
کسی بھی ملک میں جنگ کے حامی سیاست دانوں، جرنیلوں اور کارپوریٹ ایگزیکٹیوز سے پوچھیے کہ وہ جنگ کی حمایت کیوں کرتے ہیں تو جواب ملے گا کہ وہ جمہوریت، آزادی، انصاف اور امن کے لیے جنگ کی بات کرتے ہیں۔ مگر یہ سب محض دعوے ہیں۔ کہنے، سمجھنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جو با اثر شخصیات جنگ کی حمایت کرتی ہیں انہیں دراصل جنگ سے بہت سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ جنگ کی کوکھ سے تباہی جنم لیتی ہے اور تباہی کے لیے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ ہر وقت جنگ کی باتیں کرنے والوں کو جنگ سے تعمیر نو کے معاہدے ملتے ہیں، نئی منڈیاں دستیاب ہوتی ہیں، قدرتی وسائل تک رسائی ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مزید طاقت کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔
امریکا میں یہ تصور عام ہے کہ محکمہ دفاع عوام کی جیب خالی کرانا چاہتا ہے اور یہ کہ اگر اس کا بس چلے تو سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کردے۔ اس وقت ایک لاکھ سے زائد کمپنیاں ہیں جو امریکی محکمہ دفاع سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ چند ایک بڑے کارپوریٹ ادارے ہی ہیں جو جنگی جنون سے بھرپور ’’استفادہ‘‘ کر رہے ہیں۔ یونائٹیڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسٹرون، بوئنگ، لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائنامکس، ریتھیون، نارتھروپ گرونن اور اسی قبیل کے دو تین ادارے اور ہیں جو امریکا کے جنگی جنون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قابل ذکر منافع کما رہے ہیں۔ جب بھی کسی محاذ پر بم گرتے ہیں یا میزائل برسائے جاتے ہیں تو ان کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں اور انہیں فضا میں ہر طرف صرف کیش دکھائی دینے لگتا ہے!
کسی بھی خطے میں جنگ چھڑنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلحہ ساز اداروں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اندرونی کھپت کے لیے بہت کچھ خریدتا ہے اور بیرونی عسکری مہم جوئی کے لیے بھی۔ اور پھر ان اسلحہ ساز اداروں کو بیرونی آرڈر بھی ملتے ہیں۔ خلیج کی پہلی جنگ میں امریکا نے جدید ترین ہتھیار استعمال کیے اور دنیا کو اپنی طاقت دکھائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ ختم ہوتے ہی خطے کے ممالک سے ان اسلحہ ساز اداروں کو انتہائی پُرکشش آرڈر ملے۔ بعض اسلحہ ساز اداروں نے بہت بڑا آرڈر ملنے پر چند ایک چیزیں مفت بھی دیں۔ مثلاً ۱۰۰؍ ایف سولہ طیاروں کے ساتھ ایک ہزار نیپام بم مفت دیے گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکا کے جنگی جنون سے در حقیقت فائدہ کون اٹھاتا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں ڈک چینی ہیں جو بُش سینئر کے دور میں وزیر دفاع اور بُش جونیئر کے دور میں نائب صدر کے منصب پر فائز رہے۔ جنگ کی جس قدر حمایت ڈک چینی نے کی ہے اتنی کسی اور امریکی سیاست دان نے نہیں کی۔ بُش سینئر کے دور میں ڈک چینی نے پاناما اور خلیج کی پہلی جنگ کی نگرانی کی اور بُش جونیر کے دور میں افغانستان اور عراق دونوں پر مسلط کی جانے والی جنگ پر نظر رکھی۔
ڈک چینی کی مہارت کا عالم یہ ہے کہ دو جنگوں کے درمیانی عرصے میں وہ ’’تعمیری‘‘ کام کرتے ہیں یعنی جنگ سے تباہ ہوجانے والے معاشروں میں تعمیر نو کا سلسلہ شروع کراتے ہیں! اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کا جنگی جنون کم ہونے کا نام کیوں نہیں لیتا۔
