
امریکا چاہتا تھا کہ افغانستان میں چھپی ہوئی القاعدہ کی قیادت اور ارکان کو نکال باہر کرے یا ختم کردے۔ القاعدہ امریکا کی اتحادی رہی تھی، اس لیے امریکی قیادت کے مزاج اور سی آئی اے کے ’’طریقِ واردات‘‘ کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھی۔ سی آئی اے کے لیے لازم ہوگیا کہ نئے اتحادی یعنی ایجنٹس پیدا کرے۔ افغانستان کے طول و عرض میں پائے جانے والے جنگجو سرداروں کی شکل میں یہ ایجنٹ اسے مل گئے۔ یہ جنگجو سردار اپنے علاقوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتے تھے۔ یہ لوگ اسلحے کی تجارت کے ساتھ ساتھ پوست کاشت کو بھی بڑھاوا دیتے تھے۔ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں یہ بے حد سَفّاک واقع ہوئے ہیں۔ جو کام سونپا گیا ہو اسے پورا کرنے کے لیے جنگجو سردار کچھ بھی کرسکتا ہے۔ امریکی قیادت نے افغان جنگجو سرداروں کو اپنی طرف کرلیا۔ انہیں پوست کی کاشت کو وسعت دینے کی اجازت بھی مل گئی۔ طالبان کے دور میں پوست کی کاشت محدود ہوگئی تھی اور ملک میں مجموعی طور پر امن تھا۔ جنگجو سرداروں کی سرپرستی جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شروع کی تو معاملات بگڑنے لگے۔ ایک طرف اسلحے کی تجارت عام ہوئی اور پوست کی کاشت بڑھتی گئی۔ عام افغان باشندوں کے لیے سکون سے جینا محال ہوگیا۔ جنگجو سرداروں نے قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ اتحادی یہی تو چاہتے تھے۔ ان کے لیے ہر مرحلے پر سامنے آکر کوئی کارروائی کرنا بہت مشکل تھا۔ جنگجو سرداروں نے ان کی مشکل آسان کردی۔ امریکا نے جنگجو سرداروں کو نوازنا شروع کیا تاکہ وہ طالبان کے خلاف زیادہ مؤثر ہوکر کچھ کرسکیں۔ جنگجو سرداروں کی اکثریت تاجک اور ازبک نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف تو طالبان کو غیر مؤثر کرنے کے عمل میں امریکا کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور دوسری طرف افغان معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل آگے بڑھانے میں مدد ملی۔ افغان معاشرے میں پشتون، تاجک اور ازبک تقسیم بہت پہلے سے ہے اور خاصی توانا ہے۔ ہزارہ نسل کے لوگ بھی خاصی تعداد میں ہیں جنہیں ایران کی طرف سے بھرپور مدد کا ملنا ایک روایت کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے جنگجو سرداروں کو اپنے مفاد کے لیے اتنی عمدگی سے استعمال کیا کہ افغانستان میں مضبوط مرکزی حکومت کا قیام مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ پشتون نسل کے لوگ اگرچہ اکثریت میں ہیں مگر ان کی بڑی تعداد پاکستان سے ملحق صوبوں میں مرتکز ہے۔ شمالی اور شمال مغربی افغانستان کا بڑا حصہ تاجک اور ازبک نسل کے لوگوں کے زیر نگیں ہے۔ انہی نسلوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو سرداروں کو امریکا اور یورپ نے خوب نوازا جس کے منطقی نتیجے میں طالبان کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی۔ اتحادیوں کے لیے جنگجو سردار ترپ کا پتّہ ثابت ہوئے۔ یہ کارڈ کھیل کر انہوں نے افغانستان کے بیشتر علاقوں میں اپنی مرضی کے حالات پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اقوام متحدہ نے افغانستان کے خلاف امریکا اور یورپ کی عسکری مہم جوئی کی حمایت کی نہ توثیق۔ مگر امریکا کو اس بات کی پروا کب تھی؟ وہ طاقت کے نشے میں چُور تھا۔ ایک مست ہاتھی کے سامنے آنے کی جسارت کون کرسکتا ہے؟ امریکا نے افغانستان پر لشکر کشی کے حوالے سے کسی بھی عالمی ادارے سے منظوری لینا لازم نہ سمجھا اور جب اقوام متحدہ نے لشکر کشی کی توثیق نہ کی تو امریکا اور یورپ نے اپنے طور پر کارروائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل کر گزرے۔
