امریکا نے دنیا بھر میں عسکری مہم جوئی کے ذریعے جو تباہی پھیلائی ہے اور جتنے بڑے پیمانے پر بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جو نظر انداز کردیا جائے۔ محض صرفِ نظر کرنے سے تمام معاملات نہ تو درست ہوسکتے ہیں اور نہ ہی امریکا کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ امریکا نے کئی ممالک میں صریح مداخلت کرکے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے لازم تھا کہ منتخب اور قانونی حکومتیں ختم کی جاتیں اور ایسا ہی کیا گیا۔ الجزائر کی مثال بہت واضح ہے جہاں ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں اسلام پسندوں نے بھرپور کامیابی حاصل کی تو امریکا نے یہ کسی طور گوارا نہ کیا کہ ایک پورا ملک اسلام پسندوں کے ہاتھ میں چلا جائے۔ اس نے بھرپور مداخلت کی اور ایک قانونی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکاکر اپنے پٹھوؤں کو اقتدار دلایا۔ اس کے نتیجے میں الجزائر صرف خرابیوں کی نذر ہوا۔ امریکی عسکری مداخلت نے کئی خطوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بہت سے ممالک تاراج ہوئے ہیں، متعدد معاشرے شدید عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، شمالی افریقا اور دیگر خطوں میں کروڑوں افراد کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ درجنوں ممالک امریکی پالیسیوں کی زد میں آکر تباہی سے دوچار ہوئے اور ان کے کروڑوں باشندوں کے لیے تابناک مستقل کے خواب دیکھنا بھی دشوار ہوگیا۔
نائن الیون کے حوالے سے امریکی قیادت نے میڈیا کے ذریعے بہت کچھ اس قدر الجھادیا کہ حقیقت افسانوں کی نذر ہوگئی۔ چند ایک افراد نے نائن الیون کے حوالے سے تحقیق کی، مگر امریکا اور یورپ کے مرکزی ذرائع ابلاغ نے ان کی بات زیادہ پھیلنے نہ دی۔
نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں امریکی قیادت نے میڈیا کو عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے عام امریکی کو پالیسیوں کے حوالے سے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بُش انتظامیہ کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اگر امریکیوں کو اندازہ ہوگیا کہ نائن الیون دراصل امریکی پالیسیوں ہی کا منطقی ردعمل ہے تو حکومت سے سوال پوچھنے کا عمل شروع ہو جاتا، پالیسیوں کی وضاحت کرنا پڑتی اور اس کے نتیجے میں اقتدار پر ری پبلکن پارٹی یعنی نیو کونز کی گرفت کمزور پڑ جاتی۔
جارج واکر بُش کو کسی طور گوارا نہ تھا کہ عوام کے ذہنوں میں پالیسیوں کے حوالے سے خدشات اور سوالات جنم لیں اور ان سوالات کا جواب دینا بھی لازم ٹھہرے۔ اگر امریکیوں کے ذہن میں اپنے ملک کی پالیسیوں کے حوالے سے سوالات جنم لیتے تو سب سے پہلے تو وہ بیرونی عسکری مہمات ہی کے خلاف کھڑے ہوجاتے۔ امریکا دنیا بھر میں عسکری مہم جوئی کے ذریعے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
امریکی فوج بیرون ملک جو کچھ کرتی ہے اور جتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور تباہی کی راہ ہموار کرتی ہے، اس سے عام امریکی مجموعی طور پر بے خبر ہی رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی بہبود میں اضافے کے نام پر کیا جاتا ہے مگر تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ خود انہی کو کچھ نہیں ملتا۔ عام امریکی کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے آج بھی مرتے دم تک تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔
امریکا میں بہبودِ عامہ کا تصور اب تک عمل پذیر ہے مگر حکومت سب کچھ فراہم نہیں کرتی۔ شہریوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بہتر زندگی یقینی بنانے کے لیے انہیں رات دن محنت کرنا پڑتی ہے۔ بہتر اجرت پانے کی خواہش زیادہ سے زیادہ محنت کی بھی متقاضی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکی قیادت کی بیرونی عسکری مہمات سے عام امریکیوں کو فوائد حاصل ہوتے ہوں۔ جن کے مزے ہونے ہیں بس انہی کے مزے ہونے ہیں، عوام کے پرنالے تو وہیں بہتے رہتے ہیں۔ قومی پالیسیوں کے نتائج سے عام امریکی بالعموم بے خبر رہتے ہیں کیونکہ پالیسیوں سے ان کی زندگی براہِ راست متاثر نہیں ہوتی۔ امریکا میں حکمراں طبقہ یہ بات کسی طور پسند اور گوارا نہیں کرتا کہ قومی پالیسیوں پر انگلی اٹھائی جائے۔ عوام سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بلا چُوں چَرا اُس پر عمل کریں۔
