اتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا کہ اب جنگ کو مکمل طور پر روکنے کے سوا کے کوئی چارہ نہ تھا۔ مہذب معاشرے میں جنگ کی اب کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ دنیا بھر کے سیاسی قائدین نے مل جل کر طے کیا کہ جنگ کو اختلافات ختم کرنے اور تنازعات کی راہ روکنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ اور اگر جنگ کرنا ہی ہو تو آخری حربے کے طور پر کی جائے۔ مثلاً کمبوڈیا میں کھمیر روج کے مظالم کا خاتمہ اس گروپ کے خلاف جنگ کی صورت میں ہی ممکن تھا۔ ایسی جنگ بھی مذاکرات میں ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہی ممکن تھی۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں اقوام متحدہ ہی مختلف ارکان سے فوجی طلب کرکے ایک فوج تشکیل دینے کی مجاز تھی۔ چند برس قبل افریقا میں خانہ جنگی نے کم و بیش ۵۰ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اقوام متحدہ نے اس قتل و غارت کو روکنے کے سلسلے میں کچھ نہ کیا۔ بوسنیا میں بھی اقوام متحدہ نے اس وقت مداخلت کی جب سربوں کے ہاتھوں کم و بیش ۲ لاکھ مسلمانوں کا خون ہوچکا۔ ان دونوں مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی ادارہ کس حد تک کمزور ہے۔

عراق پر جو جنگ تھوپی گئی اس کی پشت پر بھی اقوام متحدہ نہ تھی۔ عراق کی جانب سے کسی حملے کا حقیقی خطرہ بھی نہ تھا۔ ایسے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی صورت حال بھی نہ تھی۔ امریکا چاہتا تھا کہ عراق میں ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کرے جو اسے پسند نہ تھی۔ امریکا نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ عراقی حکومت اپنے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کے بڑے ذخائر ہیں۔ ظالم حکمران تو دوسرے بہت سے ممالک میں بھی ہیں جو اپنے عوام کو جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ بہت سے ممالک کے وسیع تر تباہی کے ہتھیار بہت بڑے پیمانے پر موجود ہیں، مگر امریکا ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ صاف ظاہر ہے کہ عراق پر جنگ در اصل تیل کے ذخائر پر کنٹرول کے لیے تھوپی گئی۔ جن مسائل کی بنیاد پر عراق کے خلاف جنگ کی گئی، اُنہی امور کی بنیاد پر اب ایران اور شمالی کوریا کے خلاف بھی جنگ کا امکان بہت واضح دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا ان ممالک کی حکومتوں کو بھی پسند نہیںِ کرتا۔ شام پر بھی دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اس پر حملہ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایران اور جنوبی کوریا کے علاوہ سوڈان اور لیبیا پر بھی امریکا ’’شیطانی محور‘‘ کا جز ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے ان ممالک کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اب جس ملک پر بھی امریکا کی جانب سے وسیع تر تباہی کے ہتھیار رکھنے کا شک ظاہر کیا جائے گا اس پر حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا بھر میں وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ امریکا میں ہے۔ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ ایٹمی ہتھیار انتباہ کے طور پر بنائے گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود امریکا واضح اشارے دیتا رہا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کیا جائے تو تباہی کا دائرہ محدود کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ سوال ذہن میں ابھرے بغیر نہیں رہتا کہ ایٹمی حملے کے سامنے ثابت قدم رہنے کی سکت کس میں ہوسکتی ہے؟ پیشگی حملے کا نظریہ بھی امریکا نے ہی وضع اور پیش کیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس ملک سے کوئی خطرہ محسوس ہو اس پر حملہ کردیا جائے۔ اور اس کا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر آپ حملہ نہیں کریں گے تو وہ ملک حملہ کر گزرے گا۔ عراق پر تھوپی جانے والی جنگ اس کی بہت واضح مثال ہے۔ امریکا نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ مشاورت اور فیصلہ سازی کے کسی بھی عالمی سیٹ اپ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہونے کی بنیاد پر وہ کچھ بھی کر گزرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ امریکا نے دنیا پر جتا دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے، اور وہ بھی اس تیقن کے ساتھ کہ اسے ایسا کرنے کا اجازت نامہ حاصل ہے!

