
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں قیامت کا سا سماں پیدا ہوگیا۔ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز سے طیارے ٹکرائے اور دونوں ٹاورز زمیں بوس ہوگئے۔ دوسری طرف دارالحکومت واشنگٹن میں محکمہ دفاع کی عمارت پنٹاگون سے بھی ایک طیارہ ٹکرایا۔ یہ دونوں واقعات اتنے ہولناک تھے کہ ایک عام امریکی کو تو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ امریکا میں سیکورٹی کا جو نظام کام کر رہا ہے وہ اس قدر جدید اور جامع ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
جو کچھ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء (نائن الیون) کو ہوا وہ غیر معمولی حد تک دور رس نتائج کا حامل تھا۔ امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بہت کچھ تبدیل ہوکر رہ گیا۔ اس ایک واقعے کی بنیاد پر امریکا میں داخلی سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کا خیال ابھرا جس کی کوکھ سے ان سرکاری اقدامات نے جنم لیا جن کے باعث شہری آزادیاں بہت حد تک محدود، بلکہ مصلوب ہوکر رہ گئیں۔ ایک عام امریکی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دن بھی آئے گا جب اسے داخلی سلامتی کے نام پر اپنی غیر معمولی آزادیوں سے محروم ہونا پڑے گا اور بعض معاملات میں ریاستی نگرانی قبول بھی کرنا پڑے گی۔ نائن الیون نے امریکا میں اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی راہ ہموار کی کہ عام امریکیوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ نیویارک کے قلب میں ایک انتہائی نمایاں عمارت سے دو طیاروں کا ٹکرانا اور پھر محکمہ دفاع کی عمارت پر طیارے کا گرایا جانا۔ یہ دونوں باتیں عام امریکیوں سے ہضم نہ ہو پائیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے جو اقدامات کیے وہ بجائے خود اپنے اندر بہت سی کہانیاں لیے ہوئے تھے۔ جو لوگ حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور واقعات کو ایک سلسلہ سمجھ کر کڑیاں جوڑنے کے ماہر، عادی یا شوقین ہیں انہوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے، دال میں کچھ کالا ہے۔ بعض کے نزدیک تو پوری دال ہی کالی تھی۔
نائن الیون کو بنیاد بناکر امریکا نے جو کچھ کیا وہ اپنے اندر بہت سی داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ عوام میں سادگی ہوتی ہے اور ان میں سیاسی شعور کا گراف زیادہ بلند نہیں ہوتا کہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انہیں نِرا گھامڑ تصور کرکے کچھ بھی کرلیا جائے اور کسی ردعمل کی توقع نہ کی جائے۔ امریکیوں نے بھی دیکھا کہ ایک واقعے کو بنیاد بناکر ان کی حکومت بہت کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے جس کا مقصد بہبودِ عامہ کے کے منصوبوں کو ٹھکانے لگانا اور داخلی سلامتی کے نام پر عوام کی خون پسینے کی کمائی دفاعی اخراجات کی مد میں ڈالنا ہے تو وہ سیخ پا ہوگئے۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو ابتدائی مرحلے میں معاملات کے بدبودار اور مشکوک ہونے کا اندازہ ہوگیا مگر متعلقہ امور پر ریاستی کنٹرول اس قدر تھا کہ فوری طور پر کوئی ایسی تحریک نہ چلائی جاسکے جو امریکا میں تیزی سے ابھرتے ہوئے اور ایوان ہائے اقتدار پر اپنا تصرف قائم کرتے ہوئے دائیں بازو کے انتہا پسندوں یعنی نئے رجعت پسندوں (neocons) کو لگام دینے کے حوالے سے کچھ کر پاتی۔ ری پبلکن پارٹی کو نیو کونز نے یوں ہائی جیک کیا کہ وہ پھر بہبودِ عامہ سے متعلق امور پر سوچنے کے قابل ہی نہ رہی۔ سابق امریکی صدر جارج ہربرٹ بش (سینیر) نے جو پودا لگایا تھا وہ ان کے بیٹے جارج واکر بش (جونیر) کے وائٹ ہاؤس میں براجمان ہونے تک تناور درخت بن چکا تھا۔ نیو کونز نے ریاستی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا شروع کیا۔ اور پھر یہ سلسلہ ایسا دراز ہوا کہ کسی کے قابو میں نہ آیا۔
نائن الیون کے رونما ہوتے ہی امریکا نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف بات کرنا شروع کردیا۔ ابتدائی ردعمل ہی میں دنیا پر واضح کردیا گیا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے جواب میں امریکا ایک ایسی جنگ شروع کرے گا جس کا دائرہ دن بہ دن پھیلتا ہی جائے گا۔ ایک سوال البتہ ایسا تھا جس کے بارے میں امریکا میں سب نے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگالی۔ ریاستی ادارے اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی تمام اہم شخصیات نائن الیون کے حوالے سے ایک بنیادی سوال کو کسی بھی قیمت پر چھیڑنے اور اس کی بنیاد پر کوئی بھی بحث کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سوال یہ تھا کہ جو ہوا وہ کیوں ہوا؟ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز اور پنٹاگون سے طیارے کیوں ٹکرائے؟ ایسا کیا تھا جس نے اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی راہ ہموار کی؟ امریکی قیادت چاہتی تھی کہ ایسا کوئی بھی سوال میڈیا پر نہ پوچھا جائے جس کے جواب میں ریاستی اداروں اور حکومتی مشینری کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ امریکا نے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر حملے کا اعلان کیا۔ حملے کی بنیادی غایت یہ بیان کی گئی کہ امریکی سرزمین پر سب سے بڑی دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھی وہیں کی گئی اور ماسٹر مائنڈز بھی وہیں روپوش ہیں۔ امریکا کی ریاستی اور حکومتی مشینری میں سے کسی کو بھی یہ بتانے کی توفیق نہ ہوئی کہ جو کچھ ہوا اس کی پشت پر کون سے عوامل کارفرما تھے۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ کے اس وقت کے سربراہ اسامہ بن لادن نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا جس میں نائن الیون کو درست ثابت کرنے کے لیے صراحت کی گئی کہ امریکا نے دراصل اپنے کرتوتوں کا پھل چکھا ہے۔ وڈیو میں کہا گیا کہ امریکیوں نے جو کچھ دیکھا اور جھیلا ہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں نے ۸۰ سال تک جھیلا ہے بلکہ اب تک جھیل رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا کہنا تھا کہ پریشانی، تباہی اور ذلت و خواری اسلامی دنیا پر مسلط کردی گئی ہے۔ عراق سمیت کئی ممالک میں لاکھوں افراد کسی جواز کے بغیر مارے جاچکے ہیں۔ ان کے خون کا حساب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اور کوئی ان لاکھوں مسلمانوں کے خون ناحق کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اسامہ بن لادن نے بتایا کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ایک طویل مدت سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی ممالک پر پابندیاں عائد کرکے لاکھوں باشندوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ عراق سمیت کئی ممالک میں جو لاکھوں افراد حملوں اور پابندیوں کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اترے ہیں ان میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اسی وڈیو پیغام میں امریکا کی ریاستی مشینری اور عوام کو انتباہ کیا گیا کہ اب امریکا کی سرزمین بھی تباہی سے دوچار رہے گی اور امن و سکون کی واپسی اسی وقت ہوگی جب اسلامی دنیا میں بھی امن اور سکون کا راج ہوگا اور بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کا عمل روکا جائے گا۔
جو کچھ امریکا میں ہوا وہ کسی بھی طور ایسا نہ تھا جس کی حمایت کی جاتی۔ نائن الیون کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں بھی عمومی سطح پر نائن الیون کے حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ کروڑوں افراد کی یہ رائے بھی تھی کہ امریکا نے وہی کاٹا ہے جو اس نے بویا تھا۔ وہ دوسروں سے ناانصافی اور زیادتی کا مرتکب رہا ہے تو اب اسے بھی تباہی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ ویسے تو خیر پوری اسلامی دنیا ہی امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک سے نالاں رہی ہے مگر مشرق وسطیٰ اس معاملے میں زیادہ نمایاں ہے۔ اس خطے کے بیشتر مسلم ممالک میں امریکا نے اپنے ایجنٹوں کو حکومت سونپ رکھی ہے۔ منتخب اور قانونی جمہوری حکومتوں کی راہ مسدود کرکے اقتدار انہیں دیا گیا ہے جو امریکا کی پالیسیوں کو من و عن قبول کرتے ہیں اور اس کے دیئے ہوئے رہنما خطوط کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے والے ان ایجنٹوں نے پورے خطے کے لیے صرف تباہی اور بربادی کی راہ ہموار کی ہے۔ پورے خطے میں اب تک حقیقی ترقی کی بنیاد نہیں ڈالی جاسکی۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود مشرق وسطیٰ میں حقیقی ترقی کا ڈول اب تک نہیں ڈالا گیا۔ چند ممالک نے تیل کی دولت کے ذریعے خوش حالی تو خریدی ہے، حقیقی ترقی کی بنیاد ڈالنے کے عمل سے وہ اب بھی بہت دور ہیں۔ خطے کے مسلمان جانتے ہیں کہ ان کی پس ماندگی اور تباہی و بربادی کا ذمہ امریکا ہے۔ اور ساتھ ہی یورپ اور دیگر خطوں کے وہ ممالک بھی جو امریکی پالیسیوں کے حامی اور معاون ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان امریکا سے اس لیے بھی نالاں ہیں کہ اس نے ہر مرحلے پر اسرائیل کی غیر معمولی اور بے جا حمایت کرکے خطے کو مزید عدم توازن سے دوچار کیا ہے۔ امریکا اور یورپ کی اسرائیل نواز پالیسیوں ہی نے مشرقی وسطیٰ سمیت دنیا بھر کے مسلمانون کو شدید اشتعال سے دوچار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں جہادی کلچر عام ہوتا گیا ہے۔ ظلم اور زیادتی کو مستقل بنیاد پر واقع ہوتے دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو نہ صرف یہ کہ ہوتا رہے گا بلکہ اس کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا رہے گا۔ اسرائیل کی غیر معمولی بلکہ شر انگیز سرپرستی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اسرائیل کی ریاستی مشینری پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے رہتی ہے اور اس ظلم پر کسی بھی عالمی ادارے میں خطے کے مسلمانوں کی شُنوائی نہیں ہوتی۔ دوسری طرف فلسطین کے اشو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ امریکا اور یورپ مل کر فلسطین کے اشو کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عالمی اداروں پر ان کا کنٹرول ہے اس لیے ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ یہ اشو اٹھنے ہی نہ پائے۔ ہر میدان میں اور ہر فورم پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے اشتعال میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
امریکا اور یورپ نے مل کر مشرق وسطیٰ کو اپنی مرضی کے تابع کر رکھا ہے۔ اس مقصد کا حصول ان کٹھ پتلی حکمرانوں نے ادا کیا ہے جو دراصل ایجنٹ ہیں۔ یہ ایجنٹ ہر وقت اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی خوشنودی حاصل ہوتی رہے۔ انہیں اس بات سے بظاہر کچھ بھی غرض نہیں کہ خطے کے مسلمانوں کے جذبات کیا ہیں اور اگر کبھی وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا ہوگا۔ شام اور مصر سمیت کئی ممالک میں عشروں تک امریکا نواز حکومتیں رہی ہیں۔ ان حکومتوں نے اپنے عوام کی مرضی کے خلاف جاتے ہوئے امریکا اور یورپ کا اس قدر ساتھ دیا ہے کہ اسلامی دنیا تو ایک طرف رہی، غیر متعلق ممالک اور خطے بھی حیران ہیں۔ امریکا اور یورپ اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمرانوں کو ہر اعتبار سے مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں غیر معمولی اقتصادی و عسکری امداد دی جاتی ہے۔ بیورو کریسی کو ہر حال میں خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرکے ان حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو اتنا مضبوط بنادیا جاتا ہے کہ ان سے ٹکرانے سے قبل عوام کو کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔
بات ہو رہی ہے نائن الیون کے محرکات کی۔ جارج واکر بش کی انتظامیہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اسے آئینہ دکھایا جائے، وہ باتیں یاد دلائی جائیں جن کے باعث امریکی سرزمین کو غیر معمولی پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز کو اندازہ تھا کہ اگر نائن الیون کے حوالے سے مسلم دنیا نے کچھ کہنا شروع کیا تو کئی پینڈورا بکس کھل جائیں گے۔ بُش انتظامیہ اور امریکی فوج بھی نہیں چاہتی تھی کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ امریکی اور یورپی عوام کو معلوم ہو پائے۔ بُش انتظامیہ نے امریکا کے تمام ٹی وی نیٹ ورکس پر اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کی وڈیو اور آڈیو پیغامات نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسامہ بن لادن کی باتیں سن کر عام امریکیوں کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں اور ان سوالات کا جواب حکومتی مشینری کو دینا پڑے۔ مگر امریکا جیسے ملک میں کسی بھی چیز کو نشر کرنے پر پابندی عائد کرنا انتہائی دشوار امر ہے۔ داخلی سلامتی کا اشو کھڑا کرکے بھی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں مگر بُش انتظامیہ نے بہانہ یہ گھڑا کہ اسامہ بن لادن کے آڈیو اور وڈیو پیغامات میں ساتھیوں کے لیے کوڈ شامل ہوسکتے ہیں اس لیے ان پیغامات کا نشر کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا! امریکی قیادت اس بات سے خوفزدہ تھی کہ اسامہ بن لادن کہیں اپنی تقریروں کے ذریعے امریکی پالیسیوں کے ایسے پہلو بے نقاب نہ کردیں جن کے باعث دنیا بھر میں امریکا سے شدید نفرت کی جاتی ہے اور بالخصوص اسلامی دنیا میں امریکی قیادت کو شیطانی عزائم کی علم بردار سمجھا جاتا ہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی چاہتے تھے کہ امریکا کی پالیسیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بول کر دنیا بھر میں اپنے معتقدین اور حامیوں کی تعداد بڑھائیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں جہادی کلچر کے فروغ کی بھی امید تھی اور جہادیوں کی بھرتی کہیں آسان ہوجاتی۔ امریکی قیادت کو اندازہ تھا کہ اسامہ بن لادن کی تقریروں سے وہ پالیسیاں بے نقاب ہوسکتی تھیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں اور دیگر بہت سی اقوام کی تباہی کا ذریعہ بن چکی ہیں اور جس کی بنیاد پر امریکا سے دنیا بھر میں شدید نفرت کی جاتی ہے۔
Leave a Reply