
معاشی اور سکیورٹی سے متعلق امور کے حوالے سے ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر اب بھارت نے بھی ’’مشرق کی طرف دیکھ‘‘ والی پالیسی کے تحت مشرق میں اپنے مفادات کو زیادہ تقویت فراہم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ بھارت نے حال ہی میں ’’ایکٹ ایسٹ‘‘ پالیسی اپنائی ہے، جس کے تحت کثیر قطبی ایشیا کے تناظر میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے مقصد کو اولیت دی گئی ہے۔ بھارت ایک طرف تو خشکی اور تری دونوں کے راستے زیادہ سے زیادہ تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں زیادہ سے زیادہ ممالک سے اشتراکِ عمل چاہتا ہے۔ بھارتی قیادت مشرق میں بیشتر ممالک سے اداروں کی سطح پر روابط قائم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سکیورٹی سے متعلق امور پر جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک سے پارٹنر شپ دو عشروں کے دوران خوب پروان چڑھی ہے۔ خطوں کو جوڑنے کا عمل البتہ زیادہ تیز نہیں رہا۔
بھارت اگر مشرق کے حوالے سے اپنے امکانات کو وسعت دینا چاہتا ہے تو اُسے چین کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ چین اور اُس کے گرد یعنی پورے خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اُنہیں کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بنگلادیش اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت کو بہتر بین الریاستی روابط کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اُسے بحر ہند کے خطے کی سلامتی کو ہر حال میں اولیت دینے کی روش اپنانا ہوگی۔
بھارت میں مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں منظر عام پر آئی۔ سرد جنگ کے بعد کے زمانے کے حالات نے اِس پالیسی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت نے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم ’’آسیان‘‘ سے بہتر روابط قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز ربع صدی قبل کیا تھا۔ ۱۹۹۲ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیر دفاع شرد پوار نے چین کا دورہ کرکے ایک نئے دور کے آغاز کی نوید سنائی۔ ایک سال بعد اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے چین اور جنوبی کوریا سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کا دورہ کیا۔ کسی بھارتی سربراہِ حکومت کا یہ جنوبی کوریا کا پہلا دورہ تھا۔ اُنہوں نے بعد میں انڈونیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کا دورہ بھی کیا۔
بھارت نے ایشیا میں معیشت اور اسٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے ابھرنے والے امکانات کو دیکھتے ہوئے ’’لُک ایسٹ‘‘ پالیسی اپنائی ۔ بھارتی قیادت اور پالیسی سازوں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ ایشیا تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اس خطے کے بہتر امکانات کو دیکھتے ہوئے ہی بھارتی پالیسی سازوں نے مغرب کے مقابلے میں مشرق کو زیادہ اہمیت دینے کا سوچا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ بھارتی قیادت تیزی سے پنپنے کے عمل میں ایشیا کا حصہ ثابت ہونا چاہتا تھا۔ مگر خیر، مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی کی راہ میں چند ایک دشواریاں بھی حائل ہوئیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اواخر اور ۲۰۰۰ء کے عشرے کے اوائل میں بھارت کے لیے سب کچھ آسان نہ تھا۔ اس کے لیے مشکلات پیدا ہوئی۔ ایک طرف چین تیزی سے ترقی کرتا گیا اور دوسری طرف بھارت نے ایشیا و بحرالکاہل میں اپنے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے پر توجہ دینا شروع کی۔ بھارتی قیادت کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی گئی کہ تیزی سے پنپتے ہوئے ایشیا کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا کرنے سے امریکا اور یورپ ناراض ہوسکتے ہیں۔ چین کی تیز رفتار ترقی نے پورے خطے کو اکنامک انجن میں تبدیل کردیا۔ بھارتی قیادت اپنے آنگن سے جُڑے ہوئے گھر میں یہ ساری تبدیلیاں بھلا کس طور نظر انداز کرسکتا تھا؟ بھارت نے مشرق کی طرف دیکھنے اور پھر اس حوالے سے اقدامات کرنے کی پالیسی سے کیا پایا ہے؟ کیا اُس کے لیے بہتر امکانات پیدا ہوئے ہیں؟ اور مزید کس حد تک فوائد حاصل ہوں گے؟ ان تمام سوالوں کے جواب دینے کے لیے ہمیں پانچ اہم امور کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ اُمور درج ذیل ہیں :