امریکا اور یورپ نے پوست کی کاشت کے حوالے سے بھی دہرے معیار کا مظاہرہ کیا۔ دنیا بھر میں منشیات کی اسمگلنگ اور منشیات سے متعلق فصلوں کے اگائے جانے کے خلاف جانے والا امریکا افغانستان میں اپنے سارے اصول ترک کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ جنگجو سرداروں کو طالبان کے خلاف مؤثر طور پر استعمال کرنے کے لیے ایک طرف تو رقوم کے ساتھ ساتھ اسلحہ دیا گیا اور دوسری طرف انہیں اپنے زیر اثر علاقوں میں پوست کاشت کرنے کی کھلی چُھوٹ دی گئی۔ طالبان کے دور میں جن علاقوں سے پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوگئی تھی، ان علاقوں میں تاجک اور ازبک جنگجو سرداروں نے پوست اگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔
افغانستان کا جو انجام ہونا تھا سو ہوا مگر امریکی مفادات کو تو تقویت مل گئی۔ امریکا اور اس کے اتحادی یہی تو چاہتے تھے۔ افغانستان کو قدم جمانے کی زمین میں تبدیل کرکے انہوں نے چین اور روس دونوں پر نظر رکھنے کا اہتمام کرلیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو محض ایک بہانہ تھا۔ افغانستان کی حیثیت ہی کیا تھی کہ کسی بھی ملک کے لیے خطرہ بنتا۔ امریکا تو بہت دور کی بات ہے، افغانستان اگر اپنے خطے کے ممالک ہی کے لیے خطرہ بننے کی پوزیشن میں آجائے تو بڑی بات ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تباہی اور بربادی کی جس راہ پر سے گزرنا تھا اس میں پہلا پڑاؤ افغانستان تھا۔
اتحادیوں نے جب یہ دیکھا کہ افغانستان کو مزید روندنے سے کچھ بھی نہ ملے گا بلکہ محض ذلت و رسوائی ہی میں اضافہ ہوتا جائے گا تو انہوں نے اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کی اور اب ان کے نشانے پر عراق تھا۔ عراق کو نشانے پر لینا اس لیے ضروری تھا کہ صدر صدام حسین نے امریکا اور اس کے تمام ہم نواؤں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ عراقی حکومت خطے میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتی تھی۔ امریکا چاہتا تھا کہ ایران کا اثر و رسوخ بڑھ جائے اور عراق کے علاوہ شام بھی اس کے زیر اثر ہو۔ صدام حسین کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا۔ صدام حسین چاہتے تھے کہ ایرانی اثرات کا دائرہ محدود رکھا جائے۔ ایسے میں مغرب کے لیے لازم سا ہوگیا کہ صدام حسین کو سزا دی جائے۔
ایک زمانے سے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار بنائے جانے کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ مغرب کے لیے یہ اطلاعات سوہانِ روح تھیں کیونکہ اگر عراق عسکری اعتبار سے مضبوط ہو جاتا تو خطے میں مغربی طاقتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے۔ خاص طور پر امریکا کو یہ بات بالکل پسند نہ تھی کہ خطے کا کوئی بھی حکمران اس کی مرضی کے خلاف جائے۔ عرب اور خلیجی ممالک امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ صدام حسین کی شکل میں ایک ایسا حکمران خطے میں نمایاں حیثیت کا حامل تھا، جو غیر ضروری دباؤ ڈالنے کو تیار نہ تھا۔