کیا اس امر میں کسی نوع کے شک کی گنجائش ہے کہ جنگ سے صرف قتال اور تباہی کی راہ ہموار ہوتی ہے؟ مشرقی تہذیب میں امن قائم کرنے اور جنگ و جدل سے گریز پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مشرقی دنیا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقاصد کے حصول کے لیے جنگ ہی واحد راستہ نہیں، مذاکرات کے ذریعے بھی بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ملائیشیا عراق میں جنگ کا حامی تھا، نہ ہے۔ میرا اپنا نقطۂ نظر یہ تھا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد عسکری تعلقات پر نہیں ہونا چاہیے۔ مذاکرات سے معاملات کو سلجھانے اور کشیدگی کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ ہمیں کشیدگی زائل کرنے کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک دوسرے کی بات سننا ناگزیر ہے۔ جب تک ہم اس کے لیے تیار نہ ہوں گے، کسی بھی اعتبار سے امن کے استحکام کی جانب نہیں بڑھ سکیں گے۔ جنگ یہ ثابت کرتی ہے کہ طاقت ور ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے، خواہ وہ حق پر نہ ہو! امریکا کو عراق کے خلاف جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کسی نے نہیں کی؟ فرانس چاہتا ہے کہ یہ معاملہ عالمی برادری کے سامنے رکھا جائے، تمام ممالک سے رائے لی جائے تاکہ متفقہ فیصلے کے تحت کارروائی کی جائے۔ جرمنی اور روس بھی عراق پر جنگ تھوپنے کے خلاف تھے۔ امریکا نے تمام با اثر ممالک کی رائے کو بھی یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ وہ جس کام کو خود درست سمجھے گا، کر گزرے گا۔

اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عراق سے امریکی سلامتی کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہ تھا، جس کی بنیاد پر جنگ جیسی بڑی کارروائی ناگزیر قرار دی جاسکتی۔ امریکا کا دعویٰ تھا کہ عراق کے پاس وسیع تر تباہی کی ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں۔ عراقیوں نے اپنے دفاع میں ان ہتھیاروں کو کسی بھی مرحلے پر استعمال نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا ان کے پاس یہ ہتھیار تھے ہی نہیں۔ ابھی تک امریکا نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا کہ اس نے عراق پر جنگ تھوپ کر ہر اعتبار سے غلطی کی تھی۔ عراق پر امریکی حملے کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ اگر اس کی بات نہ مانی جائے تو وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ جو کچھ امریکا نے عراق میں کیا ہے اس کا مشاہدہ کرکے دنیا پر خوف طاری ہے۔ بالخصوص اسلامی دنیا پر زیادہ لرزہ طاری ہے۔ اسلامی ممالک کو یہ پیغام ملا ہے کہ اگر اس نے امریکی مطالبات تسلیم نہ کیے تو بمباری اور قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عراق کے خلاف جنگ ہم سے کہتی ہے کہ امریکا کی بات مان لو، یا پھر حملے کے لیے تیار ہو جائو۔ بین الاقوامی تعلقات کے لیے یہ کوئی خوش کن پیغام ہرگز نہیں۔ کوئی ملک خواہ کتنا طاقت ور ہو، اسے اپنے ہی طے کردہ چند ایک اصولوں کا تو پابند ہونا ہی چاہیے۔ انصاف قائم کرنے کے نام پر کسی ملک کو نشانہ بنانا اور تباہی سے دوچار کردینا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابل تقلید نظریہ نہیں۔

امریکا کی مٹھی میں بند دنیا!

کون ہے جو اس بات کو درست تسلیم کرنے سے انکار کرے گا کہ امریکا نے عراق پر حملہ تیل کی دولت پر اپنا تسلط جمانے کے لیے کیا؟ مگر یہ واحد سبب نہیں۔ امریکا در حقیقت دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس حد تک طاقت ور ہے کہ کسی کو خاطر میں لانے کا پابند نہیں۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ بھی چاہے گا، کرے گا۔ وہ دنیا پر اپنی برتری ثابت کرکے اسے منوانا چاہتا ہے۔ اس نے یہ پیغام سب پر واضح کردیا ہے کہ جو اس کا حکم نہیں مانے گا وہ جنگ کا خطرہ مول لے گا۔

