
مشرق وسطیٰ میں جب سے تیل نکلا ہے، امریکا اور یورپ نے اُس پر سے توجہ ذرا بھی نہیں ہٹائی۔ امریکی اور برطانوی آئل کمپنیوں نے ہر دور میں اِس خِطّے سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا نے تو اِس خِطّے سے بھرپور فوائد بٹورنے کی منصوبہ بندی بہت پہلے کرلی تھی۔ خلیج کی جنگ ۱۹۹۰ء کے آخری دنوں میں ہوئی۔ مگر اِس سے بہت پہلے ۱۹۷۹ء میں امریکی پالیسی ساز اِس جنگ کا منصوبہ تیار کرچکے تھے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے خلیج میں کسی بھی وقت غیر معمولی تیزی سے کارروائی کے لیے ریپڈ ایکشن فورس بھی قائم کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ خلیج فارس میں تیل کے ذخائر کے حوالے سے دی جانے والی کسی بھی دھمکی کو پوری سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اُن کا اشارا واضح طور پر اُن حکمرانوں کی طرف تھا جو اپنے قومی مفادات کو ہر قیمت پر امریکی اور یورپی اثرات سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور اِس حوالے سے عملی سطح پر بہت کچھ کر دکھانا چاہتے تھے۔ ۱۹۷۳ء میں تیل کا بحران اِسی سوچ کا نتیجہ تھا۔ امریکا اور یورپ کے لیے تیل کی سپلائی روک کر عرب دنیا نے تیل کی طاقت کے درشن تو کرادیے تھے مگر پھر امریکا نے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خِطّوں سے مل کر عربوں کو دبوچنا شروع کیا۔ یہ سب کچھ عسکری سطح پر ہوا۔ خلیج کی جنگ اِس نئی کوشش کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
۱۹۸۰ء کے عشرے کی ابتدا میں ایران کو خِطّے میں امریکی مفادات کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ ایران کو کمزور کرنا امریکا کے لیے ناگزیر سا ہوگیا تھا۔ عراق کو ایران سے جنگ کے لیے تیار کیا گیا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر عراق کو مضبوط کیا۔ خِطّے کے ممالک نے بھی عراق کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کم و بیش آٹھ سال چلی۔ اِس دوران امریکا اور یورپ کی توجہ صرف اِس بات پر رہی کہ ایران اِس قدر کمزور ہوجائے کہ وہ امریکا یا کسی اور طاقتور ملک کو آنکھیں دکھانے کے قابل نہ رہے۔ امریکا اور اُس کے حلیفوں نے ایران سے جنگ میں عراق کا بھرپور ساتھ دیا۔ مصنوعی سیاروں کے ذریعے امریکا نے عراقی فوج کو کئی مواقع پر ایرانی فوج کی پیش قدمی اور تعیناتی کے حوالے سے بھی اہم معلومات فراہم کیں۔ اِن معلومات کی بُنیاد پر کارروائی کرکے عراقی فوج نے غیر معمولی فتوحات حاصل کیں۔ امریکا نے عراق کو ایرانی افواج کے خلاف استعمال کے لیے زہریلے کیمیکلز بھی دیئے۔ اِن کیمیکل سے بم بناکر ایرانی فوج پر داغے گئے۔
۱۹۸۷ء میں امریکا نے ایران عراق جنگ میں براہِ راست بھی حصہ لیا۔ وہ ایسے کہ امریکی جنگی جہاز بھیج کر عراق سے ملحق چھوٹے سے ملک کویت میں تیل کے ذخائر کا تحفظ یقینی بنایا۔ امریکی بحریہ نے جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے ایران کے تیل کے ذخائر اور لڑاکا کشتیوں کو تباہ کیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رکھا گیا۔ امریکی بحریہ کے جہازوں نے ایک ایرانی طیارے کو بھی مار گرایا جس کے نتیجے میں ۲۹۰ مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ڈِھٹائی، کم ظرفی اور بے حِسی کی انتہا یہ ہے کہ امریکا نے اِس گھناؤنے اقدام کی بھی یہ کہتے ہوئے توجیہ پیش کی کہ امریکی بحریہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی طیارے سے بم بھی برسائے جاسکتے تھے جبکہ سچ یہ ہے کہ مسافر طیارے سے flush-water کے سوا کچھ بھی برسایا نہیں جاسکتا تھا!