امریکی قیادت کوئی بھی پالیسی مرتب کرتے وقت صرف اس بات کو ذہن نشین رکھتی ہے کہ امریکا کے مفادات کس طور مضبوط سے مضبوط تر کیے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مفادات کو مستحکم کرنے کے چکر میں دشمنوں کی تعداد بڑھتی جائے تو ملک کو کیا فائدہ پہنچا؟ امریکی قیادت پوری دنیا میں عسکری مہم جوئی کے ذریعے اپنا اُلو سیدھا کرنا چاہتی ہے مگر ایسا کرنے کے عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
امریکا کی بیرونی عسکری مہم جوئی کے حوالے سے کوئی بھی سوال اٹھایا جائے، یہ بات امریکی قیادت کو آخر کیوں ناپسند ہے؟ بات سیدھی سی ہے کہ امریکا کی ترقی اور استحکام کا تقریباً مکمل مدار اس بات پر ہے کہ دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں جنگ یا خانہ جنگی ہوتی رہے، امریکی اسلحہ فروخت ہوتا رہے اور جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں امریکی فوج کو بھی ملوث کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ امریکی حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ عسکری مہم جوئی پر انگلی نہ اٹھائی جائے، امریکی وار مشین کو کسی بھی طور مطعون نہ کیا جائے۔ ایسا اس لیے ہے کہ امریکا میں اسلحہ ساز ادارے عسکری مہم جوئی ہی کی مدد سے تو اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اگر امریکا عسکری مہم جوئی ترک کردے اور دنیا بھر کے ممالک امن کی راہ پر گامزن ہوکر اسلحہ خریدنا ترک کردیں تو امریکا کہاں جائے گا، اس کا کیا بنے گا؟ ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی عشروں کے دوران درجنوں بار امریکا یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ جدید ترین اسلحہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی رکھتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اور اسلحہ ساز ادارے مل کر اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ حملہ اور دفاع کرنے کی امریکی صلاحیت کا وقفے وقفے سے مظاہرہ ہوتا رہے۔ امریکی قیادت دنیا پر یہ بات ہر وقت روز روشن کی طرح عیاں رکھنا چاہتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت، دنیا بھر میں کہیں بھی بھرپور کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکا نے اپنی عسکری صلاحیت کو بہتر انداز سے بروئے کار لاکر دنیا کو بارہا باور کرایا ہے کہ اس سے ٹکرانا آسان کام نہیں۔ یورپ نے بھی اس معاملے میں اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ کمزور اقوام کو ڈرا دھمکاکر امریکا اور یورپ نے ہر معاملے میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ دونوں ہی سے شدید نفرت پروان چڑھتی گئی ہے۔ امریکا نے تو عسکری مہم جوئی اور کمزور ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے، یورپ اس کا ساتھ دیتے رہنے کا خمیازہ اب تک بھگت رہا ہے۔
امریکا نے اپنی وار مشین کو متحرک اور اسلحہ ساز کارخانوں کو منافع بخش حالت میں رکھنے کے لیے اب تک جو بیرونی عسکری مہم جوئی کی ہے، اس کے نتیجے میں چند سو نہیں بلکہ لاکھوں بے قصور افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ کئی ممالک کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ ایسے میں یہ سوچنا سادگی کی انتہا کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ لاکھوں ہلاکتوں پر بھی دنیا چُپ بیٹھی رہے گی اور امریکا کے خلاف کوئی ردعمل سامنے نہیں آئے گا۔ جن ممالک کو امریکا نے تنہا یا یورپ کی مدد سے تباہ کیا ہے اور جن معاشروں کا پورا ڈھانچا ہی کمزور کر ڈالا ہے، وہاں امریکا کے خلاف جذبات کیوں نہ بھڑکیں گے؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کو تباہی سے دوچار کردیا جائے اور اس کے باشندے تباہی کے ذمہ دار افراد، گروہ یا ملک کے خلاف شدید نفرت محسوس نہ کریں؟ اور جب نفرت پیدا ہوگی تو اس کے اظہار کی صورت بھی نکلے گی۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں امریکی مفادات پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ جسے جہاں موقع ملتا ہے، امریکی مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔ جو پالیسیاں امریکا نے کئی عشروں سے اپنا رکھی ہیں ان کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اور ہو رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی قیادت نے بیرونی عسکری مہمات کی قیمت عوام سے چھپا رکھی تھی۔ امریکی عوام کو کچھ اندازہ ہی نہ تھا کہ ان کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے نام پر ان کی محنت کی کمائی کس طرح جنگ کی بھٹی میں جھونکی جاتی رہی ہے۔ دنیا بھر میں عسکری مہم جوئی پر امریکا جو کچھ خرچ کرتا رہا ہے وہ اس نقصان سے کہیں بڑھ کر جسے روکنے کے نام پر یہ سب کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ امریکی قیادت عوام کو یہ کہتے ہوئے بہلایا کرتی تھی کہ دفاعی بجٹ اگر زیادہ ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکی سرزمین کو ہر طرح کے خطرات سے بچانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جھوٹ بول بول کر عوام کو ڈرایا اور دفاعی بجٹ بڑھایا جاتا رہا۔ چند عشروں کے دوران امریکی جنگوں کی قیمت شہریوں نے اس قدر چکائی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو بہبودِ عامہ کے بہت سے ایسے منصوبے مکمل کیے جاسکتے تھے جن کی مدد سے معیارِ زندگی قابل رشک حد تک بلند کرنا آسان ہو جاتا۔ امریکی عوام کو اب تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ ان کی جیب پر کس کس طرح اور کس کس بہانے سے ڈاکا ڈالا جاتا رہا ہے۔
امریکی قیادت نے اپنی سرزمین کو ہر طرح کی دہشت گردی سے بچانے کے نام پر جو کچھ کیا وہ سب کچھ اچانک بے نقاب ہوگیا۔ نائن الیون نے ثابت کردیا کہ ہزار جتن کرنے پر بھی امریکی سرزمین مکمل طور پر محفوظ نہیں اور اسے کبھی بھی بھرپور طریقے سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ عوام بھی سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جب ان کا اپنا ملک بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں اور کسی بھی وقت نشانے پر آسکتا ہے تو پھر سلامتی یقینی بنانے کے نام پر غیر معمولی اخراجات کس مد میں کیے جارہے ہیں۔ نائن الیون نے اس خوش فہمی کو بھی مٹی میں ملادیا کہ امریکا کو کبھی نشانہ بنایا ہی نہیں جاسکتا۔ عوام کے لیے یہ بہت عجیب لمحہ تھا۔ ان کی قیادت بیرونی عسکری مہمات شروع کرتے رہنے پر تُلی ہوئی تھی اور دوسری طرف اس امر کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہ تھی کہ امریکا کو اب نشانہ نہیں بنایا جاسکے گا۔ نائن الیون کی کوکھ سے ایسے خدشات اور تحفظات نے جنم لیا جن کا امریکی قیادت کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کی نائن الیون کا ردعمل جو کچھ بھی تھا، ضرورت سے بہت زیادہ تھا۔ اس ردعمل نے بہت کچھ داؤ پر لگادیا۔ اس ایک واقعے کے ذریعے ایک بدمست ہاتھی کو چھیڑا گیا۔
دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات کو غیر معمولی حد تک اور برق رفتاری سے ابھارا گیا۔ ایسا کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ امریکی قیادت مشتعل ہوکر مزید حملے کرے اور ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں، یعنی جہادی کلچر کو فروغ دیا جائے اور جہادیوں کی بھرتی کا عمل آسان ہوجائے۔