افغانستان کے معاملے میں تو اتحادیوں نے اقوام متحدہ سے حملے کی اجازت لینا ضرور نہیں سمجھا تھا مگر عراق کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا کیونکہ وہ ایک باضاطہ ملک تھا۔ اقوام متحدہ میں معاملہ لایا گیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عراق جوہری، کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ مغربی طاقتوں کا موقف یہ تھا کہ عراق میں تیار کیے جانے والے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے صرف خطے کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرات لاحق تھے۔ کیس کچھ اس طرح پیش کیا گیا جیسے عراق کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پوری دنیا تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔ جب ثبوتوں کا سوال اٹھا تو امریکا اور یورپ کے بیشتر ممالک نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر حملے کی منظوری دینے کے معاملے میں ثبوتوں کا انتظارکیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ بہت دیر ہوجائے یعنی عراق ان ہتھیاروں کی مدد سے حملہ آور ہو اور بہت کچھ مٹاکر رکھ دے۔
عراق پر حملے کا جواز پیدا کرنے کے لیے مغربی میڈیا مشین حرکت میں آئی اور زہر اگلنا شروع کردیا۔ الٹی سیدھی رپورٹس کے ذریعے دعوے کیے گئے کہ عراق پورے خطے کو تہس نہس کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ صدام حسین کو شر کی سب سے بڑی علامت قرار دے کر ان سے جان چھڑانے کا عزم ظاہر کیا جانے لگا۔ صدام حسین مہم جو ضرور تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے نام پر پورے خطے ہی کو برباد کردیا جائے۔ امریکا اور یورپ نے حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا شروع کیا۔ چند ماہ کے دوران میڈیا کے ذریعے مغربی دنیا میں عوام کے ذہنوں پر اتنی یلغار کی گئی کہ اکثریت یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی کہ صدام حسین شر کی علامت ہیں اور یہ کہ انہیں ہٹایا جانا چاہیے۔
ایک بار عراق کے بارے میں ذہنوں میں غلط فہمیوں اور خدشات کے بیج بونے کے بعد اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹروں کو حرکت میں لایا گیا۔ یہ انسپکٹر عراق کے دورے کرنے لگے اور وہاں خطرناک ہتھیار تیار کرنے والے مبینہ مقامات کے دورے کرکے حقائق نوٹ کرتے گئے۔ امریکا کے لیے یہ مرحلہ بہت صبر آزما تھا۔ وہ عراق پر جھپٹنے کو تیار تھا مگر اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹر راستے کی دیوار بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں بہتر یہ تھا کہ انہیں ہٹاکر اپنا اُلّو سیدھا کیا جائے۔ امریکی قیادت نے جب معاملات کو طُول پکڑتے دیکھا تو حرکت میں آئی اور کسی نہ کسی طور اسلحہ انسپکٹروں کا کام رکوایا۔ یہ بات ہر کسی پر واضح ہوگئی کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے ہی نہیں اور نہ ہی ان ہتھیاروں کو تیار کرنے والے پلانٹس یا کارخانے تھے۔ اس حوالے سے اسلحہ انسپکٹروں کی تمام رپورٹیں صدام حسین کو بے قصور ثابت کرنے کے کافی تھیں۔ مگر امریکا اور یورپ سے یہ بات ہضم نہیں ہوسکتی تھی۔ تمام حقائق، تجزیے اور رپورٹس ایک طرف رکھ کر اتحادیوں نے افغانستان کو چھوڑ کر عراق کو نشانے پر لے لیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
افغانستان کی طرح عراق میں بھی تقسیم موجود ہے۔ سُنّیوں اور شیعوں کے علاوہ کرد بھی عراقی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اتحادیوں کی یلغار نے سُنّیوں کا اقتدار ختم کیا اور حکومت شیعوں کو دلادی۔ مگر یہ سب راتوں رات نہیں ہوا۔ بہت بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ پورے ملک میں فرقہ واریت انتہا کو چُھونے لگی۔ شیعوں اور سُنّیوں کے درمیان نفرتیں پہلے سے کہیں بڑھ گئیں۔ امریکا اور یورپ نے وعدہ اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک نیا عراق معرض وجود میں لائیں گے، جس میں امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ انصاف ہوگا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ صدام حسین کے دور میں جو سُکون تھا وہ بھی نہ رہا۔ شیعہ اور سُنّی جیسے تیسے ساتھ رہتے آئے تھے۔ جب امریکا اور یورپ نے عسکری مداخلت کی اور صدام حسین کو اقتدار کے ایوان سے نکالنے کی خاطر اُن کے ساتھیوں اور فوج کو نشانہ بنانا شروع کیا تب عراقیوں کو اندازہ ہوگیا کہ آزادی، مساوات اور انصاف یقینی بنانے کے نام پر اُنہیں بے وقوف بنایا گیا ہے۔ صدام حسین کی حکومت ختم کرنے میں تو اتحادی ضرور کامیاب ہوئے مگر کس قیمت پر؟ عراق پورا کا پورا داؤ پر لگ گیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اُبھرا کہ ایسی مساوات کس کام کی جو پورے معاشرے ہی کو داؤ پر لگا دے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر عراقیوں کو اس قدر تقسیم کردیا کہ اب ان کا ساتھ رہنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ سُنّی اور شیعہ دونوں ہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر بمباری کی گئی اور اِس سے بھی بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرائی گئی۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے اتحادیوں نے شیعہ اور سُنّی دونوں ہی طبقات میں سے انتہا پسندوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور تمام بڑے مزارات اور مساجد پر خود کش حملے کرائے۔ عراق کے تمام بڑے شہروں کے بازاروں اور دیگر عوامی مقامات پر بھی خود کش دھماکے کرائے گئے۔ اس عمل کا مقصد صرف یہ تھا کہ عراقی معاشرہ مزید تقسیم ہوجائے اور سُنّی و شیعہ ایک دوسرے کے لیے مزید ناقابل قبول ہوجائیں۔ اس مقصد کے حصول میں بھی اتحادی پوری طرح کامیاب رہے۔
اتحادیوں نے عراقی فوج کو یکسر منتشر اور غیر مؤثر کردیا۔ لاکھوں شہری کسی جواز کے بغیر قتل کردیے گئے۔ لاکھوں خواتین اور بچے بھی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ معاملات کو اس حد تک بگاڑا گیا کہ عام عراقیوں کے لیے بہت سی اہم ادویہ کا حصول بھی ممکن نہ رہا۔ لاکھوں بچے غذا اور غذائیت کی کمی کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
اتحادیوں کی بمباری اور گولہ باری نے عراق بھر میں بہت سے خوش حال اور گنجان آباد علاقے ویرانوں میں تبدیل کردیے۔ عراق میں مقدس مقامات بڑی تعداد میں ہیں۔ دنیا بھر سے سُنّی اور شیعہ زائرین عراق کا رخ کرتے ہیں۔ اتحادیوں نے بہت سے مقدس مقامات پر بھی حملے کرائے تاکہ نفرتیں مزید گہری اور مضبوط ہوجائیں۔
عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم کرنے اور پورے معاشرے کو یکسر تباہ کرنے کے بعد امریکا نے خطے کے دیگر ممالک اور بالخصوص عراق کے پڑوسیوں شام اور ایران کو ڈرانا شروع کیا۔ اپریل ۲۰۰۳ء میں امریکا کے ایک اعلیٰ افسر نے بیان میں کہا کہ خطے کی دیگر حکومتوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں گرائے جانے کا کوئی امکان نہیں مگر ہاں، انہیں اپنی اصلاح کرنا ہوگی، تبدیل ہونا پڑے گا، اعتدال کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ امریکا نے عراق میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرکے خطے کے تمام ممالک کو پیغام دے دیا کہ اگر وہ بات نہیں مانیں گے تو ان کے ہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔
عراق میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد امریکا نے عراق کے وسیع قدرتی وسائل اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں ان کا ایک مضبوط گڑھ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عراق سے بہتر کون سا ملک ہوسکتا تھا؟ عراق میں اچھی طرح قدم جمانے کے بعد مغربی قوتوں نے پورے خطے کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