امریکا نے خلیج کی جنگ سے قبل ایران اور عراق کی جنگ کے دوران جو کچھ بھی کیا وہ ایک طرف تو ایران کے خلاف عراق کی بھرپور مدد کے لیے تھا اور دوسری طرف ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ امریکی فوجیوں کو خِطّے میں زیادہ سے زیادہ مدت تک تعینات رکھنے کی راہ ہموار ہو۔
ایران کی فوج بڑی اور منظّم تھی۔ اُسے ہرانے کے لیے عراق کی فوج کا بھی بڑا اور زیادہ طاقتور ہونا لازم تھا۔ امریکا نے عراق کو ایک بڑی فوج بنانے میں مدد دی۔ جب عراقی فوج نے ایران کو شکست دے دی تب یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوا کہ عراق اِتنی بڑی فوج کا کیا کرے گا۔ یہ سوال بہت اہم تھا کیونکہ عراقی فوج آگے چل کر خِطّے میں امریکی مفادات کے لیے زبردست خطرہ بن سکتی تھی۔
ایران سے عراق کی جنگ ختم ہوئی تو امریکا نے عراق کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ عراق کی بڑی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج امریکا کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ امریکی قیادت کو معلوم تھا کہ اگر اُس نے خِطّے میں اپنے مفادات کو وسعت دینے کے لیے کچھ ایسا ویسا کرنا چاہا تو عراق کی فوج راہ میں دیوار ثابت ہوسکتی ہے۔ خطے میں امریکا کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے عراق کو غیر مُسلّح کرنا ناگزیر ہوگیا۔
اب سوال یہ تھا کہ عراق کو کس طور گھیرا جائے۔ کوئی نہ کوئی جواز تو اِس معاملے میں بھی درکار تھا۔ امریکا چاہتا تھا کہ عراق کے خلاف بھرپور جنگی اقدام کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں عراقی قیادت کو کویت پر حملہ کرنے اور اُس پر قبضہ کرنے کی تحریک دی گئی۔ عراقی قیادت نے کویت کو اپنا علاقہ قرار دینے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب ایک طاقتور حلیف نے اُسے کویت پر حملے اور اُسے زیر تصرّف لانے کی تحریک دی تو اُس کی رال ٹپک پڑی۔
عراق نے کویت پر حملہ کیا تو دُنیا کو حیرت ہوئی۔ حیرت اِس لیے کہ عراق ابھی ابھی تو ایران سے جنگ کے بعد فارغ ہوا تھا اور اب پھر ایک اور تصادم کے گڑھے میں گرنے کو بے تاب تھا۔ اِس کا اندازہ کم ہی لوگوں کو ہوا ہوگا کہ کویت پر حملہ کرنے کی تحریک عراق کو امریکا نے دی ہوگی۔
امریکا نے مختلف ذرائع سے عراق کے صدر صدام حسین کو قائل کرلیا کہ کویت پر عراق کا حق تسلیم شدہ ہے اور اچھا ہے کہ اُس پر جلد از جلد تسلّط قائم کرلیا جائے۔ صدام حسین کچھ ہچکچا رہے تھے۔ اُنہوں نے بغداد میں امریکی سفیر گلیمپسی سے ملاقات کی۔ گلیمپسی نے صدام حسین کو یقین دلایا کہ کویت کے معاملے میں عراق کی جو بھی سوچ اور پالیسی ہے اُس سے امریکا کا کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ گویا ’’گرین سگنل‘‘ تھا۔ اِس ملاقات کے بعد صدام حسین نے کویت پر حملے کی تیاری شروع کردی۔
جب عراق کے عزائم ایک حد تک بے نقاب ہوئے تو امریکا، سعودی عرب اور کویت نے عراق پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ یہ پابندیاں عراق کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کویت پر لشکر کشی کردی۔