بہت سے سرکردہ امریکی سیاست دان اور سیاسی تجزیہ نگار اب ایک ایسی دنیا کی بات کھل کر کرنے لگے ہیں جس کا مکمل کنٹرول امریکا کے ہاتھ میں ہو۔ انگریزی میں اسے Pax Americana کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا کو امریکی مٹھی میں بند کرنے کا خواب دیکھنے والے یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس دنیا میں تہذیبی، نسلی، لسانی اور مذہبی تنوع بہت زیادہ ہے۔ دنیا پر حکومت کرنا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں۔ چند ایک ممالک پر حملہ ضرور کیا جاسکتا ہے، تاہم انھیں مکمل طور پر اپنا تابع اور باج گزار بنانا ممکن نہیں۔ کسی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں معاملات کو معمول کے مطابق چلانا ممکن نہیں۔ اگر کوئی ملک پوری دنیا کو اپنے بس میں کرنا چاہے گا تو معاملات کو الجھائے گا اور کشیدگی میں اضافہ کرے گا، جیسا کہ امریکا نے ثابت بھی کیا ہے۔

عراق پر حملے سے کچھ دن قبل میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے قطر کے دارالحکومت دوہا میں تھا۔ اس اجلاس میں چند اسلامی ممالک نے خود کو امریکا نواز ثابت کیا۔ چند ممالک عراق کے خلاف جنگ کے حق میں نہ تھے۔ کسی بھی اسلامی ملک نے عراق جنگ کے حوالے سے واضح موقف اختیار نہ کیا۔ ہاں، عراق پر جنگ تھوپے جانے کے بعد سے اسلامی ممالک میں امریکا کے لیے مخالفت اور نفرت بڑھی ہے۔ امریکا نواز گردانے جانے والے ممالک میں بھی امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ چند ایک اسلامی ممالک میں اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے اور وہ اس رائے کے حامل ہیں کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو امریکا کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا چاہیے۔ امریکی جارحیت نے منفی رجحانات کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

طاقت کے بے محابا استعمال اور اپنی اقدار دوسروں پر تھوپنے کے نتیجے میں صرف کشیدگی، نفرت اور مخاصمت پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکا الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی لیگ آف نیشنز سے وہ الگ ہوا تھا۔ مگر اب وہ ایسا نہیں کر رہا۔ امریکا نے کسی بھی بین الاقوامی تنظیم سے علیٰحدگی اختیار نہیں کی ہے۔ اب تک وہ اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس ڈھانچے میں رہتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی بات تسلیم کی جائے، اور کسی بھی معاملے میں اس سے اختلاف کا اظہار نہ کیا جائے۔ امریکا ماضی کے برعکس عالمی اداروں سے نہ صرف یہ الگ نہیں ہو رہا، بلکہ ان اداروں کو اپنی مرضی کے تابع بنانا چاہتا ہے۔ اس امریکی خواہش کے نتیجے میں عالمی اداروں کا کیا حشر ہوا ہے، یہ کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ امریکا نہ صرف یہ کہ عالمی برادری سے الگ تھلگ نہیں ہو رہا، بلکہ پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی زبان، طرز زندگی، معاشی اصول، وضع قطع غرض یہ کہ ہر معاملہ دوسروں پر مسلط کرکے انھیں دست نگر بنانے کے فراق میں ہے۔ دوسروں کی رائے اس کے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ عالمی برادری عراق کے خلاف جنگ کے حق میں نہیں تھی۔ امریکا نے دنیا کی بات نہ مانی اور اپنی مرضی سب پر تھوپی۔ عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے کا رویہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں نمایاں ہے۔ عراق کے مسئلے پر ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے قائدین اور سرکردہ عہدیداروں میں کچھ زیادہ اختلاف رائے نہیں پایا گیا۔ اہم عالمی امور پر امریکی پالیسی ترتیب دینے کے معاملے میں امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی سوچ یکساں ہے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد سے امریکی فوج اور اسلامی دنیا کے مسلح گروپوں کے مابین لڑائی جاری ہے۔ پہلے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی اور اس کے بعد عراق پر جنگ تھوپی گئی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ کہیں وسیع تر تناظر میں اسے تہذیبوں کے تصادم سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ اس میں ایک طرف ’’رب کی خوشنودی‘‘ کی حامل عیسائیت ہوگی اور دوسری طرف ’’شر کی علامت‘‘ سمجھا جانے والا اسلام ہوگا! حقیقت یہ ہے کہ مغرب کو اسلامی دنیا سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ مغرب کے حکمران جو کچھ اسلام کے بارے میں سوچتے ہیں اس کا اظہار ان کی امگریشن اور دیگر پالیسیوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ عراق کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر سیاسی رنگ دیا گیا۔ اس سے قبل مغرب میں عمومی طور پر عراق سے محض اس لیے نفرت کرنے کا رجحان نہ تھا کہ وہ اسلامی ملک تھا۔ مسلم دنیا کی اکثریت بھی عیسائیوں کو دشمن نہیں سمجھتی۔