٭ اداروں کے درمیان تفاعل
٭ سکیورٹی پارٹنر شپس کا فروغ
٭ بحر ہند کے خطے میں اثر و رسوخ
٭ چین سے نئے تعلقات کی تشکیل
٭ جنوب مشرقی ایشیا سے بہتر طور پر جُڑنا
اداروں کے درمیان تفاعل
اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بھارت آج ایشیا کی تیز رفتار ترقی کی کہانی میں ایک اہم موڑ ہے۔ بھارت نے چین کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے مغرب پر اپنی مکمل توجہ مرکوز رکھنے کی پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے ایشیا پر متوجہ ہونا شروع کیا۔ اِس کی ابتدا آسیان کے ارکان سے تعلقات بہتر بنانے سے ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں بھارت نے آسیان ریجنل فورم میں شمولیت بھی اختیار کرلی۔ یہ ۱۹۹۴ء کی بات ہے۔ اس کے بعد بھارت نے ایشیائی وزرائے دفاع کے ۲۰۱۰ء کے اجلاس میں بھی شرکت یقینی بنائی۔ اس سے قبل بھارت ۲۰۰۵ء کے مشرقی ایشیا سربراہ اجلاس میں بھی شریک ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت نے اُن تمام عالمی اداروں اور گروپس میں بھی دلچسپی لینا شروع کی، جن کا ایشیا کی ترقی سے کسی نہ کسی طور غیر معمولی تعلق تھا۔ ایک طرف وہ G-20 میں دلچسپی لینے لگا اور دوسری طرف روس، برازیل، چین اور جنوبی افریقا کے ساتھ BRICS کا حصہ بھی بنا۔ بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور دی ایشین انفرا اسٹرکچر بینک (AIIB) میں بھی غیر معمولی دلچسپی لینا شروع کی۔ یہ سب کچھ اِتنی بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ بھارت ایشیا کی تیز رفتار ترقی میں اداروں کی سطح پر غیر معمولی حد تک جُڑا ہوا ہے۔ ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن APEC کا معاملہ ابھی دور دکھائی دیتا ہے۔ بھارت اس فورم کا رکن نہیں اور اس کی رکنیت مستقبل قریب میں یقینی دکھائی نہیں دیتی۔ ویسے ایشیا کے ممالک کے ساتھ اداروں کی سطح پر بھارت کے تعلقاتِ کار کسی بھی مرحلے پر آسان نہیں رہے۔
سکیورٹی پارٹنر شپس کا فروغ
بھارت نے ایشیائی ممالک سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو کسی بھی مرحلے پر مکمل نظر انداز نہیں کیا۔ ۲۰۱۷ء کے دی رائزینا ڈائیلاگ میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکا، روس اور جاپان سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا خاص طور پر تذکرہ کیا۔ روس کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ روس کئی عشروں سے بھارت کا انتہائی قابل اعتماد دوست رہا ہے۔ دفاعی امور میں بھارت نے روس پر ہمیشہ غیر معمولی حد تک اعتماد کیا ہے۔ ہاں، امریکا اور جاپان سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ بھارت کے لیے نیا معاملہ ہے اور اِس کے بہت سے پہلو تاحال واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ ان دونوں سے بھارت کے اسٹریٹجک تعلقات نے چند برسوں کے دوران ہی غیر معمولی اہمیت حاصل کرنا شروع کیا ہے۔
امریکا سے بھارت نے مشرقی ایشیا کے معاملے پر جامع مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ممالک نے دفاع کے حوالے سے اپنے تعلقات کو تیزی سے نئی شکل دینے کا عمل شروع کیا ہے۔ فوجی وفود کے تبادلوں کی رفتار بڑھ گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کے لیے امریکی ہتھیار اور جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کا حصول بھی آسان ہوگیا ہے۔ چند ہی برسوں میں امریکا مجموعی قدر کے اعتبار سے بھارت کے لیے اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ دونوں ممالک باقاعدگی سے مشترکہ جنگی مشقیں کرتے ہیں۔ دونوں ممالک نے بحری مشقوں پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ دو عشروں سے بھی زائد مدت تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں بھارت نے امریکا کے ساتھ لاجسٹک ایکسچینج کا جامع معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ دونوں ممالک دفاعی ٹیکنالوجی کے تبادلے کے حوالے سے بھی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، گو کہ ڈیفنس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشئیٹیو اور طیارہ بردار جہاز کی تیاری میں معاونت کے معاملات ابھی حقیقت کی شکل اختیار کرنے سے بہت دور ہیں۔ اِن تمام سرگرمیوں اور اقدامات کو ایک اور واضح شکل دینے کے لیے بھارت اور امریکا نے جنوری ۲۰۱۵ء میں ’’دی جوائنٹ اسٹریٹجک وژن فار ایشیا پیسفک اینڈ انڈین اوشن ریجن‘‘ اپنانے پر اتفاق کیا۔