امریکا نے اِس لشکر کشی کو اپنے لیے سُنہرا موقع سمجھتے ہوئے ایک بڑی جنگ کی تیاری شروع کردی۔ جب عراق نے خِطّے میں امن کے لیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تو امریکا نے پیشکش ٹھکرادی۔ عراق نے جب معاملات کو تیزی سے بگڑتے دیکھا تو وسیع تر امن سمجھوتے کے لیے کویت سے فوج واپس بلانے کا اشارا دے دیا۔ یہ گویا اِس امر کا اعلان تھا کہ خِطّے میں کسی اور جنگ کی گنجائش نہیں مگر امریکا کو یہ سب قبول نہ تھا۔ وہ تو پہلے ہی جنگ کی تیاری کر بیٹھا تھا۔ اگر جنگ نہ ہوتی تو اُس کی ساری محنت بے کار جاتی۔ دسمبر ۱۹۹۰ء میں امریکی صدر جارج ہربرٹ بُش نے کہا کہ اِس بار عراقی صدر کو ایک اچھا سبق سیکھنے کو ملے گا۔ یہ الفاظ سُن کر صدام حسین کے ہوش ٹھکانے پر آگئے مگر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب مصالحت اور امن کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ امریکا نے خطے کے لیے ایک اور جنگ کو لازم و ملزوم قرار دے دیا تھا۔
صدر جارج ہربرٹ بُش کو معلوم تھا کہ کویت پر عراقی لشکر کشی سے شروع ہونے والا قضیہ مذاکرات کے ذریعے آسانی سے نمٹایا جاسکتا تھا۔ مگر وہ ایسا کیوں کرتے؟ امریکی پالیسی میکرز نے تو کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ وہ تو خِطّے میں امریکی اثرات کا دائرہ مزید وسیع دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ اُسی وقت ممکن تھا جب امریکا کسی کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کا احترام نہ کرے اور مصالحت کی ہر کوشش کو یکسر ناکام بنادے۔ صدام حسین نے مصالحت کی سَر توڑ کوشش کی مگر امریکی عزائم کے آگے اُن کی ایک نہ چلی۔
جارج بُش سینئر چاہتے تھے کہ جلد از جلد نتائج سامنے آجائیں یعنی کوئی ایسی فتح نصیب ہو جو بھرپور بھی ہو اور فوری بھی۔ وہ دُنیا کو دِکھانا چاہتے تھے کہ امریکا کسی بھی خِطّے کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی بھرپور صلاحیت ہی نہیں سَکت بھی رکھتا ہے۔ امریکا نے عراق پر بھرپور بمباری کی تیاری کر رکھی تھی۔ وہ ایران پر فتح پانے والے ملک کو بے مثال بمباری کے ذریعے پتھروں کے زمانے میں پہنچانا چاہتا تھا۔
مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے نکالنا خِطّے کے ممالک کے ساتھ چند بیرونی قوتوں کی بھی خواہش تھی مگر امریکی ہٹھ دھرمی کے سامنے کسی کی ایک نہ چلی۔ امریکا نے سب پر واضح کردیا کہ سب سے زیادہ طاقت اُس کے پاس ہے اِس لیے اُس کی بات مانی جائے۔ اب وہی نمبر ایک ہے اِس لیے کسی کی کوئی بات نہیں سُنے گا۔ امریکی قیادت نے صاف کہہ دیا کہ اب وہی ہوگا جو وہ کہے گی۔ جارج بُش سینئر برملا کہتے تھے کہ امریکا نمبر ایک ہے، اِس حقیقت کو جو نہیں مانے گا وہ خسارے میں رہے گا۔
کویت پر عراقی لشکر کشی سے اُبھرنے والی صورتحال کو بہانہ بناکر امریکا نے تاریخ کی ایک انتہائی خطرناک جنگ چھیڑی۔ خلیج کی جنگ میں امریکا نے عراق کو نشانہ بناتے ہوئے جسم کے ٹکڑے کرنے والے کلسٹر بم، کھال سے چپک جانے والے نیپام اور فاسفورس بم بھی برسائے۔ ساتھ ہی امریکا نے بہت چھوٹے سے جوہری بم اور یورینیم والے بم بھی استعمال کیے۔ اِن بموں کی زد میں آنے والے عراقی باشندے اور امریکی فوجی آج بھی سرطان میں مبتلا ہیں۔ امریکی بمباری کی زد میں آکر زخمی ہونے والی خواتین کے ہاں آج بھی معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