۱۹۹۳ء میں ڈک چینی کو دنیا کی سب سے بڑی آئل سروسز کمپنی ہیلی برٹن کا چیف ایگزیکٹیو افسر بنایا گیا۔ یہ کمپنی بہت بڑی ملٹری کنٹریکٹر بھی ہے۔ خلیج کی پہلی جنگ کے بعد کویت کی آئل انڈسٹری کی تعمیر نو کا ٹھیکا ہیلی برٹن ہی کو ملا تھا۔ خلیج کی دوسری جنگ کے بعد جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کے آثار ختم کرنے کا ٹھیکا بھی ہیلی برٹن کو ملا۔ یہ بھی اچھا طریقہ ہے کہ پہلے کسی خطے پر جنگ مسلط کرو، پھر صفائی کرو، پھر جنگ مسلط کرو، پھر صفائی کرو۔ یعنی بگاڑ بھی خود پیدا کرو اور اس بگاڑ کو ختم کرنے کا ٹھیکا بھی حاصل کرو۔ جنگی جنون میں مبتلا شخصیات اور ادارے اسی نوعیت کے کھیل کھیلتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا نے افغانستان کو تباہ کرنے کے بعد جب عراق پر جنگ مسلط کی تو وہاں ایک لاکھ ۳۵ ہزار امریکی فوجیوں کی رہائش، کھانا پینا اور دیگر سہولتوں کی فراہمی ہیلی برٹن نے اپنے ذمے لے لی۔ اس ’’نیک کام‘‘ پر اس نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے۔ کیوں؟ اتنی فراخ دلی آخر کس لیے؟ سیدھی سی بات ہے۔ ہیلی برٹن کو عراق میں تعمیر نو اور بالخصوص آئل انڈسٹری کی بحالی کے لیے جو ٹھیکا ملا وہ ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زائد کا تھا۔ جب اتنا بڑا منافع مل رہا ہو تو چند سو کروڑ ڈالر فوجیوں کی بہبود کے نام پر خرچ کرنے میں حرج کیا ہے؟ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ واشنگٹن میں چند بڑے اور غیر معمولی اثرات والے دوستوں کا ہونا کس قدر سودمند ثابت ہوتا ہے۔ ڈک چینی نے واشنگٹن میں اپنے تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی کمپنی کو اس قدر ٹھیکے دلائے ہیں کہ اب وہ بھول گئی ہے کہ خسارہ کیا ہوتا ہے۔
ڈک چینی نے ہیلی برٹن کو غیر معمولی ٹھیکے دلائے ہیں اور اس کا بھرپور صلہ بھی پایا ہے۔ انہیں مختلف مدوں میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ انتہائی پرکشش پیکیج کے تحت کام کرنے والے ڈک چینی کے ذاتی اثاثے کروڑوں ڈالر کے ہیں۔ ڈک چینی نے ویت نام میں فوجی کی حیثیت سے خدمات انجام دینے سے بچنے کے لیے پانچ مرتبہ ڈرافٹ ڈیفرمنٹس حاصل کیں مگر دوسروں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے لیے وہ ہمیشہ فعال رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ لِن بھی اس حوالے سے فعال رہی ہیں۔ انہیں لاک ہیڈ مارٹن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں ڈک چینی وائٹ ہاؤس میں واپس آئے تو انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن کو لڑاکا طیارے بنانے کا سیکڑوں ارب ڈالر کا ٹھیکا دلوایا۔ اس کا فائدہ، ظاہر ہے، لِن کو بھی پہنچا۔
امریکی جنگی جنون سے غیر معمولی فوائد بٹورنے والوں میں رچرڈ پرل بھی شامل ہیں۔ رچرڈ امریکی محکمہ دفاع میں ڈیفنس پالیسی بورڈ میں رہے ہیں۔ عراق پر مسلط کی جانے والی دونوں جنگوں کا مکمل خاکہ رچرڈ پرل ہی نے تیار کیا تھا۔ انہیں ان دونوں جنگوں کا ’’معمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سابق امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ نے جنگی جنون کو ہوا دینے کے لیے ملٹری ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلی لانے کا تصور پیش کیا تو رچرڈ پرل نے اس معاملے کو آگے بڑھایا اور ملٹری ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بھرپور محنت کی۔