کٹھ پتلی حکمران کے طورپر امریکی قیادت کی نظر احمد شلابی پر پڑی۔ ان پر دھوکا دہی کا ایک مقدمہ اردن میں چلا تھا۔ امریکی قیادت چاہتی تھی کہ عراق کے تیل کے ذخائر پر کسی نہ کسی طور قبضہ ہوجائے تاکہ اپنی مرضی کے مطابق تیل نکالا اور بیچا جاسکے۔ احمد شلابی نے عراق کے تیل کے ذخائر سرکاری کنٹرول سے نکال کر نجی کمپنیوں کو اُن تک رسائی دینے کی بات کی۔
امریکا چاہتا تھا کہ عراق کو عبرت کا نشان بنادے تاکہ خطے کے دیگر ممالک امریکا اور یورپ کے خلاف سَر اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ شام اور ایران نے امریکا اور یورپ کے خلاف جانے کی کوشش کی تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ہاں بھی خرابیاں پیدا کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ایران نے تو اپنے معاملات پر قابو پالیا مگر شام کے لیے سنبھلنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ لیبیا اور تیونس سمیت کئی ممالک میں خرابیاں اتنی بڑھیں کہ پورا خطہ ہی شدید عدم توازن کی نذر ہوتا دکھائی دینے لگا۔
امریکی قیادت نے جو منصوبے تیار کر رکھے تھے ان کے حوالے سے شکوک اور خدشات بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔ امریکی قیادت کا خیال تھا کہ عراقیوں کو صدام حسین سے ’’آزادی‘‘ دلاکر کوئی بہت بڑا تیر مارا گیا ہے۔ عراقیوں کے خیال میں ایسا نہیں تھا۔ وہ امریکا کے کسی بھی وعدے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکیوں نے ہمارے اجداد کو بھی آزادی دلائی تھی مگر اس کا نتیجہ خاصا بھیانک نکلا۔ اسی طور امریکیوں نے رواں صدی کی دوسرے نصف کے دوران عراق کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے حوالے سے لوگوں میں اب بھی بہت سے گِلے شِِکوے کیے جاتے ہیں۔ امریکیوں سے تعلقات عراقیوں کو کبھی راس نہیں آئے۔ صدام حسین کا اقتدار ختم کرکے عراق کو ’’آزادی‘‘ دلانے کے مغربی دعوے بھی عراقیوں کو زیادہ متاثر نہ کرسکے اور وہ خدشات ہی میں مبتلا رہے۔
یہ خدشات بلا جواز نہیں تھے۔ امریکا نے جمہوریت متعارف یا بحال کرانے کے نام پر کئی ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹا ہے مگر نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سچ تو یہ ہے کہ بعض ممالک میں امریکی مداخلت سے حکومت کا بوریا بستر گول کردیے جانے کے بعد جمہوریت تو کیا آنی تھی، پہلے سے زیادہ بُری اور انتہائی سَفّاک قسم کی آمریت آگئی۔ امریکا جب بھی کسی ملک میں قانونی حیثیت کی حامل حکومت کو ختم کرتا ہے تو کٹھ پتلی حکمران مقرر کرتا ہے۔ یہ حکمران امریکی مفادات کی تکمیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے عوام کے حق میں جَلّاد صفت ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کٹھ پتلی حکمران امریکا کی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو تمام حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ اور اگر ناگزیر محسوس کریں تو زندگی کے حق سے بھی محروم کردیتے ہیں! اب تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ امریکا کی مدد یا اس کی مداخلت سے کسی بھی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد زیادہ بُری حکومت آتی ہے۔ امریکی قیادت جہاں کہیں بھی کوئی کمزور حکومت دیکھتی ہے اس پر قابو پاکر اپنی مرضی کے حکمران مقرر کرتی ہے، جو اپنے لوگوں اور ریاستی ڈھانچے کے لیے پورس کے ہاتھی ثابت ہوتے ہیں۔ یوں مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی مسلط کردہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے لوگ آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ امریکی مداخلت سے معاشرہ مزید منقسم اور منتشر ہو جاتا ہے۔ عراق تازہ ترین مثال ہے۔ اس سے قبل جنوبی امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر خطوں میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ افریقا میں بھی امریکا اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں تبدیل کرتا آیا ہے۔ کئی ممالک میں اب تک خانہ جنگی کا ماحول ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے گروپ کھڑے کر رکھے ہیں، جو وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ یہ گروپ معاشرے میں خرابیاں پیدا کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی فریضہ معاشرے کو مستقل بنیاد پر منقسم اور منتشر رکھنا ہوتا ہے۔
امریکا نے عراق کا رخ کیوں کیا تھا؟ کیا عراقیوں کو ’’آزادی‘‘ دلانے کے لیے؟ امریکی قیادت کے دل میں عراقیوں کا درد بھلا کیوں جاگتا؟ ہم تجزیہ کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کوئی بھی بڑا یعنی طاقتور ملک کسی بھی چھوٹے اور کمزور ملک کا بھلا نہیں چاہتا۔ ایسا کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کے غلام ہوتے ہیں۔ ہاں، طریق ہائے کار مختلف ہوسکتے ہیں۔ امریکا ہر معاملے کو دھونس دھمکی اور طاقت کے استعمال کے ذریعے اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے جبکہ چین اور جاپان جیسے ممالک ’’نرم قوت‘‘ کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں بہتر بناتے ہیں۔ امریکا نے عراق کے معاملات کو درست کرنے پر کیوں توجہ دی؟ اس سوال کا جواب اپریل ۲۰۰۳ء میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے ایک بیان میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنا سادگی کی انتہا سمجھا جائے گا کہ امریکا نے عراق میں جو کچھ کیا وہ کنٹرول پانے کے لیے نہیں تھا۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ یعنی کوئی کسی پر ایک دھیلہ بھی کسی جواز یعنی صِلے کی تمنا کے بغیر خرچ نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا بھی عراق پر بس یوں ہی ’’مہربان‘‘ نہیں ہوا تھا۔ اس قدر ’’مہربانی‘‘ کسی اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے تھی۔
صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد امریکی قیادت نے جلد ہی عراق کا کنٹرول پال بریمر سوم کو سونپ دیا، جسے انسدادِ دہشت گردی کی تربیت سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے دی تھی۔ امریکی آئل کمپنیز کے ایگزیکٹیوز نے عراق میں تیل کی صنعت کا کنٹرول سنبھالا اور امریکی بینکرز نے عراق کے مرکزی بینک کی باگ ڈور سنبھالی۔ امریکا میں اسے کارپوریٹ ملٹری ماڈل آف گورنمنٹ کہا جاتا ہے۔
عراقیوں کو کیا ملا؟ صرف ’’آزادی‘‘؟ مگر اس ’’آزادی‘‘ کا انہیں کیا کرنا تھا؟ انہیں تو اپنے لیے بہتر زندگی درکار تھی۔ ایسی زندگی جس میں بے امنی اور عدم استحکام نہ ہو۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ امریکا نے عراق میں اس لیے تو قدم نہیں رکھا تھا کہ عراقیوں کے حالات بہتر بنائے۔ وہ تو محض اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے اور پورے خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد اڈے کی تلاش میں عراق آیا تھا۔ صدر جارج واکر بُش نے وعدہ کیا کہ عراقیوں کو ان کی خود مختاری لوٹادی جائے گی مگر صرف اِس صورت میں کہ عراق میں امریکا نواز حکومت ہو۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر دہشت گردوں کے ساتھ ہیں!
