امریکا اور یورپ میں کئی شعبے ایسے ہیں جن کی ترقی کا مدار ہی اِس بات پر ہے کہ کسی نہ کسی خِطّے میں کوئی نہ کوئی جنگ چلتی رہے۔ جب تک جنگ چلتی رہتی ہے، کئی صنعتیں فروغ پاتی رہتی ہیں۔ امریکا میں بوئنگ، جنرل الیکٹرک اور جنرل ڈائنامکس جیسے کئی ادارے جنگ کی ’’صنعت‘‘ سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ادارے جنگی ساز و سامان بڑے پیمانے پر تیار کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے اِن اداروں میں تحقیق و ترقی کے شعبے اعلیٰ سطح پر کام کر رہے ہیں یعنی جنگی ساز و سامان اعلیٰ معیار کا تیار کیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج تیزی سے حاصل کیے جاسکیں۔ پہلے ایران عراق جنگ اور اس کے بعد خلیج کی جنگ کے نتیجے میں دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والے امریکی اداروں کا منافع اِس قدر بڑھ گیا کہ اِن اداروں کے مالکان بوکھلاگئے۔ اُنہوں نے تو کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا کہ ایک دِن اُن کے منافع میں راتوں رات کئی گُنا اِضافہ ہوجائے گا۔
جنگ کی صنعت سے جُڑے رہنے کی بدولت ہی بہت سے امریکی اداروں کا منافع کئی گُنا ہوچکا ہے۔ امریکا نے اپنی ’’وار مشین‘‘ کو آرام نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ کسی نہ کسی خطے یا ملک کو نشانے پر رکھنا اب امریکی معیشت کی بنیادی کمزوریوں میں سے ہے۔ اگر امریکی قیادت آج جنگ و جدل کو اولین ترجیحات کی فہرست سے نکال دے تو امریکی معیشت راتوں رات انتہائی ڈانوا ڈول ہوجائے گی۔ بہت سے امریکی ادارے اسلحہ اور گولہ بارود بنانے کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل میں کام آنے والی دیگر اشیا بھی تیار کرتے ہیں۔ جنگ کے ماحول میں جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اُن کی فراہمی کے لیے کئی ادارے رات دن کام کرتے رہتے ہیں۔
خلیج کی جنگ میں امریکا نے جدید ترین ہتھیار استعمال کیے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے جانے والے جنگی ساز و سامان کی مدد سے امریکی فوج نے بہت سے مقاصد انتہائی تیزی سے حاصل کیے جس کے نتیجے میں اِن ہتھیاروں اور اُن کی ٹیکنالوجی میں اُن ممالک کی دلچسپی بڑھی جو اپنی دفاعی استعداد میں غیر معمولی اضافے کے لیے جدید ترین ہتھیار بہت بڑے پیمانے پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ خلیج فارس کے خطے میں سعودی عرب، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر متمول ممالک نے عراق کا حشر دیکھا تو اپنی دفاعی استعداد بڑھانے پر خاص توجہ مرکوز کی۔ امریکا اور یورپ کے اسلحہ ساز ادارے یہی تو چاہتے تھے۔ خلیجی جنگ میں جدید ترین ہتھیار بروئے کار لاکر عراق کو تباہ کیا گیا تاکہ دفاعی صلاحیت بڑھانے والے ممالک زیادہ سے زیادہ ساز و سامان کے آرڈر دیں۔ اور یہی ہوا۔ عراق میں کیے جانے والے ’’ڈیمو‘‘ سے سب کو امریکا اور یورپ کے اسلحہ ساز اداروں کی جدید ترین اختراعات کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ امریکا اور یورپ کے اسلحہ ساز اور دفاع سے متعلق دیگر سامان تیار کرنے والے اداروں کی تو چاندی ہوگئی۔ دنیا بھر میں مطلق العنان حکومتیں زیادہ سے زیادہ اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں شریک ہوگئیں۔ ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت سے بڑھ کر کامیاب اور منافع بخش دھندا کوئی نہیں۔