رچرڈ پرل نے واشنگٹن میں اپنے انتہائی با اثر دوستوں کے ساتھ ٹرائی ایم پارٹنرز کے نام سے کمپنی قائم کی۔ اس کمپنی کو انہوں نے امریکی محکمہ دفاع سے بڑے ٹھیکے دلوائے۔ یہ سب کچھ تعلقات ہی کی بنیاد پر تھا۔ رچرڈ پرل نے اقتدار کے ایوانوں میں جو وقت گزارا تھا اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کمپنی کو مضبوط کیا۔
رچرڈ پرل اسرائیلی حکومت کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ جو خیالات ان کے ذہن میں پنپتے رہتے ہیں، وہ انہوں نے امریکا اور اسرائیل دونوں ہی کے لیے یکساں طور پر بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ امریکا ہو یا اسرائیل، رچرڈ پرل کا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو عمدگی سے حل کرنا ہے تو جنگ چھیڑو۔ ان کے نزدیک تمام مسائل کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے جنگ۔ وہ جنگ شروع کرنے اور پھر اسے طول دیتے رہنے کے حامی ہیں تاکہ طاقت زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائی جائے، اسلحہ زیادہ سے زیادہ استعمال ہو۔ اسلحہ جتنا زیادہ استعمال کیا جائے گا مزید اسلحے کی کھپت اسی قدر بڑھے گی اور یوں اسلحہ ساز اداروں کے لیے مزید پنپنے کی بھرپور گنجائش پیدا ہوتی رہے گی۔
ڈک چینی، رچرڈ پرل اور دیگر با اثر شخصیات نے ایک وسیع گروپ تشکیل دے کر جنگی جنون کو ہوا دیتے رہنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ اسلحہ ساز اداروں کا چولہا جلتا رہے۔ جنگی جنون کو ہوا دینے سے دنیا میں کتنی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں اس سے ان شخصیات کو کچھ غرض نہیں۔ یہ تو صرف اتنا چاہتی ہیں کہ ان کے گروپ سے وابستہ ملٹری کنٹریکٹر یعنی اسلحہ ساز اور جنگ سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فروغ ملتا رہے اور اس کے صِلے میں ان کی اپنی جیبیں بھی بھری جاتی رہیں۔
رچرڈ پرل نے ہر اس ملک کے خلاف جنگ کی راہ ہموار کی ہے، جو اسرائیل کا دشمن ہو۔ ایران، عراق اور شام دونوں پر جنگ مسلط کرنے میں مرکزی کردار رچرڈ پرل نے ادا کیا۔ اور جب یہ معاملہ ختم ہوا تو رچرڈ پرل اور ان کے ہم خیال لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بھرپور منافع بٹورتے رہنے کا اہتمام کیا۔
ڈک چینی، رچرڈ پرل اور دیگر ہم خیال شخصیات نے سیاسی اثرات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر معمولی منافع کی راہ ہموار کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں دور تک رسائی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ یہ لوگ منظور نظر ملٹری کنٹریکٹر کو عام سی چیز کے حیرت انگیز دام دلاتے ہیں۔ ملٹری کنٹریکٹرز کے ذریعے فراہم کیے جانے پر کوئی عام سی چیز بھی سیکڑوں ڈالر کی پڑتی ہے اور یہ سب کچھ عوام کی جیب سے ادا کیا جاتا ہے۔ بہت سے کنٹریکٹ انتہائی پراسرار اور مشکوک ہوتے ہیں مگر کس میں ہمت ہے کہ جواب طلب کرے۔ اگر کوئی اعتراض کر بیٹھے تو اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو عوام کے مفاد میں بولنے کی پاداش میں اسی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ جنگی جنون سے فوائد بٹورنے والوں کے پاس معترضین کو جواب دینے کے لیے پہلے سے ’’ٹھوس دلائل‘‘ ہوتے ہیں۔ کسی بھی غلط بات کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے بھرپور تیاری پہلے سے کر رکھی ہوتی ہے۔ ایسا کرنے ہی میں ان کی کامیابی ہے۔