امریکی افواج اور مسلم مسلح گروپوں کے مابین جو لڑائی جاری ہے وہ کسی بھی نقطۂ نگاہ سے تہذیبی تصادم نہیں۔ کچھ لوگ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اسے تہذیبی تصادم کا نام دے کر کشیدگی بڑھا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تہذیبوں کے مابین کشیدگی واضح ہے، مگر اس کے باوجود اسرائیلیوں کے خلاف فسلطینیوں کی لڑائی کو تہذیبوں کا تصادم قرار نہیں دیا جاتا۔ ۱۹۹۳ء میں امریکی سیاسی تجزیہ نگار سیمیوئل ہنٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس نے سیاسی تجزیہ نگاروں کے حلقوں میں تہلکہ مچایا تھا۔ اس نے اس مضمون کو وسعت دے کر ۱۹۹۴ء میں اسی عنوان سے کتاب لکھی جو خاصی متنازع فیہ ٹھہری ہے۔ اس کتاب میں ہنٹنگٹن نے لکھا ہے کہ مغرب کو اپنی عسکری اور سیاسی برتری قائم کرنے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی دشمن کی ضرورت رہی ہے۔ کسی دشمن کی موجودگی کو جواز بناکر وہ اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اگر مسلم اور عیسائی دنیا میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی تو اسرائیل کو بھی فلسطینی علاقوں پر حملے کرنے، ان پر قبضہ جمانے اور فلسطینیوں کو زیر نگیں کرنے کا جواز مل جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ تمام عیسائی اس بات سے اتفاق کرتے ہوں گے کہ مسلمانوں سے ہمیشہ محض اس بنیاد پر جنگ کی حالت میں رہا جائے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس وقت امریکا اور اسلامی ممالک کے مختلف گروپوں کے مابین جو لڑائی جاری ہے وہ کسی بھی لحاظ سے تہذیبوں کا تصادم نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر تہذیبوں کے تصادم کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کشیدگی اور نفرت بڑھے گی۔ جب بھی اسلام اور عیسائیت کی بات کی جائے گی تو متعلقہ افراد کسی نہ کسی کیٹیگری کا حصہ تو ہوں گے ہی۔

ایران کے سابق صدر محمد خاتمی نے تہذیبوں کے تصادم کے مقابل تہذیبوں میں مکالمے کا نظریہ پیش کیا۔ میں اس نظریے کا حامی ہوں۔ میری رائے یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب جامع نہیں۔ سب کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ بات چیت ہونا چاہیے تاکہ کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے۔ تہذیبی برتری کا موجودہ اور مقبول تصور دراصل جامعیت یا اقدار کی برتری پر نہیں، بلکہ معاشی و عسکری قوت کے ارتکاز پر ہے۔ کسی بھی تہذیب کو برتر قرار دینے کا سمجھنے کا یہ معیار غلط ہے۔ طاقت ور ہمیشہ حق پر نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہے کہ تمام تہذیبوں کے لوگ مل جل کر اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ پرامن بنانے کے لیے کام کریں تاکہ کشیدگی کا خاتمہ ہو اور مثبت اقدار کے فروغ کی راہ ہموار ہو۔