امریکا کو چھیڑنے کا وہی نتیجہ نکلا جو جہادی چاہتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ امریکا مشتعل ہوکر زیادہ حملے کرے گا اور ان حملوں کی زمین پر اپنی مرضی کی فصل اگائی جاسکے گی۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے جو کچھ کیا وہ بہت حد تک اسامہ بن لادن کے اسکرپٹ کے مطابق تھا۔ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز کے گرنے سے جو ہلاکتیں واقع ہوئیں، ان کا انتقام لینے کے لیے امریکا نے دہشت گردوں کے خلاف عالمگیر جنگ کا اعلان کیا۔ امریکی قیادت نے بڑھکیں مارنا شروع کردیا۔ دنیا بھر میں دہشت گرد جہاں کہیں بھی ہوں انہیں بے ٹھکانہ کرنے کی ٹھان لی گئی۔ امریکا اپنی بھرپور عسکری قوت دکھانے کے لیے بے تاب تھا۔ وہ دنیا پر ایک بار پھر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ جدید ترین ہتھیار اور متعلقہ آلات اسی کے پاس ہیں اور یہ کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی بہت مختصر وقت کے نوٹس پر بھرپور کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکا یہ سب کچھ اس لیے بھی کرنا چاہتا تھا کہ اسے اپنی برتری کے خاتمے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں اب سیاست اور سفارت کا پیراڈائم تبدیل ہو رہا ہے۔ نئی سوچ اپنائی جارہی ہے، جس کے تحت طاقت کا استعمال ناپسندیدہ قرار پارہا ہے۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا، برازیل اور چند دوسرے ممالک نے عسکری قوت کو بیچ میں لائے بغیر بھرپور طاقت حاصل کی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا بھی اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ ان دونوں ممالک نے کسی بھی طرح کی عسکری مہم جوئی کے بغیر محض معیشت کو بنیاد بناکر ترقی کی ہے اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ امریکا اب تک جس پیراڈائم کے تحت کام کر رہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ یورپ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ آج کی دنیا ’’نرم قوت‘‘ پر یقین رکھتی ہے۔ جدید ترین علوم و فنون کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھاکر معاشی قوت میں اضافہ ہی وہ راستہ ہے، جس پر گامزن ہوکر دنیا حقیقی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
نائن الیون کو بنیاد بناکر جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ شروع کرنے کی بات کی تو کئی خطوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ فطری امر تھا کیونکہ امریکا دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سے اب تک اور بالخصوص سرد جنگ کے دور میں جو کچھ کرتا آیا ہے وہ آج بھی لوگ بھولے نہیں ہیں۔ کئی ممالک بلکہ پورے پورے خطوں کو امریکی پالیسیوں نے شدید عدم توازن اور عدم استحکام سے دوچار رکھا ہے۔ کسی نئی جنگ کا سُن کر دنیا بھر میں لوگوں کا پریشان ہونا کوئی غیر فطری امر نہ تھا۔ سبھی نے یہ بات محسوس کی کہ نائن الیون تو محض ایک بہانہ ہے۔ امریکا کو اپنی عسکری قوت دکھانا تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا بھی مقصود تھا۔ افغانستان میں قدم جمانے کے بعد چین پر نظر رکھنا اور اس کے عزائم کی راہ میں دیوار بننا بھی قدرے آسان ہو جاتا۔ امریکا نے ایک تیر میں کئی نشانے لگانے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب رہا۔ جنوبی ایشیا سے متصل ملک میں امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک کی افواج کی موجودگی نے ایسی صورت حال کو جنم دیا، جس میں بہت کچھ داؤ پر لگ گیا۔
امریکا نے جب افغانستان میں دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کی تب مسلم دنیا بھی سمجھ گئی کہ امریکی اقدامات کی پشت پر کوئی اور ہی نظریہ اور مقصد کارفرما ہے۔ افغانستان کو جس سَفّاکی سے نشانہ بنایا گیا اور وہاں لاکھوں اتحادی فوجی تعینات کردیے گئے اس سے سبھی جان گئے کہ امریکا دراصل خطے میں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ چھیڑنے کے لیے امریکا نے اپنی وار مشین کے ساتھ ساتھ میڈیا مشین کو بھی متحرک کیا۔ میڈیا کے محاذ پر ایک ہنگامہ برپا کردیا گیا۔ مین اسٹریم کے تمام ٹی وی چینلوں، اخبارات اور جرائد گویا لٹھ لے کر دہشت گردوں کے پیچھے پڑگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ دشمن ہے کون۔ سب کچھ محض اندازے کی بنیاد پر ہو رہا تھا یا کیا جارہا تھا۔ کسی واضح دشمن کے سامنے نہ ہونے پر بھی امریکی میڈیا مشین نے ایسا شور برپا کیا کہ امریکی عوام بھی یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ ان کے ملک کو افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ افغانستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بناکر پیش کیا گیا۔ یہ سوچنے کی زحمت کسی نے بھی گوارا نہ کی کہ افغانستان جیسا تباہ حال ملک کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔
امریکی صدر جارج واکر بُش نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ایک تقریر میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ شروع ہونے والی ہے جس کے ذریعے شر کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ امریکا نے اعلان تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کیا تھا مگر تان ٹوٹی مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر مسلمانوں کو ختم کرنے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔
اتحادی افواج نے افغانستان میں جو کچھ کیا وہ کسی بھی مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ پوری پوری آبادیاں صفحۂ ہستی سے مٹادی گئیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی کارروائی کے نام پر شہری آبادیوں کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان سوویت دور کے خاتمے کے بعد ویسے ہی شدید عدم استحکام سے دوچار تھا، اتحادیوں کی بلا جواز یلغار سے ادھ موا سا ہوگیا۔ جو کچھ اتحادیوں نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر کیا وہ مسلم دنیا میں امریکا اور یورپ سے مزید نفرت کی راہ ہموار کرگیا۔ مسلم دنیا میں امریکا مخالف جذبات کی نئی لہر اٹھی جو بہت کچھ بہا لے گئی۔ امریکا کے حوالے سے جو تھوڑی بہت خوش فہمی تھی وہ بھی رخصت ہوگئی۔ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ امریکا انہیں کسی بھی طور سکھ چین سے جینے نہیں دے گا۔ جہادیوں کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوا اور لاکھوں نوجوانوں نے خود کو اسلامی دنیا کی حفاظت کے لیے پیش کردیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی تو امریکی میڈیا مشین نے وار مشین کی بھرپور مدد شروع کی۔ جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے کسی اور ہی رنگ میں پیش کیا گیا۔ مسلمانوں کو عمومی سطح پر دہشت گرد قرار دینے کا عمل شروع ہوا۔ امریکا اور یورپ کے مکینوں کو باور کرایا جانے لگا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی صرف مسلمان کر رہے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جانے لگا کہ مسلمان صرف مزاحمت کرنا جانتے ہیں اور جہاں بھی انہیں موقع ملتا ہے، دہشت گردی کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ امریکی میڈیا مشین محاذ سے جو رپورٹنگ کر رہی تھی اس میں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ امریکا اور یورپ کو نشانے پر لیا جاچکا ہے اور اب دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ محض مجبوری کا سودا ہے! یعنی امریکا اور اس کے اتحادی نہیں چاہتے کہ یہ سب کچھ کیا جائے، مگر مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے دہشت گردوں نے انہیں عسکری قوت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا ہے! امریکی قیادت نے اعلان کیا کہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی حمایت اور مدد کرنے والی ریاستوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یورپ کے علاوہ اوشنیا کے چند ممالک بھی اس کے ساتھ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا خود دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ امریکی عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کی قیادت نے ایسی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، جن سے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے ملک سے نفرت کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ جو ملک خود دہشت گردی کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا ہو وہ خود دہشت گردی ختم کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں نکلے تو لوگ متاثر کم ہوتے ہیں، ہنستے زیادہ ہیں۔ امریکا کا بھی یہی معاملہ تھا۔ جب اس نے دہشت گردی ختم کے نام پر عالمگیر جنگ کا اعلان کیا تو دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ غیر جانب دار مبصرین اور تجزیہ کاروں نے امریکی قیادت کو اس کی پالیسیوں کی بنیاد پر مطعون کرنا شروع کیا۔ اسے یاد دلایا گیا کہ کئی ممالک، بلکہ خطے امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں تباہی یا عدم استحکام سے دوچار ہوئے ہیں۔ بہت سے معاشرے امریکی اقدامات کے نتیجے میں اس قدر غیر متوازن ہوئے کہ پھر ان کے لیے سنبھلنا اور استحکام کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہ رہا۔
امریکا میں بھی بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ان کی قیادت جب دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ رہی ہے اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کی راہ پر گامزن ہونے والی ہے تو ابتدا افغانستان سے کیوں؟ فلوریڈا سے کیوں نہیں کہ وہاں امریکا نے ایک مدت سے کیوبا کے جلا وطن دہشت گردوں کو پال رکھا ہے۔ امریکا نے فلوریڈا میں ان دہشت گردوں کو چھپا رکھا تھا، جنہوں نے کیوبا کے مسافر طیارے تباہ کیے اور کیوبن لیڈر فیڈل کاسترو کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اور یہ دہشت گرد امریکا میں دو چار سال سے نہیں بلکہ پچاس سال سے بھی زائد مدت سے پناہ پائے ہوئے ہیں۔ امریکا نے کیوبا کے جن دہشت گردوں کو چھپا رکھا تھا ان میں لوئی پوساڈا کیریلیز اور اس کا ساتھی اورلینڈ بوش نمایاں ہیں۔ ان دونوں پر کیوبا کے مسافر بردار طیارے کو تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کرنے کا الزام ہے۔ طیارے کی تباہی سے ۷۳؍افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان دہشت گردوں کو پناہ دے کر امریکا نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا حامی ہے اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کسی بھی ملک کو نشانہ بنا اور بنوا سکتا ہے۔ اورلینڈ بوش نے ۱۹۸۷ء میں کہا تھا کہ کیوبا کے کسی بھی طیارے کو مار گرانے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ کاسترو انتظامیہ کے تمام طیارے جنگی نوعیت کے ہیں۔
جب لوئی پوساڈا کیریلیز اور اورلینڈ بوش کے خلاف باضابطہ کارروائی کے لیے دباؤ بڑھا تو امریکا نے مسافر بردار طیارے کی تباہی میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پاداش میں مقدمہ چلائے جانے سے قبل کیریلیز کو وینیزوئیلا کی جیل سے فرار کرادیا۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ اگر کیریلیز پکڑا جاتا تو تفتیش کے دوران یہ کہہ سکتا تھا کہ اس نے جو کچھ بھی کیا، امریکا کے اشارے پر کیا۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ کیریلیز نے سی آئی کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو تجربہ حاصل کیا تھا وہ خوب کام آیا اور اُسے امریکی ایجنٹ کے طور پر نکارا گوا کے کونٹرا باغیوں کو اسلحے کی فراہمی پر مامور کردیا گیا۔
اورلینڈ بوش کی حوالگی سے گریز کیا گیا۔ دہشت گردی کے ایک بڑے واقعے کی بنیاد پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا مگر یہ سب کچھ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل تھا۔ صدر بُش جونیر نے خصوصی ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے اورلینڈ بوش کو معافی دے دی۔ یہ معافی کیوں دی گئی اس کی کوئی بھی تصریح یا توضیح بُش انتظامیہ نہ کرسکی۔ اورلینڈ بوش کو انتباہ کیا گیا کہ امریکا ’’فریڈم فائٹرز‘‘ کو معاف کرسکتا ہے، دہشت گردوں کو نہیں۔ بوش کو ایک بار پھر اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کرنے کی کھلی چُھوٹ مل گئی۔