امریکا نے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں، جن کے نتیجے میں دنیا بھر میں خدشات کی فصل تیار ہوئی ہے۔ میزائل ڈیفنس پروگرام کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ اس کی طرف داغا جانے والا ہر میزائل روک دیا جائے، ناکارہ بنادیا جائے۔ میزائل ڈیفنس پروگرام کے حوالے سے دنیا بھر میں خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ امریکا خود کو محفوظ بنانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ متنازع ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ اگر امریکا نے میزائل شیلڈ قائم کرلی یعنی اپنے طرف آنے والے ہر میزائل کو روکنے کا نظام وضع کرلیا تو باقی دنیا کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے کیونکہ پھر وہ کسی بھی ملک کو زیادہ بے فکری سے نشانہ بنایا کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ کئی ممالک امریکا کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین نے بھی اتنے میزائل تیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جن کا سامنا کرتے ہوئے میزائل شیلڈ بھی تھک ہار جائے۔ ایک واقعہ دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو جنم دے گا۔ اگر چین زیادہ میزائل بنائے گا تو بھارت بھی زیادہ میزائل بنانا چاہے گا۔ اور جب بھارت زیادہ میزائل بنائے گا تو پاکستان پیچھے رہنا کیوں پسند کرے گا؟ یعنی امریکا کا جنگی جنون پوری دنیا میں جنگی جنون ہی کو ہوا دے گا اور اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ خرابی کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی۔
امریکا نے جب یہ دیکھا کہ اس کی عسکری قوت غیر معمولی ہے تو اس نے تخفیف اسلحہ کی تمام کوششوں سے خود کو الگ کرنا شروع کیا۔ ۱۹۷۲ء میں امریکا نے غیر روایتی یعنی کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کیے، مگر بعد میں یک طرفہ طور پر الگ ہوگیا۔ سبب یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اسلحہ بنانا اور بیچنا چاہتا تھا۔ اور پھر اپنی ضرورت کے تحت جنگیں بھی مسلط کرنی تھیں جس کے لیے اسلحہ درکار تھا۔
امریکا نے جوہری تجربات پر جامع پابندی کے معاہدے (سی ٹی بی ٹی) پر دستخط کرنے سے بھی انکار ہی کیا ہے کیونکہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد وہ مزید جوہری تجربوں کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اس معاہدے پر ۱۶۴ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اب امریکی محکمہ دفاع نے اس بات پر زور دینا شروع کردیا ہے کہ بہت چھوٹے جوہری ہتھیار تیار کیے جائیں، جو محدود رقبے کے لیے ہوں یعنی جنگ میں کسی بھی محاذ پر استعمال کیے جاسکیں اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں معاون ثابت ہوں۔
سرد جنگ کے دور میں امریکا کے سامنے سوویت یونین جیسا دشمن تھا، جس سے بچنے اور باقی دنیا کو بچانے کے نام پر امریکا اور یورپ بہت کچھ کر رہے تھے، مگر اب کیا ہے؟ سوویت یونین تو تحلیل ہوچکا ہے۔ اب امریکا کو کس سے خطرہ لاحق ہے۔ خود کو محفوظ رکھنے کے نام پر وہ پوری دنیا کو انتہائی غیر محفوظ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ امریکا نے اتنا اسلحہ تیار کر رکھا ہے کہ اگر وہ خرچ ہو تو پوری دنیا تباہ ہوجائے۔
امریکا نے باقی دنیا کو تو جراثیمی ہتھیار بنانے سے روک رکھا ہے مگر خود اس حوالے سے تحقیق کرتا رہا ہے۔ اور جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ امریکا ان ہتھیاروں سے موثر دفاع کے لیے طریقے سیکھ رہا ہے۔