بھارت اور جاپان کے اسٹریٹجک تعلقات میں کچھ کچھ اِسی نوعیت کی پیش رفت واقع ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کے روابط بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور جاپان کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع مل کر ایک طرف امریکا اور دوسری طرف آسٹریلیا سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ بھارت اور جاپان نے مشترکہ جنگی مشقوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی اور حساس معلومات کے تبادلے سے متعلق کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں بھارت کی دفاعی تعلقات بہتر بنانے کی خواہش جاپان تک محدود نہیں رہی۔ اس نے آسٹریلیا، سنگاپور، ویت نام، جنوبی کوریا اور کچھ عرصہ پیشتر انڈونیشیا سے بھی بہتر دفاعی تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے بات کی ہے۔ آسیان ممالک کے ساتھ بھارت کی جنگی مشقیں اور بندر گاہوں کے دورے عام ہیں۔ سنگاپور اپنے میکینائزڈ فوجیوں کی تربیت کے لیے بھارتی سرزمین استعمال کرتا ہے۔ بھارتی ماہرین ویت نام کی فضائیہ اور سب میرین سیلرز کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ بھارت نے عسکری سطح پر دو طرفہ تعلقات کو سہ طرفہ بنانے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔ وہ کسی ایک ملک سے اپنے دفاعی تعلقات بہتر بنانے کے لیے تیسرے پارٹنر کو تلاش کرتا ہے اور پھر تینوں بہتر روابط اور ہم آہنگی کی طرف بڑھتے ہیں۔
بحر ہند کے خطے میں اثر و رسوخ
بھارتی قیادت نے بحر ہند کے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع تر کرنے پر بھی خاص توجہ مرکوز کی ہے۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے دنیا بھر میں بحری راستوں سے تجارت چار گنا ہوچکی ہے۔ اور تجارتی مال کا بڑا حصہ بحرہند کے مختلف راستوں سے گزرتا ہے۔ توانائی کے شعبے کو اس حوالے سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ دنیا بھر کے لیے تیل اور گیس کی ۴۰ فیصد آمدورفت بحر ہند سے گزرتی ہیں۔ ماہی گیری میں بحر ہند کا حصہ ۱۵ فیصد ہے۔ بحر ہند کا خطہ دیگر امور کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ یہ عظیم سمندر کم و بیش دو ارب نفوس کا گھر ہے۔
بھارت کی ساحلی پٹی کم و بیش ساڑھے سات ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔ بھارت کے لیے بحر ہند کا پورا خطہ بہت اہم ہے۔ بھارتی قیادت بحر ہند کے خطے کو غیر معمولی اہمیت دے رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۵ء میں ماریشس میں کہا تھا کہ بھارت بحر ہند کے خطے میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ نئے پارٹنرز بھی تلاش کر رہا ہے تاکہ نئے دفاعی اتحاد تشکیل دیے جاسکیں۔
بھارت نے بحر ہند میں تجارتی جہاز رانی کو فروغ دینے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ تجارتی شپنگ کا گراف بلند ہونے پر عسکری سطح کی جہاز رانی بھی زور پکڑ رہی ہے۔ بھارت نے دفاعی تعلقات بہتر بنانے کے لیے بحر ہند کے خطے کو اہم ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارت نے سری لنکا، ماریشس، سیشلز، مالدیپ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔
بھارت نے بحر ہند کے خطے میں ساحلوں کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کو ترقی دینا اس حوالے سے ایک روشن مثال ہے۔ بھارت دیگر ممالک کے ساتھ بھی ایسی ہی پارٹنرشپ قائم کرنے پر خاص توجہ دے رہا ہے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے باعث چاہ بہار کی بندر گاہ کے منصوبے کو بھارت کے لیے زیادہ کامیاب تو قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم اس نے اپنے آپ کو منوانے میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔ اب ایران نے بڑی طاقتوں سے جوہری معاہدہ کرکے پابندیاں نرم کروالی ہیں مگر بھارت کے لیے اب بھی مشکلات اور حدود برقرار ہیں۔ دی انڈین اوشن رم ایسوسی ایشن اور انڈین اوشن نیول سمپوزیم کی معرفت بھارت نے پورے بحری خطے میں اپنے لیے خاصی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہ دونوں بنیادی اقدامات بھارتی بحریہ نے کیے ہیں۔
بھارت نے بحر ہند کے خطے سے جڑے ہوئے ممالک کو ایک لڑی میں پرونے کی بھرپور کوششوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تنزانیہ اور تھائی لینڈ میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ دونوں بحر ہند سے جُڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کی وزارتِ امور خارجہ میں اب دی انڈین اوشن انٹیگریشن ڈیسک قائم کردی گئی ہے۔ اس ڈیسک کا بنیادی مقصد اِس امر کا جائزہ لینا ہے کہ بحر ہند کے کنارے واقع ممالک کو ایک لڑی میں کس طور پرویا جاسکتا ہے۔ بحر ہند کے خطے کے ممالک کو ایک لڑی میں پرونے کا تصور بھارت کی سربراہی میں ۲۰۱۶ء میں سنگاپور میں منعقدہ کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔
چین سے نئے تعلقات کی تشکیل
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع سات عشروں سے چلا آرہا ہے۔ ۱۹۶۲ء میں اس حوالے سے دونوں کے درمیان جنگ بھی ہوئی تھی۔ بھارت نے اکیسویں صدی میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور اسٹریٹجک وقعت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اُس سے اپنے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ بھارتی قیادت کی کوشش ہے کہ ایشیا کو اکنامک انجن میں تبدیل کرنے کی چینی کوششوں سے جہاں تک ممکن ہو، فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ بہت سے اختلافات کو ایک طرف ہٹاکر تعلقات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ بھارتی قیادت چین کے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے ہاں خوش آمدید کہنے میں اب کچھ زیادہ قباحت محسوس نہیں کرتی۔ بہت سے اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات نے نئی شکل اختیار کی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو بہت حد تک قبول کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ چینی سرمایہ کار جس طرح دنیا بھر میں سرمایہ لگا رہے ہیں، بھارتی اداروں میں بھی لگائیں۔ بھارت میں چینیوں کی براہِ راست سرمایہ کاری کئی برسوں میں کئی گنا ہوچکی ہے۔ بھارت نے یہ طے کرلیا ہے کہ تمام اختلافات کو ایک طرف ہٹاکر چین سے تجارت اور مالیات کے معاملات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینی ہے۔ چین بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارتی افرادی قوت غیر معمولی مہارت کی حامل بھی ہے۔ ایسے میں اس کے لیے بھارت کو امکانات کے ایک خزانے کی حیثیت سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
BRICS، AIIB اور SCO میں چین کے بعد بھارت سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ چند ایک معاملات میں اختلافات اب تک برقرار ہیں۔ بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں انٹری چاہتا ہے مگر چین اُس کی انٹری ہونے ہی نہیں دے رہا۔ سائبر گورننس بھی ایک اہم اشو ہے۔ علاقائی سطح کے تنازعات اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے بعض حصوں کے مسائل نے بھارت اور چین کے تعلقات کو مکمل ہم آہنگی اور خوشگوار تاثر کی منزل تک پہنچنے سے روک رکھا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے جس Chinse Dream کی بات کی ہے اُس میں بھارت کی دلچسپی بھی نمایاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اُس میں کسی اور کو اور خاص طور پر بھارت کو کس حد تک شریک کرنا پسند کرے گا؟ چین معیشت کے میدان میں جو کچھ بھی حاصل کرنے کا خواہش مند ہے اور اس حوالے سے عمل بھی کر رہا ہے اُس میں سے بھارت بھی اپنی مرضی کے امکانات کشید کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ تصور کو بھارتی قیادت اب تک پوری طرح ہضم نہیں کر پائی ہے مگر وہ اِس کی طرف دیکھ بھی رہی ہے کیونکہ جب پورے خطے میں بھرپور معاشی عمل شروع ہوگا تو اس کا فائدہ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ، فطری طور پر، بھارت کو بھی پہنچے گا۔ اس حوالے سے بھارت کے چند ایک تحفظات بھی ہیں، بالخصوص چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے۔ دوسری طرف بھارت بحری شاہراہِ ریشم کو بھی شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