جدید دنیا میں ماحول کچھ ایسا ہے کہ صرف جمہوریت کو ہی قبول کیا جا رہا ہے۔ طاقت ور ممالک نے کچھ ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے جمہوریت کی مغربی شکل اپنائے بغیر چارا نہیں۔ جو ملک جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے تیار نہ ہو اسے حملے اور قبضے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کسی بھی جنگ میں شکست سے دوچار ملک کو جمہوریت کی جانب لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جمہوریت میں ہر انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ملتا ہے۔ کسی پر بھی کوئی چیز تھوپی نہیں جاتی۔ مگر مفتوح ملک پر جمہوریت تھوپی جاتی ہے۔ اس کے پاس جمہوریت کو اپنانے کے سوا راستہ باقی نہیں رہتا۔ کسی بھی ملک کو اپنی مرضی کی جمہوریت قبول کرنے پر مجبور کرنا کسی طور درست نہیں۔ اور یہ معاملہ اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے جب کسی ملک کو کوئی ایسا نظام جمہوری قرار دے کر اپنانے پر مجبور کیا جائے جسے وہ جمہوری گردانتا ہی نہ ہو! مزید برآں یہ تصور بھی انتہائی غلط اور خطرناک ہے کہ دنیا میں اگر حقیقی جمہوریت ہے تو صرف مغرب میں۔ جمہوریت کے کئی روپ ہیں۔ جمہوری سیٹ اپ کی ہر شکل میں چند خوبیاں ہیں اور چند خامیاں۔ جمہوریت کی کوئی بھی شکل ہر اعتبار سے مکمل نہیں۔ ہر معاشرے کی ضرورت کے مطابق جمہوری سیٹ اپ میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔

دنیا ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں کمزور ممالک کے پاس صرف ایک راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں جمہوریت اپنالینی چاہیے۔ کمیونسٹ ممالک بھی خود کو جمہوری کہتے ہیں، تاہم ان کے اس دعوے کو مسترد کردیا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا نمونہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ممالک ہر وقت حملے اور قبضے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مثلاً شمالی کوریا خود کو ’’عوامی جمہوریہ کوریا‘‘ کہتا ہے، تاہم مطلق العنان حکومت کے باعث اسے بھی حملے کے خطرے کا سامنا ہے۔

سوال صرف جمہوریت کو اپنانے کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر ملک کو امریکی انداز کا لبرل ڈیموکریٹک سیٹ اپ اپنانا ہوگا۔ ایسے میں کشیدگی، تصادم، محاذ آرائی، اور عدم استحکام کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ہر معاشرہ جمہوریت کو اپنے مزاج کے مطابق اپناتا ہے۔ جمہوریت کی کوئی بھی شکل اتنی جامع نہیں کہ ہر معاشرے پر اطلاق پذیر ہو۔

کسی بھی سیاسی نظام کو راتوں رات تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی روایات ہوتی ہیں، جنھیں کسی جواز کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ کی تاریخ شاہد ہے کہ جمہوریت کی موجودہ شکل تک پہنچنے میں اس نے ۲۰۰ سال صرف کیے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا جمہوریت کو اپنانے کی جانب بڑھنا مرحلہ وار عمل ہے۔ جمہوریت کے ابتدائی دور میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا۔ سوئزر لینڈ میں بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق بیسویں صدی کے اواخر میں ملا۔