لوئی پوساڈا کیریلیز اور اورلینڈ بوش کے معاملے نے واضح کردیا کہ امریکا اپنے مفادات کو تحفظ پہنچانے کی غرض سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو پناہ بھی دے سکتا ہے۔
اگر جارج واکر بُش دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے معاملے میں واقعی سنجیدہ اور مخلص ہوتے تو فلوریڈا میں اپنے بھائی جیب بُش کو فون کرتے اور وہاں چُھپے ہوئے دہشت گردوں پر بمباری کا اعلان کرتے۔ واضح رہے کہ اُس وقت جیب بُش فلوریڈا کے گورنر تھے۔ فلوریڈا میں کیوبا اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک کے دہشت گرد پناہ لیتے رہے ہیں، مگر ان کے خلاف امریکا نے کبھی کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ وہ عالمی امن کے حوالے سے سنجیدہ اور مخلص ہے۔
اورلینڈ بوش اور لوئی پوساڈا کیریلیز سی آئی اے کے پالے ہوئے اور ان کے لیے کام کرنے ان ہزاروں ایجنٹس اور دہشت گردوں میں سے ہیں، جو امریکی مفادات کے لیے دنیا بھر میں دہشت گردی کا بازار گرم کرتے آئے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارہ قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے نام پر دنیا بھر میں جو کچھ کرتا آیا ہے، اسے بہت محتاط الفاظ میں بھی دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔ سی آئی اے کئی ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے سرگرم رہی ہے۔ منتخب اور قانونی حکومتوں کا تختہ الٹ کر امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والوں کو اقتدار دلانا سی آئی اے کا بہترین پیشہ ورانہ مشغلہ رہا ہے۔ سی آئی اے نے بہت سے مسلم ممالک میں بھی یہی کھیل کھیلا ہے۔ جنوبی امریکا اور افریقا کے بہت سے ممالک کو سی آئی اے نے جمہوریت کا گلا گھونٹنے والے اقدامات کے ذریعے کمزور اور غیر مستحکم کیا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ امریکا اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر کسی خطے یا ملک میں چند باغی گروپوں کو پالتا ہے، انہیں جدید ترین ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اسامہ بن لادن بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہیں امریکا نے بھرپور مدد فراہم کی۔ سوویت یونین کی افواج کے خلاف افغانستان میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر امریکا نے القاعدہ کو مضبوط کیا۔ جب سوویت افواج افغانستان سے نکل گئیں تو یہی منظور نظر جہادی امریکا کے لیے سب سے بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوگئے۔ اب لازم ہوگیا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں سے جان چھڑائی جائے۔ سوویت یونین کی تحلیل نے امریکا کے لیے القاعدہ کو یکسر غیر منفعت بخش بنادیا۔ اب گروپ کو زندہ رکھنے یا مدد فراہم کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یعنی تماشا ختم ہوچکا تھا، اب سامان سمیٹنا باقی رہ گیا تھا۔ نائن الیون پر امریکا میں جو ردعمل سامنے آیا اس کی لہر پر سوار ہوکر جارج واکر بُش نے القاعدہ کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اس کا بنیادی ہدف القاعدہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ امریکا نے بھرپور کوشش کی تھی کہ اپنے سابق ایجنٹس کو ہر اعتبار سے کچل کر رکھ دیا جائے۔ یہ لوگ زندہ رہتے تو اصلیت بیان کرتے رہتے یعنی زہر ہی اگلتے رہتے! امریکی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ القاعدہ کو اسلامی دنیا میں بھرپور مقبولیت حاصل رہے۔ وہ جانتی تھی کہ القاعدہ زندہ رہی تو جہادی کلچر پروان چڑھتا رہے گا اور امریکی مفادات کو خطرات لاحق رہیں گے۔ سابق سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار کرنے کا سہرا جن چند گروپوں کے سر باندھا جاتا ہے ان میں القاعدہ سب سے نمایاں ہے۔ اگر القاعدہ کو برقرار رہنے دیا جاتا تو وہ افغانستان میں سوویت افواج کو شکست دینے کا کریڈٹ لے اڑتی اور اس کے نتیجے میں امریکا کے لیے صرف مشکلات بڑھتیں۔ مسلم دنیا میں القاعدہ کی مقبولیت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ امریکا کے لیے یہ بہت خطرناک بات تھی۔ امریکی قیادت کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ مسلم دنیا میں پھیلا ہوا جہادی کلچر کہیں ان ممالک میں بھی عام نہ ہوجائے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد آباد ہے۔ جہادی کلچر کو مزید پنپنے سے روکنے کے لیے القاعدہ کا قلع قمع لازم تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں میں دہشت گردی کے خلاف جو شدید ردعمل پیدا ہوا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی قیادت نے القاعدہ کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔
دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے نعرے کی بنیاد پر شروع کی جانے والی جنگ نے افغانستان کو مزید تاراج کیا۔ عام امریکی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج نے افغانستان میں جو کچھ کیا ہے اس کے نتیجے میں عام افغان باشندوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ایک طرف تو وسیع پیمانے پر ہلاکتیں تھیں اور دوسری طرف ملک بھر میں اتنی تباہی واقع ہوئی کہ لوگوں کے لیے ڈھنگ سے جینا انتہائی دشوار ہوگیا۔
افغانستان میں سوویت افواج کی شکست کے بعد کی صورت حال میں ویسے ہی بہت سی خرابیاں موجود تھیں۔ خانہ جنگی نے بنیادی ڈھانچا تباہ کردیا تھا۔ ہلاکتیں بھی بڑے پیمانے پر واقع ہوتی رہی تھیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جب دہشت گردوں کو ختم کرنے کے نام پر افغانستان کے شہری اور دیہی علاقوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا بازار گرم ہوا۔ بمباری اور گولہ باری سے کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور ہلاکتوں کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا۔ افغانستان میں اتحادیوں کی کارروائیوں واقع ہونے والی ہلاکتوں کی اصل یا حقیقی تعداد بتانا تو بہت دشوار ہے تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ اتحادیوں کی کارروائیوں سے مارے جانے والے افغان باشندوں کی تعداد نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کے گرنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ تھی۔ اتحادیوں نے افغانستان کے بیشتر علاقوں کو نشانے پر رکھا۔ سَفّاکانہ بمباری سے خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے۔ مگر یہ وہ اموات تھیں جن کا ماتم کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ عالمی برادری یہ تماشا دیکھتی رہی، مگر کچھ کرنے یا کہنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک آدھ ہلاکت واقع ہوجائے تو ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا۔ افغانستان میں لاکھوں افراد موت کا لقمہ بن گئے مگر کوئی رونے والا تھا نہ انصاف دلانے والا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے کرنے والے ہی دہشت گرد ثابت ہونے لگے۔ اتحادیوں نے القاعدہ اور اس کے ہم نوا گروپوں کو ختم کرنے کے نام پر عام افغان باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا۔ سوویت دور کی تباہ کاریوں کے بعد خانہ جنگی کا عذاب جھیلنے والے افغان تیسری مصیبت سے دوچار ہوئے۔ اتحادیوں نے بھی ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق عام افغان باشندوں ہی کو نشانہ بنایا۔ امریکا کے لیے تو لازم سا ہوگیا تھا کہ اس نام نہاد جنگ کو زیادہ سے زیادہ ہولناک بنائے کیونکہ اسے یہ ثابت کرنا تھا کہ اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور یہ کہ وہ کہیں بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ بے چارے افغان باشندوں کو جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کی شکل میں ملی۔
Leave a Reply