عراق سمیت پوری عرب دنیا میں امریکا مخالف جذبات کل بھی عروج پر تھے اور آج بھی عروج پر ہیں۔ اگر لوگوں کو آزادانہ پولنگ کی اجازت دی جائے تو وہ لازمی طور پر امریکا نواز حکومت کے قیام کی راہ ہموار نہیں کریں گے۔ امریکی قیادت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی تھی اس لیے اس نے عراق میں آزاد اور شفاف عام انتخابات منعقد کرانے کے بجائے یہ تجویز پیش کی کہ معززین پر مشتمل گروپ ہر علاقے سے نمائندے منتخب کریں تاکہ ایک ایسی نمائندہ حکومت معرض وجود میں آئے جو عوام کی پسند کی ہو نہ ہو، عمائدین کی پسند کی ضرور ہو۔
کولیشن پروویژنل اتھارٹی کے سربراہ پال بریمر سوم نے جون ۲۰۰۳ء میں کہا کہ عراق جس نوعیت کے ماحول میں جی رہا ہے اس میں اگر آزادانہ انتخابات کرائے گئے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے، جو اتحادیوں کو اپنی سرزمین پر دیکھنے کے روادار نہیں۔
کولیشن پروویژنل اتھارٹی کسی بھی اعتبار سے جمہوریت کی حامل نہ تھی۔ مخالفین اور ناقدین کو کسی بھی طور برداشت نہ کرنے کا رجحان عام تھا۔ اس اتھارٹی کے دور میں سرکاری معاملات پر تنقید کرنے والے اخبارات اور ریڈیو، ٹی وی چینلوں کو بند کردیا گیا۔ پال بریمر سوم کا شکوہ تھا کہ عراقیوں نے آزادی دلانے والوں کی قدر کرنا سیکھا ہی نہیں!
عسکری مہم جوئی ختم ہوئی تو اتحادیوں نے جیلوں میں بند ہزاروں مزاحمت کاروں کو ایذائیں دینا شروع کیں۔ جیلوں میں ہزاروں افراد پراسرار طور پر لاپتا ہوگئے۔ مزاحمت کاروں کو مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں رکھا جاتا تھا اور سخت ایذائیں دی جاتی تھیں۔
اتحادی افواج کی بمباری سے عراق کا بنیادی ڈھانچا بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ بہت سی اہم سرکاری عمارات بھی مٹی کا ڈھیر ہوگئی تھیں۔ ۲۰۰۳ء کے آخر میں امریکا نے عراق میں عدالتوں اور جیلوں کے نظام کی تعمیر نو شروع کی۔ اس وقت کے امریکی اٹارنی جنرل جان ایکشرافٹ کا کہنا تھا کہ عراقی عوام اب حقیقی آزادی کا مزا چکھیں گے۔
عراقیوں نے امریکیوں کو اپنی سرزمین پر کبھی قبول نہیں کیا۔ امریکیوں سے نفرت دن بہ دن بڑھتی گئی۔ امریکی فوجی بہت سے دیہی اور شہری علاقوں میں گشت کے دوران سخت رویہ اپناتے تھے اور ذرا سی ایسی ویسی حرکت پر فائر کھول دیتے تھے۔ ہزاروں عراقی اس طور موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ امریکی فوجیوں کی زیادتیوں سے متعلق رپورٹس تیار کرنے والے بہت سے صحافیوں کو قتل کردیا گیا۔ بہت سے لوگ چیک پوائنٹس پر جھڑپ کے دوران گولیوں کی زد میں آگئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت جیسے جیسے بڑھتی گئی، امریکی کمانڈروں کی فرسٹریشن اور جارحیت بھی بڑھتی گئی۔ فلوجہ میں چار امریکی کنٹریکٹرز کو قتل کیا گیا تو اس کا انتقام لینے کے لیے ہزاروں شہریوں کو بلا جواز موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ فلوجہ گنجان آبادی والا شہر ہے مگر اس پر بمباری اور گولا باری کی گئی۔ امریکی کمانڈروں نے جب بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کیا تو امریکیوں سے نفرت کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرنے لگا۔
عراق پر امریکی افواج کے قبضے نے مجموعی طور پر نوآبادیاتی دور کی یاد تازہ کردی، جب کسی بھی جارح کا مسلح ہوکر سامنا کیا جاتا تھا۔ عراقیوں نے مسلح مزاحمت شروع کی تو امریکی فوج نے بھی مزید طاقت استعمال کرنے کو اپنا وتیرہ بنالیا۔ یوں طاقت کا استعمال بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔
امریکی صدر جارج واکر بُش نے صورت حال کی نزاکت سمجھے بغیر بڑھکیں مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جون ۲۰۰۳ء میں انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں بڑھک مارتے ہوئے کہا: ’’عراق میں اب بھی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں سامنے لایا جائے۔‘‘ عراق میں خدمات انجام دینے والے امریکی فوجیوں کے لیے اس نوعیت کے بیانات زخموں پر نمک چھڑکنے جیسے تھے۔ وہ سوچا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہے تو صدر کو بغداد میں ڈیوٹی سونپی جائے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ محض بڑھک مارنے اور حقیقت کا سامنا کرنے میں کتنا فرق ہے۔ واشنگٹن میں امریکی قیادت جو کچھ کہہ رہی تھی، اس سے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں میں بد دلی اور بدظنی پھیلتی جارہی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عراق میں انہیں ذرا بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ وہ خود بھی عراق میں ڈیوٹی دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ امریکی فوجیوں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ عراقیوں نے امریکیوں کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین سے تمام امریکی چلے جائیں۔
کمانڈر جو کچھ کر رہے تھے وہ واشنگٹن سے ملنے والی ہدایات کے تحت تھا۔ اس کا خمیازہ فوجیوں کو بھگتنا پڑتا۔ امریکی قیادت چاہتی تھی کہ عراقیوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت کا مزا چکھاکر ’’رام‘‘ کیا جائے۔ اس ہدایت پر عمل کرنے سے عراق میں امریکا سے نفرت مزید بڑھ گئی اور عوام نے امریکی فوجیوں پر حملے شروع کردیے۔ گشت پر نکلے ہوئے امریکی فوجیوں کو بہت سے مقامات پر شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لوگ انہیں گالیاں دیتے اور پتھراؤ کرتے تھے۔ ایک عام امریکی فوجی کے لیے یہ سب کچھ بہت پریشان کن تھا۔ سیاسی و عسکری قیادت جو غلطیاں کر رہی تھی ان کا خمیازہ ان فوجیوں کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔
ایک طرف تو امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق کو تاراج کیا اور دوسری طرف اسرائیل کی بھرپور حمایت جاری رکھی، جس کے نتیجے میں فلسطین کی صورت حال دگرگوں رہی۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے لوگوں میں امریکا اور یورپ سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ امریکا کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کرنے والے بھی متحرک ہوگئے۔
عراق کو امریکی کنٹرول میں رکھنے کی قیمت بھی معمولی نہ تھی؟ محتاط اندازوں کے مطابق عراق میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنے کا خرچ ایک ارب ڈالر فی ہفتہ تھا۔ روزانہ امریکی فوج ہلاک، زخمی یا اپاہج ہوتے تھے۔ عراق سے یومیہ بنیاد پر فوجیوں کی میتیں امریکا پہنچتی تھیں مگر سیاسی و عسکری قیادت نے اپنی روش نہ بدلی۔ ان کے نزدیک عراق پر قبضہ برقرار رکھنا اب امریکا کی عزت کا معاملہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خواہ کچھ ہوجائے، آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے، اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مسلم ممالک پر حملوں اور قبضے سے دنیا بھر میں امریکی فوجیوں اور شہریوں کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔ جو کچھ امریکی فوجی کرتے تھے، اس کا خمیازہ فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام امریکیوں کو بھی بھگتنا پڑتا تھا مگر امریکا کی سیاسی و عسکری قیادت کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ فروری ۲۰۰۲ء میں افغانستان میں تعینات یو ایس اسپیشل فورسز کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ایک ’’عظیم‘‘ قوم کو بچانے کے لیے دہشت گردی دنیا بھر میں برآمد کی جائے گی یعنی ایسا بہت کچھ کیا جاتا رہے گا جس کے نتیجے میں امریکا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور امریکیوں پر حملے کرنے والوں کی تعداد بڑھے!
امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں امریکیوں کے لیے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں امریکا سے شدید نفرت کرنے والے موقع ملتے ہی امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں مگر واشنگٹن میں طاقت کے مراکز پر قابض شخصیات کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ سب کچھ ختم نہیں ہوسکتا؟ کیسے ختم ہو اور کوئی کیوں ختم کرے؟ قتل و غارت سے اپنی جیبیں بھرنے والے متحرک ہیں، جو اس وار مشین کو چلتی رکھنا چاہتے ہیں۔
ok correct thankig