بھارتی قیادت نے چین اور امریکا کے تیزی سے پنپتے ہوئے تعلقات کو بھی کسی بھی مرحلے میں نظر انداز نہیں کیا۔ امریکا تیزی سے کمزور ہوتی ہوئی سپر پاور ہے۔ چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ایسے میں چین چاہتا ہے کہ امریکا کی کم ہوتی ہوئی قوت سے بھی کچھ نہ کچھ کشید کرے۔ امریکا کو بھی چین کی ضرورت ہے تاکہ اس کی معیشت اچانک ڈھلوان پر نہ آجائے۔ بھارت کے لیے امریکا اور چین کے فروغ پاتے ہوئے تعلقات پریشانی کا باعث ہیں۔ اگر امریکا نے چین کی طرف جھکنا قبول کرلیا تو بھارت کے لیے بہت مشکل صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔
جنوب مشرقی ایشیا سے بہتر طور پر جُڑنا
تیزی سے بدلتے ہوئے ایشیائی منظرنامے میں بھارت نے جنوب مشرقی ایشیا کو کسی بھی سطح پر اور کسی بھی مرحلے میں نظر انداز نہیں کیا۔ آسیان اور دوسرے کسی بھی علاقائی فورم پر بھارت اس خطے کے ممالک کو نظر انداز نہیں کر رہا۔ وہ آسیان کے پلیٹ فارم سے تھائی لینڈ، میانمار، ویت نام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک سے بہتر روابط کا خواہش مند ہے تاکہ نئے، ابھرتے ہوئے معاشی امکانات سے بہتر طور پر مستفید ہوا جاسکے۔ بھارت نے خلیج بنگال کے خطے کو بھی تیزی سے فروغ دینے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ بنگلہ دیش سے سرحدی تنازع طے کرنے اور میانمار سے تعلقات بہتر بنانے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ میانمار بھارت سے سب سے زیادہ امداد پانے والا ملک بن گیا ہے۔ بھارتی قیادت نے خلیج بنگال کو معاشی اور ٹیکنالوجیکل سطح پر نمایاں حیثیت دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ یہ خطہ بھی معاشی اعتبار سے غیر اہم یا کمزور نہ رہے۔
خلیج بنگال سے کنٹینر ٹریفک میں تین سے چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ مگر خیر، یہ حقیقت اب بھی انتہائی حیرت انگیز اور قابل رشک ہے کہ بھارت کی تمام بندر گاہوں کی مجموعی کنٹینر ٹریفک سے تین گنا کنٹینر ٹریفک سنگاپور کی ہے۔
بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے مشرق کو اہمیت دینے کی پالیسی اپناتے ہوئے مغرب سے اپنا معاشی اور تکنیکی رشتہ پہلا سا نہ رکھنے کا اشارا دیا ہے۔ اکیسویں صدی مجموعی طور پر ایشیا کی ہوگی۔ چین جس انداز سے آگے بڑھ رہا ہے اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس طور دیگر خطوں کو بھی متاثر کرے گا۔ بھارت کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہے اور یہی سبب ہے کہ مشرق کی طرف دیکھنے اور اُسے ذہن نشین رکھتے ہوئے اقدامات کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور جاپان سے اور دوسری طرف آسٹریلیا، ویت نام، جنوبی کوریا، انڈونیشیا اور سنگاپور سے بہتر عسکری روابط استوار کرنے اور انہیں برقرار رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بھارت کو اس حوالے سے آسانیاں میسر ہیں۔ مشرق میں مرضی کے اور قابل پارٹنرز تلاش کرنا آسان کام نہیں۔ سکیورٹی کے معاملات کو بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ سب سے بڑا مسئلہ چین کے حوالے سے پالیسی کو درست و متوازن کرنے اور رکھنے کا ہے۔ چند ایک معاملات میں بھارت اب تک تحفظات کا شکار ہے اور اس حوالے سے اس کی پالیسیوں میں تذبذب بھی دکھائی دیتا ہے۔
(دھروو شنکر بھارت میں قائم بروکنگز انسٹیوٹ میں خارجہ پالیسی کے شعبے کے فیلو ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Actualising East: India in a Multipolar Asia”. (“isas.nus.edu.sg”. May 23, 2017)
Leave a Reply