جمہوریت نے موجودہ منزل تک پہنچنے میں خاصا وقت لیا ہے۔ یہ کئی مراحل سے گزری ہے۔ کسی بھی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا علم اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے مکمل طور پر اپنایا جائے۔ اسی صورت اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مخصوص نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں ہے۔ آزادی مفت نہیں ملتی۔ کسی بھی کام کو کسی ایک جگہ بہتر طور کیا جاسکتا ہے۔ ہر اقدام ہر جگہ ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت کی درجنوں اشکال پائی جاتی ہیں۔ ہمیں جمہوریت کی ہر شکل کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ طویل عمل کے ذریعے موجودہ منزل تک پہنچی ہے۔ اس مرحلے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عراق میں جمہوریت متعارف کرانے کا امریکی تجربہ ناکامی سے ہی دوچار ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت اس وقت حکومتی نظام کی بہترین شکل ہے، تاہم ہر اعتبار سے جامع تو یہ بھی نہیں۔ جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری بدعنوانی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے ساتھ بدعنوانی کا دم چھلا جڑا رہا ہے۔ جو لوگ خود کو انتخاب کے لیے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں وہی بدعنوان ہیں۔ سیاست دان چوں کہ اپنی مقبولیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ ووٹرز کو خوش کرنے کے اقدام بھی کرتے رہتے ہیں۔ بعض حالات میں وہ ووٹرز کو رشوت دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ چند علاقوں میں ترقیاتی منصوبے زیادہ عمدگی سے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ دوسرے بہت سے علاقوں کے لوگ ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ جمہوری سیٹ اپ میں عوام خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اس لیے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سیاست دانوں پر دبائو بھی ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً فنڈ کی بے ہنگم تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت عوام کو طاقت ضرور بخشتی ہے، مگر انھوں نے بدعنوانی کے پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ بہت سے سیاست دان مذہب کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔ وہ عوام کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ مذہب کی بنیاد امیدوار یا پارٹی کا بائیکاٹ کریں۔ مذہب کا اس نوع کا استعمال بھی بدعنوانی کی ہی ایک شکل ہے۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی جمہوریت کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔

امریکی سیاست میں بھی وہی لوگ زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں جو امیدواروں کو زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ جن علاقوں سے امیدواروں کو زیادہ چندہ نہیں ملتا، ان کے لیے کچھ خاص منصوبے بھی سامنے نہیں آتے۔ برطانیہ کا بھی یہی حال ہے۔ خود ووٹر بھی بدعنوان ہیں۔ ایسے میں اگر جمہوریت بدعنوان ٹھہرے تو اس میں استعجاب کا کیا پہلو ہے؟

اگر کسی معاشرے میں لوگوں کو طویل مدت تک جمہوریت کا ساتھ نصیب ہو تو وہ اس نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی سیاسی نظام کا تسلسل یقینی نہ بنایا جائے تو عوام اس سے بہتر طور پر آشنا نہیں ہوسکتے۔ اگر کسی معاشرے میں لوگوں کو اچانک ووٹ کا حق دے دیا جائے، تو ممکن ہے کہ وہ راتوں رات ملنے والی اس آزادی کو غلط ڈھنگ سے استعمال کریں۔ عین ممکن ہے کہ وہ بدعنوان لوگوں کو منتخب اداروں کی زینت بنادیں۔ جمہوریت میں بہت سی خامیاں ہیں جنھیں سمجھنا ناگزیر ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے والا واحد ملک، امریکا، جمہوری طرز حکومت کا حامل ہے۔ جس طرح دیگر نظام ہائے سیاست و حکومت میں خامیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح بشری خامیوں سے جمہوریت بھی پاک نہیں۔

جمہوریت منتخب کرنے کا حق دیتی ہے، مگر اس کا غلط مطلب لے لیا گیا ہے۔ اس حق کے غلط استعمال سے نراجیت پھیلتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صدام حسین کے دور کا عراق آج کے عراق سے بہتر تھا۔ جمہوریت میں حزب اختلاف جو کردار ادا کرتی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نئی منتخب حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس میں صرف خامیاں تلاش کی جاتی ہیں۔ حزب اختلاف کو کسی نہ کسی معاملے میں حکومت پر تنقید کرنے کے موقع کی تلاش رہتی ہے۔ ٹانگ کھینچنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے میں حکومت کو بہتر ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جس حکومت کو احتجاج، مظاہروں، ہڑتالوں اور دھرنوں کا سامنا ہو اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ حزب اختلاف کی ریشہ دوانیوں سے حکومت گرتی ہے اور انتخابات میں حزب اختلاف کو حزب اقتدار بننے کا موقع ملتا ہے۔ اب سابق حزب اقتدار کو حزب اختلاف میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ وہ بھی حکومت کو کمزور کرنے اور گرانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ یہ منحوس چکر چلتا ہی رہتا ہے اور عوام کو بے روزگاری اور معاشی بحران کا سامنا رہتا ہے۔