امریکیوں نے عراق پر بلاجواز بمباری جاری رکھی۔ عراقی فوج کے غیر موثر ہو جانے کے بعد بھی عراق کے دارالحکومت بغداد اور دوسرے بڑے شہر بصرہ پر بمباری جاری رکھی گئی۔ لاکھوں عراقی باشندے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اِن میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ بچوں کی بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بھی حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے تصدیق کی کہ عراق پر جو اقتصادی اور سفری پابندیاں عائد کی گئیں اُن کے نتیجے میں خوراک اور ادویہ کی قِلّت سے کم و بیش پانچ لاکھ بچے جان سے گئے۔ غذائی قِلّت کے باعث لاکھوں بچوں کا جسم بہتر انداز سے پروان نہ چڑھ سکا اور اُن میں بہت سی بیماریاں اور کمزوریاں باقی رہ گئیں۔
کویت سے عراقی فوج کے نکلنے کی راہیں مسدود کردی گئیں۔ بہت سے مقامات پر گھر واپس جانے والے عراقی فوجیوں کو ٹینکوں اور بلڈوزروں کے ذریعے کھائیوں میں گِرا کر ہلاک کردیا گیا۔ امریکا نے خلیج کی جنگ میں سب سے زیادہ توجہ اِس بات پر دی کہ عراق کی دفاعی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہوجائے۔
جب عراق کے بڑے شہروں پر بمباری کی جارہی تھی تب امریکی صدر جارج بُش سینئر نے کہا۔ ’’کبھی کبھی کسی ملک پر ایسی گھڑی بھی آجاتی ہے جب اُسے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، کیا کرسکتا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے اور وہ سب کچھ کیوں کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ ہمارا کن کن باتوں اور تصوّرات پر غیر متزلزل یقین ہے‘‘۔
محتاط اندازوں کی روشنی میں کیے جانے والے دعوؤں کے مطابق بھی عراق کی جنگ میں کم و بیش ڈیڑھ نفوس جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراق میں بنیادی ڈھانچا ہی ختم کردیا گیا۔ لوگوں کے لیے بنیادی سہولتوں کا حصول بھی انتہائی دشوار بنادیا گیا تاکہ وہ معیاری زندگی بسر نہ کرسکیں۔ خلیج کی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی عراقی عوام کی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے؟ اُن کے لیے مستقل نوعیت کی پریشانیاں پیدا کرنے کا تہیّہ جو کرلیا گیا تھا۔ پینے کے صاف پانی کا حصول بھی انتہائی دشوار بنادیا گیا۔ امریکی بمباری سے ملک بھر میں پانی کے ذخائر زہر آلود ہوگئے۔ یہ زہریلا پانی پینے سے لاکھوں افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکا اور دیگر ممالک نے عراق پر جو پابندیاں عائد کیں اُن سے عراقی معیشت اور معاشرت تباہ ہوگئیں۔ بہت سے مواقع پر خوراک اور ادویہ کی قِلّت پوری شِدّت سے حملہ آور ہوئی۔ یہ ایسا ظلم تھا جس پر عالمی برادری نے زیادہ یا خاطر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ عراقیوں کے ڈھنگ سے جینا انتہائی دشوار، بلکہ تقریباً ناممکن ہوگیا۔
امریکا اب بھی عراق پر بم برسا رہا ہے۔ مقصد؟ صرف یہ کہ عراقیوں کو جو سبق سکھایا گیا تھا وہ یاد رہے اور وہ آئندہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کریں جس کا مقصد خِطّے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا ہو۔ صدام حسین نے جو کچھ کیا اُس کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑی۔