۱۹۸۹ء میں امریکی ہتھیاروں کی مجموعی فروخت ۸؍ ارب ڈالر تھی جو ۱۹۹۰ء میں ۴۰؍ ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ امریکا دنیا بھر میں اسلحے کا سب سے بڑا بیوپاری بن گیا۔ امریکی حکومت نے لڑاکا طیارے بنانے والے ادارے لاک ہیڈ مارٹن کو مالیاتی و تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قرضے دینا بھی شروع کیا تاکہ وہ اپنا مال غریب اور پسماندہ ممالک کو فروخت کرسکے۔
جب امریکی اداروں نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کیں تو دنیا نے عجیب تماشے دیکھے۔
کئی پس ماندہ ممالک میں مطلق العنان حکمران ہیں، جو ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں۔ وہ کسی بھی حال میں بہبودِ عامہ کو اولیت نہیں دیتے بلکہ اپنی مرضی ہی کو ریاست کا مفاد قرار دیتے ہیں۔ ہتھیار، لڑاکا طیارے اور دوسرا جنگی ساز و سامان تیار کرنے والے امریکی اداروں کو اِس بات سے تو ظاہر ہے کچھ بھی غرض نہ تھی کہ اُن سے اسلحہ خریدنے کی صورت میں کسی بھی ملک کا کیا حشر اور انجام ہوگا۔ تیسری دنیا کے ایسے کئی ممالک نے امریکی اداروں سے پیٹ بھر اسلحہ اور لڑاکا طیارے خریدے، جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ پیٹ بھر خوراک۔ ایشیا اور افریقا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں اب تک عوام کو تمام بنیادی سہولتیں تسلیم شدہ کم از کم سطح پر بھی میسر نہیں۔ جہاں لوگوں کو کئی میل پیدل جاکر پینے کا صاف پانی لانا پڑتا ہے، وہاں اسلحے کے انبار لگائے گئے۔ جب بہبودِ عامہ کسی بھی صورت میں نمایاں ترجیحات کا حصہ ہی نہ ہو وہاں ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔
امریکی پالیسیوں میں یہ بھی نکتہ نمایاں رہا ہے کہ جس ملک کو امداد یا قرضہ دیا جارہا ہے وہ دی ہوئی رقم سے کوئی بھی تعمیری کام نہ کرے۔ پوری کوشش ہوتی ہے کہ امداد یا قرضہ لینے والا ملک پوری کی پوری رقم کسی ایسی مد میں خرچ کرے جس سے معاشرے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں خاطر خواہ مدد نہ ملے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا کی طرف سے دی جانے والی امداد کو خرچ کرنے کا طریق کار بھی ساتھ آتا ہے۔
خلیج میں جب جنگ جاری تھی تب امریکا اور یورپ میں بہت سے دانشور اور تجزیہ کار اِس بات پر زور دیتے رہے کہ تباہی کا سلسلہ روکا جائے اور خِطّے کو خطرناک حد تک عدم استحکام سے دوچار کرنے سے گریز کیا جائے۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ امریکا اور یورپ میں بھی جنگ کے مخالفین کا خلیج کی جنگ کے خلاف بولتے رہنا صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ جب تک جنگ جاری رکھنا ضروری سمجھا گیا، جنگ جاری رکھی گئی۔ جب امریکی قیادت نے محسوس کیا کہ خلیج کی جنگ سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں تو جنگ کی بساط لپیٹی گئی۔ ہاں، اِس امر کو یقینی بنالیا گیا کہ خِطّے میں امریکی فوج اب بڑے پیمانے پر اور تادیر رہے گی۔ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ جنگ غیر معمولی طُول پکڑے اور معاملات خرابی کی طرف چلے جائیں۔ ایسا ہوتا تو امریکی فوج پر دباؤ بڑھتا۔ اُسے آرام دینا بھی لازم تھا۔ فروری ۱۹۹۱ء میں امریکی وزیر داخلہ جیمز بیکر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ خلیج فارس کے خِطّے میں ہتھیاروں کی دوڑ روکی جائے اور فوجی ساز و سامان کی فراہمی میں کمی لائی جائے۔ مگر ایسی کسی بھی بات پر بھروسہ کیا جائے؟ امریکی قیادت تو بارہا اِس طرح کے بیانات سے دُنیا کو دھوکا دے چکی ہے۔ امریکی سیاسی قیادت ایک طرف تو امن کا راگ الاپ رہی تھی اور دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع اسرائیل، خلیجی ریاستوں، مصر اور ترکی کو لڑاکا جہاز، ہیلی کاپٹر، ٹینک اور کلسٹر بم فروخت کرنے میں مصروف تھا۔