جمہوریت کو اپناتے وقت اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا دشوار نہ ہو۔ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جو درجہ بہ درجہ ہی اپنایا جاسکتا ہے۔ جس معاشرے کو عشروں تک مطلق العنانیت کا سامنا رہا ہو وہ جمہوریت کو پہلی کوشش میں مکمل طور پر نہیں اپنا سکتا۔ کسی بھی نظام کو راتوں رات اپنانا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ کسی نظام کو اپنانے میں سست رفتاری اس لیے بہتر طریقہ ہے کہ اس صورت میں کسی بھی پیچیدگی کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔ بہت تیزی سے سب کچھ تبدیل کرنے کی خواہش ہر معاملے کو بگاڑ دیتی ہے۔ ایسے میں نراجیت پیدا ہوتی ہے اور کوئی بھی ادارہ صحیح ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتا۔ نئے نظام سے واقفیت نہ رکھنے والے لوگ آزادی کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اس کا غلط استعمال روکنا عموماً ممکن نہیں ہوتا۔

دہشت گردی

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد سے یہ خدشہ پروان چڑھتا رہا ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا اور یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جنگ چھیڑنے کے بعد سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ عراقی روایتی جنگ تو ہار گئے، اب وہ گوریلا جنگ ہی لڑسکتے ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی حملہ آور ہو رہے ہوں تو آپ کے پاس اس کا معقول جواز ضرور ہونا چاہیے۔ امریکا اگر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو اس کے بنیادی اسباب پہلے ختم کرنا ہوں گے۔

۱۱؍ستمبر کے واقعات فلسطینیوں کے مقابل یہودیوں کی مسلسل حمایت کا نتیجہ تھے۔ اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی بہت بڑے پیمانے پر شہید ہوتے رہے ہیں۔ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے مشرق وسطیٰ کے واقعات سے دل برداشتہ تھے۔ اگر ۱۱ ستمبر کے سے واقعات کا اعادہ روکنا ہے تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین لڑائی رکوانا ہوگی۔

امریکا اپنے طرز عمل سے ثابت کرتا رہا ہے کہ اس کی سوچ یہ ہے کہ سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کی بنیاد پر وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، کسی بھی معاملے کو طاقت سے کچل سکتا ہے۔ امریکیوں پر اسرائیلیوں کا نفسیاتی غلبہ اس قدر ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کے رجحان کو کچلنے میں ناکام ہونے کے بعد اب وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو اسرائیلیوں کا ہے۔ دہشت گردوں کو دہشت زدہ کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی دہشت گردی کر رہا ہے تو جواباً اس سے بڑی دہشت گردی کرو! اسرائیلی حکام فلسطینی خود کش حملہ آوروں کے مکانات تباہ کردیتے تھے اور پوری آبادی کو تاراج کردیا جاتا تھا۔ یہی کچھ امریکا نے بھی کرنے کی ٹھانی ہے۔ یہ انتقامی رویہ معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ نہیں ہے کہ بڑی دہشت گردی سے جواب دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے امریکا اپنی سوچ اور عملی طریقوں میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔ عراق سے نمٹنے کے بعد امریکا دیگر ممالک کا رخ کرسکتا ہے۔ مشرقی یورپ بھی اس حوالے سے خاصا پریشان ہے۔