امریکا اور یورپ میں بہت سے لوگوں نے خلیج کی جنگ میں امریکا کی فتح کا جشن منایا۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ جنگ واقعی ویسی ہی تھی جیسی دکھائی دے رہی تھی۔ اُن کی نظر حقیقت تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ جو کچھ امریکی پروپیگنڈا مشینری نے بتایا اور دِکھایا وہی کچھ اُنہوں نے سُنا اور دیکھا۔ مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے امریکا اور یورپ نے دُنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکی۔
سوال یہ ہے کہ خلیج کی جنگ میں جیت کِس کی ہوئی؟ صدام حسین کی ہار اور اِس شکست کا خمیازہ عراقی عوام کو بھگتنا پڑا۔ امریکی فوج اپنے سے کہیں چھوٹی اور کمزور فوج کے خلاف فتح سے ہمکنار ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیج کی جنگ میں فتح تو امریکی آئل کمپنیوں کو حاصل ہوئی۔ وہ عراق اور اُس کے بیشتر پڑوسیوں کے تیل کے ذخائر پر پوری طرح متصرّف ہوگیا۔ امریکی آئل کمپنیوں نے خلیج کی جنگ کے چھڑتے ہی بلندی پر پہنچنے والی تیل کی قیمتوں کا خوب فائدہ اٹھایا۔ تیل کی منڈی بھی سَٹّے بازی کے اُصول پر کام کرتی ہے۔ تیل کی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایسی گنگا کی شکل اختیار کی جس میں تمام امریکی آئل کمپنیز نے جی بھر کے اشنان کیا۔ ایکسان کا منافع ۷۵ فیصد، ایمیکو کا منافع ۶۹ فیصد، ما موبل کا منافع ۴۶ فیصد، ٹیکسیکو کا منافع ۲۶ فیصد اور شیوران کا منافع ۲۶ فیصد بڑھ گیا۔
خلیج کی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ مزید بڑھ گیا۔ امریکی آئل کمپنیوں اور سعودی عرب، کویت اور خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے درمیان کچھ عرصے تک گاڑھی چھنتی رہی۔ اِس بہتی گنگا میں سبھی مقدور بھر اشنان کر رہے تھے۔ خلیج کی جنگ نے پوری دنیا میں تیل کی منڈی کو متزلزل کردیا تھا۔ کئی خِطّے شدید کساد بازاری کی لپیٹ میں آگئے۔ اُن کے لیے اپنی ترقی اور استحکام کو برقرار رکھنا ممکن ہی نہ رہا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بلند رہی جس کا بھرپور فائدہ آئل کمپنیز اور خلیجی ریاستوں کے حکمراں خاندانوں نے اُٹھایا۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر سوال یہ ہے کہ عرب عوام کو کیا ملا؟ چند ایک ممالک میں ایک مخصوص طبقے کے سِوا عرب دنیا میں بیشتر افراد کی حالت بُری ہی رہی اور معاشی پریشانیوں کی چَکّی میں پِستے ہی رہے۔ خلیج کی جنگ نے سعودی عرب، کویت، قطر اور دیگر عرب و خلیجی ریاستوں کے دروازے امریکی فوج پر کھول دیئے۔ سعودی عرب میں عوامی سطح پر بھرپور مخالفت کے باوجود امریکی فوج تعینات ہے۔
خلیج کی جنگ سے صرف آئل کمپنیز اور عرب دنیا کے شاہی خاندانوں ہی نے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ مغربی دنیا کے بڑے بینک بھی خوب مستفید ہوئے۔ کئی بڑے بینکوں کی تو امریکی آئل کمپنیز اور عرب حکمرانوں خاندانوں سے شراکت بھی تھی۔ ایسے میں اُن کے کاروبار کا خوب چمکنا حیرت انگیز نہ تھا۔ سعودی عرب، کویت، قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں نے حکمراں خاندانوں نے تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے جو فائدہ بٹورا وہ خِطّے کے کام نہ آیا۔ اُنہوں نے پورے خِطّے کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کے بجائے اپنی یہ بالائی آمدنی امریکی و یورپی بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دی۔ اِس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ ساری کمائی مغربی دُنیا ہی کے کام آتی رہی۔ امریکا، یورپ اور جاپان کے بڑے بینکوں (سٹی بینک، جے پی مورگن وغیرہ) میں خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے ۲؍ہزار ارب ڈالر سے زائد جمع ہیں۔ جب معاملہ مفادات کا ہو تو یہ تمام مسلم ممالک امریکا کی بنائی ہوئی ڈگر سے ہٹ کر چلنا کیسے گوارا کریں اور وہ کیوں یہ چاہیں کہ امریکا کمزور ہو یا اُسے بھی کوئی سبق سِکھانے والا آئے؟ اگر امریکا کمزور ہوگا تو اُن کی اپنی بچتیں بھی کمزور پڑ جائیں گی۔ دوسری طرف امریکا اور یورپ کو بھی اندازہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دولت سے ان کا مالیاتی نظام چل رہا ہے لہٰذا لازم ہے کہ خِطّے کے تمام حکمراں خاندانوں اور اُن کے مفادات کا بھرپور تحفظ یقینی بنایا جائے۔
اور ہاں، ہم تو بھول ہی گئے۔ ٹھیکیدار بھی تو ہیں۔ مستقل جاری رہنے والی جنگوں سے ٹھیکیداروں کا بھی تو مفاد وابستہ ہے۔ خلیج کی جنگ نے پورے خِطّے کو ہلاکر رکھ دیا۔ عراق اور کویت میں تعمیر نو کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ امریکا نے پہلے عراق سے کویت میں تباہی کی راہ ہموار کی اور پھر خود عراق کو نشانہ بنا ڈالا۔ اِن دونوں ممالک کی تعمیر نو کا مسئلہ کھڑا ہوا تو ابتدائی مرحلے میں ۱۰۰؍ ڈالر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختص کردیئے گئے۔ یہ چونکہ بہت بڑا معاملہ تھا اِس لیے امریکا کی بڑی تعمیراتی کمپنیاں اور اُن سے وابستہ دیگر چھوٹے ادارے اور ٹھیکیدار زیادہ سے زیادہ ٹھیکوں کے حصول کی دوڑ میں شریک ہوگئے۔
دُنیا بھر میں تعمیراتی کمپنیوں کے معاملات بہت عجیب ہوتے ہیں۔ کسی بھی بڑی خرابی کی صورت میں یہ کمپنیاں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد کا حصول یقینی بنانے کی خاطر مختلف ہتھکنڈے اپناتی ہیں۔ کوئی نہ مانتا ہو تو رشوت دی جاتی ہے۔ اگر کوئی رشوت سے نہ مان رہا ہو تو دھونس دھمکی سے اُلّو سیدھا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا کرنے سے بھی دال نہ گلے تو پھر بڑی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو اِس معاملے میں گھسیٹا جاتا ہے۔ معاملہ سیکڑوں اور ہزاروں ارب ڈالر کا ہوتا ہے اِس لیے کرپشن اور گڑبڑ اُتنے ہی بڑے پیمانے کی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں تعمیراتی کمپنیاں اِنہی اطوار کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ زلزلوں، طوفانوں اور آتشزدگی وغیرہ سے بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے مگر تعمیر نو کا اصل دھندا تو جنگوں کا مرہونِ منت ہے۔ جب بھی کوئی ملک یا خِطّہ جنگ کی زد میں آتا ہے تب بڑے پیمانے پر تباہی واقع ہوتی ہے اور پھر اُتنے ہی بڑے پیمانے پر تعمیر نو کا دھندا بھی چلتا ہے۔ یُوں تعمیر نو کے نام پر بدعنوانی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ اِس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی جنگ بلا جواز نہیں ہوا کرتی۔ دوسرے بہت سے مقاصد کے ساتھ ساتھ جنگ سے تعمیر نو کے شعبے کو نئی زندگی بخشنے کا مقصد بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ دو عالمی جنگوں کے بعد یہی ہوا تھا۔ اور خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد تو تعمیر نو کا شعبہ ’’فل سوئنگ‘‘ میں آگیا تھا۔
Leave a Reply