یہ زمانہ امریکا کے لیے ہر طرف سے مزے لُوٹنے کا تھا۔ امریکی اسلحہ ساز اور لڑاکا ایئر کرافٹس بنانے والے اداروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سَر کڑھائی میں۔ بہت چھوٹی سی مدت میں ۱۰۰سے زائد ایف سولہ طیارے فروخت کردیے گئے۔ ان کے ساتھ ایک ہزار نیپام بم مفت تھے۔ خلیج کی جنگ کے دوران امریکا نے اپنے جدید ترین ہتھیاروں اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس طیارے اور بم استعمال کرکے خریداروں کے لیے آسانی پیدا کردی تھی۔
خلیج کی جنگ کے طفیل امریکی کارپوریشنز نے خطیر منافع کمایا۔ جنگ ختم ہوجانے پر اِن کارپوریشنز نے ملک بھر میں فاتحانہ مارچ کا اہتمام کیا۔ اِس اقدام پر دُنیا کو حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا تو ہر دور میں ہوا ہے۔ امریکا نے کمزوروں پر وار کرکے فتح یقینی بنانے پر توجہ دی ہے۔ خلیج کی جنگ میں امریکی فوج کا جانی نقصان تو کم ہوا تاہم زخمیوں کی تعداد خاصی تھی۔ اور خاص طور پر ایسے زخمیوں کی جو مختلف پُراسرار عوارض میں مُبتلا ہوئے۔ امریکی کاروباری اداروں نے خلیج کے خِطّے سے واپس آنے والے فوجیوں کو کُھل کر نوازا کیونکہ اُنہی کی کاوشوں سے اسلحے کی تجارت چمکی اور لوگوں نے راتوں رات تجوریاں بھرلیں۔
کوسوو، ۱۹۹۹ء
البانیا کے عوام نے عشروں تک سَربوں کے مظالم سہے۔ ۱۹۹۰ء میں البانیا کے باغیوں نے سابق یوگو سلاویہ سے الگ ہونے کی جدوجہد شروع کی۔ عام طور پر امریکا اقلیتوں کا زیادہ ساتھ نہیں دیتا اور کچھ بھی کرنے سے پہلے سب کچھ معلوم کرلیتا ہے۔ جو امریکا عراقی و ایرانی حکومت کے خلاف کرد باغیوں کا ساتھ دیتا ہے وہی امریکا اپنے حلیف ترکی کی حدود میں کرد باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں ترک فوج کی بھرپور مدد بھی کرتا ہے! ترکی کو امریکا ہتھیاروں کے علاوہ جنگی ساز و سامان بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ امریکی معاونت سے ترک فوج نے ہزاروں کرد باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
امریکی قیادت یہ راگ بھی الاپتی ہے کہ وہ جدوجہدِ آزادی سے جُڑے ہوئے افراد کی مدد کرتی ہے اور دہشت گردوں کو کچلتی ہے تاہم عملی دنیا میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ کچھ اور ہے۔ یعنی یہ کہ کون دہشت گرد ہے اور کون جنگِ آزادی کا سپاہی، اِس کا فیصلہ بھی امریکا ہی کو کرنا ہے!
سربیا کے لیڈر سلوبودان میلوسووچ نے یورپ کے حوالے سے امریکا کا ساتھ نہیں دیا، جس پر امریکا نے مشتعل ہوکر سابق یوگو سلاویہ کو تقسیم کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ سابق یوگو سلاویہ میں البانوی نسل کے مسلمانوں اور سربوں کے درمیان لڑائی تھی۔ اِس چھوٹی سی لڑائی کو امریکا کے بم برسانے کے پروگرام نے ایک بڑے مناقشے میں تبدیل کردیا۔ جب نیٹو نے بمباری شروع کی تو سربوں نے البانوی نسل کے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا۔ اور لاکھوں افراد کو آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بعد میں جب مسلمانوں نے نیٹو کی چھتری تلے اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کا موقع حاصل کیا تو انہوں نے سربوں اور خانہ بدوشوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ دونوں صورتوں میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ اس کے نتیجے میں نسلی منافرت مزید شدت اختیار کرگئی۔ اگر امریکا نے اِس معاملے میں تھوڑے سے احساس سے کام لیا ہوتا تو بات نہ بگڑتی اور وہ خرابیاں پیدا نہ ہوئی ہوتیں، جو بعد میں اُبھر کر سامنے آئیں۔
Leave a Reply