میڈیا کی آزادی

اس تصور کو خصوصی طور پر پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ خلیج کی جنگ کے مقابلے میں عراق کی جنگ کی کوریج خاصی معروضی ہے، یعنی معاملات کو جوں کا توں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کا جواز یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ امریکی رپورٹرز چوں کہ امریکی فوج کے ساتھ اس کی گاڑیوں میں سفر کر رہے ہیں اس لیے وہ واقعات کو زیادہ باریکی سے دیکھ سکتے ہیں۔ معروضیت کے دعوے کے لیے پیش کی جانے والی یہ دلیل خاصی بھونڈی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت کہیں بھی پریس آزاد نہیں۔ ایک طرف تو پریس یا پرنٹ میڈیا پر حکومتی دبائو ہوتا ہے، اور دوسری طرف اخباری مالکان یا مدیران بھی اخبارات اور جرائد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ریوپرٹ مرڈوک نیوز کارپوریشن کئی چینلز کے علاوہ اخبارات اور جرائد کی بھی مالک ہے۔ کسی زمانے میں کسی ایک ادارے کو بیک وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی فیلڈ میں آنے سے روکا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اخباری ادارے اپنے چینلز بھی لا رہے ہیں۔ اس رجحان کی خرابی بھی سب پر عیاں ہے۔ ایک ہی شخص اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا مالک ہو تو کسی بھی خبر کو بہتر طور پر کنٹرول کرسکتا ہے۔ ریوپرٹ مرڈوک کا اپنا ایجنڈا ہے، جس پر وہ اپنے اداروں کے ذریعے عمل کرتا ہے۔ مرڈوک کے چینلز اور اخبارات میں وہی کچھ شائع ہوتا ہے جو اس کی مرضی اور ایجنڈے کے مطابق ہوتا ہے۔ میڈیا اپنی مرضی سے جو چاہتے ہیں شائع کرتے ہیں۔ سوال صرف ان پر تھوپی جانے والی سینسر شپ کا ہی نہیں ہے، ہم یہ بات کس طرح نظر انداز کرسکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ اپنے طور پر بھی سینسر کرتے ہیں۔ میں نے جاپان میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے شرکت کی اور تقریر بھی کی۔ اگلے دن صبح جب میں بیدار ہوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میری تقریر کے مندرجات پیش کرنا تو رہا ایک طرف، رپورٹس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ میں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی! کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ میڈیا آزاد نہیں ہیں؟ کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران میں نے ایشیائی ممالک میں یورپی رجحانات کی تقلید کے رجحان پر نکتہ چینی کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ایشیائی کسی بھی معاملے میں اپنے طور پر کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ یورپ کی اندھی تقلید کرنے پر کمر بستہ ہیں اور جو غلطیاں یورپ سے سر زد ہوئی ہیں، وہی ان سے بھی سر زد ہو رہی ہیں۔ میں نے ایشیائیوں کی کمزوری کی بات کی تھی، اور ساتھ ہی ساتھ مغرب پر تنقید بھی۔ ایک سابق امریکی وزیر دفاع بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ جاپانی حکومت نے مناسب نہ سمجھا کہ مغرب پر تنقید کو شائع ہونے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی نے تو میری تقریر مکمل طور پر سینسر کرنے کا فیصلہ کیا ہی ہوگا۔

اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو کس حد تک اور کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ صرف حکومت ہی نہیں، بلکہ اخبارات اور چینلز کے مالکان بھی مواد کو ایڈٹ کرنے کے نام پر سینسر کرتے ہیں۔ مدیران اور نائب مدیران بھی چاہیں تو مواد کو سینسر کرسکتے ہیں۔ ایسے میں پریس کی آزادی کی بات کرنا سادہ لوحی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے۔

عراق میں جاری جنگ کے ذریعے پہلی مرتبہ embedded reporting دیکھنے کو ملی ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ سفر کرنے والے رپورٹر اور تجزیہ نگار ہر معاملے کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں تصویر کا صرف ایک رخ سامنے آسکتا ہے، اور آ رہا ہے۔ امریکی فوج کے ساتھ سفر کرنے والے رپورٹر اور تجزیہ نگاروں کے ذریعے عراقیوں کی مشکلات عمدگی سے طشت از بام نہیں ہوسکی ہیں۔ اس معاملے میں بی بی سی نے خاصا عمدہ کردار ادا کیا ہے۔ بی بی سی نے معروضیت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دوسری طرف وائس آف امریکا کا انداز خاصا جانب دارانہ رہا ہے۔

عرب میڈیا میں بھی جانب داری دکھائی دیتی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹنگ کو خالص معروضی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکی اور عرب میڈیا کو متوازن رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ الجزیرہ کو اس کے ایجنڈے نے گرفت میں لے رکھا ہے۔ آزاد اور خود مختار پریس وہ ہے جس میں ہر شخص کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ملے۔ اس معیار کے تناظر میں کسی بھی پریس کو آزاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخبارات کے مدیران طے کرتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو کس طرح شائع ہونا چاہیے۔ لکھنے والوں کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے۔ صرف تعلیم کے ذریعے ہی لوگوں کو یہ جاننے کا موقع دیا جاسکتا ہے کہ صحیح ہے اور کیا غلط۔ سب کچھ شائع ہونا چاہیے، تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ کون حق بہ جانب ہے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Achieving true globalization”.(Based on Mahathir Mohammed’s views. written and edited by Dr. Kohei Hashimoto)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*