امریکا نے جو خطرناک ہتھیار تیار کر رکھے ہیں، کیا وہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں؟ امریکا باقی دنیا کو غیر متوازن اور جنونی قرار دے کر حملے کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکی ہتھیار امریکا ہی کی حدود میں پلنے والے جنونیوں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو کیا ہوگا؟ امریکا میں بھی تو کئی ایسے انتہا پسند گروپ ہیں، جو امریکا کی برتری ہر حال میں برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی امریکا نے اپنے جنگی جنون کو لگام دینے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا دفاعی بجٹ اب بھی اس کے بعد کے پچیس ممالک کے اجتماعی دفاعی بجٹ سے زائد ہے! محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکی دفاعی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کے ۳۶ فیصد کے مساوی ہے! امریکا ہر سال ہزاروں ارب ڈالر اپنی سلامتی یقینی بنانے اور اس مقصد کے لیے دوسروں کی سلامتی سے کھیلنے پر خرچ کر رہا ہے۔
امریکا نے خود کو بچانے کے لیے پوری دنیا کو داؤ پر لگادیا ہے۔ جنگی جنون کے ہاتھوں امریکا کے دشمنوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اسے کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ حد یہ ہے کہ یورپ میں بھی اس کی نیت پر شک کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ برطانیہ نے عسکری مہم جوئی آگے بڑھانے میں امریکا کا بھرپور ساتھ دیا ہے مگر اب برطانیہ میں بھی جنگی جنون کے مخالفین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ امریکا نے جو کچھ کیا ہے، اس کے نتائج کا بھی اسے خوب اندازہ ہے۔ امریکا سے نفرت کرنے والوں کی محض تعداد نہیں بڑھ رہی بلکہ نفرت کے اظہار کے طریقے بھی وضع کیے جارہے ہیں۔ جن ممالک کو امریکا نے تاراج کیا ہے وہاں سے آکر امریکا میں آباد ہونے والوں سے بھی امریکی سلامتی خطرے میں ہے۔ مسلم دنیا کو امریکا نے خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لبنان اور مصر کو تباہ کرنے میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے کہ ان مماک سے تعلق رکھنے والے افراد ہر حال میں امریکا سے صرف محبت کرتے رہیں گے؟ کل کو انہی لوگوں سے چند گروپ اٹھ کر امریکی سرزمین پر بھی قیامت برپا کرسکتے ہیں۔ اور پھر مسلم دنیا تنہا نہیں ہے۔ ویت نام، پاناما، نکارا گوا، کیوبا اور دوسرے بہت سے ممالک میں تو امریکا سے شدید نفرت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ان ممالک کو امریکا نے عشروں تک پامال کیا ہے۔ کل کو ان ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی تو امریکا سے اپنی نفرت کا بھرپور اظہار کسی واقعے کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ امریکا میزائل شیلڈ قائم کرکے بیرونی میزائلوں سے بچ سکتا ہے مگر اندرونی میزائلوں سے بچاؤ کس طور ممکن ہوگا؟ امریکی عوام بہت سے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں مگر جنگی جنون کو ہوا دینے والوں کے پاس کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگیں چھیڑی جاتی رہیں، خانہ جنگیاں ہوتی رہیں، ممالک برباد ہوتے رہیں، اسلحہ ساز ادارے تینوں شفٹوں میں کام کرتے رہیں اور ان کی تجوریاں بھری جاتی رہیں، جو جنگی جنون کی کوکھ سے ذاتی فوائد بٹورتے رہنے کو مکمل طور پر درست اور جائز سمجھتے ہیں۔
Leave a Reply